کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایک 6 یا 7 سال کی دلہن تھیں؟ ایک پرانی روایت کی حقیقت

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
ذہن میں رکھئے کہ من و عن ماننا ہی ایمان کہلاتا ہے۔ اصل توہینِ رسول یہ ہے کہ ان پر خلاف قرآن اعمال کے الزامات عائد کئے جائیں۔ اور پھر اس کو ایمان کا نام دیا جائے۔ اگر ان کتب کے ناشر آپ کے نبی ہیں تو ان پر ایمان رکھئے۔ اگر رسول اللہ آپ کے نبی ہیں تو ان پر ایمان رکھئے۔ بے ایمانی ان لوگوں کی کہئیے جن لوگوں نے یہ کچھ لکھا اور چھپوایا اور ان بڑے ناموں‌سے منسوب کیا۔ ترامیم کیں۔ اگرا آپ ان ترامیم کرنے والوں پر ایمان رکھنا چاہتے ہیں تو شوق سے رکھئے۔ میں نہیں‌سمجھتا کہ جن اصحابہ سے اللہ راضی ہوا وہ رسول اکرم کے لئے ایسی روایات کہیں گے جو ان کے اعمال کو خلاف قرآن ثابت کرتی ہوں۔ یہ بھی ذہن میں‌رکھئے کہ یہ کتب میں‌نے نہیں لکھی ہیں۔ یہ کتب مجھ تک پہنچی ہیں ۔ آپ سے پہلے میرے رخسار تر ہو چکے ہیں رسالت مآب و امہاۃ المومنین کے بارے میں‌ایسے الزامات سن کر۔ قرآن ہاتھ میں رکھئے اور تعوذ پڑھ کر دوبارہ ان الزامات کو پڑھئیے جو یہ کتب امہات المومنین و رسول اکرم پر اس طرح لگاتی ہیں۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
اصل توہینِ رسول یہ ہے کہ ان پر خلاف قرآن اعمال کے الزامات عائد کئے جائیں۔ اور پھر اس کو ایمان کا نام دیا جائے۔ اگر ان کتب کے ناشر آپ کے نبی ہیں تو ان پر ایمان رکھئے۔ اگر رسول اللہ آپ کے نبی ہیں تو ان پر ایمان رکھئے۔ بے ایمانی ان لوگوں کی کہئیے جن لوگوں نے یہ کچھ لکھا اور چھپوایا اور ان بڑے ناموں‌سے منسوب کیا۔ ترامیم کیں۔ اگرا آپ ان ترامیم کرنے والوں پر ایمان رکھنا چاہتے ہیں تو شوق سے رکھئے۔ میں نہیں‌سمجھتا کہ جن اصحابہ سے اللہ راضی ہوا وہ رسول اکرم کے لئے ایسی روایات کہیں گے جو ان کے اعمال کو خلاف قرآن ثابت کرتی ہوں۔




اللھم صل علٰی محمد و علٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراہیم و علٰی آل ابراہیم انک حمید مجید
اللھم بارک علٰی محمد و علٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراہیم و علٰی آل ابراہیم انک حمید مجید
(محترم آپ جو پردے میں کہنا چاہ رہے ہیں وہ ہم بخوبی سمجھ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ برائے کرم وہ بات سمجھانے کیلئے کسی دوسرے موضوع کو زیر بحث لائیں اور سیدھا اسی بات کی طرف آئیں ۔۔۔ ہم ان شا اللہ ضرور بات کریں گے۔۔۔۔۔۔ میرے خیال میں محترم واجد حسین صاحب اکیلے ہی کافی رہیں گے۔۔۔۔۔ اور اس سے یہ ہو گا کہ دونوں فریقوں‌ کو پتہ ہو گا کہ بحث کا اصل مقصد کیا ہے۔ جو آپکی مندرجہ بالا پوسٹ سے کافی حد تک عیاں ہو چکا ہے۔
 
محتر م واجد صاحب، آُ سے اجازت چاہتا ہوں کہ آپ کی پیش کردہ روایات سے اس بحث سے ہٹ کر اپنے موقف کی کچھ وضاحت کرسکوں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ یہ رویات ایک وقت آیا کہ کورے کاغذ میں قید ہوگئیں‌ اور اس کے بعد ہی ہم تک پہنچی ہیں۔ اب ایک بڑا سوال یہ ہے کہ اس مقام سے جب کہ یہ رویات کورے کاغذ میں‌قید ہوئیں اور وقت تک جب تک کہ یہ ہم تک پہنچی کیا یہ دشمنان اسلام سے محفوظ رہی ہیں؟

