Fawad – Digital Outreach Team - US State Department
پاکستان ميں تمام سياسی جماعتوں کی طرف سے متفقہ طور پر يہ تاثر ديا جاتا ہے کہ امريکہ پاکستان ميں 16 کروڑ عوام کی خواہشات کے برعکس ايک آمر کی پشت پناہی کرتا رہا ہے اور ملک ميں تمام تر مسائل کا ذمہ دار صرف امريکہ ہے۔ اگر امريکہ اپنے مذموم ارادوں کی تکميل کے ليےملک کے جمہوری اداروں اور سياسی قوتوں کی بجائے ايک آمر کو سپورٹ نہيں کرتا تو ملک آج ان بے شمار مسائل ميں گھرا ہوا نہيں ہوتا۔ اس حوالے سے سياسی جماعتوں کی جانب سے يہ نقطہ بھی کئ بار دہرايا گيا ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ بھی زيادہ موثر ثابت ہوتی اگر ملک پر کسی ايسی سياسی جماعت کی حکومت ہوتی جس کی جڑيں عوام ميں مضبوط ہوں کيونکہ صرف ايک مقبول قيادت ہی عوام ميں دہشت گردی کے خلاف شعور اجاگر کر سکتی ہے۔
يوں تو سياسی جماعتوں کا يہ موقف پچھلے کئ سالوں سے ميڈيا کے ذريعے عوام تک پہنچتا رہا ہے۔ ليکن پچھلے کچھ عرصے ميں اس نقطے کی تشہير ميں شدت آگئ ہے۔ اس کی وجہ ملک ميں ہونے والے عام انتخابات ہيں۔
حال ميں جيو ٹی وی پر "گريٹ ڈبيٹ – خارجہ پاليسی" کے عنوان سے ايک مباحثہ ديکھنے کا اتفاق ہوا جس ميں ملک کی چھ بڑی جماعتوں کے قائدين نے خارجہ پاليسی کے حوالے سے اپنے خيالات کا اظہار کيا اور ايک نقطہ جس پر سب متفق تھے وہ يہی تھا کہ امريکہ صدر پرويز مشرف کی تائيد کر کے پاکستان کے داخلی معاملات ميں براہراست مداخلت کر رہا ہے اور براہراست يا بلاواسطہ پاکستان کے تمام مسائل کی وجہ يہی ہے کہ تمام اختيارات فرد واحد کے ہاتھ ميں ہيں جو امريکہ کی پشت پناہی کی وجہ سے ملک ميں من پسند قوانين نافذ کر کے پاکستان کی تقدير سے کھيل رہا ہے۔
پاکستان ميں يہ تاثر اتنا مقبول ہو چکا ہے کہ ميڈيا يا اخبارات ميں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کسی دليل يا توجيہ کی ضرورت بھی محسوس نہيں کی جاتی گويا کہ يہ مفروضہ بحث ومب۔احثے کے مراحل سے گزر کر ايک تصديق شدہ حقيقت بن چکا ہے کہ صدر مشرف کا دور اقتدار (اس بات سے قطعہ نظر کہ وہ پاکستان کے ليے فائدہ مند ہے يا نقصان دہ) صرف اور صرف امريکہ کی مرہون منت ہے۔
آپ کے ليے يہ بات دلچسپی کا باعث ہوگی کہ امريکی حکومتی حلقوں ميں اس تاثر پر انتہاہی حيرت کا اظہار کيا جاتا ہے۔ اس کی وجہ يہ ہے کہ نہ ہی پرويز مشرف کو آرمی چيف کے عہدے پر ترقی ميں امريکہ کا کوئ کردار تھا، نہ ہی انھيں ملک کا صدر امريکہ نے بنايا اور نہ ہی ان کے دور اقتدار ميں توسيع امريکہ نے کروائ۔
اس حوالے سے کچھ حقائق پيش خدمت ہيں۔
7 اکتوبر 1998کو اس وقت کے وزيراعظم نوازشريف نے آرمی چيف جرنل جہانگير کرامت کے استعفے کے بعد پرويز مشرف کو دو سينير جرنيلز کی موجودگی ميں ترقی دے کر آرمی چيف کے عہدے پر ترقی دی۔
اپنے ايک حاليہ انٹرويو ميں نواز شريف نے پرويز مشرف کو آرمی چيف کے عہدے پر تقرری کو اپنے سياسی کيرئير کی ايک "بڑی غلطی" تسليم کيا۔
