کیا امریکہ پاکستان میں جمہوری قوتوں کے مقابلے میں ایک آمر کی پشت پناہی کر رہا ہے ؟

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team - US State Department

پاکستان ميں تمام سياسی جماعتوں کی طرف سے متفقہ طور پر يہ تاثر ديا جاتا ہے کہ امريکہ پاکستان ميں 16 کروڑ عوام کی خواہشات کے برعکس ايک آمر کی پشت پناہی کرتا رہا ہے اور ملک ميں تمام تر مسائل کا ذمہ دار صرف امريکہ ہے۔ اگر امريکہ اپنے مذموم ارادوں کی تکميل کے ليےملک کے جمہوری اداروں اور سياسی قوتوں کی بجائے ايک آمر کو سپورٹ نہيں کرتا تو ملک آج ان بے شمار مسائل ميں گھرا ہوا نہيں ہوتا۔ اس حوالے سے سياسی جماعتوں کی جانب سے يہ نقطہ بھی کئ بار دہرايا گيا ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ بھی زيادہ موثر ثابت ہوتی اگر ملک پر کسی ايسی سياسی جماعت کی حکومت ہوتی جس کی جڑيں عوام ميں مضبوط ہوں کيونکہ صرف ايک مقبول قيادت ہی عوام ميں دہشت گردی کے خلاف شعور اجاگر کر سکتی ہے۔

يوں تو سياسی جماعتوں کا يہ موقف پچھلے کئ سالوں سے ميڈيا کے ذريعے عوام تک پہنچتا رہا ہے۔ ليکن پچھلے کچھ عرصے ميں اس نقطے کی تشہير ميں شدت آگئ ہے۔ اس کی وجہ ملک ميں ہونے والے عام انتخابات ہيں۔

حال ميں جيو ٹی وی پر "گريٹ ڈبيٹ – خارجہ پاليسی" کے عنوان سے ايک مباحثہ ديکھنے کا اتفاق ہوا جس ميں ملک کی چھ بڑی جماعتوں کے قائدين نے خارجہ پاليسی کے حوالے سے اپنے خيالات کا اظہار کيا اور ايک نقطہ جس پر سب متفق تھے وہ يہی تھا کہ امريکہ صدر پرويز مشرف کی تائيد کر کے پاکستان کے داخلی معاملات ميں براہراست مداخلت کر رہا ہے اور براہراست يا بلاواسطہ پاکستان کے تمام مسائل کی وجہ يہی ہے کہ تمام اختيارات فرد واحد کے ہاتھ ميں ہيں جو امريکہ کی پشت پناہی کی وجہ سے ملک ميں من پسند قوانين نافذ کر کے پاکستان کی تقدير سے کھيل رہا ہے۔

پاکستان ميں يہ تاثر اتنا مقبول ہو چکا ہے کہ ميڈيا يا اخبارات ميں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کسی دليل يا توجيہ کی ضرورت بھی محسوس نہيں کی جاتی گويا کہ يہ مفروضہ بحث ومب۔احثے کے مراحل سے گزر کر ايک تصديق شدہ حقيقت بن چکا ہے کہ صدر مشرف کا دور اقتدار (اس بات سے قطعہ نظر کہ وہ پاکستان کے ليے فائدہ مند ہے يا نقصان دہ) صرف اور صرف امريکہ کی مرہون منت ہے۔

آپ کے ليے يہ بات دلچسپی کا باعث ہوگی کہ امريکی حکومتی حلقوں ميں اس تاثر پر انتہاہی حيرت کا اظہار کيا جاتا ہے۔ اس کی وجہ يہ ہے کہ نہ ہی پرويز مشرف کو آرمی چيف کے عہدے پر ترقی ميں امريکہ کا کوئ کردار تھا، نہ ہی انھيں ملک کا صدر امريکہ نے بنايا اور نہ ہی ان کے دور اقتدار ميں توسيع امريکہ نے کروائ۔

اس حوالے سے کچھ حقائق پيش خدمت ہيں۔

7 اکتوبر 1998کو اس وقت کے وزيراعظم نوازشريف نے آرمی چيف جرنل جہانگير کرامت کے استعفے کے بعد پرويز مشرف کو دو سينير جرنيلز کی موجودگی ميں ترقی دے کر آرمی چيف کے عہدے پر ترقی دی۔

اپنے ايک حاليہ انٹرويو ميں نواز شريف نے پرويز مشرف کو آرمی چيف کے عہدے پر تقرری کو اپنے سياسی کيرئير کی ايک "بڑی غلطی" تسليم کيا۔

12 اکتوبر 1999 کو جب نواز شريف کو اقتدار سے ہٹايا گيا تو ملک کی تمام بڑی سياسی جماعتوں نے اس کا خيرمقدم کيا۔ اگر آپ انٹرنيٹ پر اس دور کے اخبارات نکال کر ان کی سرخيوں پر نظر ڈاليں تو آپ ديکھيں گے کہ پاکستان پيپلزپارٹی اور تحريک انصاف سميت تمام سياسی جماعتوں نے پرويز مشرف کو ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ ميں لينے کے قدم کو ملک کے مفاد ميں قرار ديا۔

2002 ميں تحريک انصاف کے قائد عمران خان نے پرويز مشرف کی حمايت کو ايک "بڑی غلطی"قرار ديا۔

2004 ميں ايم – ايم –اے کے توسط سےقومی اسمبلی ميں 17ويں ترميم پاس کی گئ جس کے ذريعے پرويز مشرف کے اقتدار کو مضبوط کر کے اس ميں مزيد توثيق کر دی گئ۔

2005 ميں قاضی حسين احمد نے ايم – ايم – اے کے اس قدم کو "بڑی غلطی" قرار ديا۔

2007 ميں پاکستان کی چاروں صوبائ اسمبليوں اور قومی اسمبلی ميں عوام کے منتخب نمايندوں نے پرويز مشرف کو57 فيصد ووٹوں کے ذريعے اگلے پانچ سالوں کے ليے ملک کا صدر منتخب کر ليا۔

اليکشن کے بعد پيپلز پارٹی کی قيادت نے قومی اسمبلی سے مستعفی نہ ہونے کے فيصلے کو بڑی "سياسی غلطی" قرار ديا۔

