کیا اویسی بھارتی مسلمانوں کےقومی قائد ہیں؟

کیا اویسی بھارتی مسلمانوں کےقومی قائد ہیں؟
زبیر احمدبی بی سی، نئی دہلی
  • 14 ستمبر 2015
150106054531_asaduddin_owaisi_640x360_bbc_nocredit.jpg

اسدالدین حیدرآباد سے تین بار لوک سبھا کا انتخاب جیت چکے ہیں
بھارت کے جنوبی شہر حیدرآباد سے مسلسل تین بار لوک سبھا (ایوان زیریں) کا الیکشن جیتنے والے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اےآئی ایم آئی ایم) پارٹی کے صدر اسد الدین اویسی ایک با اثر، نڈر اور حوصلہ مند رہنما نظر آتے ہیں۔

اونچے قد اور صحت مند شخصیت والے اویسی اپنی لمبی شیروانی اور سیاہ داڑھی میں حیدرآباد سے زیادہ اودھ کے نواب جیسے لگتے ہیں اور وہ جب بولتے ہیں تو ان کے مخالف بھڑک اٹھتے ہیں اور ان کے حامی جوش میں آ جاتے ہیں۔

ان کو پسند کرنے والوں میں بی جے پی کے لیڈر سبرامنیم سوامی بھی ہیں جنھوں نے مجھ سے ایک بار کہا تھا: ’یہ آدمی بولتا بہت اچھا ہے۔‘

میں نے حیدرآباد میں عوام کے درمیان ان کی مقبولیت محسوس کی ہے، بطور خاص وہاں کے مسلمانوں کے درمیان۔

مسلم بستیوں میں ان کی پارٹی ہسپتال چلاتی ہے اور سماجی خدمات کے کاموں میں سرگرم رہتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح سے جیسے مہاراشٹر میں ہندو تنظیم شیو سینا۔

150430131040_asaduddin_owaisi_mim_mp_640x360__nocredit.jpg

اسدالدین اویسی شعلہ بیان مقرر کے طور پر معروف ہیں
گذشتہ سال عام انتخابات میں وہاں کے کچھ ووٹروں سے جب میں نے بات کی تو مجھے اندازہ ہوا کہ ان کے ووٹروں کی وفاداری گہری ہے۔

حیدرآباد کہیں یا تلنگانہ، یہ علاقے اویسی کے لیے چھوٹے پڑتے جا رہے ہیں۔ ان کے قریبی لوگ کہتے ہیں کہ وہ ملک بھر کے مسلمانوں کے رہنما کے طور پر دیکھے جانے لگے ہیں۔

ان کی پارٹی گذشتہ سال نومبر میں پہلی بار مہاراشٹر اسمبلی کے انتخابات میں میدان میں اتری تھی اور دو نشستیں حاصل کرکے سب کو حیران کر دیا تھا۔

اس سے ان کے حوصلے میں مزید اضافہ ہوا۔ اب انھوں نے بہار کے سیمانچل علاقے سے اسمبلی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا ہے جہاں اسمبلی کی 24 نشستیں ہیں۔

وہ پہلے ہی سنہ 2017 میں بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔

’اشتعال انگیز تقریر‘
141203153408_asaduddin_owaisi_624x351_bbc_nocredit.jpg

زبیر احمد کے ساتھ اسدالدین اویسی نے بات چیت کی تھی
لیکن اویسی ایک متنازع لیڈر ہیں۔ ’اشتعال انگیز تقریر‘ کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ ہمیشہ مسلمانوں کے مفاد کی باتیں کرتے ہیں۔

اگر ہندوتوا کی بات کرنے والی تنظیموں اور بی جے پی پر بھارتی سماج کو تقسیم کرنے کا الزام ہے تو اویسی کے خلاف فرقہ وارانہ سیاست کرنے کا الزام ہے۔

