کیا انسان واقعی اشرف المخلوقات ہے؟

رباب واسطی

محفلین
95:4 لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ
بلاشبہ بنایا ہم نے انسان کو بہتر ساخت (کنفیگئریشن یا فارمیشن) پر۔

4:28 يُرِيدُ اللّهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُمْ وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا
اللہ چاہتا ہے کہ تم سے بوجھ ہلکا کر دے، اور اِنسان کمزور پیدا کیا گیا ہے


اشرف المخلوقات ، ہماری اپنی اختراع ہے۔


اشرف المخلوقات یعنی تمام مخلوقات میں سے بہترین

بے شک جو اِیمان لائے اور اَچھے کام کئے‘ وہی تمام مخلوق میں بہتر ہیں
(سورۃ البیّنۃ)
 

عرفان سعید

محفلین
اس معمولی سی ڈیوائس کو دیکھئے، یقینی طور پر یہ ڈیوائس کسی طور بھی حضرت انسان کی عقل یا جسمنی ساخت کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ یہ خود سے ڈھونڈھ کر گھر کا کوڑا صاف کرسکتی ہے، ہر طرف جاسکتی ہے، یہ ایک پروگرام کی ہوئی ڈیوائس ہے، کہ بجلی ختم ہونے کو آئے تو دیوار میں جا لگتی ہے۔ میں کسی طور بھی اس سے یہ ثابت نہیں کررہا کہ یہ حضرت انسان سے بہتر کوئی تخلیق شدہ شے ہے۔ لیکن اس کو کھانا کھانے کی ضرورت نہیں۔ اس کو سانس لینے کی ضرورت نہیں۔ اس کی ضرورت صرف بجلی ہے۔ جو اس کو انرجی فراہم کرتی ہے، یہ اس کی صرف ایک سپیریریارٹی ہے جو اس کو انرجی ے معاملے میں اشرف بناتی ہے۔ کیا ایسا ہے؟

باقی آئندہ :)

صرف ایک بات یہاں سے سمجھئے کہ اس ڈیوائس کو آپ کی طرح کھانے پینے اور سانس لینے کی ضرورت نہیں۔ صرف بجلی کی ضرورت ہے، جو اس کو ممتاز بناتی ہے کہ یہ مریخ پر چل پھر سکے گی لیکن آپ ہم نہیں۔ صرف اتنا سمجھ لیجئے

اب اگلا مرحلہ،

آپ کے پاس جو کمپیوٹر ہے ، ہم فرض کرلیتے ہیں کہ اس میں ایک آئی 7 چپ ہے، جی ؟ تو یہ کمپیوٹر تنا معمولی ہے کہ یہ چند نیورون کے مساوی بھی نہیں۔ اس لئے کہ بائیلوجیکل نیورون ایک تو مصنوعی نیورون سے بہت کمپلیکس اور اعلی ہے دوسرے مصنوعی نیورون سے نیورل نیٹ ورک بنانا کافی کار دارد ہے۔

تو پھر میں نے یہ لکھا ہی کیوں؟ اس لئے کہ آج جو کمپیوٹر چپس موجود ہیں ، ان کی مدد سے خود سے سیکھنے والے ایسے پروگرام بن چکے ہیں جن کو پروگرام کرنے کی ضرورت نہیں، یہ فیصلہ کرنے کے لئے درجہ بدرجہ خود بخود سیکھتے ہیں۔ ایسے الگارتھم موجود ہیں اور سیکھ سیکھ کر (پروگرام کئے بغیر) مسعلہ اسی طرح حل کرکستے ہیں جیسے آپ اور میں، جی؟ فیصلہ کرنے کی اس صلاحیت کو ہم آج آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ دیکھئے ایک مثال، آج کے ہارڈ وئیر کی مدد سے ہم آرٹیفیشئیل انٹیلی جنس کے ایسے خود سیکھنے والے پروگرام لکھ چکے ہیں جو جہ روبک کیوب کو سیکننڈز میں حل کرلیتے ہیں۔

جتنی دیر میں آُ نے ایک لائیں پڑھی ، اتنی دیر میں اس خود سے سیکھنے والے پروگرام نے چند سیکنڈ میں حل کرلیا ، آج کے ہارڈ وئیر پر چلنے والے ایک مصنوعی عقل کے کمپیوٹر پروگرام نے جو کہ دو نیوروں سے بھی کم ہے،
آج کی تاریخ مٰں حضرت انسان کو مات دے دی۔ گویا چند نیورون کا یہ کمپیوٹر ، مسائیل کو حل کرنے کی حضرت انسان سے بتر صلاحیت رکھتا ہے، حضرت انسان سے بہتر سمجھتا ہے۔

بات کو ابھی یہاں تک رکھئے کہ
1۔ ایسی تخلیق کی ہوئی شے ، ایک تو انسان کی طرح کھانے کی محتاج نہیں، سانس لینے کے لئے، ہوا کی محتاج نہیں، اور چند نیورون کی مدد سے مسئلہ کو حل کرنے کی بہتر صلاحیت رکھتی ہے۔

2۔ اب دیکھئے یہ ، انٹیٰل کی 64 کور کی ایسی چپ جو 8 ملین نیورون کی صلاحیت رکھتی ہے، یعنی زیبرا مکھی کے دماغ کے آدھے نیورونز۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ جب چند نیورون کا کمپیوٹر ، روبک کیوب کو ، خود سے سیکھ کر حل کرسکتا ہے تو ایسے کمپیوٹر، خود سے سیکھ کر کیا کچھ کر سکیں گے،