آپ خود جائزہ لے سکتے ہيں کہ پرويز مشرف کو آرمی چيف مقرر کرنے سے لے کر صدر بنانے تک اور صدر کی حيثيت سے ان کے اختيارات کی توثيق تک پاکستان کی تمام سياسی پارٹيوں اور ان کی قيادت نے اپنا بھرپور کردار ادا کيا ہے۔ اسکے باوجود تمام سياسی جماعتوں کا يہ الزام کہ پرويزمشرف امريکہ کی پشت پناہی کی وجہ سے برسراقتدار ہيں، ايک جذباتی بحث کا موجب تو بن سکتا ہے ليکن يہ حقيقت کے منافی ہے۔

اسی حوالے سے يہ بھی بتاتا چلوں کہ پاکستان پيپلز پارٹی کے شريک چير پرسن آصف علی زرداری نے حال ہی ميں يہ بيان ديا ہے کہ اگر ان کی پارٹی برسراقتدار آئ تو وہ پرويز مشرف کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تيار ہيں۔ کيا مستقبل ميں اس لآئحہ عمل کو پھر سے ايک بڑی غلطی قرار دے کر الزام امريکہ پر لگا ديا جائے گا؟

اس ميں کوئ شک نہيں کہ ايک سپر پاور ہونے کی حيثيت سے امريکہ دنيا ميں ايک حد تک اثر ورسوخ رکھتا ہے۔ ليکن يہ تاثر بالکل غلط ہے کہ امريکہ دنيا کے کسی بھی ملک کی قيادت اپنی مرضی سے تبديل کر سکتا ہے۔ اگر امریکی حکومت کی مشينری اتنی ہی بااختيار ہوتی تو کوئ بھی امريکی صدر کبھی اليکشن نہ ہارے۔ اگر امريکی صدر کو خود اپنے عہدے کو برقرار رکھنے کے ليے عوام اور سياسی جماعتوں کی تائيد کی ضرورت ہوتی ہے تو يہ کيسے ممکن ہے کہ وہ ايک دور دراز ملک کی حکومتی مشينری کو اپنی مرضی سے چلائے۔

امريکہ سياسی، معاشی اور سفارتی سطح پر ايسے بہت سے ممالک سے باہمی دلچسپی کے امور پر تعلقات استوار رکھتا ہے جس کی قيادت سے امريکی حکومت کے نظرياتی اختلافات ہوتے ہيں۔ اس کا يہ مطلب نہيں ہے کہ امريکہ کسی بھی ملک سے سياسی، تجارتی اور فوجی تعلقات ميں پيش رفت سے پہلے اس ملک کی حکومت تبديل کرے۔

ريکارڈ کی درستگی کے ليے يہ بتا دوں کہ 12 اکتوبر 1999 کو جب فوج نے ملک کا نظام اپنے ہاتھوں ميں ليا اور ملک کی ساری سياسی جماعتوں نے اس کی تائيد کی تھی۔ اس وقت امريکی حکومت کا موقف يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے اس بيان سے واضح ہے۔

"ہم پاکستان ميں جمہوريت کی فوری بحالی کے خواہ ہيں ليکن ہم اس پوزيشن ميں نہيں ہيں کہ پاکستان ميں جمہوريت کی بحالی کے ليے کوئ غير آئينی قدم اٹھائيں۔"

11 ستمبر 2001 کے حادثے کے بعد جب افغانستان ميں القائدہ کے خلاف کاروائ کا فيصلہ کيا گيا تو جغرافائ محل ووقوع کی وجہ سے پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں امريکہ کا اتحادی بن گيا، ليکن امريکہ کا پاکستان کے ساتھ يہ اتحاد ايک ملک کی حيثيت سے تھا اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں تھا کہ امريکہ نے پرويز مشرف کی آمرانہ طرز حکومت کو تسلیم کر ليا تھا۔ يہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تمام تر فوجی اور مالی امداد کے باوجود امريکہ پرويز مشرف سے ملک ميں عام انتخابات اور وردی اتارنے کا مطالبہ کرتا رہا۔

ذيل ميں آپکو امريکی حکومتی حلقوں کے بيانات دے رہا ہوں جو آپ پر اس موضوع کے حوالے سے امريکی حکومت کے موقف کو واضح کرے گا۔

"ہم اس بات پر مکمل يقين رکھتے ہيں کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات ديرپا اور قابل اعتبار ہونے چاہيے اور يہ تعلقات محض ايک شخص تک محدود نہيں ہيں بلکہ پاکستان کے اداروں سے ہيں- ہم حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات ميں اس بات کو يقينی بنا رہے ہيں کہ اليکشن کے ذريعے پاکستان کو جمہوريت کے راستے پر گامزن ہونے کا موقع فراہم کيا جائے اور يہی وہ نقطہ ہے جس پر ہم زور دے رہے ہيں۔ ہم پاکستان کے لوگوں، سياسی ليڈروں اور سول سوسائٹی کو بھی يہی پيغام ديتے ہيں کہ ساتھ مل کر ايک جمہوری مستقبل کے ليے کوشش کريں"۔

کونڈوليزا رائس - امريکی سيکريٹيری آف اسٹيٹ

"تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستان کے حوالے سے ہمارا بنيادی موقف تبديل نہيں ہوا۔ ہم پاکستان ميں جمہوريت کی بحالی اور سول حکومت ديکھنا چاہتے ہيں۔ ہم پاکستان ميں شفاف انتخابات کے ذريعے عوامی نمياندوں کو برسراقتدار ديکھنا چاہتے ہيں- اس حوالے سے ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہيں کہ پاکستان ميں شفاف انتخابات منعقد کيے جائيں۔ ايک مضبوط اور پائيدار جمہوری حکومت اس بات کو يقينی بنائے گی کہ معاشرے کے مختلف گروہ اور طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ مل کر ايک پائيدار اور مستحکم پاکستان کی بنياد رکھيں۔ اور ايک مضبوط معاشرہ ہی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے عوامل کو ختم کر سکتا ہے- اس ميں کوئ شک نہيں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں پاکستان امريکہ کا اتحادی ملک ہے ليکن پاکستان ايک خود مختار ملک ہے اور ہمارا حکومت پاکستان کے ساتھ تعاون کا طريقہ کار انھی کی صوابديد پر ہے"۔

رچرڈ باؤچر - اسسٹنٹ سيکريٹيری آف اسٹيٹ

"امریکہ اس بات پر يقين رکھتا ہے کہ کسی بھی ملک ميں انتہاپسندی کے خاتمے کے ليے يہ ضروری ہے کہ وہاں سياسی نظام مستحکم ہو۔ يہی حقيقت پاکستان پر بھی صادق آتی ہے۔ ميں نے اپنی تمام ملاقاتوں اور تمام مذاکرات ميں اسی بات پر زور ديا ہے۔ ايک جمہوری اور مستحکم پاکستان دہشت گردی کے خلاف امريکہ اور پاکستان دونوں کے مفاد ميں ہے۔"

