کیا تمام امریکی انسانیت سے گر گئے ہیں؟ انتہا پسند بالمقابل انسانیت

مہوش علی

لائبریرین
اس ویڈیو میں آپ کو امریکی معاشرے میں موجود دو طبقات نظر آئیں۔

ان میں سے ایک انتہا پسندی کے لیے لڑ رہا ہے، جبکہ دوسرا انسانیت کے نام پر انصاف کے لیے لڑ رہا ہے۔

[ame]http://www.youtube.com/watch?v=cQQRVnK6PDM&feature=related[/ame]

یہی دو طبقات ہمارے معاشرے میں بعینہ موجود ہیں۔

دیکھئیے اور سبق حاصل کریں۔ وہ سبق جو علی ابن ابی طالب نے بہت پہلے دیا تھا: "کوئی معاشرے کفر پر تو زندہ رہ سکتا ہے، مگر ناانصافی پر نہیں۔"
 

arifkarim

معطل
لیکن یہ ''نیک'' طبقہ ظالم طبقےکے مقابلے میں کتنا بڑا ہے؟
صرف چند عام لوگوں کا ردعمل دیکھ لینے سے اصلیت سامنے نہیں آجاتی۔ امریکی عوام تو کتنے سالوں سے عراق پرامریکی جارحیت کی مزمت کر رہی ہے، مگر اصل احکام تو وائٹ ہاؤس سے جاری ہوتے ہیں ۔۔۔۔
 

مہوش علی

لائبریرین
لیکن یہ ''نیک'' طبقہ ظالم طبقےکے مقابلے میں کتنا بڑا ہے؟

یہ تناسب مختلف معاشروں میں مختلف ہے۔

اس ویڈیو میں 6 انتہا پسند نکلے، ان سے کہیں زیادہ مگر انسانیت اور انسانوں سے پیار کرنے والے جو کہ مسلم خاتون سے ناروا رویے پر ناراض ہو کر بلند آواز سے احتجاج کر رہے تھے، اور 22 افراد ایسے تھے کہ جنہوں نے چپ سادھ لی۔ مگر ان 22 افراد کے متعلق میری رائے یہ ہے کہ یہ بھی انسانوں سے پیار کرنے والے ہیں، مگر انکی بیماری یہ ہے کہ بلند آواز سے احتجاج نہیں کرتے۔

تو یہ امریکی معاشرے کی بات تھی۔

یورپ میں صورتحال اس سے کہیں بہتر ہے۔ جرمنی میں اگرچہ کہ نازی موجود ہیں، مگر پھر بھی یہ تعداد امریکہ سے مجموعی طور پر بدتر نہیں ہو گی [اگرچہ کہ آہستہ آہستہ یہاں پر انتہا پسند قوت پکڑ رہے ہیں اور نفرتوں میں اضافہ ہو رہا ہے]

اب آپ امریکی معاشرے کا مقابلہ طالبان کے معاشرے سے کریں تو یہ تناسب بہت فرق کے ساتھ دیکھیں گے کہ جہاں پر طالبان نے انسانیت کی تضحیک کرتے ہوئے غیر مسلموں کو مجبور کیا کہ وہ صرف اور صرف زرد رنگ کا لباس پہنیں تاکہ دور سے پہچانیں جائیں۔
 

زیک

مسافر
تو یہ امریکی معاشرے کی بات تھی۔

یورپ میں صورتحال اس سے کہیں بہتر ہے۔ جرمنی میں اگرچہ کہ نازی موجود ہیں، مگر پھر بھی یہ تعداد امریکہ سے مجموعی طور پر بدتر نہیں ہو گی [اگرچہ کہ آہستہ آہستہ یہاں پر انتہا پسند قوت پکڑ رہے ہیں اور نفرتوں میں اضافہ ہو رہا ہے]

میرا خیال ہے کہ امریکہ میں صورتحال مسلمانوں اور immigrants کے لئے یورپ سے کافی بہتر ہے۔ اگر آپ چاہیں تو میں کچھ سروے بھی پیش کر سکتا ہوں۔
 

گرو جی

محفلین
میرا خیال ہے کہ امریکہ میں صورتحال مسلمانوں اور Immigrants کے لئے یورپ سے کافی بہتر ہے۔ اگر آپ چاہیں تو میں کچھ سروے بھی پیش کر سکتا ہوں۔