3۔ جو رومبا ، میں نے آپ کو پہلے مراسلے میں دکھایا، اس کے بھائی بند اور بھی بن رہے ہیں، ایسے جو گھر کا فرش ہی صاف نہیں کریں گے ، بلکہ ، برتن دھونے کے لئے مشین میں لگا دیں گے، کموڈ صاف کردیں گے، واشنگ مشین میں کپڑے ڈال دیں گے، کھانے بنانے کی تراکیب پڑھ کر کھانا تیار کردیں گے، فرج اور سٹور روم کو دیکھ کر کھانے پینے کی اشیاء آردر کردیں گے، اور خود کار چلنے والی کاریں ، جو آج کی تاریخ میں ایک حقیقت ہیں، جا کر یہی اشیاء لاکر آپ کے گھر میں ، فرج میں، سٹور میں ڈال دیں گے۔ جی؟

4- اب آپ دیکھئے، یہ ویڈیو بوسٹن ڈائئامک کے بنائے ہوئے اس روبوٹ کو، جس کی فیصلہ کرنے کی قوت وصلاحیت، صرف چند نیورون پر مشتمل ہے۔
اس ویڈیو کے آخر میں آپ کی حس مزاح کے لئے بھی تھوڑا بہت ہے۔ مزید یہ دیکھئے

ان چاروں نکات
کو ملا کر دیکھئے کہ بہت جلد آپ ایسی تخلیقات خرید سکیں گے جو بہتر قسم کے کمپیوٹرز کی مدد سے بہتر فیصلہ کرنے کی اور سیکھنے کی صلاحیت رکھیں گی، جو بہت سے "اشرف المخلوقات" کو فارغ کردیں گی۔ یہ کوئی دور کی بات نہیں، کوئی ناول نہیں، یہ حقیقت پر مبنی نکات ہیں۔

تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ 8 ملین نیورون والا کمپیوٹر ، بہتر سیکھ سکے گا، فیصلے کرنے کی بائنری ٹری کو اور تیز رفتاری سے طے کرسکے گا؟ اور 5 سے 10 سال میں 8 ٹریلین یا 80 ٹریلین نیورون والا ایسا روبوٹ موجود ہوگا، جو انسانوں سے زیادہ تیز رفتار فیصلہ کرسکے، کام کرسکے ، جس کا انحصار صرف بجلی پر ہو، فیکٹری میں خود جیسے نئے بنا سکے، بجلی ختم ہو تو اپنے آپ کوریچارج کر سکے ، اپنی بجلی شمسی توانائی اور دیگر ذرائع سے بنا سکے اور اس انرجی کی پروٹیکشن کی حفاظت کرسکے ۔

اشرف المخلوقات ، حضرت انسان ، اس وقت کس طرح یہ ثابت کریں گے کہ وہ ایسی تخلیقات سے بہتر ہیں؟ اسی ویدیو میں ایک روبوٹ نے انگور کے چھلکے کو چھیل کر اس میں ٹانکے لگائے ہیں، یہ کام اشرف المخلوقات آج بھی نہیں کرسکتے۔

اس نئے اشرف المخلوقات سے نئے مسائیل جنم لیں گے ، وہ یہ کہ موجودہ اشرف المخلوقات ، حضرت انسان کو کھانے پینے کی ضرورت ہے، سانس لینے کی ضرورت ہے، لیکن جب ان کو نوکری ، ان نئی تخلیق شدہ چیزوں سے تبدیل ہو جائے گی تو پھر ان کو کھانے پینے کے لالے پڑ جائیں گے۔

اس وقت یقینی طور پر ایسے سماجی پروگرام ہونگے جو ان بے قسم کے حضرت انسان کی پیدائش کو کم کریں ، تاکہ یہ بھوکے بے کار اشرف المخلوقات ، کھاتے پیتے لوگوں پر جنگ مسلط نا کریں۔ بہت سے ناکارہ قسم کی قوموں کو اپنی موت خود مرنے دیا جائے گا۔ اور ان کی پیدائش کو کسی نا کسی طرح کم کردیا جائے گا۔

آج کی موجودہ ایجادات کو دیکھ کر ہم بہت ہی آسانی سے اگلے 50 سے 10 سال میں اشرف المخلوقات پر جو وقت آنے والا ہے اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ جس آیت سے یہ بات شروع ہوئی تھی، وہ آیت یقینی طور پر دکھائی دینے والی تخلیقات کے بارے میں یہ بتاتی ہے کہ انسان سے بہتر تخلیقات موجود اور جلد ہی آنکھوں کے سامنے بھی ہوں گی۔ :)

کیا آپ کی قوم اس مقابلے کے لئے تیار ہے؟ کیا آپ کے اشرف المخلوقات، اور ان قوموں کے اشرف المخلوقات برابر ہیں جو ایسی تخلیقات کررہے ہیں؟

آپ کے پیچھے رہ جانے کی سماجی، اقتصادی، معاشی، اور سائینسی وجوہات کیا ہیں؟ کیا آپ کے اشرف المخلوقات ، دوسری قوموں کے اشرف المخلوقات سے بہتر ہیں؟

یار میری حس مزاح اب پہت ہی زور ماررہی ہے:) بہت ہی مشکل سے اس پر قابو رکھ رہا ہوں ، برا بالکل نہیں مانئے گا۔۔۔۔
والسلام ۔۔
"اشرف المخلوقات" کے سارے مبحث کو آپ "اشرف الآلات" پر لے گئے!
:)
 

آصف اثر

معطل
اب اگلا مرحلہ،

آپ کے پاس جو کمپیوٹر ہے ، ہم فرض کرلیتے ہیں کہ اس میں ایک آئی 7 چپ ہے، جی ؟ تو یہ کمپیوٹر تنا معمولی ہے کہ یہ چند نیورون کے مساوی بھی نہیں۔ اس لئے کہ بائیلوجیکل نیورون ایک تو مصنوعی نیورون سے بہت کمپلیکس اور اعلی ہے دوسرے مصنوعی نیورون سے نیورل نیٹ ورک بنانا کافی کار دارد ہے۔