نيگرو پونٹے - ڈپٹی سيکريٹيری آف اسٹيٹ

"ہم يہ سمجھتے ہيں کہ يہ انتہاہی ضروری ہے کہ صدر پرويز مشرف اور انکے حکومتی ارکان اس بات کو يقينی بنائيں کہ ملک ميں ايسا ماحول قائم کيا جائے کہ صاف شفاف انتخابات کا انعقاد يقينی بنايا جا سکے۔ ايک جمہوری معاشرے کے قيام کے ليے امريکہ پاکستانی عوام کے ساتھ ہے۔"

کيسی (ترجمان – يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ)

"ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہيں کہ پاکستان ميں جمہوريت بحال ہو کيونکہ صرف يہی ايک طريقہ ہے جس سے ملک ميں تشدد کی فضا کو ختم کيا جا سکتا ہے۔"

پيرينو (ترجمان – وائٹ ہاؤس)

" ہم نے پرويز مشرف پر زور ديا ہے کہ وہ ملک ميں جمہوری انتخابات کا عمل يقينی بنائيں اور پاکستان کو دی جانے والی امداد کو صاف اور شفاف انتخابات سے مشروط قرار ديا ہے۔"

جوزف ليبرمين – چيرمين ہوم لينڈ سيکيورٹی

آخر ميں اپنے اسی نقطہ نظرکا اعادہ کروں گا کہ کسی بھی ملک کی تقدير کے ذمہ دار اس ملک کے عوام اور ان کے منتخب کردہ عوامی نمايندے ہوتے ہيں جو اسمبليوں ميں جا کر قانون سازی کرتے ہيں اور ملک کی خارجہ پاليسی بناتے ہيں۔ "بيرونی عوامل" اور "غير ملکی سازش" ايسے نعرے ہيں جو سياست دان اپنی ناکاميوں اور غلطيوں پر پردہ ڈالنے کے ليے استعمال کرتے ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

مہوش علی

لائبریرین
فواد،

پاکستان کے حوالے سے آپکے بہت سے دلائل میرے نقطہ نگاہ سے صحیح ہیں۔

چند ایک سوالات میرے پاس ہیں، لیکن وہ اس وقت پیش نہیں کر رہی ہوں کیونکہ ابھی دیگر ممبران کی جانب سے آپ پر بہت سے سوالات و اعتراضات و الزامات آنے والے ہیں۔
 

دوست

محفلین
کیا بتائیں تہانوں جناب۔
کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی۔
اساں کنھوں کہنا۔۔۔۔۔۔
 

الف نظامی

لائبریرین
Fawad – Digital Outreach Team - US State Department

اس ميں کوئ شک نہيں کہ ايک سپر پاور ہونے کی حيثيت سے امريکہ دنيا ميں ايک حد تک اثر ورسوخ رکھتا ہے۔ ليکن يہ تاثر بالکل غلط ہے کہ امريکہ دنيا کے کسی بھی ملک کی قيادت اپنی مرضی سے تبديل کر سکتا ہے۔
بالکل غلط ، اقوام متحدہ کی مخالفت کے باوجود عراق کو تباہ و برباد کیا گیا۔ دنیا کو جنگ کا عادی بنایا گیا۔ یہ دنیا امریکی جنگی جنون کی نصابی کتاب بن چکی ہے۔

Fawad – Digital Outreach Team - US State Department امريکہ سياسی، معاشی اور سفارتی سطح پر ايسے بہت سے ممالک سے باہمی دلچسپی کے امور پر تعلقات استوار رکھتا ہے جس کی قيادت سے امريکی حکومت کے نظرياتی اختلافات ہوتے ہيں۔ اس کا يہ مطلب نہيں ہے کہ امريکہ کسی بھی ملک سے سياسی، تجارتی اور فوجی تعلقات ميں پيش رفت سے پہلے اس ملک کی حکومت تبديل کرے۔
بالکل غلط ، عراق میں کوئی ویپن آف ماس ڈسٹرکشن نہیں ملے اور امریکہ نے اب اس حوالے سے تمام ریکارڈ بھی حذف کردیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ امریکہ اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے عراق پر غلط جنگ مسلط کی اور معصوموں کا خون بہایا۔

Fawad – Digital Outreach Team - US State Department11 ستمبر 2001 کے حادثے کے بعد جب افغانستان ميں القائدہ کے خلاف کاروائ کا فيصلہ کيا گيا تو جغرافائ محل ووقوع کی وجہ سے پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں امريکہ کا اتحادی بن گيا، ليکن امريکہ کا پاکستان کے ساتھ يہ اتحاد ايک ملک کی حيثيت سے تھا اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں تھا کہ امريکہ نے پرويز مشرف کی آمرانہ طرز حکومت کو تسلیم کر ليا تھا۔ يہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تمام تر فوجی اور مالی امداد کے باوجود امريکہ پرويز مشرف سے ملک ميں عام انتخابات اور وردی اتارنے کا مطالبہ کرتا رہا۔

بالکل غلط ، پاکستانی عوام اس عمل کی سخت مخالف رہی اور ایک آمر کے ذریعے امریکہ نے افغانستان کو تباہ کیا۔
 

اظہرالحق

محفلین
جی جی فواد جی بجا کہ ارشاد فرمایا ۔ ۔ ۔ ایک بیان جو آپ لکھنا بھول گئے ۔ ۔ حضرت بُش کا ہے جس میں انہوں نے نواز شریف نام کے کسی لیڈر کو جاننے سے انکار کیا ہے ۔ ۔ ۔ اس سے اس ملک کے "سیاسی" معملات میں انکی "عدم دلچسپی" پتہ چلتی ہے ۔ ۔ ۔

باقی ۔ ۔ ہماری قوم کی اپنی غلطیاں اتنی ہیں کہ ہمیں کسی دوسرے کو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ ۔ ہماری دیواریں اب نیچی نہیں ہیں بلکہ گِر رہی ہیں تو ۔ ۔ بھائی لوگوں نے راستے تو بنانے ہیں ہیں ۔ ۔ ۔ کیونکہ ۔ ۔ ۔ کھُلی دیواروں والا گھر تو سب کا "سانجا" ہوتا ہے نا

ویسے فواد جی ۔ ۔ ایک پرسنل کام ہے آپ سے ۔ ۔ ذرا یہ تو بتائیں کہ جمہوریت کے علمبردار نے مجھے ۔ ۔ ۔ کیوں بہت ساری سائٹیس پر بین کیا ہے ۔ ۔ جبکہ میں تو خود کو امریکہ کا نان ریزیڈنشل امریکن شہری سمجھتا ہوں ۔ ۔;)؟؟؟
 