بھائی وہاں کسی مسلماں اور پاکستانی کے لئے کوئی جگہ نہیں‌ہے
یہاں‌بہت لوگ ٹرائی کر چکے ہیں اور عام اور لائق فائق لوگ
 

زیک

مسافر
محفل کے کئ ارکان ہیں امریکہ میں جن میں میں بھی شامل ہوں۔ ویسے بھی بات امریکہ آنی کی کوشش کرنے کی نہیں بلکہ یہاں مسلمانوں اور immigrants کے ساتھ سلوک کی ہو رہی تھی۔
 

arifkarim

معطل
میرا خیال ہے کہ امریکہ میں صورتحال مسلمانوں اور Immigrants کے لئے یورپ سے کافی بہتر ہے۔ اگر آپ چاہیں تو میں کچھ سروے بھی پیش کر سکتا ہوں۔
یورپ کی صورتحال امریکہ سے کوئی بہت بہتر نہیں ہے۔ یہاں بھی نسلی تعصب عام ہے، خاص طور پر مسلمانوں کیساتھ!
 

مہوش علی

لائبریرین
یورپ کی صورتحال امریکہ سے کوئی بہت بہتر نہیں ہے۔ یہاں بھی نسلی تعصب عام ہے، خاص طور پر مسلمانوں کیساتھ!

اس میں بہت بڑا دخل یورپ میں رہنے والے مسلمان انتہا پسندوں کا بھی ہے، جو یہاں یورپ کو بھی طالبان کا افغانستان بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔

گیارہ ستمبر کے بعد پاکستانی مسجد کی حالت یہ تھی کہ وہاں مسجد کے ایک کرتا دھرتا سے جب گیارہ ستمبر کی بابت پوچھا گیا تو کہنے لگے: "بہت اچھا کیا۔ بلکہ دیر سے کیا، انہیں تو ایسے حملے بہت پہلے کر دینے چاہیے تھے۔"

اور ان پاکستانی مسجد کے کرتا دھرتا کی اپنی حالت یہ ہے کہ اُس وقت انہیں "سوشل" کھاتے ہوئے دس بارہ سال ہو چکے تھے۔ [سوشل سے مراد یہ ہے کہ یہ لوگ یہاں پر کوئی کام دھاج نہیں کرتے بلکہ حکومت کے ٹکڑوں پر پل رہے ہوتے ہیں]۔ میں اُس وقت کافی چھوٹی تھی، مگر انکے یہ الفاظ کبھی نہیں بھول پاوں گی۔

ہمبرگ میں اس وقت تین عربی مساجد ایسی تھیں کہ جہاں ہر جمعے کو کھل کر قتال و جہاد کی تقریریں کی جاتی تھیں اور لٹریچر بانٹا جاتا تھا۔

ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔ میں ہمیشہ سے یہ مانتی آئی ہوں کہ ہر قوم میں ہر جگہ انتہا پسند طبقہ موجود ہوتا ہے۔ اور یہ تمام کے تمام انتہا پسند ایک دوسرے کے ولی و مددگار ہیں۔ جب بھی ایک قوم میں انتہا پسند مضبوط ہوں گے، وہیں پر دوسری قوم میں بھی انتہا پسند نفرت پھیلا کر مضبوط ہونے لگیں گے۔

بہرحال، اللہ کا شکر ہے کہ یورپ میں اتنا عرصہ رہنے کے باوجود ہمیں کبھی ایسے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا، بلکہ عام لوگ بہت اچھے انسان ہیں۔

/////////////////////////

ویسے امریکہ میں اور یورپ میں مسلمانوں کو جو آزادیاں میسر ہیں، انہیں بھول کر بھی کبھی اپنے ممالک سے موازنہ نہ کیجئیے گا۔ اسلام امریکہ میں سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے، جبکہ طالبان نے ان غیر ملکیوں کو پکڑ کر حملے شروع کر دیے تھے اور الزام لگایا تھا کہ وہ عیسائیت کی تبلیغ کر رہے ہیں۔ بلکہ اس کو بھی چھوڑیں، طالبان تو تمام لڑکیوں کے سکولوں اور کالجز کو بموں سے اڑا رہے ہیں اور بہانہ ہے کہ یہ اسلام کے خلاف کام کر رہے ہیں۔
 