12 اکتوبر 1999 کو جب نواز شريف کو اقتدار سے ہٹايا گيا تو ملک کی تمام بڑی سياسی جماعتوں نے اس کا خيرمقدم کيا۔ اگر آپ انٹرنيٹ پر اس دور کے اخبارات نکال کر ان کی سرخيوں پر نظر ڈاليں تو آپ ديکھيں گے کہ پاکستان پيپلزپارٹی اور تحريک انصاف سميت تمام سياسی جماعتوں نے پرويز مشرف کو ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ ميں لينے کے قدم کو ملک کے مفاد ميں قرار ديا۔
2002 ميں تحريک انصاف کے قائد عمران خان نے پرويز مشرف کی حمايت کو ايک "بڑی غلطی"قرار ديا۔
2004 ميں ايم – ايم –اے کے توسط سےقومی اسمبلی ميں 17ويں ترميم پاس کی گئ جس کے ذريعے پرويز مشرف کے اقتدار کو مضبوط کر کے اس ميں مزيد توثيق کر دی گئ۔
2005 ميں قاضی حسين احمد نے ايم – ايم – اے کے اس قدم کو "بڑی غلطی" قرار ديا۔
2007 ميں پاکستان کی چاروں صوبائ اسمبليوں اور قومی اسمبلی ميں عوام کے منتخب نمايندوں نے پرويز مشرف کو57 فيصد ووٹوں کے ذريعے اگلے پانچ سالوں کے ليے ملک کا صدر منتخب کر ليا۔
اليکشن کے بعد پيپلز پارٹی کی قيادت نے قومی اسمبلی سے مستعفی نہ ہونے کے فيصلے کو بڑی "سياسی غلطی" قرار ديا۔
آپ خود جائزہ لے سکتے ہيں کہ پرويز مشرف کو آرمی چيف مقرر کرنے سے لے کر صدر بنانے تک اور صدر کی حيثيت سے ان کے اختيارات کی توثيق تک پاکستان کی تمام سياسی پارٹيوں اور ان کی قيادت نے اپنا بھرپور کردار ادا کيا ہے۔ اسکے باوجود تمام سياسی جماعتوں کا يہ الزام کہ پرويزمشرف امريکہ کی پشت پناہی کی وجہ سے برسراقتدار ہيں، ايک جذباتی بحث کا موجب تو بن سکتا ہے ليکن يہ حقيقت کے منافی ہے۔
اسی حوالے سے يہ بھی بتاتا چلوں کہ پاکستان پيپلز پارٹی کے شريک چير پرسن آصف علی زرداری نے حال ہی ميں يہ بيان ديا ہے کہ اگر ان کی پارٹی برسراقتدار آئ تو وہ پرويز مشرف کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تيار ہيں۔ کيا مستقبل ميں اس لآئحہ عمل کو پھر سے ايک بڑی غلطی قرار دے کر الزام امريکہ پر لگا ديا جائے گا؟
اس ميں کوئ شک نہيں کہ ايک سپر پاور ہونے کی حيثيت سے امريکہ دنيا ميں ايک حد تک اثر ورسوخ رکھتا ہے۔ ليکن يہ تاثر بالکل غلط ہے کہ امريکہ دنيا کے کسی بھی ملک کی قيادت اپنی مرضی سے تبديل کر سکتا ہے۔ اگر امریکی حکومت کی مشينری اتنی ہی بااختيار ہوتی تو کوئ بھی امريکی صدر کبھی اليکشن نہ ہارے۔ اگر امريکی صدر کو خود اپنے عہدے کو برقرار رکھنے کے ليے عوام اور سياسی جماعتوں کی تائيد کی ضرورت ہوتی ہے تو يہ کيسے ممکن ہے کہ وہ ايک دور دراز ملک کی حکومتی مشينری کو اپنی مرضی سے چلائے۔
امريکہ سياسی، معاشی اور سفارتی سطح پر ايسے بہت سے ممالک سے باہمی دلچسپی کے امور پر تعلقات استوار رکھتا ہے جس کی قيادت سے امريکی حکومت کے نظرياتی اختلافات ہوتے ہيں۔ اس کا يہ مطلب نہيں ہے کہ امريکہ کسی بھی ملک سے سياسی، تجارتی اور فوجی تعلقات ميں پيش رفت سے پہلے اس ملک کی حکومت تبديل کرے۔
ريکارڈ کی درستگی کے ليے يہ بتا دوں کہ 12 اکتوبر 1999 کو جب فوج نے ملک کا نظام اپنے ہاتھوں ميں ليا اور ملک کی ساری سياسی جماعتوں نے اس کی تائيد کی تھی۔ اس وقت امريکی حکومت کا موقف يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے اس بيان سے واضح ہے۔