باسم

محفلین
آخر وہ کون ہے جس کہ کہنے پہ آمر اپنے دشمنوں سے بھی ڈیل کرنے پہنچ جاتا ہے۔
ہم بھولے ضرور ہیں لیکن اتنے بھی نہیں
 
صرف ایک سوال فواد آپ سے کہ امریکہ کی روایت رہی ہے کہ وہ عدلیہ کی آزادی اور قانون کی حکومت کو نہ صرف خود پسند کرتا ہے بلکہ پوری دنیا میں عدلیہ اور قانون کی حکمرانی چاہتا ہے۔

کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے 60 کے قریب ججوں نے اجتماعی استعفی دیا اور تاریخ میں ایک مثال قائم کی مگر امریکہ کی طرف ( حکومت سطح (‌ پر ان کی بحالی کے لیے کوئی بیان آیا اور نہ ان کی بحالی کے لیے زور دیا گیا حالانکہ یہ تو سب سے بڑا اور اہم ایشو ہے۔

امریکہ کی یونیورسٹی اور لائرز فورم نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو سب سے بڑے اعزاز سے بھی نوازا مگر بش انتظامیہ کیوں نہیں دباؤ ڈال رہی پاکستان پر عدلیہ کی بحالی کے حوالے سے حالانکہ امریکی قانون دان اور عوام بھی اس کے پرزور حمایتی ہیں۔ سینیٹ میں بھی اس پر بحث ہو چکی ہے تو پھر بش انتظامیہ پاکستانی اور امریکی عوام کی امنگوں کے برعکس کام کیوں کر رہی ہے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

صرف ایک سوال فواد آپ سے کہ امریکہ کی روایت رہی ہے کہ وہ عدلیہ کی آزادی اور قانون کی حکومت کو نہ صرف خود پسند کرتا ہے بلکہ پوری دنیا میں عدلیہ اور قانون کی حکمرانی چاہتا ہے۔

کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے 60 کے قریب ججوں نے اجتماعی استعفی دیا اور تاریخ میں ایک مثال قائم کی مگر امریکہ کی طرف ( حکومت سطح (‌ پر ان کی بحالی کے لیے کوئی بیان آیا اور نہ ان کی بحالی کے لیے زور دیا گیا حالانکہ یہ تو سب سے بڑا اور اہم ایشو ہے۔

امریکہ کی یونیورسٹی اور لائرز فورم نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو سب سے بڑے اعزاز سے بھی نوازا مگر بش انتظامیہ کیوں نہیں دباؤ ڈال رہی پاکستان پر عدلیہ کی بحالی کے حوالے سے حالانکہ امریکی قانون دان اور عوام بھی اس کے پرزور حمایتی ہیں۔ سینیٹ میں بھی اس پر بحث ہو چکی ہے تو پھر بش انتظامیہ پاکستانی اور امریکی عوام کی امنگوں کے برعکس کام کیوں کر رہی ہے۔



3 نومبر 2007 کو جب صدر پرويز مشرف نے ملک ميں ايمرجنسی لگائ تو ملک ميں عام تاثر يہی تھا کہ اس کا مقصد سپريم کورٹ کے اس فيصلے کو روکنا تھا جو پرويز مشرف کی صدارت کے حوالے سے تھا۔ اس حوالے سے سياسی جماعتوں نے يہ الزام لگايا تھا کہ امريکہ پرويز مشرف کو برسراقتدار ديکھنا چاہتا ہے اس ليے ايمرجنسی کے عمل پر تنقيد کے باوجود امريکہ نے کبھی بھی ججز کی بحالی کا مطالبہ نہيں کيا۔ اس حوالے سے امريکی حکومت کا موقف يہ ہے کہ اگر ان ججز کی بحالی کا مطالبہ کيا جائے جنھيں 12 اکتوبر 1999 کےبعد پرويز مشرف نے خود مقرر کيا تھا تو پھر پرويز مشرف کے ان اقدامات کی تائيد اور توثيق ہو جائے گی جو پرويز مشرف نے 1999 ميں کيے تھے۔ امريکہ نے کبھی بھی پرويز مشرف کے 12 اکتوبر 1999 کے اقدامات کی تا‏ئيد نہيں کی۔ جن ججز کی بحالی کا آپ ذکر کر رہے ہيں وہ 1999 کے اقدامات کے باعث ہی اپنے عہدوں پر فائز ہوئے تھے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

زرقا مفتی

محفلین
فواد صاحب
میں نے سوچا تھا کہ اس سلسلے پر کوئی جواب نہیں دوں گی کیونکہ آپ کا آؤٹ ریچ ڈیپارٹمنٹ صرف اپنی سناتا ہے ہمارے سوالوں کو نظر انداز کرتا ہے
مگر ایک بات ضرور کہنا چاہوں گی کہ ہم امریکہ کی پالیسی کو امریکی وزرا کے بیانات سے اخذ نہیں کرتے بلکہ ان مختلف حکومتوں سے ان کے تعلقات کا جائزہ لے کر امریکی پالیسی پر رائے دیتے ہیں
پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے بھی تاریخ گواہ ہے کہ ایوب خان جو ایک فوجی آمر تھے ان کے دور میں پاک امریکہ تعلقات خوشگوار تھے جبکہ بھٹو دور میں ایسا نہیں تھا
ضیاالحق کے دور میں امریکہ ہم پر کافی مہربان تھا جبکہ بعد میں آنے والی جمہوری حکومتوں کے دور میں کا sanctions سامنا تھا
اسی طرح مشرف دور میں پاک امریکہ تعلقات پھر بہتر ہو گئے
اب دیکھتے ہیں آئندہ آنے والی جمہوریت امریکہ کی آنکھوں کا تارا بنتی ہے یا اس کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے
والسلام
زرقا
 

الف نظامی

لائبریرین
فواد صاحب
میں نے سوچا تھا کہ اس سلسلے پر کوئی جواب نہیں دوں گی کیونکہ آپ کا آؤٹ ریچ ڈیپارٹمنٹ صرف اپنی سناتا ہے ہمارے سوالوں کو نظر انداز کرتا ہے
ان کا مقصد ہی اپنی بگڑتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے پروپگنڈا کرنا ہے۔ لیکن اب شیر اور تیر دونوں مل کر ہمارے پیارے وطن پاکستان سے امریکہ کا مکو ٹھپ دیں گے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