ظفری

لائبریرین
گذشتہ سال ایک دوست کیساتھ مل کر میں نے ایک گیس اسٹیشن لیا ۔ ایک سال کے دوران مجھے جب بھی وہاں وقت گذارنے کا موقع ملا مجھے یہی صورتحال کئی متعدد بار دیکھنے کو ملی ۔ اور ہر بار ہی میں نے 10 میں سے 8 افراد کو مسلمز کا دفاع کرتے ہوئے دیکھا ۔ امریکن معاشرے کی ایک بہت خاص بات یہ ہے کہ ان میں برداشت بہت ہے ۔ اور اسی وجہ سے یہ لوگ ہر واقعہ کو اس کے صحیح تناظر میں دیکھتے ہیں ۔ بات کو سمجھتے ہیں اور بات کی تہہ میں جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ہاں کچھ ایسے لوگ ہر جگہ ضرور ہوتے ہیں ۔ جو اپنی نفرت کا اظہار کسی کے بھی ساتھ کسی بھی طور کردیتے ہیں ۔ یہاں شہروں میں ایسے لوگ بہت کم ہیں مگر ایسے لوگ زیادہ تر گاؤں دیہات میں پائے جاتے ہیں ۔ مگر اگر وہاں بھی ایسے لوگوں کی اوسط نکالی جائے تو گاؤں اور دیہات میں بسنے والے ایسے لوگوں کے مقابلے بہت کم نکلے گی ۔ جو کسی مسلم کو اچھا نہیں کہتے ۔
آپ اس وڈیو میں یہ دیکھیں کہ لوگوں سے رہا نہیں گیا اور انہوں نے اپنی رائے یا ناپسندیدگی کا فوراً اظہار کردیا ۔ امریکہ میں بنیادی طور پر زیادہ تر لوگوں کو معلوم ہے کہ اسلام ایک شاندار مذہب ہے ۔ اور لوگ مجھ سے اکثر محفلوں میں اس کا اظہار بھی کرتے ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ سی آئی اے کی ریٹائرڈ چیف نے 911 کے فوراً بعد ایک ٹی وی انٹرویو میں اسلام کو ایک wonderful مذہب قرار دیا تھا ۔ 911 کے تیسرے روز واشنگٹن پوسٹ میں مسلمانوں کی امن پسندی کے بارے میں ایک آرٹیکل بھی لکھا گیا تھا اور مسلمانوں کے مشہور جرنیل صلاح الدین ایوبی کی بہت تعریف بھی کی گئی تھی ۔ جس میں اس کے انصاف اور مساوات کا نمایاں طور پر ذکر تھا ۔ 5 برس بعد Kingdom of Heaven مووی بنائی گئی ( جس کا گزشتہ روز کسی دوست نے اردو محفل پر ذکر بھی کیا ہے ۔ ) ۔ اس میں ‌بھی مسلمانوں کے امن پسند ہونے کا کسی حد تک اعتراف کیا گیا ہے ۔ عصبیت پسند اور برے لوگ کہاں نہیں ہوتے مگر امریکن معاشرے میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جو مذہبی بنیادوں پر کسی کو اچھا یا برا قرار دیدیتے ہیں ۔ قتل نہیں کرتے ، کسی پر زندگی اس وجہ سے حرام نہیں کرتے کہ کوئی اس کے ناپسندیدہ یا مخلتف عقائد یا مذہب کا پیروکار ہے ۔
میرا خیال ہے کہ کسی پر انگلی اٹھانے سے پہلے ہم اپنے گریباں سے شروع ہوں کہ ہمارے معاشرے میں عصبیت اور نسلی اور مذہبی منافرت کس درجہ پر ہے ۔ میں نہیں سمجھتا کہ ہمارے کسی نسلی اکثریت والے علاقے میں کسی دوسری جگہ سے آئے ہوئے کسی دوسرے نسلی شخص کے ساتھ کسی دوکان پر کوئی ایسا سلوک کردے اور لوگ برا کہنے والے کو اس وڈیو کی طرح برا بھلا بھی کہیں ۔