عوامی جلسوں میں اویسی شعلہ بیان نظر آتے ہیں جبکہ پارلیمنٹ میں ان کا انداز جارحانہ ہوتا ہے۔

مسلم نوجوانوں پر لوک سبھا میں ان کی تقاریر کا اثر ہوتا ہے لیکن انگلینڈ سے وکالت کی ڈگری حاصل کرنے والے اویسی کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ قانون کے دائرے میں رہ کر باتیں کرتے ہیں اور خود کو ’صد فیصد بھارتی قوم پرست‘ کہتے ہیں۔

اویسی وہی سب کچھ کہتے ہیں جو آج کے ہندوستانی مسلمان سننا چاہتے ہیں۔ وہ ان کی غریبی، بے روزگاری اور عدم تحفظ پر آواز اٹھاتے ہیں۔

قومی لیڈر
150118223524_mim_mp_asaduddin_owaisi_624x351_pti_nocredit.jpg

ان کے فن خطابت کے حامیوں میں سبرامنیم سوامی بھی شامل ہیں
بہار میں اپنے انتخاب لڑنے کے فیصلے پر انھوں نے مجھے بتایا کہ ریاست میں 18 فیصد مسلمان ہیں لیکن صرف سات فیصد مسلم رکن اسمبلی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ مسلمانوں کو ان کا حق دلانے اور انھیں سیاست میں برابر کا شریک اور مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔

آزادی سے پہلے جناح مسلم کمیونٹی کے رہنما تسلیم کیے جاتے تھے۔ آزادی کے بعد بھارتی مسلمانوں کا کوئی قومی لیڈر بن کر کبھی نہیں ابھر سکا۔

مسلمانوں کی قیادت ہمیشہ سیکولر ہندو رہنماؤں نے کرنے کا دعوی کیا ہے جن میں نتیش کمار، لالو یادو اور ملائم سنگھ یادو شامل ہیں۔ کانگریس ایک بڑی پارٹی کی حیثیت سے مسلم کمیونٹی کی قیادت کا دعوی کرتی ہے۔

لیکن اویسی کہتے ہیں کہ سیکولر رہنماؤں اور کانگریس پارٹی نے اب تک مسلمانوں کو ووٹ بینک کی طرح استعمال کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں وہ صرف مسلمانوں کی ترقی چاہتے ہیں ٹھیک اسی طرح سے جیسے وہ دلتوں (پسماندہ طبقوں) کی ترقی چاہتے ہیں۔

مہاراشٹر اسمبلی کی طرح ہی وہ بہار میں مسلمانوں کے ساتھ دلت امیدواروں کو بھی انتخابی میدان میں اتارنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

عام خیال یہ ہے کہ اویسی کے بہار میں انتخابات لڑنے سے این ڈی اے کو فائدہ ہو گا۔ جن علاقوں سے وہ اپنے امیدوار کھڑا کریں گے وہاں پچھلی بار (2010) نتیش کمار کی پارٹی جنتا دل یونائیٹڈ کی زبردست جیت ہوئی تھی۔

بہار کے انتخابات کا نتیجہ کچھ بھی ہو وہ مسلم ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر اویسی کچھ سیٹیں نکال لے جاتے ہیں اور سنہ 2017 میں اترپردیش اسمبلی میں انھیں کامیابی ملتی ہے تو وہ مسلمانوں کے قومی سطح کے لیڈر بن سکتے ہیں۔

لیکن اس کے ساتھ ایک سوال یہ ابھرتا ہے کہ کیا یہ جمہوریت کے لیے اچھی خبر ہے؟
 

x boy

محفلین
ہم کسی پر 100 فیصد بھروسہ نہیں کرسکتے،،
پیسا بولتا ہے کبھی بھی بول سکتا ہے سب کھیل ریل پیل پیسا کا ہے ،،
 