فواد صاحب

پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے بھی تاریخ گواہ ہے کہ ایوب خان جو ایک فوجی آمر تھے ان کے دور میں پاک امریکہ تعلقات خوشگوار تھے جبکہ بھٹو دور میں ایسا نہیں تھا
ضیاالحق کے دور میں امریکہ ہم پر کافی مہربان تھا جبکہ بعد میں آنے والی جمہوری حکومتوں کے دور میں کا sanctions سامنا تھا
اسی طرح مشرف دور میں پاک امریکہ تعلقات پھر بہتر ہو گئے
اب دیکھتے ہیں آئندہ آنے والی جمہوریت امریکہ کی آنکھوں کا تارا بنتی ہے یا اس کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے
والسلام
زرقا


زرقا،

ميں نے يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے جو اعداد وشمار حاصل کيے ہيں اس کے مطابق يہ تاثر غلط ہے کہ امريکہ صرف اسی وقت پاکستان کی مدد کرتا ہے جب يہاں پر کسی آمر کی حکمرانی ہوتی ہے۔

1988 سے 1993 کے عرصے ميں جب پاکستان ميں جمہوريت بحال تھی تو امريکی حکومت کی جانب سے پاکستان کو اضافی 82۔2 بلين ڈالرز کی امداد تعميری کاموں کے ضمن ميں دی گئ۔ 480 ملين ڈالرز کی امداد ذرعی شعبے کی ترقی کے ليے دی گئ۔ اس عرصے ميں يو – ايس – ايڈ نے ان تمام ترقياتی پروگراموں اور منصوبوں کو جاری رکھا جو 1988 سے پہلے شروع کيے گئے تھے۔ اس کے علاوہ يو – ايس – ايڈ نے نجی سرمايہ کاری، ہاؤسنگ کے ليے قرضہ جات اور بے گھر لوگوں کی کفالت کے ليے بہت سے منصوبے شروع کيے۔

1993 سے 2002 کےدرميانی عرصے ميں بہت سی غير سرکاری تنظيموں کے توسط سے ملک ميں بنيادی تعليم اور تکنيکی تعليم کے حوالے سے پی – اين – آئ کے نام سےبہت سے پراجيکٹ شروع کیے گئے جن کا محور پاکستان کے پسماندہ علاقے تھے ۔ پی – اين – آئ پروجيکٹ کی وجہ سے صوبہ سرحد ميں لڑکيوں ميں خواندگی کی شرح ميں ريکارڈ اضافہ ہوا۔ اس دوران پاکستان ميں تقريبآ 80 کے قريب غير سرکاری تنظيموں کو تکنيکی اور مالی امداد فراہم کی گئ۔

ميں اپنے ذاتی تجربے کی روشنی ميں آپ کو بتا رہا ہوں کہ امداد اور ترقياتی کاموں کے ضمن ميں حکومتوں اور بے شمار ذيلی تنظيموں کے درميان کئ سطحوں پر مسلسل ڈائيلاگ اور معاہدوں کا ايک سلسلہ ہوتاہے جو مسلسل جاری رہتا ہے۔ ملک ميں آنے والی سياسی تبديلياں عام طور پر ان رابطوں پر اثر انداز نہيں ہوتيں۔۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

باسم

محفلین
دور کیوں جائیں؟
اقتدار کی منتقلی میں امریکا پھر کردار ادا کررہا ہے
اسلام آباد (طارق بٹ) 18 فروری کے الیکشن کے بعد تاریخ ایک بار پھر خود کو دہرارہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے چند دنوں کے اندر پاکستان میں متعین امریکی سفیر این پیٹرسن سمیت متعدد سینئر امریکی سفارتکاروں سے ملاقات کی ہے۔ ٹھیک دو دہائی قبل 1988ء میں الیکشن کے انعقاد کے فوراً بعد دو اعلیٰ امریکی اہلکار پاکستان پہنچے تھے تاکہ بینظیر بھٹو کو اقتدار کی منتقلی یقینی بناسکیں۔ حالیہ الیکشن کے بعد پاکستان میں متعین امریکی سفارتکار وہی فریضہ سرانجام دے رہے ہیں اور امریکہ سے کسی عہدے دار کو اس مقصد کے لئے پاکستان نہیں بھیجا گیا۔ ایک عام پاکستانی پہلے ہی پاکستانی سیاست میں امریکیوں کی دخل اندازی سے نالاں ہے اور اس پس منظر میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آنے سے قبل ہی امریکا پر بہت زیادہ انحصار کرنے کی بدنامی مول لے چکی ہے۔ 1988ء میں امریکی نائب وزیر خارجہ برائے دفاع اور بین الاقوامی امور رچرڈ آرمیٹیج اور نائب وزیر خارجہ برائے مشرق قریب رچرڈ مرفی پاکستان آئے تھے اور یہ دونوں اس وقت کی ریگن انتظامیہ کے دو طاقتور بازوؤں پینٹاگوں اور محکمہ خارجہ کی نمائندگی کررہے تھے۔ اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان پیپلز پارٹی کی واحد اکثریتی جماعت کی پوزیشن حاصل کرنے کے باوجود بے نظیر بھٹو کو حکومت سازی کی دعوت دینے سے گریزاں تھے۔ ان امریکی اہلکاروں کی آمد کے تین دن بعد بالآخر غلام اسحاق خان نے ایک پیکیج ڈیل کے تحت بے نظیر کو حکومت بنانے کی دعوت دی، جس کے نتیجے میں بے نظیر وزیر اعظم ، غلام اسحاق خان صدر ، صاحبزادہ یعقوب خان وزیر خارجہ اور وی اے جعفری مشیر برائے خزانہ بنے۔ کہتے ہیں کہ وی اے جعفری کی حلف برداری کے موقع پر بے نظیر نے پہلی بار ان کی شکل دیکھی تھی اور اس وقت پاکستان میں امریکی سفیر رابرٹ اوکلے نے اس عہدے کے لئے ان کا انٹرویو لیا تھا۔ سابق وزیر خارجہ گوہر ایوب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ کس طرح امریکیوں نے 1988ء میں یہ امر یقینی بنایا تھا کہ بے نظیر بھٹو وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھالیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ امریکی سفارتخانے میں ایک ڈنر کے دوران رچرڈ آرمیٹیج نے انہیں بتایا تھا کہ ان کے پاس دو خطوط ہیں، ایک صدر غلام اسحاق خان کے لئے اور دوسرا بے نظیر بھٹو کیلئے، جس میں اس یقین کا اظہار کیا گیا تھا کہ وہ پاکستان کی وزیر اعظم بن جائیں گی اور ظاہر ہے کہ غلام اسحاق خان کے لئے خط میں بھی پیغام واضح تھا۔ آج پرویز مشرف کی ایوان صدر میں موجودگی ، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی بھرپور شرکت مجوزہ ”پیکیج ڈیل“ کا حصہ معلوم ہوتی ہے، جس پر امریکی کام کررہے ہیں۔
 