تو پھر میں نے یہ لکھا ہی کیوں؟ اس لئے کہ آج جو کمپیوٹر چپس موجود ہیں ، ان کی مدد سے خود سے سیکھنے والے ایسے پروگرام بن چکے ہیں جن کو پروگرام کرنے کی ضرورت نہیں، یہ فیصلہ کرنے کے لئے درجہ بدرجہ خود بخود سیکھتے ہیں۔ ایسے الگارتھم موجود ہیں اور سیکھ سیکھ کر (پروگرام کئے بغیر) مسعلہ اسی طرح حل کرکستے ہیں جیسے آپ اور میں، جی؟ فیصلہ کرنے کی اس صلاحیت کو ہم آج آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ دیکھئے ایک مثال، آج کے ہارڈ وئیر کی مدد سے ہم آرٹیفیشئیل انٹیلی جنس کے ایسے خود سیکھنے والے پروگرام لکھ چکے ہیں جو جہ روبک کیوب کو سیکننڈز میں حل کرلیتے ہیں۔

جتنی دیر میں آُ نے ایک لائیں پڑھی ، اتنی دیر میں اس خود سے سیکھنے والے پروگرام نے چند سیکنڈ میں حل کرلیا ، آج کے ہارڈ وئیر پر چلنے والے ایک مصنوعی عقل کے کمپیوٹر پروگرام نے جو کہ دو نیوروں سے بھی کم ہے،
آج کی تاریخ مٰں حضرت انسان کو مات دے دی۔ گویا چند نیورون کا یہ کمپیوٹر ، مسائیل کو حل کرنے کی حضرت انسان سے بتر صلاحیت رکھتا ہے، حضرت انسان سے بہتر سمجھتا ہے۔

بات کو ابھی یہاں تک رکھئے کہ
1۔ ایسی تخلیق کی ہوئی شے ، ایک تو انسان کی طرح کھانے کی محتاج نہیں، سانس لینے کے لئے، ہوا کی محتاج نہیں، اور چند نیورون کی مدد سے مسئلہ کو حل کرنے کی بہتر صلاحیت رکھتی ہے۔

2۔ اب دیکھئے یہ ، انٹیٰل کی 64 کور کی ایسی چپ جو 8 ملین نیورون کی صلاحیت رکھتی ہے، یعنی زیبرا مکھی کے دماغ کے آدھے نیورونز۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ جب چند نیورون کا کمپیوٹر ، روبک کیوب کو ، خود سے سیکھ کر حل کرسکتا ہے تو ایسے کمپیوٹر، خود سے سیکھ کر کیا کچھ کر سکیں گے،

3۔ جو رومبا ، میں نے آپ کو پہلے مراسلے میں دکھایا، اس کے بھائی بند اور بھی بن رہے ہیں، ایسے جو گھر کا فرش ہی صاف نہیں کریں گے ، بلکہ ، برتن دھونے کے لئے مشین میں لگا دیں گے، کموڈ صاف کردیں گے، واشنگ مشین میں کپڑے ڈال دیں گے، کھانے بنانے کی تراکیب پڑھ کر کھانا تیار کردیں گے، فرج اور سٹور روم کو دیکھ کر کھانے پینے کی اشیاء آردر کردیں گے، اور خود کار چلنے والی کاریں ، جو آج کی تاریخ میں ایک حقیقت ہیں، جا کر یہی اشیاء لاکر آپ کے گھر میں ، فرج میں، سٹور میں ڈال دیں گے۔ جی؟

4- اب آپ دیکھئے، یہ ویڈیو بوسٹن ڈائئامک کے بنائے ہوئے اس روبوٹ کو، جس کی فیصلہ کرنے کی قوت وصلاحیت، صرف چند نیورون پر مشتمل ہے۔
اس ویڈیو کے آخر میں آپ کی حس مزاح کے لئے بھی تھوڑا بہت ہے۔ مزید یہ دیکھئے

ان چاروں نکات
کو ملا کر دیکھئے کہ بہت جلد آپ ایسی تخلیقات خرید سکیں گے جو بہتر قسم کے کمپیوٹرز کی مدد سے بہتر فیصلہ کرنے کی اور سیکھنے کی صلاحیت رکھیں گی، جو بہت سے "اشرف المخلوقات" کو فارغ کردیں گی۔ یہ کوئی دور کی بات نہیں، کوئی ناول نہیں، یہ حقیقت پر مبنی نکات ہیں۔

تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ 8 ملین نیورون والا کمپیوٹر ، بہتر سیکھ سکے گا، فیصلے کرنے کی بائنری ٹری کو اور تیز رفتاری سے طے کرسکے گا؟ اور 5 سے 10 سال میں 8 ٹریلین یا 80 ٹریلین نیورون والا ایسا روبوٹ موجود ہوگا، جو انسانوں سے زیادہ تیز رفتار فیصلہ کرسکے، کام کرسکے ، جس کا انحصار صرف بجلی پر ہو، فیکٹری میں خود جیسے نئے بنا سکے، بجلی ختم ہو تو اپنے آپ کوریچارج کر سکے ، اپنی بجلی شمسی توانائی اور دیگر ذرائع سے بنا سکے اور اس انرجی کی پروٹیکشن کی حفاظت کرسکے ۔

اشرف المخلوقات ، حضرت انسان ، اس وقت کس طرح یہ ثابت کریں گے کہ وہ ایسی تخلیقات سے بہتر ہیں؟ اسی ویدیو میں ایک روبوٹ نے انگور کے چھلکے کو چھیل کر اس میں ٹانکے لگائے ہیں، یہ کام اشرف المخلوقات آج بھی نہیں کرسکتے۔

اس نئے اشرف المخلوقات سے نئے مسائیل جنم لیں گے ، وہ یہ کہ موجودہ اشرف المخلوقات ، حضرت انسان کو کھانے پینے کی ضرورت ہے، سانس لینے کی ضرورت ہے، لیکن جب ان کو نوکری ، ان نئی تخلیق شدہ چیزوں سے تبدیل ہو جائے گی تو پھر ان کو کھانے پینے کے لالے پڑ جائیں گے۔