آخری پیراگراف اس لیئے اضافی لکھ دیا کہ مہوش سسٹر نے ان دو طبقات کی ہمارے اپنے معاشرے میں بھی ہونے کی تصدیق کی ہے ۔ مگر ایک خاص بات یہاں یہ ہے کہ شدت پسندی اور انتہا پسندی کا فرق بھی ہمیں واضع طور پر ان دو طبقات کیساتھ اپنے اور امریکن معاشرے میں صاف طور پر نظر آتا ہے ۔
 

arifkarim

معطل
5 برس بعد Kingdom Of Heaven مووی بنائی گئی ( جس کا گزشتہ روز کسی دوست نے اردو محفل پر ذکر بھی کیا ہے ۔ ) ۔ اس میں ‌بھی مسلمانوں کے امن پسند ہونے کا کسی حد تک اعتراف کیا گیا ہے ۔ عصبیت پسند اور برے لوگ کہاں نہیں ہوتے مگر امریکن معاشرے میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جو مذہبی بنیادوں پر کسی کو اچھا یا برا قرار دیدیتے ہیں ۔ قتل نہیں کرتے ، کسی پر زندگی اس وجہ سے حرام نہیں کرتے کہ کوئی اس کے ناپسندیدہ یا مخلتف عقائد یا مذہب کا پیروکار ہے ۔

اس فلم کو بنانے کا بنیادی مقصد ہی یہ تھا کہ عیسائیوں اور مسلمانوں کے کھوئے ہوئے اتحاد کو واپس لایا جائے، جو کہ صلاح الدین کے زمانہ میں‌اپنے عروج پر تھا، جب ایک عیسائی بادشاہ یروشلم پر حکومت کرتا تھا مگر اس جگہ کو تمام مغربی مذاہب یعنی اسلام، عیسائیت اوریہودیت کی ایک خاص مقدس اہمیت کی وجہ سے تمام اقوام کیلئے فری لینڈ کا درجہ دیا گیا ۔
 

جہانزیب

محفلین
بھائی وہاں کسی مسلماں اور پاکستانی کے لئے کوئی جگہ نہیں‌ہے
یہاں‌بہت لوگ ٹرائی کر چکے ہیں اور عام اور لائق فائق لوگ

میرا ماننا ہے کہ مسلمانوں‌ کے لئے سب سے بہتر ملک امریکہ ہے، اور مجموعی طور پر امریکی مسلمان بھی دیگر مسلمانوں‌ کی نسبت بہتر ہیں‌۔ یہ میری ذاتی رائے ہے جو بیس سال پاکستان اور تقریبا دس سال امریکہ رہنے کے بعد بنی ہے ۔
 
خیر و شر ، اچھائی و برائی اور انسانیت و شیطانیت کی جنگ تو انسان کے وجود سے بھی قبل سے جاری ہے جیسا کہ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے اور قدرت کا ارداہ یہی ہے کہ یہ جنگ قیامت تک جاری رہے اور اسی لیے آج تک ہم کو تمام یا مکمل اچھائی پوری دنیا میں مکمل طور پر جاری نظر آئی ہے اور نہ ہی شر ، اور یہ قاعدہ کلیہ انسانوں کے تمام طبقات اور گرہوں پر بھی منطبق ہے تمام تہذیبوں اور مذاہب کے پیروکاروں میں بھی یہی لہر ، یہی انداز ہم کو نظر آتا ہے کہیں زیادہ کہیں کم مسلمانوں کا بھی حال کچھ اتنا مختلف نہیں ہے ۔ امریکا بھی اس طرح دو مختلف حقائق اپنے اند سموئے ہوئے ہے ایک امریکا وہ ہے جو آج انسانوں کے لیے بے پنا خدمات انجام دے رہا ہے سائنس ، ٹیکنالوجی طب و صحت کے میدانوں میں‌زمین سے خلا تک اس کے فیوض جاری ہیں‌ اور یہ افراد امریکی سائندان ہیں ڈاکٹرز ہیں انجینیئرز ہیں اور Social Scientist ہیں مگر امریکا کا ایک رخ اور بھی ہے جو پوری دنیا کے لیے ناقابل قبول ہے اور امریکا کی تمام خوبیوں‌کو مٹا دیتا ہے اس روپ میں‌امریکا ایک عفریت و شیطان بن کر ابھرتا ہے وہ پوری دنیا میں مداخلت کرتا ہے ڈکٹیروں کے ذریعے اسی ملک کے عوام کا خون کرتا ہے اپنی ناجائز عزائم کو بروئےکار لانے کے لیے ہر ناجائز ہتکنڈے استعمال کرتا ہے۔
کبھی امریکا شاہ ایران، پنوشے، مارکوس ، جنرل نوریگا ،جیوناس سومنی اور صدام حسین کے ذریعے ایران، چلی ، فلپائن ، پانامہ، انگولا اور عراق کے عوام پر مظالم ڈھاتا ہے کبھی وہ ویت نام میں خون کی ہولی کھیلتا نظر آتا ہے انسانیت پوری انسانیت کے خلاف تاریخ انسانیت کا سب سے بڑا ظلم ایٹم بم کی صورت میں‌کرتا نظر آتا ہے اپنی خواہش کو اپنے عدل کا نام دے کر افغانستان میں خون کی ہولی کھیلتا نظر آتا ہے، اقوام متحدہ اور پوری دنیاخصوصا یورپ کے عوام کے لاکھوں کے جلوسوں کو نظر انداز کر کے عراق پر حملہ کرتا نظر آتا ہے آج بھی صرف مسلمان ہی نہیں ایشیا افریقہ براعظم امریکا وغیرہ کے کروڑوں عوام اور کئی حکومتیں بھی امریکا سے اسی بنا پر شدید نفرت کرتی ہیں لیکن امریکیوں کی سمجھ میں یہ باتیں نہیں آتی ہیں بی بی سی کے الفاظ میں اپنا امیج بہتر بنانے کے لیے کروڑوں ڈالر صرف کر کےاور اس مقصد کے لیے علیحدہ نائب وزیر خارجہ مقرر کرنے کے باوجود بھی اس سوال کے جواب کی تلاش ہے کہ آخرلوگ امریکا سے نفرت کیوں کرتے ہیں"
شایداس سوال کا جواب امریکا کی ٹھنڈی ہواؤں‌سے لطف اندوز ہونے والوں کو کبھی نہ مل سکے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
خیر و شر ، اچھائی و برائی اور انسانیت و شیطانیت کی جنگ تو انسان کے وجود سے بھی قبل سے جاری ہے جیسا کہ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے اور قدرت کا ارداہ یہی ہے کہ یہ جنگ قیامت تک جاری رہے اور اسی لیے آج تک ہم کو تمام یا مکمل اچھائی پوری دنیا میں مکمل طور پر جاری نظر آئی ہے اور نہ ہی شر ، اور یہ قاعدہ کلیہ انسانوں کے تمام طبقات اور گرہوں پر بھی منطبق ہے تمام تہذیبوں اور مذاہب کے پیروکاروں میں بھی یہی لہر ، یہی انداز ہم کو نظر آتا ہے کہیں زیادہ کہیں کم مسلمانوں کا بھی حال کچھ اتنا مختلف نہیں ہے ۔ امریکا بھی اس طرح دو مختلف حقائق اپنے اند سموئے ہوئے ہے ایک امریکا وہ ہے جو آج انسانوں کے لیے بے پنا خدمات انجام دے رہا ہے سائنس ، ٹیکنالوجی طب و صحت کے میدانوں میں‌زمین سے خلا تک اس کے فیوض جاری ہیں‌ اور یہ افراد امریکی سائندان ہیں ڈاکٹرز ہیں انجینیئرز ہیں اور Social Scientist ہیں مگر امریکا کا ایک رخ اور بھی ہے جو پوری دنیا کے لیے ناقابل قبول ہے اور امریکا کی تمام خوبیوں‌کو مٹا دیتا ہے اس روپ میں‌امریکا ایک عفریت و شیطان بن کر ابھرتا ہے وہ پوری دنیا میں مداخلت کرتا ہے ڈکٹیروں کے ذریعے اسی ملک کے عوام کا خون کرتا ہے اپنی ناجائز عزائم کو بروئےکار لانے کے لیے ہر ناجائز ہتکنڈے استعمال کرتا ہے۔
کبھی امریکا شاہ ایران، پنوشے، مارکوس ، جنرل نوریگا ،جیوناس سومنی اور صدام حسین کے ذریعے ایران، چلی ، فلپائن ، پانامہ، انگولا اور عراق کے عوام پر مظالم ڈھاتا ہے کبھی وہ ویت نام میں خون کی ہولی کھیلتا نظر آتا ہے انسانیت پوری انسانیت کے خلاف تاریخ انسانیت کا سب سے بڑا ظلم ایٹم بم کی صورت میں‌کرتا نظر آتا ہے اپنی خواہش کو اپنے عدل کا نام دے کر افغانستان میں خون کی ہولی کھیلتا نظر آتا ہے، اقوام متحدہ اور پوری دنیاخصوصا یورپ کے عوام کے لاکھوں کے جلوسوں کو نظر انداز کر کے عراق پر حملہ کرتا نظر آتا ہے آج بھی صرف مسلمان ہی نہیں ایشیا افریقہ براعظم امریکا وغیرہ کے کروڑوں عوام اور کئی حکومتیں بھی امریکا سے اسی بنا پر شدید نفرت کرتی ہیں لیکن امریکیوں کی سمجھ میں یہ باتیں نہیں آتی ہیں بی بی سی کے الفاظ میں اپنا امیج بہتر بنانے کے لیے کروڑوں ڈالر صرف کر کےاور اس مقصد کے لیے علیحدہ نائب وزیر خارجہ مقرر کرنے کے باوجود بھی اس سوال کے جواب کی تلاش ہے کہ آخرلوگ امریکا سے نفرت کیوں کرتے ہیں"
شایداس سوال کا جواب امریکا کی ٹھنڈی ہواؤں‌سے لطف اندوز ہونے والوں کو کبھی نہ مل سکے۔


دو چیزیں:

۱۔ امریکہ نے اندرون ملک اپنی ہر ہر شہری کو انسانیت کے معیار تک پہنچانے کی بھرپور سعی کی ہے۔

۲۔ مگر بیرون ملک [جہاں عوام نہیں بلکہ سی آئی اے ملوث ہے، وہاں یہ سی آئی اے امریکی مفادات کی خاطر دوسرے ممالک کے خلاف سازشیں کرتی ہے۔


کہا جاتا ہے کہ وہی قومیں زندہ رہتی ہے جو اندرونی طور پر مضبوط ہوتی ہیں۔ اور ہماری قوم کا کیا حال ہے؟

اور جہاں تک بیرون ملک کا تعلق ہے، تو یہ صرف امریکہ ہی نہیں، بلکہ شاید ہر ملک اپنے مفادات کی خاطر ایسی حرکتیں کرتا ہے۔
شروع ہو جائیے عرب ممالک کے حکمرانوں سے جنہوں نے اپنے مفادات کی خاطر امریکہ اور ہر بڑی طاقت سے مل کر اپنی عوام پر حکمرانی کی۔
کیا پاکستان نے اپنے مفادات کی خاطر طالبان کو جنم دے کر افغان عوام پر مسلط نہیں کیا؟

مختصر، جس کا جہاں داو چلتا ہے وہاں ہی وہ ہاتھ مارتا ہے۔ امریکہ سپر پاور ہے اور اسکے ہاتھ لمبے ہیں۔ لہذا اس نے ہاتھ بھی لمبے مارے۔

/////////////////////////////

بات بھٹک گئی اور تان آ کر پھر افغانستان اور عراق پر امریکی حملوں پر جا پہنچی۔

جبکہ میں نے بات شروع کی تھِی معاشرے میں موجود دو طبقات کی نشاندہی کرنے کے لیے، اور چاہتی یہ تھی کہ ہم سبق حاصل کریں کہ انسانیت کے نام پر انصاف کرنا ہر معاشرے کے لیے کتنا ضروری ہے۔ اور اس معاملے میں اگر ہم اپنا محاسبہ کریں تو ہمارا معاشرہ اتنا ترقی یافتہ نہیں ہے اور ہمیں اس میدان میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔
 

زیک

مسافر
گیارہ ستمبر کے بعد پاکستانی مسجد کی حالت یہ تھی کہ وہاں مسجد کے ایک کرتا دھرتا سے جب گیارہ ستمبر کی بابت پوچھا گیا تو کہنے لگے: "بہت اچھا کیا۔ بلکہ دیر سے کیا، انہیں تو ایسے حملے بہت پہلے کر دینے چاہیے تھے۔"

اور ان پاکستانی مسجد کے کرتا دھرتا کی اپنی حالت یہ ہے کہ اُس وقت انہیں "سوشل" کھاتے ہوئے دس بارہ سال ہو چکے تھے۔ [سوشل سے مراد یہ ہے کہ یہ لوگ یہاں پر کوئی کام دھاج نہیں کرتے بلکہ حکومت کے ٹکڑوں پر پل رہے ہوتے ہیں]۔ میں اُس وقت کافی چھوٹی تھی، مگر انکے یہ الفاظ کبھی نہیں بھول پاوں گی۔

کتنی چھوٹی تھیں آپ 2001 میں؟
 
Top