اس سلسلے میں یہ عرض کیا جاتا ہے کہ

1۔ ان روایات کی اسناد یکساں ہے۔
جب ہم ایک ہی روایات کو مختلف کتب سے رکھ کر دیکھتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اسناد یکساں نہیں ہیں۔ جیسا کہ ہشام بن عروہ کی اس روایت سے واضح ہے۔ کہ سب لکھ رہے ہیں کہ عروۃ (ر) نے ابیہ (ر) سے سنا ہے اور ابیہ(ر) نے عائشہ (ر)سے ۔ جبکہ 2549 میں عروۃ (ر) نے ڈائریکٹ عایشہ (ر) سے سنا ہے۔ اسناد کی یہ غلطی بہت ہی عام ہے اور ایک ڈاٹا بیس میں ڈالنے سے یہ بہت ہی عیاں ہو جاتی ہے۔

2۔ یہ کہا جاتا ہے کہ روایات سب راویوں نے یاد کررکھی تھیں‌۔ کہ ایک نکتہ کا بھی فرق نہیں ( باذوق صاحب نے یہ خیال پیش کیا تھا۔)
یہاں دیکھئے کہ ایک ہی بات کو کتنے طریقوں سے ادا کیا گیا ہے جبکہ پہلے تین راوی ایک ہی ہیں ، اگر ہشام ان عروۃ‌ کے بعد یہ روایات زبانی یاد کہ ہوئی ہوتیں تو ان کا متن ایک ہوتا۔ کہ روایت عائشہ (ر) سے ابیہ (ر) سے عروۃ‌ (ر) - اس سند کے آخری صحابی تک پہنچی ، لہذا اس مقام پر اس رویات کو منجمد ہوجانا چاہئیے تھا کہ اس کے بعد والوں نے رٹ لی۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا۔

روایات کا منبع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
اس روایت کو دیکھئے۔ یہ صحیح ہے یا ضعیف، اس سے قطع نظر ، اس کا منبع رسول اللہ نہیں ہیں۔ اسی طرح بہت سی روایات ہیں جن کا منبع اصحابہ کرام ہیں۔ ان روایات کو ہم مشورہ ، نصیحت یا اکابرین کی تاریخ‌ تو قرار دے سکتے ہیں ۔ لیکن ہدائت رسول اللہ نہیں ہے۔ ان کتب کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ یہ درست ہے۔

کیا ہم کو سوچنا چاہئیے کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ جو عمل بخاری و مسلم نے شروع کیا تھا، درست روایات کی تدوین کا، کیا وہ جاری رہنا چاہئیے؟ کیا ایک روایات کو پرکھنے کاعمل کے اس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہ ہو جاری رہنا چاہئیے؟ اگر اس کا جواب ہاں میں بھی ہے تو بندہ کسی بھی قسم کا عدالتی حکم پیش کرنے کا مجاز نہیں۔ میری کوشش صرف یہ ہے کہ جو کچھ طبع ہوا ہے اس کو ایک مربوط ڈیٹا بیس میں ڈالا جائے اور مسلمانوں کو وہ بنیادی طریقہ فراہم کئے جائیں کے وہ خود اور موجودہ علماء اور آنے والے علماء‌ کو آسانی ہو اور علم کا ایک ذخیرہ ریسرچ کرنے کے لئے میسر ہو۔