صاحبو، ہم اعداد و شمار کو بھول جاتے ہیں اور پاکستان دشمن عناصر کے پراپیگنڈے کو خوب اچھالتے ہیں۔ موجودہ انتخابات گواہ ہیں کہ پاکستانی ان ظالمان طالبان قسم کی مولویانہ جماعتوں کے حق میں بالکل نہیں‌ہیں جو اپنے آپ کو ایک طلسماتی نظام کا علمبردار کہتے ہیں اور امریکہ پر دل بھر کر کیچڑ اچھالتے ہیں۔ البتہ وہ اسلامی جماعتیں‌جو جمہوریت کے اصولوں‌کے تحت کام کرتی ہیں پھر بھی کچھ مقبول ہیں۔ امریکہ پاکستان میں تعلیم کا پھیلاؤ چاہتا ہے۔ پاکستان کی تباہی نہیں۔ معاشی، سیاسی اور تعلیمی طور پر مظبوط ایک جمہوری پاکستان اس علاقہ کے اور امریکہ کے بہترین مفاد میں ہے۔ جس کے لئے بے تحاشا امر گواہ ہیں کہ امریکہ پاکستان کی مدد کرتا رہتا ہے۔ چاہے وہ لانڈھی کورنگی کے پاکستان بننے کے بعد آبادی میں مدد ہو، یا پاکستان میں پولی ٹیکنیک اداروں کا قیام ہو یا زراعت ، بنکاری اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں میں مدد ہو۔ صرف پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹس، جو امریکی مدد سے قائم ہوئے سے تھے، ان سے ہزاروں پاکستانی تعلیم حاصل کرکے دنیا بھر میں اور پاکستان میں کام کررہے ہیں۔ پھر امریکی تعلیمی اداروں میں قابل پاکستانیوں ہزاروں کی تعداد میں ہر سال داخلہ حاصل کرتے ہیں، بہت سے طالب علم امریکی وظیفہ بھی حاصل کرتے ہیں۔ امریکہ میں بے تحاشہ پاکستانی آزادانہ نوکریاں اور کاروبار کرتے ہیں ۔ کوئی با معنی دلیل نہیں کہ امریکہ پاکستان کا دشمن ہے، نہ سیاسی طور پر اور نہ ہی عوامی طور پر۔ ہمارے سمجھدار طبقے کو چاہئیے کہ سنی سنائی باتوں پر کان دھرنے کے بجائے نمبروں‌اور حقیقتوں پر دھیان دے۔ سمجھداروں کا طریقہ ہے کہ کوئی بزنس چاہے وہ حکومتی ہی کیوں نہ ہو، اعداد و شمار پر چلاتے ہیں نہ کہ ------ ایسا لگتا ہے یا ایسا نظر آتا ہے ، یا ایسا معلوم ہوتا ہے، یا میرا یہ خیال ہے ---- پر چًلاتے ہیں۔

ایسا بہت قرین القیاس ہے کہ امریکی اپنے کاروباری اور علاقائی مفادات کے لئے پاکستانی اعلی حکام سے آپسی باہمی ڈسکشنز کرتے ہوں ، کہ حکومتوں کے قیام کا مقصد ہی یہی ہے۔ ایسے کسی بھی کاروباری مفاد پر مبنی ڈسکشن کو ہم امکانات سے خارج قرار نہیں دے سکتے ہیں۔ لیکن ایسی کارباری بات چیت کو وہ لوگ جو صرف مذہبی جذباتی طریقہ سے سوچتے ہیں ایک جرم قرار دیتے ہیں - کہ پاکستانیوں نے امریکیوں سے بات کی تو کیوں کی - ایسا کرنا ان مذہبی انتہا پسندوں‌کی نگاہ میں‌ جرم ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ہر پاکستانی امریکہ سے کسی بھی قسم کے تعلقات کو مجرمانہ سمجھے۔ اس کی وجہ وہ کبھی فلسطین او اسرائیلی مسئلہ لاتے ہیں اور کبھی پاکستان اور ہندوستان کا کشمیر کا مسئلہ۔ صاحب مسائیل اپنی جگہ ۔ اور زندگی اپنی جگہ۔ اس دنیا میں جینے کے لئے ہم کو سب کے ساتھ مل کر جینا سیکھنا ضروری ہے۔

بہت سے مذہبی انتہا پسند پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو قدیم مسلم و عیسائی صلیبی جنگوں کے پس منظر میں دیکھتے ہیں اور جدید تجارتی، سماجی، سیاسی، خاندانی، تعلیم، تکنیکی تعلقات کو یکسر بھول جاتے ہیں۔ بھائی امریکہ اور پاکستان کے تعلقات - اسلامی اور عیسائی - جنگ نہیں ہیں ۔ نہ امریکہ یہ جنگ لڑ رہا ہے اور نہ ہی پاکستان۔ آج کم از کم دو ملین پاکستانی امریکہ میں آباد ہیں ۔ امریکہ دوست ہیں اور عام پاکستانی کو امریکہ نے کوئی دکھ نہیں دیا۔

