کیا امریکہ پاکستان میں جمہوری قوتوں کے مقابلے میں ایک آمر کی پشت پناہی کر رہا ہے ؟

محسن حجازی

محفلین
فواد صاحب!
آپ کی بات کسی حد تک درست ہے لیکن آج پھر بیان چھپا ہے کہ مشرف کی حمایت جاری رکھیں گے۔ اگر آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں تو پھر شاید ہماری اور آپ کی لغت میں آمر کے معنی کچھ الگ ہیں۔
امریکہ کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ اس جنگ جدال کے بجائے تحقیق و تفتیش کے میدان میں سارے وسائل کھپا دے انشااللہ تمام انسانیت کا بھلا ہوگا کئی نئی ایجادات سامنے آئیں گی امریکا کا وقار بلند اور بالادستی برقرار رہے گی۔
کاش امریکی نرم رویہ اختیار کریں اور یہ سمجھیں کہ یہ دنیا اب انہی پر ہے اور ان کے ہر عمل کا اثر تمام دنیا پر پڑتا ہے۔ ابھی چند ہفتے قبل دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹیں کریش کرنے کا واقعہ تو آپ کو یاد ہی ہوگا۔ لیکن اگر یہی روش جاری رہی تو اس جنگ میں تو قارون کا خزانہ بھی خالی ہو جائے گا۔ عراق جنگ پر کتنا خرچہ ہوا آپ سب جانتے ہیں۔۔۔ افغانستان میں الگ ہے۔
کیا کوئی بات امریکی حکومت تک پہنچائی بھی جا سکتی ہے؟
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

فواد صاحب!
آپ کی بات کسی حد تک درست ہے لیکن آج پھر بیان چھپا ہے کہ مشرف کی حمایت جاری رکھیں گے۔ اگر آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں تو پھر شاید ہماری اور آپ کی لغت میں آمر کے معنی کچھ الگ ہیں۔

آپ شايد بھول رہے ہيں کہ پرويز مشرف اس وقت فوجی آمر نہيں بلکہ پارليمينٹ سے 57 فيصد ووٹ لے کر اگلے 5 سالوں کے ليے صدر منتخب ہوئے ہيں۔ اب يہ منتخب ارکان اسمبلی کا کام ہے کہ انکی صدارت کے مستقبل کا فيصلہ کريں۔ مگر جب تک ايسا نہيں ہوتا حکومتی اور فوجی معاملات کے ليے امريکہ پرويز مشرف سے پاکستان کے منتخب صدر کی حيثيت سے تعاون جاری رکھے گا۔

يہ وہ سرکاری امريکی موقف ہے جس کو مختلف زاويوں سے ميڈيا پر استعمال کيا جا رہا ہے اور يہ تاثر ديا جا رہا ہے کہ امريکہ پرويز مشرف کو "بچانے" کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر ايسا ہوتا تو امريکہ کبھی بھی پاکستان کو دی جانے والی امداد کو اليکشن کے انعقاد سے مشروط نہيں کرتا۔

سوال يہ ہے کہ کيا پاکستان کے سياسی رہنما اس حوالے سے اپنا کردار ادا کريں گے يا پس پردہ سياسی مفادات کے ليے باہمی معاہدے کر کے ہميشہ کی طرح الزام امريکہ پر لگا ديں گے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

محسن حجازی

محفلین
آپ شايد بھول رہے ہيں کہ پرويز مشرف اس وقت فوجی آمر نہيں بلکہ پارليمينٹ سے 57 فيصد ووٹ لے کر اگلے 5 سالوں کے ليے صدر منتخب ہوئے ہيں۔ اب يہ منتخب ارکان اسمبلی کا کام ہے کہ انکی صدارت کے مستقبل کا فيصلہ کريں۔ مگر جب تک ايسا نہيں ہوتا حکومتی اور فوجی معاملات کے ليے امريکہ پرويز مشرف سے پاکستان کے منتخب صدر کی حيثيت سے تعاون جاری رکھے گا۔

يہ وہ سرکاری امريکی موقف ہے جس کو مختلف زاويوں سے ميڈيا پر استعمال کيا جا رہا ہے اور يہ تاثر ديا جا رہا ہے کہ امريکہ پرويز مشرف کو "بچانے" کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر ايسا ہوتا تو امريکہ کبھی بھی پاکستان کو دی جانے والی امداد کو اليکشن کے انعقاد سے مشروط نہيں کرتا۔