ان طبع شدہ کتب روایات میں ، ترتیب، اسناد، متن ، تعداد اور حساب کتاب کا بہت فرق موجود ہے جو اس چھوٹی سی مثال سے واضح ہے۔ پھر آپ جانتے ہیں اور خدا گواہ ہے کہ یہ روایات آپ نے ہی چنی تھیں ۔ میں نے کسی واہمہ کو جنم دینے کے لئے نہیں چنی تھی۔
اگر میں یہ کہنا بند بھی کردوں کہ یہ فرق موجود ہیں تو کیا ہوگا ؟‌ کل کوئی اور انہی روایات کی ڈیتا بیس بنائے گا اور اسی نتیجہ پر پہنچے گا۔ میں ان کتب کی قدر کرتا ہوں ، اگر قدر نہیں کرتا تو یہ کام کرنے کی ضرورت کیا تھی۔ میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ جو دیکھا ہے اس کو پڑھے لکھوں کے سامنے لاؤں ۔ یہ انکار حدیث‌نہیں۔ بلکہ ان کتب کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی نشاندہی ہے۔ یقیناً‌ یہ کام ان اکابرین کا نہیں ہوسکتا کہ 610 اور 624 کا فرق چند سطروں یا چند صفحوں کے بعد صرف 9 سال لکھیں۔ ضرورت ایک اچھی ڈیٹا بیس کی ہے جو اس قسم کی ممکنہ کمزوریوں کو پکڑنے میں مدد کرے۔

آج تک ایسے سقم قرآن میں نہیں مل سکے ہیں
[ayah] 2؛2[/ayah] [arabic]ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ[/arabic]
(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لئے ہدایت ہے
[ayah]15:9[/ayah] [arabic]إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ[/arabic]
بیشک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے
[ayah]15:10[/ayah] [arabic]وَحَفِظْنَاهَا مِن كُلِّ شَيْطَانٍ رَّجِيمٍ [/arabic]
اور محفوظ کردیا ہے ہم نے اُنہیں ہر شیطانِ مردُود سے۔
 

باذوق

محفلین
سات سال میں شادی اور نو سال میں نکاح، قرآن کیا کہتا ہے۔
رسول اکرم صلعم اور حضرت ابوبکر صدیق (ر)‌اسلام کی دو بہت بڑی نامی گرامی شخصیتیں کیا قرآن سے باہر جاسکتے ہیں۔ جبکہ اول الذکر تو چلتا پھرتا قرآن ہیں۔ یہ دونوں حضرات کس طرح ایک 7 سال کی ایک ناسمجھ بچی کا نکاح کے لئے راضی ہوگئے؟ جبکہ اس قسم کی دوسری عرب روایات بھی نہیں ملتی ہیں اور جبکہ قرآن واضح طریقے سے کہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شادی ایک بھاری معاہدہ ہے ، قرآن شادی کو ایک بھاری معاہدہ قرار دیتا ہے۔ جو کہ نابالغوں کے درمیان ناممکن ہے۔ 7 سال کی عمر دنیا کے کسی بھی مذہب کے مطابق بالغ ہونے کی عمر نہیں۔ ہمارے رسول صلعم قرآن کے خلاف کیونکر عمل کرسکتے تھے، یہ عقل و قیاس سے بعید ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بہت واضح ثبوت ہے کہ دشمنان اسلام نے ان روایات میں کہیں تبدیلی کی لیکن دوسری جگہوں پر حساب کرنے سے ان روایات کی تصدیق نہیں ہوتی۔
السلام علیکم محترمین !
راقم کے مطالعے پر بھی غور فرمانے کے لئے کچھ وقت نکالئے گا ۔۔۔۔۔ شکریہ !

سارا زور اس بات پر دیا گیا ہے کہ نابالغ کی شادی نہیں ہو سکتی۔
ٹھیک ہے یہ اہم اور بنیادی اصول ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس میں کوئی استثنٰی بھی ہے یا نہیں ؟؟
مطلب کہ کوئی رخصت بھی دی گئی ہے یا نہیں ؟؟
اس کی مثال یوں سمجھئے کہ :
مردار حرام ہے لیکن حالت اضطرار میں (یا تین دن فاقے بعد) مردار کھا لینے کی رخصت شریعت میں دی گئی ہے۔
روزے تمام عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہیں لیکن لاعلاج مریض پر کفارہ کی ادائیگی کی رخصت ہے۔
اسی طرح کی بیسوں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
رخصت بہرحال ایک استثنٰی ہے ، یہ اصولی حکم نہیں بن سکتا۔ مگر شریعت میں رخصت کی اہمیت یقیناً ہے۔ لہذا ہر معاملے میں پہلے ہمیں یہ تمیز کر لینا چاہئے کہ اصولی حکم کیا ہے اور رخصت کیا؟ اور ان دونوں کو آپس میں گڈ مڈ نہیں کرنا چاہئے۔