"ہم پاکستان ميں جمہوريت کی فوری بحالی کے خواہ ہيں ليکن ہم اس پوزيشن ميں نہيں ہيں کہ پاکستان ميں جمہوريت کی بحالی کے ليے کوئ غير آئينی قدم اٹھائيں۔"
11 ستمبر 2001 کے حادثے کے بعد جب افغانستان ميں القائدہ کے خلاف کاروائ کا فيصلہ کيا گيا تو جغرافائ محل ووقوع کی وجہ سے پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں امريکہ کا اتحادی بن گيا، ليکن امريکہ کا پاکستان کے ساتھ يہ اتحاد ايک ملک کی حيثيت سے تھا اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں تھا کہ امريکہ نے پرويز مشرف کی آمرانہ طرز حکومت کو تسلیم کر ليا تھا۔ يہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تمام تر فوجی اور مالی امداد کے باوجود امريکہ پرويز مشرف سے ملک ميں عام انتخابات اور وردی اتارنے کا مطالبہ کرتا رہا۔
ذيل ميں آپکو امريکی حکومتی حلقوں کے بيانات دے رہا ہوں جو آپ پر اس موضوع کے حوالے سے امريکی حکومت کے موقف کو واضح کرے گا۔
"ہم اس بات پر مکمل يقين رکھتے ہيں کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات ديرپا اور قابل اعتبار ہونے چاہيے اور يہ تعلقات محض ايک شخص تک محدود نہيں ہيں بلکہ پاکستان کے اداروں سے ہيں- ہم حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات ميں اس بات کو يقينی بنا رہے ہيں کہ اليکشن کے ذريعے پاکستان کو جمہوريت کے راستے پر گامزن ہونے کا موقع فراہم کيا جائے اور يہی وہ نقطہ ہے جس پر ہم زور دے رہے ہيں۔ ہم پاکستان کے لوگوں، سياسی ليڈروں اور سول سوسائٹی کو بھی يہی پيغام ديتے ہيں کہ ساتھ مل کر ايک جمہوری مستقبل کے ليے کوشش کريں"۔
کونڈوليزا رائس - امريکی سيکريٹيری آف اسٹيٹ
"تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستان کے حوالے سے ہمارا بنيادی موقف تبديل نہيں ہوا۔ ہم پاکستان ميں جمہوريت کی بحالی اور سول حکومت ديکھنا چاہتے ہيں۔ ہم پاکستان ميں شفاف انتخابات کے ذريعے عوامی نمياندوں کو برسراقتدار ديکھنا چاہتے ہيں- اس حوالے سے ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہيں کہ پاکستان ميں شفاف انتخابات منعقد کيے جائيں۔ ايک مضبوط اور پائيدار جمہوری حکومت اس بات کو يقينی بنائے گی کہ معاشرے کے مختلف گروہ اور طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ مل کر ايک پائيدار اور مستحکم پاکستان کی بنياد رکھيں۔ اور ايک مضبوط معاشرہ ہی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے عوامل کو ختم کر سکتا ہے- اس ميں کوئ شک نہيں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں پاکستان امريکہ کا اتحادی ملک ہے ليکن پاکستان ايک خود مختار ملک ہے اور ہمارا حکومت پاکستان کے ساتھ تعاون کا طريقہ کار انھی کی صوابديد پر ہے"۔
رچرڈ باؤچر - اسسٹنٹ سيکريٹيری آف اسٹيٹ
"امریکہ اس بات پر يقين رکھتا ہے کہ کسی بھی ملک ميں انتہاپسندی کے خاتمے کے ليے يہ ضروری ہے کہ وہاں سياسی نظام مستحکم ہو۔ يہی حقيقت پاکستان پر بھی صادق آتی ہے۔ ميں نے اپنی تمام ملاقاتوں اور تمام مذاکرات ميں اسی بات پر زور ديا ہے۔ ايک جمہوری اور مستحکم پاکستان دہشت گردی کے خلاف امريکہ اور پاکستان دونوں کے مفاد ميں ہے۔"
