کیا بسم اللہ کے لئے 786 استعمال کیا جا سکتا ہے؟

فاروقی

معطل
5ulj51.gif

سوال:
کیا بسم اللہ کے لئے 786 استعمال کیا جا سکتا ہے؟​




جواب:٧٨٦ بسم اللہ الرحمن الرحیم یا'' ہرے کرشنا''؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم کے٧٨٦ا عداد نہیں ہیں بلکہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کے اعداد٧٨٧ ہوتے ہیں تفصیلات حسب ذیل ہیں:
ب س م ا ل ل ہ (بسم اللہ)
٢ ٦٠ ٤٠ ١ ٣٠ ٣٠ ٥ (١٦٨)
ا ل ر ح م ا ن (الرحمن)
١ ٣٠ ٢٠٠ ٨ ٤٠ ١ ٥٠ (٣٣٠)
ا ل ر ح ی م (الرحیم)
١ ٣٠ ٢٠٠ ٨ ١٠ ٤٠ (٢٨٩)
مجموعی نمبر٧٨٧ ہوتا ہے جبکہ ''ہرے کرشنا'' اور روی شنکرکا مجموعی نمبر٧٨٦ ہوتا ہے تفصیلات حسب ذیل ہیں:
ہ ر ی ک ر ش ن ا (ہرے کرشنا)
٥ ٢٠٠ ١٠ ٢٠ ٢٠٠ ٣٠٠ ٥٠ ١ (٧٨٦)
ر و ی ش ن ک ر (روی شنکر)
٢٠٠ ٦ ١٠ ٣٠٠ ٥٠ ٢٠ ٢٠٠ (٧٨٦)
بالفرض اگر مان بھی لیا جائے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کے اعداد ٧٨٦ ہی ہیں جیساکہ بہت سارے مسلمانوں کا اس پر اصرار ہے تو اب ٧٨٦ نمبر لکھ کر ہندو ''ہرے کرشنا''پڑھ لیں گے اور مسلمان بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ لیں گے،رام رحیم دونوں ایک کی کتنی اچھی مماثلت ہوگی، العیاذ باللہ ثم العیاذ باللہ۔
میرے بھائی! بسم اللہ الرحمن الرحیم کو اعداد میں تبدیل کرنا اور یہ باور کرانا کہ٧٨٦ اس کے اعداد ہیں ایک گمراہ کن بات ہے ۔
ذرا سوچئے کہ کیا قرآن کریم علم ہندسہ اور جیومیٹری کی کتاب ہے ؟؟؟
کیا اس کا نزول اسی لئے ہوا تھا کہ اسے اعداد میں تبدیل کیا جائے ؟نہیں، ہرگز نہیں۔
اللہ ہم سب کو ایسی گمراہیوں سے بچائے آمین یارب العالمین(تفصیل کیلئے دیکھئے کتاب''بسم اللہ کے فضائل واحکام۔انصار زبیر محمدی)


سورس
 

شمشاد

لائبریرین
جی بسم اللہ کے لیے تو کیا کسی بھی آیت یا نام کے لیے کوئی بھی عددی ہندسہ لکھنا انتہائی غلط ہے۔ جو بھی ایسا کرتا ہے وہ جادو ٹونا کو پروموٹ کرتا ہے۔ اس سے بچنا چاہیے۔
 

arifkarim

معطل
کمال ہے۔ کیا آپنے کبھی قرآنی آیات اور الفاظ کی ترتیب دیکھی ہے؟ ایسی نفیس ترتیب آجکل کا طاقت وار ترین کمپیوٹر تک نہیں جنریٹ کر سکتا؛
image001.gif

image002.gif

image003.jpg

مزید:
http://www.bilal-prayer.com/Quran_en.html
http://www.miraclesofthequran.com/mathematical_index.html

آپ ماڈرن سائنس سے قرآن پاک کی سچائی ثابت کر سکتے ہیں، اسکے لیے بندقوں اور ڈنڈوں کی ضرورت نہیں!
 

arifkarim

معطل
اس سے آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
صرف یہ کہ قرآن پاک دنیا و آخرت دونوں کے علوم سے بھرا پڑا ہے۔ قرآن پاک کے الفاظ و آیات و سورتوں کی تعداد میں ایسی لاجک ہے کہ تمام دنیا بھر کے انسان ملکر بھی ایسی کتاب پیش نہیں کر سکتے!
اسلئے قرآن پاک کو محض دینی کتاب کہنا درست نہ ہوگا۔۔۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
میرا پوچھنے کا مقصد یہ تھا کہ اوپر جو تصاویر آپ نے دی ہیں، اس سے آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ

صرف یہ کہ قرآن پاک دنیا و آخرت دونوں کے علوم سے بھرا پڑا ہے۔ قرآن پاک کے الفاظ و آیات و سورتوں کی تعداد میں ایسی لاجک ہے کہ تمام دنیا بھر کے انسان ملکر بھی ایسی کتاب پیش نہیں کر سکتے!
اسلئے قرآن پاک کو محض دینی کتاب کہنا درست نہ ہوگا۔۔۔۔۔۔

تو کون کہتا ہے کہ قرآن صرف ایک دینی کتاب ہے۔ پڑھو اور جزدان میں‌ لپیٹ کر رکھ دو۔ اس پر تو عمل کرنا چاہیے۔ لیکن کیا آپ کا اس سے یہ مطلب تو نہیں کہ بسم اللہ کی جگہ 786 لکھنا جائز ہے؟
 

آبی ٹوکول

محفلین
میرا پوچھنے کا مقصد یہ تھا کہ اوپر جو تصاویر آپ نے دی ہیں، اس سے آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ



تو کون کہتا ہے کہ قرآن صرف ایک دینی کتاب ہے۔ پڑھو اور جزدان میں‌ لپیٹ کر رکھ دو۔ اس پر تو عمل کرنا چاہیے۔ لیکن کیا آپ کا اس سے یہ مطلب تو نہیں کہ بسم اللہ کی جگہ 786 لکھنا جائز ہے؟
اگر بات فقط 786 کی بسم اللہ کی جگہ لکھنے کے جائز ہا ناجائز ہونے کی ہے تو ملاحظہ کیجیئے اس ضمن میں مرکزی دارالعلوم دیوبند کا درج زیل فتوٰی ۔۔


کچھ لوگ بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بجائے 786 لکھتے ہیں، کیا یہ درست ہے؟ اگر درست ہے تو براہ کرم، قرآن وحدیث کے حوالے سے اس کی وضاحت کریں۔


27 Apr, 2008 Answer: 3665

فتوی: 562/ ب= 451/ ب



مسنون طریقہ یہ ہے کہ پوری بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھی جائے، اسی میں اجر و ثواب اور خیر و برکت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی طریقہ رہا ہے، جو لوگ بسم اللہ کی جگہ اس کا نقش 786 لکھتے ہیں وہ محض قرآنی آیت کو بے ادبی سے بچانے کے لیے لکھتے ہیں ان کا یہ عمل بھی درست ہے۔


واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
http://darulifta-deoband.org/urdu/viewfatwa_u.jsp?ID=3665
 

شمشاد

لائبریرین
اگر بات بے ادبی کی ہے تو پھر لکھنے کی ہی کیا ضرورت ہے؟

دیکھئے جناب جس طرح آپ لوگوں نے الف بے کے اعداد نکالے ہوئے ہیں، اسی طرح پھر انگریزی حروف کے بھی اعداد نکالے ہوئے ہوں گے۔ فرض کریں A کا عدد ایک، B کا دو C کا تین ۔۔۔۔۔الخ، تو God کے اعداد کی جمع 26 آتی ہے۔ اب ذرا سوچیں کہ Dog کے اعداد کی کیا جمع ہو گی۔ اس لیے برادر یہ فتویٰ میں نہیں سمجھتا کہ ٹھیک ہے۔ اگر لکھنا ہی ہے تو پوری بسم اللہ لکھیں، نہیں تو لکھتے وقت بسم اللہ پڑھ لینا ہی کافی ہے۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
اگر بات بے ادبی کی ہے تو پھر لکھنے کی ہی کیا ضرورت ہے؟