اب یہاں مسئلہ یہ ہے کہ :
اصولی طور پر نکاح کی عمر کیا ہے؟
تو سب کے ساتھ ساتھ ہم بھی یہی کہیں گے کہ نکاح کی اصل عمر بلوغت ہی ہے !
اب یہاں یہ سوال اٹھے گا کہ : کیا اس اصول میں کچھ مستثنیات بھی ہیں یا نہیں ؟؟ بالفاظ دیگر ۔۔۔۔
بلوغت سے قبل بچپن میں بھی نکاح جائز ہے یا نہیں ؟؟

مستثنیات کی تلاش و تحقیق سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ نکاح کے مقاصد کیا ہیں؟
نکاح کا واحد مقصد صرف حصول اولاد نہیں ہے۔ بلکہ اولاد تو مقصد کا ثمرہ ہے جو انسان کے بس میں ہے نہیں۔ کیونکہ عین ممکن ہے کہ دو بالغ جوڑوں کی شادی کر دی جائے اور ان کے ہاں تازیست اولاد نہ ہو ۔۔۔ تب کیا کہا جائے گا کہ یہ نکاح بلامقصد ہے؟؟

نکاح کا اصل مقصد ، جس کے لیے اسلام نے نکاح کا حکم دیا ہے :
فحاشی ، بےحیائی اور زنا سے اجتناب ، مرد و عورت دونوں کی عفیف زندگی اور اس طرح پاک اور صاف ستھرے معاشرے کا قیام ہے۔ نکاح کا ایک دوسرا مقصد قریبی رشتہ داروں میں قرابت کے تعلق کو برقرار رکھنا اور مودت کو بڑھانا ہے۔
تیسرا مقصد دینی اخوت کا قیام اور اس میں اضافہ ہے۔
غرض یہ کہ نکاح ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعے کئی طرح کے دینی ، سیاسی ، معاشی اور معاشرتی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر نظر ڈالیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کتنے نکاح کئے ؟ کس عمر میں کیے ؟ کس عمر کی عورتوں سے کئے؟ اور کس کس مقصد کے تحت کئے؟
تب یہ حقیقت سامنے آ جائے گی کہ نکاح کا مقصد محض جنسی خواہشات کی تکمیل یا حصولِ اولاد ہی نہیں ہوتا بلکہ اس سے بلند تر مقاصد بھی ہو سکتے ہیں !!

اب جبکہ عقلی طور پر ہم نے مان لیا کہ نکاح کے مقاصد میں تنوع ہے تو ضروری ہے کہ نکاح کی عمر ، بلوغت میں بھی استثناء موجود ہو۔
ایک بار پھر کہا جائے گا کہ اگر چہ اصولی طور پر نکاح کی عمر بلوغت ہی ہے تاہم یہ ہر عمر میں جائز ہے اور جائز ہونا بھی چاہئے۔
اس لحاظ سے اگر ایک طرف نابالغ بچی کا نکاح نابالغ لڑکے یا جوان یا بوڑھے سے جائز ہے تو دوسری طرف ایک لڑکے کا نکاح اپنے سے بہت بڑی عمر کی عورت یا مطلقہ بلکہ دو تین بار کی مطلقہ عورت سے بھی جائز ہے۔

یہ تو عقلی توجیہات ہم نے پیش کر دیں۔
اب "نکاحِ نابالغان" کے اسی استثنائی جواز کو قرآن سے بھی ثابت دکھایا جائے گا ان شاءاللہ ، لیجئے ملاحظہ فرمائیں :

وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ
( سورة الطلاق : 65 ، آیت : 4 )
اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اگر تمہیں شک ہو (کہ اُن کی عدّت کیا ہوگی) تو اُن کی عدّت تین مہینے ہے اور وہ عورتیں جنہیں (ابھی) حیض نہیں آیا (ان کی بھی یہی عدّت ہے)
(اردو ترجمہ : ڈاکٹر طاہر القادری)

غور کیجئے کہ درج بالا آیت میں دو قسم کی مطلقہ عورتوں کی عدت تین ماہ بتائی گئی ہے۔
ایک : ایسی بوڑھی عورتیں جنہیں حیض آنا بند ہو چکا ہو
دو : ایسی نابالغ بچیاں جنہیں ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو۔
یہ تو ظاہر ہے کہ طلاق کا مرحلہ نکاح کے بعد ہی آ سکتا ہے ، پھر جب بلوغت سے پہلے طلاق ہو سکتی ہے تو نکاح کیوں نہیں ہو سکتا ؟؟