نيگرو پونٹے - ڈپٹی سيکريٹيری آف اسٹيٹ
"ہم يہ سمجھتے ہيں کہ يہ انتہاہی ضروری ہے کہ صدر پرويز مشرف اور انکے حکومتی ارکان اس بات کو يقينی بنائيں کہ ملک ميں ايسا ماحول قائم کيا جائے کہ صاف شفاف انتخابات کا انعقاد يقينی بنايا جا سکے۔ ايک جمہوری معاشرے کے قيام کے ليے امريکہ پاکستانی عوام کے ساتھ ہے۔"
کيسی (ترجمان – يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ)
"ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہيں کہ پاکستان ميں جمہوريت بحال ہو کيونکہ صرف يہی ايک طريقہ ہے جس سے ملک ميں تشدد کی فضا کو ختم کيا جا سکتا ہے۔"
پيرينو (ترجمان – وائٹ ہاؤس)
" ہم نے پرويز مشرف پر زور ديا ہے کہ وہ ملک ميں جمہوری انتخابات کا عمل يقينی بنائيں اور پاکستان کو دی جانے والی امداد کو صاف اور شفاف انتخابات سے مشروط قرار ديا ہے۔"
جوزف ليبرمين – چيرمين ہوم لينڈ سيکيورٹی
آخر ميں اپنے اسی نقطہ نظرکا اعادہ کروں گا کہ کسی بھی ملک کی تقدير کے ذمہ دار اس ملک کے عوام اور ان کے منتخب کردہ عوامی نمايندے ہوتے ہيں جو اسمبليوں ميں جا کر قانون سازی کرتے ہيں اور ملک کی خارجہ پاليسی بناتے ہيں۔ "بيرونی عوامل" اور "غير ملکی سازش" ايسے نعرے ہيں جو سياست دان اپنی ناکاميوں اور غلطيوں پر پردہ ڈالنے کے ليے استعمال کرتے ہيں۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
پاکستان ميں تمام سياسی جماعتوں کی طرف سے متفقہ طور پر يہ تاثر ديا جاتا ہے کہ امريکہ پاکستان ميں 16 کروڑ عوام کی خواہشات کے برعکس ايک آمر کی پشت پناہی کرتا رہا ہے اور ملک ميں تمام تر مسائل کا ذمہ دار صرف امريکہ ہے۔ اگر امريکہ اپنے مذموم ارادوں کی تکميل کے ليےملک کے جمہوری اداروں اور سياسی قوتوں کی بجائے ايک آمر کو سپورٹ نہيں کرتا تو ملک آج ان بے شمار مسائل ميں گھرا ہوا نہيں ہوتا۔ اس حوالے سے سياسی جماعتوں کی جانب سے يہ نقطہ بھی کئ بار دہرايا گيا ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ بھی زيادہ موثر ثابت ہوتی اگر ملک پر کسی ايسی سياسی جماعت کی حکومت ہوتی جس کی جڑيں عوام ميں مضبوط ہوں کيونکہ صرف ايک مقبول قيادت ہی عوام ميں دہشت گردی کے خلاف شعور اجاگر کر سکتی ہے۔
يوں تو سياسی جماعتوں کا يہ موقف پچھلے کئ سالوں سے ميڈيا کے ذريعے عوام تک پہنچتا رہا ہے۔ ليکن پچھلے کچھ عرصے ميں اس نقطے کی تشہير ميں شدت آگئ ہے۔ اس کی وجہ ملک ميں ہونے والے عام انتخابات ہيں۔
حال ميں جيو ٹی وی پر "گريٹ ڈبيٹ – خارجہ پاليسی" کے عنوان سے ايک مباحثہ ديکھنے کا اتفاق ہوا جس ميں ملک کی چھ بڑی جماعتوں کے قائدين نے خارجہ پاليسی کے حوالے سے اپنے خيالات کا اظہار کيا اور ايک نقطہ جس پر سب متفق تھے وہ يہی تھا کہ امريکہ صدر پرويز مشرف کی تائيد کر کے پاکستان کے داخلی معاملات ميں براہراست مداخلت کر رہا ہے اور براہراست يا بلاواسطہ پاکستان کے تمام مسائل کی وجہ يہی ہے کہ تمام اختيارات فرد واحد کے ہاتھ ميں ہيں جو امريکہ کی پشت پناہی کی وجہ سے ملک ميں من پسند قوانين نافذ کر کے پاکستان کی تقدير سے کھيل رہا ہے۔