اس وقت یقینی طور پر ایسے سماجی پروگرام ہونگے جو ان بے قسم کے حضرت انسان کی پیدائش کو کم کریں ، تاکہ یہ بھوکے بے کار اشرف المخلوقات ، کھاتے پیتے لوگوں پر جنگ مسلط نا کریں۔ بہت سے ناکارہ قسم کی قوموں کو اپنی موت خود مرنے دیا جائے گا۔ اور ان کی پیدائش کو کسی نا کسی طرح کم کردیا جائے گا۔

آج کی موجودہ ایجادات کو دیکھ کر ہم بہت ہی آسانی سے اگلے 50 سے 10 سال میں اشرف المخلوقات پر جو وقت آنے والا ہے اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ جس آیت سے یہ بات شروع ہوئی تھی، وہ آیت یقینی طور پر دکھائی دینے والی تخلیقات کے بارے میں یہ بتاتی ہے کہ انسان سے بہتر تخلیقات موجود اور جلد ہی آنکھوں کے سامنے بھی ہوں گی۔ :)

کیا آپ کی قوم اس مقابلے کے لئے تیار ہے؟ کیا آپ کے اشرف المخلوقات، اور ان قوموں کے اشرف المخلوقات برابر ہیں جو ایسی تخلیقات کررہے ہیں؟

آپ کے پیچھے رہ جانے کی سماجی، اقتصادی، معاشی، اور سائینسی وجوہات کیا ہیں؟ کیا آپ کے اشرف المخلوقات ، دوسری قوموں کے اشرف المخلوقات سے بہتر ہیں؟

یار میری حس مزاح اب پہت ہی زور ماررہی ہے:) بہت ہی مشکل سے اس پر قابو رکھ رہا ہوں ، برا بالکل نہیں مانئے گا۔۔۔۔
والسلام ۔۔
تجزیہ دلچسپ اور منفرد ہے، لیکن آپ نے اشرف المخلوقات ہونے کے لیے کن عوامل کو چُنا ہے؟
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
مخلوق اسے کہا جاتا ہے جسے خلق کیا جائے۔ انسان کسی شے کا ان معنوں میں خالق نہیں کہ ایک شے کو عدم سے وجود میں لے آئے۔ یہ مذہبی نکتہء نظر ہے جسے سائنسی اذہان چاہے تسلیم نہ کریں۔ اب جن مخلوقات کو رب تعالیٰ نے بنایا ہے، اُن میں انسان کو دیگر تمام مخلوقات پر فضیلت حاصل ہے یا نہیں، اس لڑی میں اس موضوع سے متعلق بات ہونی چاہیے تھی۔ سائنسی نکتہء نظر سامنے آ جائے تو اچھی بات ہے تاہم یہ بحث کسی اور طرف نکل جائے گی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
"اشرف المخلوقات" کے سارے مبحث کو آپ "اشرف الآلات" پر لے گئے!
:)
میں نے پہلی نظر میں یہ پڑھا کہ آپ نے "اشرف اللات" لکھا ہے۔ :)

تفنن برطرف خان صاحب کے "الآلات" اتنے بھی غیر منطقی یا غیر مذہبی نہیں۔ انسان کو "اشرف المخلوقات" کے شرف سے "ڈی شرف" کرنے کے لیے انتا ہی کافی ہے کوئی ایک خلق ہی انسان سے بہتر ہو جائے۔ چونکہ فرشتوں اور جنوں کے وجود یا ان کے وجود کے باوجود ان کی "شرفیت" کے سب قائل نہیں ہیں سو انہوں نے مشینوں کی مثال دی جو کہ سامنے کی اور سب کی آزمودہ یا معلوم شدہ ہے۔ اب مذہبی نکتہ نظر سے اگر انسان، جانوروں، فرشتوں وغیرہ کا خالق اللہ ہے تو مادے کا بھی ہے۔ اسی مادے سے کچھ ایسی چیز بن گئی ہے جو انسان سے بہتر ہے سو یہ مفروضہ کہ انسان اشرف ہے اسی سے غلط ہو گیا۔اندیشہ ہائے دور و دراز کی ضرورت ہی نہیں پڑی!

انکی بات سے میں یہی سمجھا تھا اور یہ منطق میرا ذہن بھی مانتا ہے مگر میرا ان سے سوال یہ تھا کہ مشینوں کی انسان پر فوقیت اگر ثابت ہوتی ہے تو ان مشینوں کو بنایا تو انسان نے ہے تو کیایہ مشینیں بھی اسی مادے سے اپنے سے بہتر کچھ بنا پائیں گی، اگر نہیں تو پھر وہ انسان سے بہتر کیسے ہوئیں؟ خالی کچھ ٹاسک انسان سے بہتر پرفارم کر لینے سے، جیسا کہ خان صاحب نے لکھا تھا، مشین انسان سے بہتر کیسے ہوئی؟ بہت سارے جانور اور پرندے بھی انسان سے بہتر کام کر لیتے ہیں سو مشین کیسے افضل ہو گئی؟
 

عرفان سعید

محفلین
میں نے پہلی نظر میں یہ پڑھا کہ آپ نے "اشرف اللات" لکھا ہے۔ :)
:)
انکی بات سے میں یہی سمجھا تھا اور یہ منطق میرا ذہن بھی مانتا ہے مگر میرا ان سے سوال یہ تھا کہ مشینوں کی انسان پر فوقیت اگر ثابت ہوتی ہے تو ان مشینوں کو بنایا تو انسان نے ہے تو کیایہ مشینیں بھی اسی مادے سے اپنے سے بہتر کچھ بنا پائیں گی، اگر نہیں تو پھر وہ انسان سے بہتر کیسے ہوئیں؟ خالی کچھ ٹاسک انسان سے بہتر پرفارم کر لینے سے، جیسا کہ خان صاحب نے لکھا تھا، مشین انسان سے بہتر کیسے ہوئی؟ بہت سارے جانور اور پرندے بھی انسان سے بہتر کام کر لیتے ہیں سو مشین کیسے افضل ہو گئی؟
بالکل متفق
 