ممکن ہے کہ بعض احباب اعتراض کر بیٹھیں کہ اس آیت میں "نابالغ بچیوں" کا ذکر ہی کیوں؟ حیض نہ آنے کے دوسرے سبب بھی ہو سکتے ہیں۔
احباب کے ایسے اعتراض پر ہم جواباً پوچھنا چاہیں گے کہ ۔۔۔۔
آپ کے موقف کے مطابق نکاح کی عمر بلوغت ہے اور بلوغت کی عمر کی علامت لڑکے کے لئے احتلام اور لڑکی کے لیے حیض کا آنا ہے۔
اب اگر کسی لڑکی کو تادیر حیض آتا ہی نہیں چاہے کسی عارضے کے باعث ہی ہو ، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ نہ وہ بالغہ کہلا سکتی ہے اور نہ ہی اس کا نکاح ہو سکتا ہے ، لہذا اس کی طلاق یا عدت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ پھر ذرا بتائیں کہ آیت میں وہ کون سی "عورتیں" مراد ہیں؟؟
ظاہر ہے قرآن مجید نے یہاں وہی "استثنائی صورت" بتاتے ہوئے عدت کا ذکر کیا ہے تو یہ عدت طلاق کے بعد اور طلاق نکاح کے بعد ہی واقع ہوتی ہے ، لہذا معلوم ہوا کہ حیض آئے بغیر یا حیض آنے سے پہلے بھی عورت کا نکاح ہو سکتا ہے۔

اور ہاں ۔۔۔۔۔۔
قرآن کی اس آیت کی ایسی تفسیر و تشریح ۔۔۔۔ کسی ایرے غیرے کی نہیں ہے
مفسرین کے حوالے بھی ذیل میں ملاحظہ فرما لیں :

حافظ ابن کثیر نے لفظ "وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ" کی تفسیر میں لکھا ہے کہ
( وکذا الصغار اللائی لم یبلغن سن الحیض )
یعنی ان نابالغ لڑکیوں کی عدت بھی تین ماہ ہے جو حیض کو نہیں پہنچیں یعنی ان کا نکاح ہوا اور رخصتی بھی ہوئی پھر کسی وجہ سے ان کو طلاق ہو گئی۔

"وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ" لفظ کی تفسیر ابن جریر طبری نے مشہور مفسرینِ قرآن مثلاً سدی کبیر اور قتادہ اور ضحاک سے بھی یہی نقل کی ہے کہ : اس لفظ سے ان نابالغ لڑکیوں کی عدت مراد ہے جو سن بلوغت کو نہیں پہنچیں اور ظاہر ہے کہ عدت طلاق کے بعد ہوتی ہے اور طلاق نکاح سے پہلے ممکن نہیں ہے۔

اب آئیے ذرا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے بھی پوچھ لیتے ہیں :

صحیح بخاری میں بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے متعلق حدیث کو امام بخاری رحمۃ اﷲ علیہ جس باب کے تحت لائے ہیں اس کا عنوان اسطرح ہے :
باب إنكاح الرجل ولده الصغار لقوله تعالى ‏{‏واللائي لم يحضن‏}‏ فجعل عدتها ثلاثة أشهر قبل البلوغ‏
باب اس بات پر کہ آدمی اپنی نابالغ لڑکی کا نکاح کر سکتا ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ {‏واللائي لم يحضن‏}‏ یعنی نابالغ لڑکی کی عدت تین ماہ ہے۔

اس باب کے تحت جو حدیث امام بخاری لائے ہیں اس کے الفاظ یہ ہیں کہ:
حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة ۔ رضى الله عنها ۔ أن النبي صلى الله عليه وسلم تزوجها وهى بنت ست سنين، وأدخلت عليه وهى بنت تسع، ومكثت عنده تسعا‏
بخاری ، کتاب النکاح ، باب إنكاح الرجل ولده الصغار ، حدیث:5188

محمد بن یوسف نے کہا کہ مجھ سے سفیان نے کہا کہ ہشام نے اپنے والد عروہ سے روایت کرتے ہوئے بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ :
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا عقد ہوا توان کی عمر چھ (6) سال تھی اورجب رخصتی ہوئی تو وہ نو(9) سال کی لڑکی تھیں اور شادی کے بعد وہ نو(9) سال تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہیں۔