تہذیب

محفلین
اویسی ہندوستان کے مسلمانوں کے اکیسویں صدی کے جناح تو نہیں ہیں۔ البتہ ان کو اکیسویں صدی کے نواب بہادر یار جنگ قرار دیا جا سکتا ہے ۔
 

تہذیب

محفلین
دونوں کا انداز بیاں ایک سا ہے ، شعلہ بیاں مقرر مگر بات دلیل کے ساتھ اور منطقی ۔
اور دونوں حیدرآبادی ۔۔۔۔۔۔۔
 

فلک شیر

محفلین
دونوں کا انداز بیاں ایک سا ہے ، شعلہ بیاں مقرر مگر بات دلیل کے ساتھ اور منطقی ۔
اور دونوں حیدرآبادی ۔۔۔۔۔۔۔
پہلی نظر میں آپ کی بات سیدھی تیر کی طرح لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ دونوں میں واقعی کچھ مماثلتیں ضرور ہیں۔۔۔۔۔۔لیکن پھر غور کیا، تو ذہن میں آیا ، کہ بہادر یار جنگ کے ساتھ اویسی صاحب کو شعلہ بیانی کی وجہ سے ملانا کچھ مبالغہ معلوم پڑتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دونوں کی شعلہ بیانی ،خود آگ مختلف سوتوں سے لیتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یکسر مختلف ۔۔۔۔۔۔۔ ایک سراسر وفور عشق اور دوسرا کامیاب عملی سیاستدان
خیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جناح صاحب کی نسبت آپ کی تشبیہ اولیٰ و اقرب ہے
 

محمدظہیر

محفلین
اویسی دکن میں ہندی سمجھنے والے مسلم نوجوانوں میں کافی مشہور ہیں۔
انڈیا میںمختلف زبانیں اور کلچر ہیں۔ مسلمانوں کا قومی قائد بننا بہت مشکل ہے شاید ناممکن کے برابر ہے۔
 

محمدظہیر

محفلین
آزادی سے پہلے جناح مسلم کمیونٹی کے رہنما تسلیم کیے جاتے تھے۔ آزادی کے بعد بھارتی مسلمانوں کا کوئی قومی لیڈر بن کر کبھی نہیں ابھر سکا۔
تقسیم سے قبل ہجرت نہ کرنے والے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو جناح کون ہیں معلوم نہیں تھا۔
 

عباس بشیر

محفلین
دوقومی نظریے کا سخت گیر مخالف ہے یہ شخص۔
میرا ایک انڈین دوست جس کا تعلق حیدرآباد سے ہے وہ بتاتا ہے یہ ہمارے علاقے کے غنڈے ہیں۔ اپنی دہشت کو ہمیشہ قائم رکھتے ہیں۔ چاہئے وہ عام مسلمان ہوں یا پھر ہندو
 

محمدظہیر

محفلین
دوقومی نظریے کا سخت گیر مخالف ہے یہ شخص۔
میرا ایک انڈین دوست جس کا تعلق حیدرآباد سے ہے وہ بتاتا ہے یہ ہمارے علاقے کے غنڈے ہیں۔ اپنی دہشت کو ہمیشہ قائم رکھتے ہیں۔ چاہئے وہ عام مسلمان ہوں یا پھر ہندو
ہاں انڈیا کے مسلمان دو قومی نظریے کو قبول نہیں کرتے۔ اسی لیے انڈیا میں ہیں ۔ البتہ غنڈہ گردی کی بات کے لیے ثبوت چاہیے۔
 
بڑا قائد بننے کے لئے صرف شعلہ بیان مقرر ہونا ایک صفت تو ہو سکتا ہے مگر صرف یہ صفت کافی نہیں۔ اس مقصد کے لئے مضبوط کردار ہونا بھی ضروری ہے اور ان باتوں کا عامل جن کا مقرر اپنی تقریروں میں پرچار کرتا ہو۔ ان معاملات میں اویسی صاحب کی شہرت کیسی ہے؟
 