ہم بڑے کرو فر سے مسلمانوں کو ایک جان قرار دیتے ہیں ۔ لیکن کیا دوسرے ممالک بھی ایسا سوچتے ہیں۔ امریکہ عراق معاملہ جو بھی سہی اپنی جگہ۔ عراقیوں نے نا کبھی پاکستان کو اہمیت دی ، نہ نوکریاں دی، نہ تعلقات رکھے اور نہ کبھی بات سنی۔ آج تک کسی نے پہلی خلیجی جنگ سے پہلے ہونے والی نواز شریف کی عراق کے ہاتھوں بے عزتی کے بارے میں نہیں لکھا اور نہ ہی اچھالا۔ عراق آزادانہ طور پر اپنے آپ کو ہندوستان کا دوست کہتا رہا ۔ کیا ان کی اپنی حکومت کا اس معاملے کو اس حد تک لانے میں کوئی کردار تھا؟ آج مسلمان ممالک خود مسلمان ممالک کے ہاتھوں‌ جس ہراس و ہزیمت کا شکار ہیں - اس پر کون نگاہ ڈالتا ہے۔ ایران عراق سے لڑتا رہا، اب عربوں کو آنکھیں دکھاتا ہے اور پاکستان میں جمہوری حکومت کا خاتمہ چاہتاہے، ظالمان طالبان کو ہر ممکن مدد ایران سے فراہم ہوتی ہے کہ پاکستان میں ایران جیسا شرعی نظام نہیں ہے اور اگر جمہوریت پھلتی پھولتی رہی تو ایران میں بھی جمہوریت پھیل جائے گی اور ملاؤں کی حکومت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ایسے مسلم دوستوں سے تو دشمن بھلے۔ عرب ممالک میں آج تک ہم سے نہ کوئی تجارت کرتا ہے اور نہ ہی ہمارا مال خریدتا ہے، ان کی منڈیاں سب کے مال سے بھری پڑی ہیں لیکن پاکستانی مال نہیں خریدیں گے۔ اور ایک ہم ہیں کہ ان سب کے غم میں دبلے ہوئے جارہے ہیں۔ بھائی دوستی و دشمنی، باہمی تجارت صرف مذہبی بنیادوں پر ہو یہ کوئی کارآمد فلسفہ نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو آج یہ غیر مسلم ممالک ہم سے نا تجارت کرتے اور نا ہی ہم کو اپنے ملکوں‌میں تعلیم حاصل کرنے دیتے اور نا ہی رہنے دیتے۔ مذہبی بنیادوں پر اس نفرت کو ختم کر بھائی۔ وہ بھی انسان ہیں اور ہم بھی۔

جب ہمارا ہی پاکستانی بھائی کنٹاکی فرائیڈ چکن کی دکان پاکستان میں کھولتا ہے اور اس کو مذہبی جنونی جلا کر امریکہ کو نقصان پہنچانا کہتے ہیں تو غور سے دیکھئے کہ ہم اپنا نقصان کررہے ہوتے ہیں یا امریکہ کا؟

انتخابات میں مشرف کی شکست ، اور جمہوریت پر مبنی جماعتوں کی فتح کے لئے کیا امریکہ ہر پاکستانی کو اپنے خرچہ پر ووٹ ڈالنے لے کر آیا تھا؟ یقیناً پاکستانی عوام کو اپنی قسمت خود لکھنی ہے۔ اپنی قانون سازی خود کرنی ہے اور اپنے اصول خود وضع کرنے ہیں۔ تاکہ ہم اقوام عالم میں انسان دوستی، آزادانہ تجارت اور اصول پرستی کی بنیادوں پر اس زمین میں امن اور اپنے لئے اعلی مقام حاصل کرسکیں۔ نہ کہ انسان دشمنی، عیاری کی تجارت اور بد اصولی کی بنیادوں پر اپنا اور دوسروں کا خون کریں۔
 

زرقا مفتی

محفلین
زرقا،

ميں نے يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے جو اعداد وشمار حاصل کيے ہيں اس کے مطابق يہ تاثر غلط ہے کہ امريکہ صرف اسی وقت پاکستان کی مدد کرتا ہے جب يہاں پر کسی آمر کی حکمرانی ہوتی ہے۔

1988 سے 1993 کے عرصے ميں جب پاکستان ميں جمہوريت بحال تھی تو امريکی حکومت کی جانب سے پاکستان کو اضافی 82۔2 بلين ڈالرز کی امداد تعميری کاموں کے ضمن ميں دی گئ۔ 480 ملين ڈالرز کی امداد ذرعی شعبے کی ترقی کے ليے دی گئ۔ اس عرصے ميں يو – ايس – ايڈ نے ان تمام ترقياتی پروگراموں اور منصوبوں کو جاری رکھا جو 1988 سے پہلے شروع کيے گئے تھے۔ اس کے علاوہ يو – ايس – ايڈ نے نجی سرمايہ کاری، ہاؤسنگ کے ليے قرضہ جات اور بے گھر لوگوں کی کفالت کے ليے بہت سے منصوبے شروع کيے۔

1993 سے 2002 کےدرميانی عرصے ميں بہت سی غير سرکاری تنظيموں کے توسط سے ملک ميں بنيادی تعليم اور تکنيکی تعليم کے حوالے سے پی – اين – آئ کے نام سےبہت سے پراجيکٹ شروع کیے گئے جن کا محور پاکستان کے پسماندہ علاقے تھے ۔ پی – اين – آئ پروجيکٹ کی وجہ سے صوبہ سرحد ميں لڑکيوں ميں خواندگی کی شرح ميں ريکارڈ اضافہ ہوا۔ اس دوران پاکستان ميں تقريبآ 80 کے قريب غير سرکاری تنظيموں کو تکنيکی اور مالی امداد فراہم کی گئ۔

ميں اپنے ذاتی تجربے کی روشنی ميں آپ کو بتا رہا ہوں کہ امداد اور ترقياتی کاموں کے ضمن ميں حکومتوں اور بے شمار ذيلی تنظيموں کے درميان کئ سطحوں پر مسلسل ڈائيلاگ اور معاہدوں کا ايک سلسلہ ہوتاہے جو مسلسل جاری رہتا ہے۔ ملک ميں آنے والی سياسی تبديلياں عام طور پر ان رابطوں پر اثر انداز نہيں ہوتيں۔۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov

فواد صاحب
جواب کے لئے آپ کی ممنوں ہوں
آپ نے اپنے جواب سے میرے موقف کی تائید کر دی ہے
والسلام
زرقا
 

محسن حجازی

محفلین
اب بھی کہا گیا کہ مشرف پر 10 ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری ہے اس ضائع نہیں ہونے دیں گے اور نئی حکومت کو امریکہ کے ساتھ چلنا ہوگا۔ یہ رپورٹ ہے حامد میر کی۔کل کے جنگ میں۔ سینیٹرز بھی دھڑا دھڑ جا جا کر مل رہے ہیں زرداری سے وہ کیا ہے؟
یہ بھی فرمائیے گا کہ امریکہ کو ججوں کے بحال ہونے سے کیا مسئلہ ہے؟ کیا انصاف صرف امریکیوں کے لیے رہ گیا ہے؟
پاکستانی ووٹروں نے امریکی غلاموں کو اس الیکشن میں اٹھا کر باہر پھینک دیا ہے اگر اب بھی امریکہ ہم پر اپنی مرضی کا ٹولہ مسلط کرنے کے لیے جوڑ توڑ میں لگا رہے تو کیا یہ پاکستانی ووٹر کے منہ پر طمانچہ نہیں؟
میں نے اسی لیے ووٹ نہیں دیا کیوں کہ میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ میری رائے کے اوپر سے 'سفید حویلی' والے اپنی مرضی جوڑ توڑ سے مسلط کردیں۔
امید ہے کہ تلخ نوائی کا برا نہیں مانیں گے۔
 