دیکھئے جناب جس طرح آپ لوگوں نے الف بے کے اعداد نکالے ہوئے ہیں، اسی طرح پھر انگریزی حروف کے بھی اعداد نکالے ہوئے ہوں گے۔ فرض کریں A کا عدد ایک، B کا دو C کا تین ۔۔۔۔۔الخ، تو God کے اعداد کی جمع 26 آتی ہے۔ اب ذرا سوچیں کہ Dog کے اعداد کی کیا جمع ہو گی۔ اس لیے برادر یہ فتویٰ میں نہیں سمجھتا کہ ٹھیک ہے۔ اگر لکھنا ہی ہے تو پوری بسم اللہ لکھیں، نہیں تو لکھتے وقت بسم اللہ پڑھ لینا ہی کافی ہے۔
جہاں تک بات ہے قرآنی حروف اور مقدس اسمائے مبارکہ کے آداب کی تو اس کے بارے میں آج تک تو یہی پڑھا تھا کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ فلاں اوراق کی توہین ہوگی ان پر اسمائے مبارکہ تحریر کرئے اسی وجہ سے فقہائے اسلام کے ہاں یہ مسئلہ متفقہ ہےکہ قرآن مقدس کو دشمنان اسلام کی بستیوں میں نہ لے کر جایا جائے کہ کہیں قرآن مقدس انکے ہاتھ لگ جائے اور وہ اسکی بے حرمتی کریں ۔اور ساتھ میں یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ اگر کسی چیز میں نفع اور نقصان دونوں پائے جائیں تو اس کا ترک ہی اولٰی ہے کہ نفع کے حصول سے بہتر نقصان کے ضرر سے بچنا ہوتا ہے ۔ باقی آپ کا یہ کہنا کہ یہ قاعدے ہم لوگوں کے وضع کردہ ہیں تو بھائی عرض یہ ہے کہ علم الاعداد کے بارے میں، میں تو کچھ بھی نہیں جانتا ہاں البتہ اتنا یاد ہے کہ کہیں پڑھا تھا کہ علم جمل کے اعتبار سے 786 بسم اللہ کے عدد ہیں اور یہ علم جمل عربی حروف تہجی کے ساتھ ہی خاص ہے ۔ جبکہ ہری کرشنا اصل میں سسنکرت کا لفظ ہے اور ہندی یا سنسکرت میں علم جمل کا طریقہ نہ تو رائج ہے اور نہ ہی ہوسکتا ہے کیونکہ عربی اور سنسکرت حرورف تہجی باہم آپس میں اختلاف ہے عربی حروف تہجی کا پہلا حرف الف سنسکرت میں زبان موجود ہی نہیں اور نہ ہی وہ لوگ اسے شبد یعنی حرف مانتے ہیں اور اس کے علاوہ بھی عربی اور سنسکرت حروف تہجی کی آپس میں کوئی مطابقت نہیں کہ عربی کے حروف تہجی28 ہیں جبکہ سنسکرت کہ 36 ہیں ۔ بحرحال میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا جس کسی کو اس قصے کی صحیح معلومات ہو وہ یہاں بیان کرسکتا ہے ۔
 

شمشاد

لائبریرین
برادر جب تک غیر مسلم قرآن کو پڑھیں گے نہیں تو اسلام کی طرف کیسے راغب ہوں گے؟ جہاں تک ہمارے طور طریقوں کی بات ہے تو ان کی طرف دیکھ کر کم ہی ایسے لوگ ہوں گے جو مسلمان ہوں گے۔ یورپ امریکہ میں سب سے زیادہ پھیلتا ہوا مذہب اسلام ہی ہے۔ اور وہ لوگ قرآن پڑھ کر اور سمجھ کر ہی مسلمان ہو رہے ہیں۔

بین الاقوامی اسلامی فاؤنڈیشن جس کے سربراہ مرحوم ڈاکٹر احمد دیدات تھے، انہوں نے لاکھوں کی تعداد میں قرآن مع انگریزی ترجمہ کے یورپ اور امریکہ میں غیر مسلموں کو ہی تقسیم کیئے تھے اور اب بھی تقسیم ہو رہے ہیں۔ اس کا ہدیہ وہ برائے نام لیتے ہیں۔

اُن ممالک میں لوگوں کی ایک عادت ہوتی ہے کہ اخبار، رسالے یا کوئی کتاب حمام میں بیٹھے پڑھتے رہتے ہیں۔ تو وہ قرآن جو اُن ممالک میں تقسیم کیے جاتے ہیں اُن پر یہ ہدایت درج ہوتی ہے کہ براہ مہربانی اسے حمام میں بیٹھ کر نہ پڑھیں۔

اور اگر کسی غیر مسلم نے قرآن کسی ناپاک مقصد کے لیے حاصل کرنا ہے تو وہ کسی بھی دکان سے خرید کر اپنا مقصد حاصل کر سکتا ہے۔

اللہ کریم ہمیں قرآن پڑھنے، اسے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
 

arifkarim

معطل
میرا پوچھنے کا مقصد یہ تھا کہ اوپر جو تصاویر آپ نے دی ہیں، اس سے آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ
تو کون کہتا ہے کہ قرآن صرف ایک دینی کتاب ہے۔ پڑھو اور جزدان میں‌ لپیٹ کر رکھ دو۔ اس پر تو عمل کرنا چاہیے۔ لیکن کیا آپ کا اس سے یہ مطلب تو نہیں کہ بسم اللہ کی جگہ 786 لکھنا جائز ہے؟
اگر آپنے کبھی بچپن میں ڈاٹس کے اندر سے لائن گزاری ہو تو آپ بخوبی واقف ہوں گے کہ انکو ملانے اسے ایک شکل بنتی ہے۔ اوپر کے گراف میں آیات اور سورتوں کو افقی اور عمودی سمت میں نمبر وائزآویزا کیا گیا ہے۔ باہر کے ڈاٹس یعنی آؤٹ لائنز ملانے پر لفظ اللہ اور محمد بنتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ اتنی ایکزیکٹ اور نفیس ترتیب جو قرآن پاک میں موجود ہے، وہ کسی انسان کا کام نہیں بلکہ صرف اللہ تعالی ہی یہ کام سر انجام دےسکتا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ لفظ اللہ زیادہ واضح ظاہر ہو رہا جبکہ لفظ محمد کم واضح ہے، اسکا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی خدا تعالی کی ایک مجسم قدرت تھے، جبکہ تمام قدرتوں کا مجمع صرف ایک ذات باری ہے!

البتہ میری رائے میں قرآنی آیات کو اعداد سے لکھنا درست نہیں۔ اگر یہ سب کرنے کا مقصد قرآن پاک میں کسی خوبی کو ظاہر کرنا ہے تو ٹھیک، دوسری صورت میں جائز نہیں۔۔۔۔۔
 

خرم

محفلین
اعداد کا الفاظ کے ساتھ خاص تعلق ہے اور یہ تعلق صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ اسی تناظر میں بسم اللہ یا لفظ محمد کے اعداد لکھے جاتے ہیں۔ اگر ہمیں کسی علم سے ناواقفیت ہو تو وہ اس کے نہ ہونے کی یا ناجائز ہونے کی دلیل نہیں‌بن جاتا۔ اسی طرح قرآن کے اعداد کو جادو ٹونے سے منسلک کرنا بھی نامناسب ہے سورہ فاتحہ کو سات بار پڑھ کر دم کرنا احادیث میں آیا ہے۔ اسی طرح کئی اور باتیں ہیں جو ثابت ہیں۔ علم الاعداد ایک علم ہے جو نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اصحاب کو تعلیم ہوا یہ اور بات کہ ہر کسی کو اس کا علم نہ تو ہوتا ہے اور نہ ہی دیا جاتا ہے۔
 

دوست

محفلین
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ فلق اور سورہ الناس جادو سے بچنے کے لیے اتاری گئیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
شاکر بھائی جادو سے بچنے کے لیے نہیں، بلکہ جو جادو ہو چکا تھا اس کا اثر دور کرنے کے لیے۔
 

ابو کاشان

محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پڑھا جا رہا ہے۔
صحیح پرھا ہے نا؟
اب بتائیں اس کو لکھنے میں کتنی دیر لگتی ہے؟
نامانوس بھی نہیں کہ سمجھ ہی نہیں آ رہا کہ کیسے لکھیں۔
4 لفظ ہیں۔
بسم ۔ (آسان سا لفظ ہے۔)
اللہ - (سب سے زیادہ لکھا جانے والا لفظ ہے۔)
الرحمن - (اکثر ناموں کا حصہ ہوتا ہے۔)
الرحیم - (یہ بھی اکثر ناموں میں استعمال ہوتا ہے۔)
 
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
بھا ئیو ، اللہ سبحانہ و تعالی کے ناموں کو کسی اور حرف یا رقم میں تبدیل کرنا کسی صورت جائز نہیں ، رہا معاملہ ادب اور بے ادبی کا تو اگر بے ادبی کا اندیشہ ہو تو لکھا ہی نہ جائے ، کسی تحریر کےآغاز میں لکھنے والے زبانی بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ لے اور پڑھنے والے بھی
اس موضوع پر کئی سال پہلے میں نے ایک مضمون لکھا تھا اس کا کچھ حصہ یہاں نقل کر رہا ہوں ، ملاحظہ فرمایے ،




بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
اِن اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدْہ، وَ نَستَعِینْہ، وَ نَستَغفِرْہ، وَ نَعَوْذْ بَاللَّہِ مِن شْرْورِ اَنفْسِنَا وَ مَن سِیَّاَتِ اَعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہْ فَلا مْضِلَّ لَہْ وَ مَن یْضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہْ ، وَ اَشھَدْ اَن لا اِلٰہَ اِلَّا اللَّہْ وَحدَہْ لا شَرِیکَ لَہْ ، وَ اَشھَدْ اَن مْحمَداً عَبدہ، وَ رَسْو لْہ، ۔
بے شک خالص تعریف اللہ کے لئیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا معبود نہیں اُسکے عِلاوہ جِس جِسکی بھی عِبادت ہوتی ہے وہ جھوٹا معبود اور اللہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں :
ہر قوم کا اپنا معاشرہ ہوتا ہے جو اُس کے اِخلاقی اور مذہبی قواعد کے مُطابق بنتا ہے ، اِسی طرح مُسلمانوں کا بھی اِسلامی معاشرہ تھا ، جی ہاں ، تھا ، اب نہیں ہے ، ہے تو صِرف کِتابوں میں ہی ہے ، دُنیاءِ رنگ و بُو میں اب اِس وقت ایسا کوئی معاشرہ نہیں جِسے اِسلامی معاشرہ کہا جا سکے ، جِسکے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ یہ ہی وہ مُسلم معاشرہ ہے جِس کی تشکیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی جِسکے عقائد قواعد اور ضوابط کی تشریح صحابہ رضی اللہ عنہُم نے اپنے اقوال و افعال سے کی ، اب تو غیروں کی رسمیں اور نام ہے اِسلام کا ، کُفریہ عقائد ہیں اور نام ہے عِلم الکلام کا ، مُخالفت ہے سُنّت کی اور نام لیا جاتا ہے خیر الاَنام کا ،شرکیہ کام ہیں اور نام لیا جاتا ہے توحید کا ، جہاں یہ سب کُچھ ہو وہ اور تو کچھ بھی ہو سکتا ہے اِسلامی
معاشرہ ہر گِز نہیں ۔
اِنسان کی زندگی میں بہت سی عادات اور بہت سے عقائد وقتاً فوقتاً داخل ہوتے رہتے ہیں ، سمجھ دار اِنسان کِسی عادت یا عقیدے کو اپنانے سے پہلے اُس کی چھان پھٹک کر لیتا ہے کہ یہ کہاں سے آرہا ہے اور اِسے اپنانا چاہیئے کہ نہیں ، اور بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ کِسی کے عقیدے کو خراب کرنے کے لیے ایسی باتیں یا کام اُس کی زندگی میں داخل کیے جاتے ہیں جو اُس کو اپنے راستے سے ہٹا دیتے ہیں ، یہ سب کُچھ عام طور پر ہر معاشرے میں انفرادی طور پر بھی ہوتا نظر آتا ہے اور اجتماعی طور پر بھی ۔
ہمارا اِسلامی معاشرہ اِس فتنہ انگیزی کا شکار ہوا ہے ، کافروں اور مُنافقوں نے مُسلمانوں کو اُنکے اصل حق والے راستے سے ہٹا کر شرک اور بدعات کی راہوں پر گامزن کر دِیا ، ایسے ایسے عقائد اُن کے دِلوں اور دِماغوں میں ڈال دئیے جِنکی وجہ سے وہ اپنے ربِ واحد اللہ عزّ و جلّ کو بُھول بیٹھے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ، اُنکی تعلیمات کو فراموش کر بیٹھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ، جِن کی صداقت ، امانت ، تقوے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابع فرمانی کی گو اہیاں اِنسان تو اِنسان ، اِنسانوں کے مالک و خالق اللہ تعالیٰ نے دی ہیں ، اِن سب تعلیمات کو بُھلانے کے کتنے بھیانک نتائج نکلے ہیں :::
کہیں حُبِ آلِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے بگاڑ پیدا کیا جا رہا ہے ، کہیں تصوف کے نام سے اِسلامی عقائد کو تباہ کیا جا رہا ہے ، کہیں حقِ اہلِ بیت کے نام پہ فساد بپا کیا جاتا ہے ، کبھی باطنی علوم کے نام پر شریعت کو قُربان کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ، کبھی فلسفہ اور عِلمِ کلام کے پردے میں سیدھے سادھے دِین اور اُسکے پیروکاروں کو الفاظ کے چکروں میں گُھمایا جاتا ہے ، کبھی ’’’عِلمِ اَعداد ‘‘‘کے نام سے شیطانیت کو پھیلایا جاتا ہے ، کبھی ’’’عِلمِ جفر ‘‘‘ کے نام پر اللہ اور اُسکی کِتاب کی توہین کی جاتی ہے ، افسوس اِس بات کا نہیں کہ کافر اور مُنافق یہ کاروائیاں کیوں کرتے ہیں ، دُکھ تو اِس بات کا ہے کہ مُسلمان کِس بے پروائی اور غفلت سے اِن بد بختوں کا شکار ہو رہے ہیں ، اِن سب چوروں نے مُسلمانوں کا اِیمان لُوٹا ، اور اِسلام کے نام پر لُوٹا ، اِسلام کا لِبادہ اوڑھ کر اِیمان کا نقاب لگا کر لُوٹا ، اِن چوروں کی نشاندہی کرنا ، اِنہیں پکڑکر اِسلام اور مُسلمانوں میں سے خارج کرنا
بہت ضروری ہے ، میں اِسوقت اِن چوروں میں سے ایک چور کی نشاندہی کر رہا ہوں اور وہ چور ہے::::

۔۔ '''''''''''''''' عِلمِ اَعداد اور عِلمِ جُفر '''''''''''۔۔'''
اِس چور کو پیدا کرنے اور پالنے والوں نے اِسے مُسلمانوں کے بزرگوں میں سے ایک دو جلیل القدر ہستیوں سے منسُوب کر کے مُسلمانوں کی صفوں میں گُھسا دِیا ، اور یہ لُٹیرا اُس وقت سے اب تک مُسلمانوں کا اِیمان لُوٹ رہا ہے اور اُن سے اللہ تبارک و تعالیٰ اور اُس کی کتابِ عظیم قُرآن الکریم کی توہین کروا رہا ہے ، اِس کی شر اَنگیزیوں میں سے سب سے بڑا شر یہ ہے کہ مُسلمانوں کو اللہ کی ذات پاک سے کُچھ اِس طرح لا تعلق اور بے عِلم کر دِیا گیا کہ وہ اپنے آپ کو '''عارف باللہ ''' سمجھتے ہیں اللہ کی توحید کا نام لیتے ہیں مگر اللہ کا نام نہیں ، اللہ تعالیٰ ہمیں ہر بد عقیدگی سے محفوظ فرمائے ۔
'' عِلمِ اَعداد '' جیسا کہ نام سے ظاہر کہ اَعداد یعنی ہندسوں ''' ایک دو تین ١ ، ٢ ، ٣ ، ''' وغیرہ کے متعلق کوئی عِلم ہے ، پڑہنے سُننے والوں کے دِلوں میں یقیناً یہ سوال آئے گا یا آ چُکا ہو گا کہ دُنیا میں نئے اور پُرانے بہت سے عُلوم ہیں ، اِن میں سے ، میں اِس '' علمِ اَعداد '' کو ا ِیمان لوٹنے والوں ، اور قُرآن اور رحمان کی توہین کرنے والے عُلوم میں کیوں شُمار کر رہا ہوں ، جواب جاننے کے لیے اِس عِلم کی تاریخ پر ایک سرسری نظر کرنا بہت ضروری ہے ،
پُرانے زمانے کی آرائین ، مصری ، یونانی اور عَبرانی قوموں میں اِس عِلم کا بہت رواج تھا ، جِس طرح عِلمِ نجوم کا تعلق ستاروں اور سیاروں کی فرضی چالوں اور خیالی اثرات سے ہے (علِمِ نُجُوم کے بارے میں ایک درس الگ سے ہو چُکا ہے جِس کو مضمون کی صورت میں بھی تیار کر چکا ہوں ) ، اِسی طرح عِلمِ اَعداد کا تعلق بھی شیطان کے دئیے ہوئے خیالی آسمانی دیوتاؤں کی کہانیوں سے ہے ، ،
بابل کے بادشاہ نمرود کا ایک مُقّرب ، اُن کا ایک ولی ، ایک نجومی تارخ بن ناحور بن ساروغ تھا ، جو نمرود کی بادشاہت میں پُوجے جانے والے بُتوں میں سے سب سے بڑے بُت '' بعل '' کا مجاور تھا تاریخ کی اکثر کتابوں مثلاً ''' تاریخ طبری ، البدایہ و النھایہ ، التدوین فی اَخبار قزوین ، تاریخ الیعقوبی ، تاریخ الکامل ''' میں یہ بات صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ یہ وہ آذر ہے جِسے قُرآن میں خلیل اللہ اِبراہیم علیہ السّلام کا باپ کہا گیا ہے ، سورت الانعام / آیت 74 ، یہ آذر یا تارخ مرکزی عِبادت خانے کا گدّی نشین تھا اور '' بعل '' بُت کا خلیفہ تھا اور نمرود کی بادشاہت میں اُسکے مذہب کا اعلیٰ حضرت تھا ، اور یہ ا علیٰ حضرت اپنے وقت کے بہت بڑے نجومی اور ، عِلمِ اَعداد کے ماہر تھے اور اُنہوں نے ہی اپنے نو ( ٩ ) دیوی دیوتاؤں کے نام سے نو ( ٩)ابتدائی ہندسے یا اَعداد کو منسُوب کیا ۔
مُسلمانوں کی فتوحات بڑہنے کے ساتھ ساتھ جب دیگر بیرونی عُلوم مُسلمانوں تک پُہنچے تو یہ عِلم بھی آیا ، مُنافقوں اور اِسلام کے درپردہ دشمنوں نے اور بہت سے پردوں کی طرح ایک پردہ اپنی غلیظ ذہینت اور شیطانی عزائم پر عِلمِ اَعداد کا بھی ڈالا ، اور مُسلمانوں میں اِسے داخل کرنے کے لئیے اِس میں اِضافہ بھی کیا ، اور اِس اِضافے کا نام ''' عِلمِ جفر ''' رکھا ، اور عِلم اَعداد میں اِستعمال ہونے والے رومن اِلفاظ کی ترتیب پر ہی عربی حروف کی ترتیب بنائی گئی ، اِن حروف کو حروفِ اَبجد کہا جاتا ہے ، اور اِس نہادِ '' عِلمِ جفر '' کو بعض لوگ علی رضی اللہ عنہُ سے منسُوب کرتے ہیں اور بعض شرک کی اِس پوٹ کو جناب جعفر (صادق) رحمۃ اللہ علیہ بن محمد بن الباقر کی اِیجاد اور ملکیت قرار دیتے ہیں ، کُچھ کا کہنا ہے کہ یہ عربی حروف کے مؤجد مُرہ بن مُرّہ کے آٹھ بیٹوں کے نام ہیں یہاں تک تو عِلم اَعداد ، عِلمِ جُفر ، عِلمِ ہندسہ ، اور حروفِ اَبجد کی تاریخ کا سرسری جائزہ ہوا
اب یہ دیکھتے ہیں کہ عربی حروفِ تہجی کو رومن ترتیب کے مُطابق حروفِ اَبجد کیوں بنایا گیا ،
حروفِ اَبجد کو رومن حروف سے اِس لیے ملایا گیا ، کہ ، جو عددی قدرvalue of word رومن حروف کی عِلمِ اَعداد میں مقرر کی گئی تھی ، اُس عددی قدر کو عربی حروف پر بھی اُسی طرح برقرار رکھا جا سکے ، تا کہ ناموں اور دیگر اِلفاظ کے اَعداد جاننے ، یا کِسی بھی نام یا لفظ کی اَعدادی قیمت یا حثیت جاننے میں آسانی ہو ، اور اِس کے ساتھ ساتھ بلکہ اصل میں اِس کے پسِ پردہ وہ غلط عقیدہ بھی کار فرما رہے جِسکی بنا پر یہ اَعداد مقرر کئیے گئے ،
کیونکہ اگر حروفِ تہجی کو محض علامات اَرقام ( نمبرز ) ہی دینا مقصود ہوتا تو اِن کی ترتیب بدلنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تھی ، اِس بات کو اگلے صفحے پر دئیے گئے نقشے کی مدد سے با آسانی سمجھا جا سکتا ہے ::
:::::اگلے چند صفحات میں کچھ خاکے ہیں جو میں یہاں نہیں بنا سکتا ، لہذا مضمون کے کا باقی حصے کے مطالعے کے لیے آخر میں دیے گئے رابطہ پر سے پورا مضمون برقی کتاب کی صورت مٰں ڈاون لوڈ کیا جا سکتا ہے ، اور اس موضوع سے مناسبت والے دو اور مضامین ’’’ اللہ نہیں خُدا ‘‘‘ اور ’’’ ستارے اور اُن کی چالیں ‘‘‘ بھی پڑھنا اَنشا اللہ فائدہ مند ہو گا ،
والسلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ، عادل سہیل ظفر ۔:::::

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
""" علم اعداد ، علم جفر ، 786 کی حقیقت """
 
شکریہ بھائی عادل ۔ سہیل.........ماشااللہ آپ نے بہت اچھے طریقے سے مسلئہ واضع کر دیا.......
السلام علیکم و رحمُۃ اللہ و برکاتہ ، جزاک اللہ خیرا فاروقی بھائی ، اللہ کرے دوسرے قارئین کے لیے بھی وضاحت ہو جائے ، و السلام علیکم۔
 

رضا

معطل
علم جفر ایک نہایت نفیس فن اور حضرات اہلبیت علیہم الرضوان کا علم ہے۔
کتاب"جفر جامع" میں امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے ما کان ومایکون تحریر فرما دیا۔
علم جفر میں لکھی گئی اسلاف کی تصانیف کا تذکرہ۔

جفر بیشک نہایت نفیس جائز فن ہے حضرات اہلبیت کرام رضوان اللہ تعالی علیہم کا علم ہے ۔امیر المومنین مولی علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم نے اپنے خواص پر اس کا اظہار فرمایا اور سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ اسے معرض کتابت میں لائے۔کتاب مستطاب جفر جامع تصنیف فرمائی۔علامہ سید شریف رحمۃ اللہ تعالی علیہ شرح مواقف میں فرماتے ہیں:امام جعفر صادق نے جامع میں ماکان وما یکون تحریر فرما دیا۔(شرح المواقف المقصد الثانی منشورات الشریف الرضی قم ایران 22-6)
سیدنا شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رضی اللہ عنہ نے "الدرالمکنون و الجوھرالمصئون" میں اس علم شریف کا سلسلہ سیدنا آدم و سیدنا شیث وغیرہما انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے قائم کیا اور اس کے طرق واوضاع اور ان میں بہت غیوب کی خبریں دیں۔( الدرالمکنون و الجوھرالمصئون)
عارف باللہ سیدی امام عبدالغنی نابلسی قدس سرہ القدسی نے ایک رسالہ اس کے جواب میں لکھا۔اس کا انکار نہ کرے گا مگر ناواقف یا گمراہ متعسف۔
 

شمشاد

لائبریرین
علم جفر ایک نہایت نفیس فن اور حضرات اہلبیت علیہم الرضوان کا علم ہے۔
کتاب"جفر جامع" میں امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے ما کان ومایکون تحریر فرما دیا۔
علم جفر میں لکھی گئی اسلاف کی تصانیف کا تذکرہ۔

جفر بیشک نہایت نفیس جائز فن ہے حضرات اہلبیت کرام رضوان اللہ تعالی علیہم کا علم ہے ۔امیر المومنین مولی علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم نے اپنے خواص پر اس کا اظہار فرمایا اور سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ اسے معرض کتابت میں لائے۔کتاب مستطاب جفر جامع تصنیف فرمائی۔علامہ سید شریف رحمۃ اللہ تعالی علیہ شرح مواقف میں فرماتے ہیں:امام جعفر صادق نے جامع میں ماکان وما یکون تحریر فرما دیا۔(شرح المواقف المقصد الثانی منشورات الشریف الرضی قم ایران 22-6)
سیدنا شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رضی اللہ عنہ نے "الدرالمکنون و الجوھرالمصئون" میں اس علم شریف کا سلسلہ سیدنا آدم و سیدنا شیث وغیرہما انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے قائم کیا اور اس کے طرق واوضاع اور ان میں بہت غیوب کی خبریں دیں۔( الدرالمکنون و الجوھرالمصئون)
عارف باللہ سیدی امام عبدالغنی نابلسی قدس سرہ القدسی نے ایک رسالہ اس کے جواب میں لکھا۔اس کا انکار نہ کرے گا مگر ناواقف یا گمراہ متعسف۔
تو کیا آپ اس کو جائز قرار دیتے ہیں کہ قرآنی آیات کی جگہ اعداد کا استعمال کر لیا جائے؟
 
Top