پاکستان ميں يہ تاثر اتنا مقبول ہو چکا ہے کہ ميڈيا يا اخبارات ميں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کسی دليل يا توجيہ کی ضرورت بھی محسوس نہيں کی جاتی گويا کہ يہ مفروضہ بحث ومب۔احثے کے مراحل سے گزر کر ايک تصديق شدہ حقيقت بن چکا ہے کہ صدر مشرف کا دور اقتدار (اس بات سے قطعہ نظر کہ وہ پاکستان کے ليے فائدہ مند ہے يا نقصان دہ) صرف اور صرف امريکہ کی مرہون منت ہے۔
آپ کے ليے يہ بات دلچسپی کا باعث ہوگی کہ امريکی حکومتی حلقوں ميں اس تاثر پر انتہاہی حيرت کا اظہار کيا جاتا ہے۔ اس کی وجہ يہ ہے کہ نہ ہی پرويز مشرف کو آرمی چيف کے عہدے پر ترقی ميں امريکہ کا کوئ کردار تھا، نہ ہی انھيں ملک کا صدر امريکہ نے بنايا اور نہ ہی ان کے دور اقتدار ميں توسيع امريکہ نے کروائ۔
اس حوالے سے کچھ حقائق پيش خدمت ہيں۔
7 اکتوبر 1998کو اس وقت کے وزيراعظم نوازشريف نے آرمی چيف جرنل جہانگير کرامت کے استعفے کے بعد پرويز مشرف کو دو سينير جرنيلز کی موجودگی ميں ترقی دے کر آرمی چيف کے عہدے پر ترقی دی۔
اپنے ايک حاليہ انٹرويو ميں نواز شريف نے پرويز مشرف کو آرمی چيف کے عہدے پر تقرری کو اپنے سياسی کيرئير کی ايک "بڑی غلطی" تسليم کيا۔
12 اکتوبر 1999 کو جب نواز شريف کو اقتدار سے ہٹايا گيا تو ملک کی تمام بڑی سياسی جماعتوں نے اس کا خيرمقدم کيا۔ اگر آپ انٹرنيٹ پر اس دور کے اخبارات نکال کر ان کی سرخيوں پر نظر ڈاليں تو آپ ديکھيں گے کہ پاکستان پيپلزپارٹی اور تحريک انصاف سميت تمام سياسی جماعتوں نے پرويز مشرف کو ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ ميں لينے کے قدم کو ملک کے مفاد ميں قرار ديا۔
2002 ميں تحريک انصاف کے قائد عمران خان نے پرويز مشرف کی حمايت کو ايک "بڑی غلطی"قرار ديا۔
2004 ميں ايم – ايم –اے کے توسط سےقومی اسمبلی ميں 17ويں ترميم پاس کی گئ جس کے ذريعے پرويز مشرف کے اقتدار کو مضبوط کر کے اس ميں مزيد توثيق کر دی گئ۔
2005 ميں قاضی حسين احمد نے ايم – ايم – اے کے اس قدم کو "بڑی غلطی" قرار ديا۔
2007 ميں پاکستان کی چاروں صوبائ اسمبليوں اور قومی اسمبلی ميں عوام کے منتخب نمايندوں نے پرويز مشرف کو57 فيصد ووٹوں کے ذريعے اگلے پانچ سالوں کے ليے ملک کا صدر منتخب کر ليا۔
اليکشن کے بعد پيپلز پارٹی کی قيادت نے قومی اسمبلی سے مستعفی نہ ہونے کے فيصلے کو بڑی "سياسی غلطی" قرار ديا۔
آپ خود جائزہ لے سکتے ہيں کہ پرويز مشرف کو آرمی چيف مقرر کرنے سے لے کر صدر بنانے تک اور صدر کی حيثيت سے ان کے اختيارات کی توثيق تک پاکستان کی تمام سياسی پارٹيوں اور ان کی قيادت نے اپنا بھرپور کردار ادا کيا ہے۔ اسکے باوجود تمام سياسی جماعتوں کا يہ الزام کہ پرويزمشرف امريکہ کی پشت پناہی کی وجہ سے برسراقتدار ہيں، ايک جذباتی بحث کا موجب تو بن سکتا ہے ليکن يہ حقيقت کے منافی ہے۔