محسن حجازی

محفلین
امریکہ کو تسلی رکھنا چاہئے کہ اگر اس نے سائنس و تحقیق کا دامن نہ چھوڑا تو اسے عالمی طاقت کے منصب سے کوئی نہیں ہٹا سکتا۔۔۔۔ موجودہ عروج ایڈیسن اور بنجمن فرینکلن کی دین ہے ڈک چینی اور جارج بش کی نہیں۔۔۔۔ انہیں یہ بات سمجھائیے کہ یہ دس ارب ڈالر کسی سائنسی منصوبے پر کھپا دیجیے بجائے اس کے کہ آپ ہمارے علاقوں میں بم برسانے کی باتیں کرتے رہیں۔۔۔۔ مجھے ایک زوال سے خوفزدہ امریکہ سے ہمدردی ہے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

ویسے فواد جی ۔ ۔ ایک پرسنل کام ہے آپ سے ۔ ۔ ذرا یہ تو بتائیں کہ جمہوریت کے علمبردار نے مجھے ۔ ۔ ۔ کیوں بہت ساری سائٹیس پر بین کیا ہے ۔ ۔ جبکہ میں تو خود کو امریکہ کا نان ریزیڈنشل امریکن شہری سمجھتا ہوں ۔ ۔;)؟؟؟

محترم،

امريکہ ميں ميڈيا بشمول انٹرنيٹ مکمل طور پر آزاد ہے۔ امريکی حکومت کا اس ميں کوئ عمل دخل نہیں ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت يہ ہے کہ آپ ميڈيا اور مختلف انٹرنيٹ سائٹس پر امريکی حکومت اور خاص طور پر خود امريکی صدر پر ہونے والی تنقيد کا جائزہ ليں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ ميڈيا پر سب سے زيادہ حملے تو خود امريکی حکومت کے خلاف ہوتے ہيں۔ يہی نہيں بلکہ امريکی صدر اور امريکی حکومت کے خلاف ہالی وڈ ميں بے شمار فلميں بھی بن چکی ہيں جنہيں نہ صرف دنيا بھر ميں ريليز کیا جاتا ہے بلکہ ان کی تشہير بھی کی جاتی ہے۔ امريکی حکومت نے اس حوالے سے کسی بھی نشرياتی ادارے پر پابندی نہيں لگائ۔ امريکی ميڈيا کے مختلف فورمز پر حکومتی پاليسيوں پر بغير کسی روک ٹوک کے اظہار خيال کيا جاتا ہے۔ ميں آپ کو يقين دلاتا ہوں کہ اگر آپ کو کسی ويب سائٹ پر بين کيا گيا ہے تو امريکی حکومت کا اس ميں کوئ عمل دخل نہيں ہے۔

آزادی رائے کے حوالے سے قانونی تحفظ امريکی آئين ميں موجود ہے۔


"Congress shall make no law respecting an establishment of religion, or prohibiting the free exercise thereof; or abridging the freedom of speech, or of the press; or the right of the people peaceably to assemble, and to petition the Government for a redress
of grievances."

“First Amendment freedoms are most in danger when the government seeks to control thought or to justify its laws for that impermissible end. The right to think is the beginning of freedom, and speech must be protected from the government because speech is the beginning of thought.”—Supreme Court Justice Anthony M. Kennedy, Ashcroft V. Free Speech Coalition


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 
زرقا،

ميں نے يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے جو اعداد وشمار حاصل کيے ہيں اس کے مطابق يہ تاثر غلط ہے کہ امريکہ صرف اسی وقت پاکستان کی مدد کرتا ہے جب يہاں پر کسی آمر کی حکمرانی ہوتی ہے۔

1988 سے 1993 کے عرصے ميں جب پاکستان ميں جمہوريت بحال تھی تو امريکی حکومت کی جانب سے پاکستان کو اضافی 82۔2 بلين ڈالرز کی امداد تعميری کاموں کے ضمن ميں دی گئ۔ 480 ملين ڈالرز کی امداد ذرعی شعبے کی ترقی کے ليے دی گئ۔ اس عرصے ميں يو – ايس – ايڈ نے ان تمام ترقياتی پروگراموں اور منصوبوں کو جاری رکھا جو 1988 سے پہلے شروع کيے گئے تھے۔ اس کے علاوہ يو – ايس – ايڈ نے نجی سرمايہ کاری، ہاؤسنگ کے ليے قرضہ جات اور بے گھر لوگوں کی کفالت کے ليے بہت سے منصوبے شروع کيے۔

1993 سے 2002 کےدرميانی عرصے ميں بہت سی غير سرکاری تنظيموں کے توسط سے ملک ميں بنيادی تعليم اور تکنيکی تعليم کے حوالے سے پی – اين – آئ کے نام سےبہت سے پراجيکٹ شروع کیے گئے جن کا محور پاکستان کے پسماندہ علاقے تھے ۔ پی – اين – آئ پروجيکٹ کی وجہ سے صوبہ سرحد ميں لڑکيوں ميں خواندگی کی شرح ميں ريکارڈ اضافہ ہوا۔ اس دوران پاکستان ميں تقريبآ 80 کے قريب غير سرکاری تنظيموں کو تکنيکی اور مالی امداد فراہم کی گئ۔

ميں اپنے ذاتی تجربے کی روشنی ميں آپ کو بتا رہا ہوں کہ امداد اور ترقياتی کاموں کے ضمن ميں حکومتوں اور بے شمار ذيلی تنظيموں کے درميان کئ سطحوں پر مسلسل ڈائيلاگ اور معاہدوں کا ايک سلسلہ ہوتاہے جو مسلسل جاری رہتا ہے۔ ملک ميں آنے والی سياسی تبديلياں عام طور پر ان رابطوں پر اثر انداز نہيں ہوتيں۔۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov

فواد یہ بھی بتائے گا کہ پریسلر ترمیم کس عرصہ سے کس عرصہ تک لگی رہی اور بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد کس ملک پر کس نوعیت کی اقتصادی اور فوجی پابندیاں عاید کی گئی اور ایف سولہ جہازوں کی فراہمی رقم ادا ہونے کے باوجود کیوں روک دی گئی اور دوبارہ مشرف کے دور میں سرحد میں فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد بحال کرنے کی کیا وجہ تھی۔
 
Top