رانا

محفلین
"اشرف المخلوقات" کی اصطلاح کا ماخذ کیا ہے اس کا تو اب تک کچھ پتہ نہیں ملا جیسا کہ عرفان صاحب نے بھی ابتدائی مراسلے میں ذکر کیا۔ اس لئے اس مراسلے میں اصطلاح کو معنوی رنگ میں لے کر بات کی ہے۔ بہرحال ایسا لگتا ہے بعض احباب کے نزدیک اشرف المخلوقات کے خطاب کی حقدار وہ مخلوق ہے جو دوسری مخلوقات سے طاقت اور کام کرنے کی برتری میں زیادہ ہے۔ اگر ایسا ہے تو کسی ایک مخلوق کو یہ خطاب دینا مشکل ہوجائے گا کہ ہر مخلوق کسی نہ کسی ہنر میں ایسی یکتا ملے گی کہ جس میں دوسری مخلوقات اس کے سامنے عاجز ہوں۔ لہذا اس طرح تو فیصلہ مشکل ہے کہ فرشتے تک اس دوڑ سے باہر ہوجائیں گے کیونکہ ہر فرشتے کو الگ کام پر لگایا گیا ہے اور وہ وہی کرسکتا ہے الا یہ کہ اسے خالق کی طرف سے کسی دوسرے کام کی طاقت دی جائے۔

لیکن اگر اس طرح بھی فیصلہ کرنا ہو تو پھر بھی یہ خطاب انسان پر ہی جچتا ہے کہ تمام (معلوم مخلوقات) میں سے وہی ہے جس نے اس زمین اور کائنات کو مسخر کرنے کی کوشش کی اور لاجواب کوشش کی۔ (دلچسپ بات کہ خالق نے بھی خود فرما دیا تھا کہ یہ سب انسان کے لئے مسخر کیا گیا ہے)۔ یہی دیکھ لیں کہ اشرف المخلوقات کی بحث میں بھی انسان ہی پڑا نہ کہ کوئی بکری یا کمپیوٹر چِپ کہ یہ معاملات ان کے ادراک سے بھی پرے ہیں۔ انسان نے دیگر تمام مخلوق کو چاہے وہ حجم یا طاقت میں زیادہ تھیں اپنے زیر نگیں کیا بلکہ اپنی ایک تخلیق تک نظام شمسی کے بھی پار بھیج دی جو دیگر ستاروں کی طرف ابھی تک رواں دواں ہے۔ اور دور دراز کہکشاؤں تک کی خبریں نکال رہا ہے جہاں تک اسکی پہنچ بھی نہیں۔ لہذا یہ خطاب انسان سے ہٹ کر کسی معلوم مخلوق پر نہیں جچتا۔

اب رہا یہ سوال کہ خالق نے خود بھی انسان کو اس خطاب سے نوازا ہے یا نہیں۔ ہر چند کہ خاکسار کو اس بارے میں کوئی ذاتی علم نہیں کہ کبھی ایسی بحث نظر سے گزری ہی نہیں نہ کبھی دھیان گیا۔ لیکن رباب واسطی صاحبہ نے جو قرآن سے استدلال پیش کیا ہے اس سے متفق ہوں۔ کہ اگر خالق خود مخلوق میں سے بہترین کو اعمال حسنہ سے مشروط کررہا ہے تو پھر یہی بات ٹھیک ہے۔ اس لئے بھی کہ اختیار اور اعمال کے بکھیڑے میں انسان کو ہی ڈالا گیا ہے نہ کہ دیگر کسی مخلوق کو۔ بکری کو بھوک لگی ہے تو اس نے کھانا ہی کھانا ہے لیکن انسان کو بھوک کی حالت میں اختیار دیا گیا ہے کہ چاہو تو کھالو چاہو تو چھوڑ کر خالق کی رضا پالو۔ بظاہر مغالطہ لگتا ہے کہ اختیار تو ابلیس کے پاس بھی تھا اس لئے وہ بھی اشرف کہلا سکتا ہے لیکن یہ مغالطہ اسی جگہ ہی دور ہوجاتا ہے جب نظر پڑتی ہے کہ اس اختیار کے باوجود اسے انسان کی فرمانبرداری کا حکم دے دیا گیا لہذا ابلیس اور انسان میں سے کون اشرف تھا یہ خالق نے اپنے عمل سے فیصلہ کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ صرف انسان کو ہی اس بلند مقام تک شرف باریابی بخشا گیا جہاں دوسری کسی بھی مخلوق کو رسائی نہ تھی اور فرشتوں تک کے پر جلتے تھے۔ یہی ایک بات اسے اشرف المخلوقات بنادیتی ہے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسانوں میں سے بھی کئی دیئے گئے اختیار کا غلط استعمال کرتے ہیں تو پھر۔ اس کا جواب رباب واسطی صاحبہ کی طرف سے پیش کی گئی ایت میں ہے کہ اسی لئے اشرف المخلوقات کا خطاب بحثیت جنس انسان کو نہیں دیا گیا بلکہ اعمال صالحہ سے مشروط کردیا گیا ہے کیونکہ اسی انسان نے اختیار کا غلط استعمال کرکے بدترین مخلوق کا خطاب بھی پانا تھا۔ اس کی طرف قرآن شریف کی ایک آیت بھی اشارہ کرتی ہے جبکہ ایک حدیث میں تو بعینہٖ یہی الفاظ آسمان کے نیچے بدترین مخلوق کے استعمال کئے گئے ہیں خالق کے نافرمان اور لوگوں میں فساد کا موجب بننے والوں کے لئے۔

تو اس ساری گفتگو کا ماحصل یہ نکلا کہ اشرف المخلوقات کے خطاب کا مستحق ہے تو انسان ہی لیکن اعمال صالحہ کی شرط کے ساتھ۔ اور اگر صرف دنیاوی اور سائنسی طور پر دیکھیں تو پھر بھی انسان ہی اس خطاب کے لائق نظر اتا ہے نہ کہ انسان کے بنائے ہوئے اوزار۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
انسان کا تقابل ایسی کون سی مخلوقات کے ساتھ کیا جا سکتا ہے جو اُس سے زیادہ شرف یا بلند رتبہ کی حامل ہیں؟ ہماری موجودہ معلومات کے مطابق دیگر مخلوقات تو اس قابل بھی نہیں ہیں کہ اس طرح کے مکالمے میں شریک تک ہو سکیں۔ علوم و فنون کی بے مثل ترقی انسان کے ہاتھوں ہوئی ہے جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ انسان کا معاملہ دیگر مخلوقات سے الگ ہے؛ علم الاسماء اسے سکھلایا گیا۔ کم از کم دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق تو یہی صورت ہے۔ قرآن پاک کو موضوع بھی عمومی طور پر انسان ہے اور ہاں، کہیں کہیں جنات بھی۔ جنات اور دیگر غیر مرئی مخلوقات کے حوالے سے ہماری معلومات زیادہ نہ ہیں تاہم یہ بات تو کافی حد تک حقیقت کے قریب معوم ہوتی ہے کہ انسان ہی اشرف المخلوقات ہے، یہ الگ بات کہ اچھے اور برے اعمال کے باعث اس درجہ میں کمی بیشی ہوتی ہے۔ تو پھر، کم از کم میسر معلومات کے مطابق! بقول شاعر، ہے کوئی ہم سا تو سامنے آئے! کوئی شیر، جیتا، بکری یا اژدھا وغیرہ! :) معذرت، ہماری شناسائی کا دائرہ اک ذرا محدود ہے! :)
 

عرفان سعید

محفلین
اشرف المخلوقات یعنی تمام مخلوقات میں سے بہترین

بے شک جو اِیمان لائے اور اَچھے کام کئے‘ وہی تمام مخلوق میں بہتر ہیں
(سورۃ البیّنۃ)
سورۃ البینہ کے عمومی مضمون کو دیکھا جائے تو یہاں انسانوں کے دو گروہوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک طرف اہلِ کتاب و مشرکین اور دوسری طرف اہلِ ایمان۔ دونوں گروہوں کے تکذیب و تصدیق کے رویوں کو سامنے رکھتے ہوئے سزا و جزا واضح طور پر بیان کر دی گئی ہے۔
مندرجہ بالا آیت جس سیاق و سباق میں آئی ہے وہاں "شرُ البریۃ" سے مراد اہلِ کتاب و مشرکین ہیں اور "خیرُ البریۃ" سے مراد اہلِ ایمان ہیں۔
یہاں انسانوں کے دو گروہوں میں اعمال کی بنیاد پر فضیلت کا ذکر ہے۔پوری سورت میں دور دور تک ایسا کوئی قرینہ نہیں کہ انسانوں کا دوسری مخلوقات سے تقابل کا مفہوم اخذ کیا جائے۔
اس سورت کے صوتی آہنگ کے پیشِ نظر"شرُ البریۃ" اور "خیرُ البریۃ" کے الفاظ لائے گئے ہیں، جن کا موقع و محل کے اعتبار سے درست مفہوم انسانوں کے دو گروہ ہی لیا جاسکتا ہے۔ سورہ کا مضمون اور آیت کا سیاق و سباق ان الفاظ کو تمام خلائق پر محمول کرنے میں مانع نظر آتے ہیں۔ واللہ اعلم
 

فاخر رضا

محفلین
"اشرف المخلوقات" کی اصطلاح کا ماخذ کیا ہے اس کا تو اب تک کچھ پتہ نہیں ملا جیسا کہ عرفان صاحب نے بھی ابتدائی مراسلے میں ذکر کیا۔ اس لئے اس مراسلے میں اصطلاح کو معنوی رنگ میں لے کر بات کی ہے۔ بہرحال ایسا لگتا ہے بعض احباب کے نزدیک اشرف المخلوقات کے خطاب کی حقدار وہ مخلوق ہے جو دوسری مخلوقات سے طاقت اور کام کرنے کی برتری میں زیادہ ہے۔ اگر ایسا ہے تو کسی ایک مخلوق کو یہ خطاب دینا مشکل ہوجائے گا کہ ہر مخلوق کسی نہ کسی ہنر میں ایسی یکتا ملے گی کہ جس میں دوسری مخلوقات اس کے سامنے عاجز ہوں۔ لہذا اس طرح تو فیصلہ مشکل ہے کہ فرشتے تک اس دوڑ سے باہر ہوجائیں گے کیونکہ ہر فرشتے کو الگ کام پر لگایا گیا ہے اور وہ وہی کرسکتا ہے الا یہ کہ اسے خالق کی طرف سے کسی دوسرے کام کی طاقت دی جائے۔

لیکن اگر اس طرح بھی فیصلہ کرنا ہو تو پھر بھی یہ خطاب انسان پر ہی جچتا ہے کہ تمام (معلوم مخلوقات) میں سے وہی ہے جس نے اس زمین اور کائنات کو مسخر کرنے کی کوشش کی اور لاجواب کوشش کی۔ (دلچسپ بات کہ خالق نے بھی خود فرما دیا تھا کہ یہ سب انسان کے لئے مسخر کیا گیا ہے)۔ یہی دیکھ لیں کہ اشرف المخلوقات کی بحث میں بھی انسان ہی پڑا نہ کہ کوئی بکری یا کمپیوٹر چِپ کہ یہ معاملات ان کے ادراک سے بھی پرے ہیں۔ انسان نے دیگر تمام مخلوق کو چاہے وہ حجم یا طاقت میں زیادہ تھیں اپنے زیر نگیں کیا بلکہ اپنی ایک تخلیق تک نظام شمسی کے بھی پار بھیج دی جو دیگر ستاروں کی طرف ابھی تک رواں دواں ہے۔ اور دور دراز کہکشاؤں تک کی خبریں نکال رہا ہے جہاں تک اسکی پہنچ بھی نہیں۔ لہذا یہ خطاب انسان سے ہٹ کر کسی معلوم مخلوق پر نہیں جچتا۔

اب رہا یہ سوال کہ خالق نے خود بھی انسان کو اس خطاب سے نوازا ہے یا نہیں۔ ہر چند کہ خاکسار کو اس بارے میں کوئی ذاتی علم نہیں کہ کبھی ایسی بحث نظر سے گزری ہی نہیں نہ کبھی دھیان گیا۔ لیکن رباب واسطی صاحبہ نے جو قرآن سے استدلال پیش کیا ہے اس سے متفق ہوں۔ کہ اگر خالق خود مخلوق میں سے بہترین کو اعمال حسنہ سے مشروط کررہا ہے تو پھر یہی بات ٹھیک ہے۔ اس لئے بھی کہ اختیار اور اعمال کے بکھیڑے میں انسان کو ہی ڈالا گیا ہے نہ کہ دیگر کسی مخلوق کو۔ بکری کو بھوک لگی ہے تو اس نے کھانا ہی کھانا ہے لیکن انسان کو بھوک کی حالت میں اختیار دیا گیا ہے کہ چاہو تو کھالو چاہو تو چھوڑ کر خالق کی رضا پالو۔ بظاہر مغالطہ لگتا ہے کہ اختیار تو ابلیس کے پاس بھی تھا اس لئے وہ بھی اشرف کہلا سکتا ہے لیکن یہ مغالطہ اسی جگہ ہی دور ہوجاتا ہے جب نظر پڑتی ہے کہ اس اختیار کے باوجود اسے انسان کی فرمانبرداری کا حکم دے دیا گیا لہذا ابلیس اور انسان میں سے کون اشرف تھا یہ خالق نے اپنے عمل سے فیصلہ کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ صرف انسان کو ہی اس بلند مقام تک شرف باریابی بخشا گیا جہاں دوسری کسی بھی مخلوق کو رسائی نہ تھی اور فرشتوں تک کے پر جلتے تھے۔ یہی ایک بات اسے اشرف المخلوقات بنادیتی ہے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسانوں میں سے بھی کئی دیئے گئے اختیار کا غلط استعمال کرتے ہیں تو پھر۔ اس کا جواب رباب واسطی صاحبہ کی طرف سے پیش کی گئی ایت میں ہے کہ اسی لئے اشرف المخلوقات کا خطاب بحثیت جنس انسان کو نہیں دیا گیا بلکہ اعمال صالحہ سے مشروط کردیا گیا ہے کیونکہ اسی انسان نے اختیار کا غلط استعمال کرکے بدترین مخلوق کا خطاب بھی پانا تھا۔ اس کی طرف قرآن شریف کی ایک آیت بھی اشارہ کرتی ہے جبکہ ایک حدیث میں تو بعینہٖ یہی الفاظ آسمان کے نیچے بدترین مخلوق کے استعمال کئے گئے ہیں خالق کے نافرمان اور لوگوں میں فساد کا موجب بننے والوں کے لئے۔

تو اس ساری گفتگو کا ماحصل یہ نکلا کہ اشرف المخلوقات کے خطاب کا مستحق ہے تو انسان ہی لیکن اعمال صالحہ کی شرط کے ساتھ۔ اور اگر صرف دنیاوی اور سائنسی طور پر دیکھیں تو پھر بھی انسان ہی اس خطاب کے لائق نظر اتا ہے نہ کہ انسان کے بنائے ہوئے اوزار۔
یا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ
لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے۔ تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ بےشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے

لفظ اشرف کہیں آیا ہو یا نہیں، انسان کی کرامت تقویٰ الٰہی اختیار کرنے میں ہے.
 

فاخر رضا

محفلین
انسان میں خدا نے اپنی روح پھونکی. انسان کا ایک پہلو روحانی ہے اور ایک جسمانی. روح کی پرواز عرش خدا تک ہے. یا اگر گرنا چاہے تو اسفل السافلین بن جائے
 

فاخر رضا

محفلین
ہر دوا جب بنائی جاتی ہے تو اسی طرح کے دعوے کیے جاتے ہیں جیسا کہ AI کے بارے میں کیے گئے.
پھر اسی دوا کے سائیڈ افیکٹ سامنے آتے ہیں اور کچھ عرصے بعد وہ دوا واپس لے لی جاتی ہے
AI کے معاملے میں سائنس دان بری طرح پھنسنے والے ہیں. اس پر بہت بحث ہورہی ہے. خان صاحب جلد ہی اسکا دوسرا رخ بیان کریں گے اور انسان کو اشرف المخلوقات ثابت کرکے بھی دکھا دیں گے. وہ خان ہیں اور خان کچھ بھی کرسکتا ہے
 

عرفان سعید

محفلین
بہرحال ایسا لگتا ہے بعض احباب کے نزدیک اشرف المخلوقات کے خطاب کی حقدار وہ مخلوق ہے جو دوسری مخلوقات سے طاقت اور کام کرنے کی برتری میں زیادہ ہے۔ اگر ایسا ہے تو کسی ایک مخلوق کو یہ خطاب دینا مشکل ہوجائے گا کہ ہر مخلوق کسی نہ کسی ہنر میں ایسی یکتا ملے گی کہ جس میں دوسری مخلوقات اس کے سامنے عاجز ہوں۔ لہذا اس طرح تو فیصلہ مشکل ہے کہ فرشتے تک اس دوڑ سے باہر ہوجائیں گے کیونکہ ہر فرشتے کو الگ کام پر لگایا گیا ہے اور وہ وہی کرسکتا ہے الا یہ کہ اسے خالق کی طرف سے کسی دوسرے کام کی طاقت دی جائے۔
بہت اہم بات کہی آپ نے!
 