اسی حوالے سے يہ بھی بتاتا چلوں کہ پاکستان پيپلز پارٹی کے شريک چير پرسن آصف علی زرداری نے حال ہی ميں يہ بيان ديا ہے کہ اگر ان کی پارٹی برسراقتدار آئ تو وہ پرويز مشرف کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تيار ہيں۔ کيا مستقبل ميں اس لآئحہ عمل کو پھر سے ايک بڑی غلطی قرار دے کر الزام امريکہ پر لگا ديا جائے گا؟
اس ميں کوئ شک نہيں کہ ايک سپر پاور ہونے کی حيثيت سے امريکہ دنيا ميں ايک حد تک اثر ورسوخ رکھتا ہے۔ ليکن يہ تاثر بالکل غلط ہے کہ امريکہ دنيا کے کسی بھی ملک کی قيادت اپنی مرضی سے تبديل کر سکتا ہے۔ اگر امریکی حکومت کی مشينری اتنی ہی بااختيار ہوتی تو کوئ بھی امريکی صدر کبھی اليکشن نہ ہارے۔ اگر امريکی صدر کو خود اپنے عہدے کو برقرار رکھنے کے ليے عوام اور سياسی جماعتوں کی تائيد کی ضرورت ہوتی ہے تو يہ کيسے ممکن ہے کہ وہ ايک دور دراز ملک کی حکومتی مشينری کو اپنی مرضی سے چلائے۔
امريکہ سياسی، معاشی اور سفارتی سطح پر ايسے بہت سے ممالک سے باہمی دلچسپی کے امور پر تعلقات استوار رکھتا ہے جس کی قيادت سے امريکی حکومت کے نظرياتی اختلافات ہوتے ہيں۔ اس کا يہ مطلب نہيں ہے کہ امريکہ کسی بھی ملک سے سياسی، تجارتی اور فوجی تعلقات ميں پيش رفت سے پہلے اس ملک کی حکومت تبديل کرے۔
ريکارڈ کی درستگی کے ليے يہ بتا دوں کہ 12 اکتوبر 1999 کو جب فوج نے ملک کا نظام اپنے ہاتھوں ميں ليا اور ملک کی ساری سياسی جماعتوں نے اس کی تائيد کی تھی۔ اس وقت امريکی حکومت کا موقف يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے اس بيان سے واضح ہے۔
"ہم پاکستان ميں جمہوريت کی فوری بحالی کے خواہ ہيں ليکن ہم اس پوزيشن ميں نہيں ہيں کہ پاکستان ميں جمہوريت کی بحالی کے ليے کوئ غير آئينی قدم اٹھائيں۔"
11 ستمبر 2001 کے حادثے کے بعد جب افغانستان ميں القائدہ کے خلاف کاروائ کا فيصلہ کيا گيا تو جغرافائ محل ووقوع کی وجہ سے پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں امريکہ کا اتحادی بن گيا، ليکن امريکہ کا پاکستان کے ساتھ يہ اتحاد ايک ملک کی حيثيت سے تھا اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں تھا کہ امريکہ نے پرويز مشرف کی آمرانہ طرز حکومت کو تسلیم کر ليا تھا۔ يہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تمام تر فوجی اور مالی امداد کے باوجود امريکہ پرويز مشرف سے ملک ميں عام انتخابات اور وردی اتارنے کا مطالبہ کرتا رہا۔
ذيل ميں آپکو امريکی حکومتی حلقوں کے بيانات دے رہا ہوں جو آپ پر اس موضوع کے حوالے سے امريکی حکومت کے موقف کو واضح کرے گا۔
"ہم اس بات پر مکمل يقين رکھتے ہيں کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات ديرپا اور قابل اعتبار ہونے چاہيے اور يہ تعلقات محض ايک شخص تک محدود نہيں ہيں بلکہ پاکستان کے اداروں سے ہيں- ہم حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات ميں اس بات کو يقينی بنا رہے ہيں کہ اليکشن کے ذريعے پاکستان کو جمہوريت کے راستے پر گامزن ہونے کا موقع فراہم کيا جائے اور يہی وہ نقطہ ہے جس پر ہم زور دے رہے ہيں۔ ہم پاکستان کے لوگوں، سياسی ليڈروں اور سول سوسائٹی کو بھی يہی پيغام ديتے ہيں کہ ساتھ مل کر ايک جمہوری مستقبل کے ليے کوشش کريں"۔