عباس بشیر

محفلین
ہاں انڈیا کے مسلمان دو قومی نظریے کو قبول نہیں کرتے۔ اسی لیے انڈیا میں ہیں ۔ البتہ غنڈہ گردی کی بات کے لیے ثبوت چاہیے۔
میں نے دو لوگوں سے بات کی تھی مجھے تو یہی تاثر ملا۔ باقی رہی بات ثبوت کی تو وہ انڈیا والے جانے جی۔

میرے لئے تو یہی کافی ہے کہ وہ دو قومی نظریے کا مخالف ہے۔
 

محمدظہیر

محفلین
بڑا قائد بننے کے لئے صرف شعلہ بیان مقرر ہونا ایک صفت تو ہو سکتا ہے مگر صرف یہ صفت کافی نہیں۔ اس مقصد کے لئے مضبوط کردار ہونا بھی ضروری ہے اور ان باتوں کا عامل جن کا مقرر اپنی تقریروں میں پرچار کرتا ہو۔ ان معاملات میں اویسی صاحب کی شہرت کیسی ہے؟
اسد اویسی صاحب کے کردار میں نقص نہیں ہےاس بات کی گواہی ان کو جاننے والے غیر مسلم بھی دیتے ہیں۔
 

محمدظہیر

محفلین
میں نے دو لوگوں سے بات کی تھی مجھے تو یہی تاثر ملا۔ باقی رہی بات ثبوت کی تو وہ انڈیا والے جانے جی۔

میرے لئے تو یہی کافی ہے کہ وہ دو قومی نظریے کا مخالف ہے۔
بعض لوگ جو ان کی تنظیم سے وابستہ ہیں ہو سکتا ہے اپنے فائدے کے لیے ان کی تنظیم کا نام سہارا لے رہے ہوں۔ واضح رہے میرا تعلق انڈیا سے ہے انڈیا کے حالات اچھی طرح معلوم ہیں ۔ معتبر ذرایع سے غنڈہ گردی کی خبر مجھ تک نہیں پہنچی ہے۔
انڈیا کے مسلمانوں کے مطابق دو قومی نظریہ ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔ اس لیے اس کی مخالف کرتے ہیں۔ آپ کو اختلاف کا بالکل حق ہے۔
 
انڈیا کے مسلمانوں کے مطابق دو قومی نظریہ ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔ اس لیے اس کی مخالف کرتے ہیں۔ آپ کو اختلاف کا بالکل حق ہے۔
اگر بھارتی مسلمان دو قومی نظریے کی مخالفت نہیں کرینگے تو ان کا جینا محال ہوجائے گا۔ البتہ انتہا پسند ہندو تنظیمیں ضرور اپنے طرزعمل سے دو قومی نظریے کا پر چار کرتی رہتی ہیں بھارت میں :)
 

عباس بشیر

محفلین
بعض لوگ جو ان کی تنظیم سے وابستہ ہیں ہو سکتا ہے اپنے فائدے کے لیے ان کی تنظیم کا نام سہارا لے رہے ہوں۔ واضح رہے میرا تعلق انڈیا سے ہے انڈیا کے حالات اچھی طرح معلوم ہیں ۔ معتبر ذرایع سے غنڈہ گردی کی خبر مجھ تک نہیں پہنچی ہے۔
انڈیا کے مسلمانوں کے مطابق دو قومی نظریہ ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔ اس لیے اس کی مخالف کرتے ہیں۔ آپ کو اختلاف کا بالکل حق ہے۔

جی بھائی میرا تو صرف دو لوگوں سے بات کا تجربہ رہا وہ بیان کر رہا ہوں۔

ہمارے لئے تو دوقومی نظریہ ہی سب کچھ ہے۔ اس لئے کم از کم میرے جیسے نوجوان اللہ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
فلحال میں بات کو یہی پر ختم کرتا ہوں آخر ہم اسلامی بھائی چارے پر بھی یقین رکھتے ہیں :)
 
آخری تدوین:
Top