سوال يہ ہے کہ کيا پاکستان کے سياسی رہنما اس حوالے سے اپنا کردار ادا کريں گے يا پس پردہ سياسی مفادات کے ليے باہمی معاہدے کر کے ہميشہ کی طرح الزام امريکہ پر لگا ديں گے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
یہ بات تو چلیں ٹھیک ہے کہ وہ صدر ہیں۔۔۔ کیسے ہیں آپ کو بھی پتہ ہے ہمیں بھی پتہ ہے۔
لیکن صدر منتخب ہونے سے پہلے کی بابت آپ کیا کہتے ہیں؟
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

یہ بات تو چلیں ٹھیک ہے کہ وہ صدر ہیں۔۔۔ کیسے ہیں آپ کو بھی پتہ ہے ہمیں بھی پتہ ہے۔
لیکن صدر منتخب ہونے سے پہلے کی بابت آپ کیا کہتے ہیں؟


امريکہ سياسی، معاشی اور سفارتی سطح پر ايسے بہت سے ممالک سے باہمی دلچسپی کے امور پر تعلقات استوار رکھتا ہے جس کی قيادت سے امريکی حکومت کے نظرياتی اختلافات ہوتے ہيں۔ اس کا يہ مطلب نہيں ہے کہ امريکہ کسی بھی ملک سے سياسی، تجارتی اور فوجی معاملات ميں پيش رفت سے پہلے اس ملک کی حکومت تبديل کرے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

ساجداقبال

محفلین
فواد بھائی اپنے وسعت بھائی نے امریکی سرکار کو ایک مشورہ دیا ہے، مہربانی ہوگی اگر پہنچا دیں:
جب ایک سو سترہ قبلِ مسیح میں رومی سلطنت کا پرچم پورے یورپ، شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطی پر لہرا رہا تھا تو ان علاقوں کو کنٹرول کرنے کے لیے صرف سینتیس فوجی چھاؤنیاں کافی سمجھی گئیں۔

جب اٹھارہ سو اٹھانوے میں سات سمندر اور آدھی دنیا برطانیہ کے قبضے میں تھی تو وہ سلطنت جس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا اسکا انتظام صرف چھتیس بحری اور بری اڈوں کی مدد سے چلایا جا رہا تھا۔

آج امریکہ واحد عالمی سپر پاور ہے۔ پوری دنیا کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے اس نے انٹار کٹیکا سے قطبِ شمالی تک سات سو سینتیس فوجی اڈے قائم کیے ہوئے ہیں۔ جبکہ محکمہ دفاع اور سی آئی اے کے سینکڑوں خفیہ مراکز ان اڈوں کے علاوہ ہیں۔ لیکن دنیا کل کے مقابلے میں آج زیادہ خلفشار میں ہے۔

عراق اور افغانستان جیسے ممالک میں تو امریکی فوج باقاعدہ برسرِ پیکار ہے۔ لیکن لگ بھگ تریسٹھ ممالک میں امریکی موجودگی فوجی مشیروں کی شکل میں ہے۔اس فہرست میں تازہ ترین اضافہ پاکستان ہے جہاں اطلاعات کے مطابق سو سے زائد امریکی فوجی مشیر دو برس کے عرصے میں نیم فوجی فرنٹیر کور کو دہشت گردی سے نمٹنے کی ایک جدید اور موثر قوت کی شکل دیں گے۔

دوسری عالمگیر جنگ کے بعد جب امریکہ نے سنجیدگی سے عالمی قیادت سنبھالنے کی ٹھانی تو فوجی مشیر بازی اس کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم ستون ٹھہرا تاکہ کیمونزم کی عالمی پیش قدمی روکنے کے لیے دوست حکومتوں کی حربی صلاحیتوں کو موثر کیا جا سکے۔


اگرگذشتہ ساٹھ برس کا ریکارڈ دیکھا جائے تو ان فوجی مشیروں کی تربیت ویتنام سے ایل سلواڈور اور ایران سے جنوبی افریقہ تک لاکھوں انسانوں کی بربادی کے علاوہ کسی کام نہ آئی


اس حکمتِ عملی کے تحت پہلا امریکی فوجی مشیر بارہ فروری انیس سو پچھپن میں ویتنام میں اترا تاکہ شکست خوردہ نو آبادیاتی فرانسیسی فوج کو ہوچی منہہ کی کسان ملیشیا کے سامنے برقرار رکھا جا سکے۔ لیکن ان مشیروں کو فرانس کی شکست روکنے میں کامیابی نہ ہوئی۔

اس کے باوجود مشیروں کی تعداد بڑھتی چلی گئی اور انیس سو چونسٹھ تک جنوبی ویتنام کی کٹھ پتلی حکومت کو سہارا دینے کے لیے اکیس ہزار فوجی مشیر بھیجے گئے اور مشاورت کی فیوض و برکات میں ہمسائیہ ممالک لاؤس اور کمبوڈیا کو بھی شامل کرلیا گیا۔ لیکن یہ سب مشیر وہ عربی اونٹ ثابت ہوئے جنہوں نے علاقے سے امن کا خیمہ اکھاڑ ڈالا۔

اسی عرصے میں ایران میں بھی مشیر اتارے گئے جنہوں نے فضائیہ اور بریہ کو علاقائی پولیس مین بنانے کے ساتھ ساتھ انٹیلی جینس ادارے ساواک کو بھی مخالفین کے ناخن کھینچنے اور ٹھنڈے پانی میں ڈبو کر اعتراف کروانے کی تربیت دی۔

اسی دوران امریکی مشیر انگولا کے حکومت مخالف باغیوں اور زائر، زیمبیا اور جنوبی افریقہ کی آمریتوں کو بھی مخالفین کے شکار کی جدید تکنیک سکھاتے رہے۔

لیکن امریکی سی آئی اے اور پینٹاگون کے مشیروں کی سب سے اہم تربیتی لیبارٹری وسطی امریکہ تھا۔ایل سلواڈور میں پچپن مشیروں نے مقامی فوج کو ایسی شاندار تربیت دی کہ اس نے نو برس کے دوران اپنے ہی پچھتر ہزار شہری مار ڈالے۔ نکاراگوا کی بائیں بازو کی حکومت کے مخالفین کو سکھایا گیا کہ سڑکیں، سکول، کارخانے اور سرکاری تنصیبات کیسے اڑائی جاتی ہیں۔ کولمبیا، بولیویا اور پیرو کی حکومتوں کو منشیات کے سمگلروں کی سرکوبی کے لیے جو تربیت دی گئی وہ ان حکومتوں نے اپنے ہی لوگوں پر استعمال کی۔

جب سوویت یونین کا ٹنٹا ختم ہوا تو امریکی مشیروں کی ضرورت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی۔ کیونکہ بائیں بازو کے دشمنوں کی جگہ دائیں بازو کی القاعدہ نے لے لی تھی۔ چنانچہ بچارے امریکیوں کو ایک مرتبہ پھر نو آزاد سویت ریاستوں سے لے کر فلپینز اور ترکی سے ایتھوپیا تک ہزاروں تربیتی مشیروں، اڈوں اور خود کار ڈرونز کا جال بچھانا پڑ گیا۔

اگرگذشتہ ساٹھ برس کا ریکارڈ دیکھا جائے تو ان فوجی مشیروں کی تربیت ویتنام سے ایل سلواڈور اور ایران سے جنوبی افریقہ تک لاکھوں انسانوں کی بربادی کے علاوہ کسی کام نہ آئی۔

کیا اگلے ساٹھ برس میں یہ ممکن ہے کہ امریکہ فوجی مشیر بھیجنے کے بجائے اپنی دوست حکومتوں کو انصاف اور جمہوریت کی تربیت دینے والے مشیر فراہم کرسکے۔ ہوسکتا ہے کہ اسکے بعد امریکہ کو سات سو سینتیس عالمگیر فوجی اڈوں کی ضرورت نہ رہے۔
 

باسم

محفلین
پوچھا جا سکتا ہے کہ حال ہی میں سرحد کے اس پار سے وزیرستان پر حملہ کیوں ہوا جس میں 2 خواتین اور 2 بچے شہید ہوگئے ۔
 
Top