کونڈوليزا رائس - امريکی سيکريٹيری آف اسٹيٹ
"تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستان کے حوالے سے ہمارا بنيادی موقف تبديل نہيں ہوا۔ ہم پاکستان ميں جمہوريت کی بحالی اور سول حکومت ديکھنا چاہتے ہيں۔ ہم پاکستان ميں شفاف انتخابات کے ذريعے عوامی نمياندوں کو برسراقتدار ديکھنا چاہتے ہيں- اس حوالے سے ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہيں کہ پاکستان ميں شفاف انتخابات منعقد کيے جائيں۔ ايک مضبوط اور پائيدار جمہوری حکومت اس بات کو يقينی بنائے گی کہ معاشرے کے مختلف گروہ اور طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ مل کر ايک پائيدار اور مستحکم پاکستان کی بنياد رکھيں۔ اور ايک مضبوط معاشرہ ہی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے عوامل کو ختم کر سکتا ہے- اس ميں کوئ شک نہيں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں پاکستان امريکہ کا اتحادی ملک ہے ليکن پاکستان ايک خود مختار ملک ہے اور ہمارا حکومت پاکستان کے ساتھ تعاون کا طريقہ کار انھی کی صوابديد پر ہے"۔
رچرڈ باؤچر - اسسٹنٹ سيکريٹيری آف اسٹيٹ
"امریکہ اس بات پر يقين رکھتا ہے کہ کسی بھی ملک ميں انتہاپسندی کے خاتمے کے ليے يہ ضروری ہے کہ وہاں سياسی نظام مستحکم ہو۔ يہی حقيقت پاکستان پر بھی صادق آتی ہے۔ ميں نے اپنی تمام ملاقاتوں اور تمام مذاکرات ميں اسی بات پر زور ديا ہے۔ ايک جمہوری اور مستحکم پاکستان دہشت گردی کے خلاف امريکہ اور پاکستان دونوں کے مفاد ميں ہے۔"
نيگرو پونٹے - ڈپٹی سيکريٹيری آف اسٹيٹ
"ہم يہ سمجھتے ہيں کہ يہ انتہاہی ضروری ہے کہ صدر پرويز مشرف اور انکے حکومتی ارکان اس بات کو يقينی بنائيں کہ ملک ميں ايسا ماحول قائم کيا جائے کہ صاف شفاف انتخابات کا انعقاد يقينی بنايا جا سکے۔ ايک جمہوری معاشرے کے قيام کے ليے امريکہ پاکستانی عوام کے ساتھ ہے۔"
کيسی (ترجمان – يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ)
"ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہيں کہ پاکستان ميں جمہوريت بحال ہو کيونکہ صرف يہی ايک طريقہ ہے جس سے ملک ميں تشدد کی فضا کو ختم کيا جا سکتا ہے۔"
پيرينو (ترجمان – وائٹ ہاؤس)
" ہم نے پرويز مشرف پر زور ديا ہے کہ وہ ملک ميں جمہوری انتخابات کا عمل يقينی بنائيں اور پاکستان کو دی جانے والی امداد کو صاف اور شفاف انتخابات سے مشروط قرار ديا ہے۔"
جوزف ليبرمين – چيرمين ہوم لينڈ سيکيورٹی
آخر ميں اپنے اسی نقطہ نظرکا اعادہ کروں گا کہ کسی بھی ملک کی تقدير کے ذمہ دار اس ملک کے عوام اور ان کے منتخب کردہ عوامی نمايندے ہوتے ہيں جو اسمبليوں ميں جا کر قانون سازی کرتے ہيں اور ملک کی خارجہ پاليسی بناتے ہيں۔ "بيرونی عوامل" اور "غير ملکی سازش" ايسے نعرے ہيں جو سياست دان اپنی ناکاميوں اور غلطيوں پر پردہ ڈالنے کے ليے استعمال کرتے ہيں۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov