خیر و شر ، اچھائی و برائی اور انسانیت و شیطانیت کی جنگ تو انسان کے وجود سے بھی قبل سے جاری ہے جیسا کہ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے اور قدرت کا ارداہ یہی ہے کہ یہ جنگ قیامت تک جاری رہے اور اسی لیے آج تک ہم کو تمام یا مکمل اچھائی پوری دنیا میں مکمل طور پر جاری نظر آئی ہے اور نہ ہی شر ، اور یہ قاعدہ کلیہ انسانوں کے تمام طبقات اور گرہوں پر بھی منطبق ہے تمام تہذیبوں اور مذاہب کے پیروکاروں میں بھی یہی لہر ، یہی انداز ہم کو نظر آتا ہے کہیں زیادہ کہیں کم مسلمانوں کا بھی حال کچھ اتنا مختلف نہیں ہے ۔ امریکا بھی اس طرح دو مختلف حقائق اپنے اند سموئے ہوئے ہے ایک امریکا وہ ہے جو آج انسانوں کے لیے بے پنا خدمات انجام دے رہا ہے سائنس ، ٹیکنالوجی طب و صحت کے میدانوں میںزمین سے خلا تک اس کے فیوض جاری ہیں اور یہ افراد امریکی سائندان ہیں ڈاکٹرز ہیں انجینیئرز ہیں اور Social Scientist ہیں مگر امریکا کا ایک رخ اور بھی ہے جو پوری دنیا کے لیے ناقابل قبول ہے اور امریکا کی تمام خوبیوںکو مٹا دیتا ہے اس روپ میںامریکا ایک عفریت و شیطان بن کر ابھرتا ہے وہ پوری دنیا میں مداخلت کرتا ہے ڈکٹیروں کے ذریعے اسی ملک کے عوام کا خون کرتا ہے اپنی ناجائز عزائم کو بروئےکار لانے کے لیے ہر ناجائز ہتکنڈے استعمال کرتا ہے۔
کبھی امریکا شاہ ایران، پنوشے، مارکوس ، جنرل نوریگا ،جیوناس سومنی اور صدام حسین کے ذریعے ایران، چلی ، فلپائن ، پانامہ، انگولا اور عراق کے عوام پر مظالم ڈھاتا ہے کبھی وہ ویت نام میں خون کی ہولی کھیلتا نظر آتا ہے انسانیت پوری انسانیت کے خلاف تاریخ انسانیت کا سب سے بڑا ظلم ایٹم بم کی صورت میںکرتا نظر آتا ہے اپنی خواہش کو اپنے عدل کا نام دے کر افغانستان میں خون کی ہولی کھیلتا نظر آتا ہے، اقوام متحدہ اور پوری دنیاخصوصا یورپ کے عوام کے لاکھوں کے جلوسوں کو نظر انداز کر کے عراق پر حملہ کرتا نظر آتا ہے آج بھی صرف مسلمان ہی نہیں ایشیا افریقہ براعظم امریکا وغیرہ کے کروڑوں عوام اور کئی حکومتیں بھی امریکا سے اسی بنا پر شدید نفرت کرتی ہیں لیکن امریکیوں کی سمجھ میں یہ باتیں نہیں آتی ہیں بی بی سی کے الفاظ میں اپنا امیج بہتر بنانے کے لیے کروڑوں ڈالر صرف کر کےاور اس مقصد کے لیے علیحدہ نائب وزیر خارجہ مقرر کرنے کے باوجود بھی اس سوال کے جواب کی تلاش ہے کہ آخرلوگ امریکا سے نفرت کیوں کرتے ہیں"
شایداس سوال کا جواب امریکا کی ٹھنڈی ہواؤںسے لطف اندوز ہونے والوں کو کبھی نہ مل سکے۔
دو چیزیں:
۱۔ امریکہ نے اندرون ملک اپنی ہر ہر شہری کو انسانیت کے معیار تک پہنچانے کی بھرپور سعی کی ہے۔
۲۔ مگر بیرون ملک [جہاں عوام نہیں بلکہ سی آئی اے ملوث ہے، وہاں یہ سی آئی اے امریکی مفادات کی خاطر دوسرے ممالک کے خلاف سازشیں کرتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ وہی قومیں زندہ رہتی ہے جو اندرونی طور پر مضبوط ہوتی ہیں۔ اور ہماری قوم کا کیا حال ہے؟
اور جہاں تک بیرون ملک کا تعلق ہے، تو یہ صرف امریکہ ہی نہیں، بلکہ شاید ہر ملک اپنے مفادات کی خاطر ایسی حرکتیں کرتا ہے۔
شروع ہو جائیے عرب ممالک کے حکمرانوں سے جنہوں نے اپنے مفادات کی خاطر امریکہ اور ہر بڑی طاقت سے مل کر اپنی عوام پر حکمرانی کی۔
کیا پاکستان نے اپنے مفادات کی خاطر طالبان کو جنم دے کر افغان عوام پر مسلط نہیں کیا؟
مختصر، جس کا جہاں داو چلتا ہے وہاں ہی وہ ہاتھ مارتا ہے۔ امریکہ سپر پاور ہے اور اسکے ہاتھ لمبے ہیں۔ لہذا اس نے ہاتھ بھی لمبے مارے۔
/////////////////////////////
بات بھٹک گئی اور تان آ کر پھر افغانستان اور عراق پر امریکی حملوں پر جا پہنچی۔
جبکہ میں نے بات شروع کی تھِی معاشرے میں موجود دو طبقات کی نشاندہی کرنے کے لیے، اور چاہتی یہ تھی کہ ہم سبق حاصل کریں کہ انسانیت کے نام پر انصاف کرنا ہر معاشرے کے لیے کتنا ضروری ہے۔ اور اس معاملے میں اگر ہم اپنا محاسبہ کریں تو ہمارا معاشرہ اتنا ترقی یافتہ نہیں ہے اور ہمیں اس میدان میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