عرفان سعید

محفلین
لیکن اگر اس طرح بھی فیصلہ کرنا ہو تو پھر بھی یہ خطاب انسان پر ہی جچتا ہے کہ تمام (معلوم مخلوقات) میں سے وہی ہے جس نے اس زمین اور کائنات کو مسخر کرنے کی کوشش کی اور لاجواب کوشش کی۔ (دلچسپ بات کہ خالق نے بھی خود فرما دیا تھا کہ یہ سب انسان کے لئے مسخر کیا گیا ہے)۔ یہی دیکھ لیں کہ اشرف المخلوقات کی بحث میں بھی انسان ہی پڑا نہ کہ کوئی بکری یا کمپیوٹر چِپ کہ یہ معاملات ان کے ادراک سے بھی پرے ہیں۔ انسان نے دیگر تمام مخلوق کو چاہے وہ حجم یا طاقت میں زیادہ تھیں اپنے زیر نگیں کیا بلکہ اپنی ایک تخلیق تک نظام شمسی کے بھی پار بھیج دی جو دیگر ستاروں کی طرف ابھی تک رواں دواں ہے۔ اور دور دراز کہکشاؤں تک کی خبریں نکال رہا ہے جہاں تک اسکی پہنچ بھی نہیں۔ لہذا یہ خطاب انسان سے ہٹ کر کسی معلوم مخلوق پر نہیں جچتا۔

علوم و فنون کی بے مثل ترقی انسان کے ہاتھوں ہوئی ہے جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ انسان کا معاملہ دیگر مخلوقات سے الگ ہے

یہ تمام دلائل بے شک بہت قوی ہیں ، لیکن میری ذہنی الجھن ابھی تک یہی ہے کہ سورہ بنی اسرائیل کی درج ذیل آیت کی مناسب توجیہہ کیا ہوسکتی ہے؟

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ [B]وَفَضَّلْنٰهُمْ عَلٰي كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا[/B] تَفْضِيْلًا 70؀ۧ
یہ تو ہماری عنایت ہے کہ بنی آدم کو بزرگی (عزت) دی اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت (فضیلت) بخشی۔

یہاں واضح طور پر بہت سی مخلوقات پر فضیلت کا ذکر ہے، تمام مخلوقات پر نہیں۔
 

عرفان سعید

محفلین
خلقت کے اعتبار سے افضل ہونے اور اعمال کی بنیاد پر کسی فضیلت کا حق دار بننے کے مباحث کو اگر الگ رکھا جائے تو شاید گفتگو مرکوز رہے۔

بنیادی سوال خلقی فضیلت کے لحاظ سے تھا۔
 

فرقان احمد

محفلین
یہ تمام دلائل بے شک بہت قوی ہیں ، لیکن میری ذہنی الجھن ابھی تک یہی ہے کہ سورہ بنی اسرائیل کی درج ذیل آیت کی مناسب توجیہہ کیا ہوسکتی ہے؟

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ [B]وَفَضَّلْنٰهُمْ عَلٰي كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا[/B] تَفْضِيْلًا 70؀ۧ
یہ تو ہماری عنایت ہے کہ بنی آدم کو بزرگی (عزت) دی اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت (فضیلت) بخشی۔

یہاں واضح طور پر بہت سی مخلوقات پر فضیلت کا ذکر ہے، تمام مخلوقات پر نہیں۔
جو ایمان داری سے پوچھیں تو مرئی مخلوقات میں سے ہمیں کوئی مخلوق انسان کی ہم پلہ دکھائی نہیں دیتی ہے۔ غیر مرئی مخلوقات کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے جن کا تعلق شاید اس دنیا سے نہ ہو یا پھر اس کائنات میں کوئی اور مخلوق بستی ہو گی جو کہ فی الوقت ہمارے لیے غیر مرئی ہی ہے۔
 

عرفان سعید

محفلین
جو ایمان داری سے پوچھیں تو مرئی مخلوقات میں سے ہمیں کوئی مخلوق انسان کی ہم پلہ دکھائی نہیں دیتی ہے۔ غیر مرئی مخلوقات کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے جن کا تعلق شاید اس دنیا سے نہ ہو یا پھر اس کائنات میں کوئی اور مخلوق بستی ہو گی جو کہ فی الوقت ہمارے لیے غیر مرئی ہی ہے۔
یہی قرینِ قیاس ہے۔
 

عرفان سعید

محفلین
غیر مرئی مخلوقات کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے
مذہب جن غیر مرئی ذی شعور مخلوقات کا ذکر کرتا ہے، ان میں جن اور فرشتے شامل ہیں۔ تو مذہب کے مطابق تین ذی شعور مخلوقات ہوگئیں۔ انسان، جن اور فرشتے۔
ان میں انسان فضیلت کے اعتبار سے کہاں مقام پاتا ہے؟
 

زیک

مسافر
مذہب جن غیر مرئی ذی شعور مخلوقات کا ذکر کرتا ہے، ان میں جن اور فرشتے شامل ہیں۔ تو مذہب کے مطابق تین ذی شعور مخلوقات ہوگئیں۔ انسان، جن اور فرشتے۔
ان میں انسان فضیلت کے اعتبار سے کہاں مقام پاتا ہے؟
آخری نمبر پر (اگر ان کا وجود ہے)

پہلے نمبر پر (اگر ان کا وجود نہیں)
 

فرقان احمد

محفلین
مذہب جن غیر مرئی ذی شعور مخلوقات کا ذکر کرتا ہے، ان میں جن اور فرشتے شامل ہیں۔ تو مذہب کے مطابق تین ذی شعور مخلوقات ہوگئیں۔ انسان، جن اور فرشتے۔
ان میں انسان فضیلت کے اعتبار سے کہاں مقام پاتا ہے؟
اس کا موزوں جواب شاید سید عمران بھیا بہتر طور پر دے پائیں گے۔
 
Top