صحیح بخاری کے علاوہ یہ حدیث صحیح مسلم ، سنن ابو داؤد ، سنن ابن ماجہ اورمسند احمد وغیرہ میں بھی آئی ہے اوراس حدیث کی سند اورمتن کی صحت پر تمام محدثین کا اتفاق ہے ۔

مذکورہ مسئلہ یعنی بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کا نو (9) سال کی عمر میں نکاح متفق علیہ ہے !!
اس نکاح کے وقوع سے لے کر آج تک اہل علم کے مابین یہ اتفاقی مسئلہ رہا ہے تمام اسلامی فرقے اس نکا ح کو صحیح مانتے ہیں اوراس کا انکار صرف ان لوگوں کی طرف سے آیا ہے جو احادیث کی حجیت کے منکر ہیں خواہ وہ کسی بھی دور میں رہے ہوں !!
 
اس سے پہلے کا آرٹیکل بھی پڑھ لیجئے۔ جس میں‌حساب کتاب بہت ہی واضح ہے حوالوں کے ساتھ۔ بہت واضح ہے کہ تمام اسلامی فرقوں اور تمام علماء‌کا اتفاق نہیں ہے۔ یہ بھی بہت واضح ہے کہ اتنے سارے علماء کا حساب خراب نہیں ہوسکتا۔ تدبر اور غور فرمائیے۔
 

زیک

مسافر
باذوق: لگے ہاتھوں قرآن و حدیث کے ذریعہ غلامی، لونڈیوں سے تعلقات اور ونی وغیرہ کے جائز ہونے کا ثبوت بھی فراہم کرتے جائیں۔:mad:
 
باذوق ایک منکر الحدیث ہیں اور تمام منکر الحدیث حساب کتاب سے دور بھاگتے ہیں۔ ان کے لئے دوسرے فرقے کے پاس موجود احادیث قابل قبول نہیں ہوتی ہیں۔ بلکہ صف وہ احادیث قابل قبول ہوتی ہیں جو ان کے استادوں کو یاد ہوں اور کہیں لکھی ہوئی نہ ہوں۔
 
اس سے پہلے کا آرٹیکل بھی پڑھ لیجئے۔ جس میں‌حساب کتاب بہت ہی واضح ہے حوالوں کے ساتھ۔ بہت واضح ہے کہ تمام اسلامی فرقوں اور تمام علماء‌کا اتفاق نہیں ہے۔ یہ بھی بہت واضح ہے کہ اتنے سارے علماء کا حساب خراب نہیں ہوسکتا۔ تدبر اور غور فرمائیے۔
اور یہ فرقے فرقے کی رٹ بھی بند کریں۔ یہ وہاں‌عیسائیوں میں‌ تو ہوتے ہیں۔
جن فرقوں‌کی اپ رٹ لگائے رکھتے ہیں ان میں بھی فرق کریں۔ فرقہ اور مسلک میں‌فرق ہوتا ہے۔ چاروں‌ائمہ کرائم فقہی مسائل کی تشریح کرتے ہیں وہ کوئی فرقے تشکیل نہیں‌دیتے ۔
برائے مہربانی عیسائی اصطلاحات مسلمانوں‌پر منطبق کرنے کی روش ترک کردیجیے۔حنفی، حبنلی، شافعی، اور مالکی مسلک ہیں فرقے نہیں۔
 

باذوق

محفلین
اس سے پہلے کا آرٹیکل بھی پڑھ لیجئے۔ جس میں‌حساب کتاب بہت ہی واضح ہے حوالوں کے ساتھ۔ بہت واضح ہے کہ تمام اسلامی فرقوں اور تمام علماء‌کا اتفاق نہیں ہے۔ یہ بھی بہت واضح ہے کہ اتنے سارے علماء کا حساب خراب نہیں ہوسکتا۔ تدبر اور غور فرمائیے۔
اول تو اس تھریڈ کا عنوان ہی غلط ہے ، یعنی : ایک پرانی روایت کی حقیقت
جبکہ "ایک روایت کی حقیقت" کافی تھا۔ کیونکہ تمام روایتیں تو 1400 سال پرانی ہی ہیں۔

اگر آپ مجھے یہ کہہ رہے ہیں کہ اس تھریڈ میں پوسٹ کیا گیا آپ کا سب سے پہلا آرٹیکل پڑھوں تو عرض ہے کہ :
اس میں ٹی۔ او ۔ شاہنواز صاحب نےتمام حوالے تاریخ اور سیر کی کتب سے دئے ہیں۔
کیا آپ "منکرینِ حدیث" سے ہٹ کر علماءِ متقدمین میں‌ سے کسی بھی ایک ایسے معروف عالم یا امام کا قول دکھا سکتے ہیں جس نے تاریخ و سیر کی کتب یا ان کتب میں درج اقوال کو دین میں حجت قرار دیا ہو ؟ یا کتبِ سیر و تواریخ کو کتبِ حدیث کے ہم پلہ قرار دیا ہو؟؟
اگر نہیں دکھا سکتے تو پھر کشادہ دلی سے مان لیجئے کہ کسی ایک صحیح حدیث کی مخالفت میں تاریخ و سیر کی کتابوں سے اکٹھا کئے گئے لاکھوں اقوال بھی دریا برد کر دینے کے قابل ہیں !!
یہ میرا نہیں عالمِ اسلام کے تمام معتبر علمائے دین کا متفقہ کلیہ ہے ، جس سے بےشک آپ کو یا منکرینِ حدیث کے قبیلے کو انکار ہو سکتا ہے۔
لیکن ۔۔۔۔
محض کوا سفید ہے یا دودھ کالا ہے کہہ دینے سے حقائق تبدیل نہیں ہو جایا کرتے !!
باذوق: لگے ہاتھوں قرآن و حدیث کے ذریعہ غلامی، لونڈیوں سے تعلقات اور ونی وغیرہ کے جائز ہونے کا ثبوت بھی فراہم کرتے جائیں۔:mad:
اسلام اور عصرِ حاضر سیکشن کے اپنے ایک تھریڈ میں نبیل صاحب بار بار تقاضا کئے جا رہے تھے کہ تھریڈ کے موضوع سے ہٹ کر گفتگو نہ کی جائے۔ یہی درخواست میں بھی آپ سے کرنا چاہوں گا۔
اور ہاں یہ "ونی" سے کیا آپ کا مطلب "خون بہا" ہے ؟؟ عربی میں اس کا مترادف معلوم ہو تو ضرور بتائیے گا۔
 
چلئے یہ طے پا گیا کہ تفسیر ابن کثیر قابل اعتبار نہیں۔ اور تاریخ و سیر بھی قابل اعتبار نہیں ۔جس کو صحیح حدیث کہا جارہا ہے ۔ اس کی ایک درست لسٹ کہاں‌مل سکتی ہے۔ یہ لسٹ ایک فرقہ سے دوسرے فرقہ میں‌بدلتی کیوں رہتی ہے؟ آپ کی ہی صحیح حدیث سے ایک سے زیادہ روایات سے بھی حوالہ جات ہیں۔ جس حضرت اسماء (ر) کی عمر ، سورۃ قمر کا نزول، اور حضرت فاطمہ (ر) سے عمر کی نسبت وغیرہ ہیں۔ یہ اگر ضعیف روایات ہیں تو پھر صحیح کتب رویات کا حصہ کیوں ہیں؟

قابل اعتبار کتب اور قابل اعتبار روایات کی متفقہ علیہ لسٹ کیوں دستیاب نہیں؟ کیا 1400 سال اس کام کے لئے کم تھے؟ یا یہ کہ ان رویات کو اتنی اہمیت ہی نہیں دی گئی؟ صرف 150 سال پہلے احمد رضا خان بریلوی کیوں ان کتب کو کوئی واضح حیثیت و اہمیت نہیں دیتے؟ کیا یہ کتب روایات سے لوگوں کا پیار نیا نیا ہے؟

صحیح مسلم کی درج ذیل روایت کا ترجمہ فرما دیجئے۔ اور قریش سے جن 12 خللفاء کا اس روایت میں میں تذکرہ ہے عنایت فرمادیجئے۔ بہت شکرگزار ہوں گا۔

[ARABIC] ‏حدثنا ‏ ‏قتيبة بن سعيد ‏ ‏حدثنا ‏ ‏جرير ‏ ‏عن ‏ ‏حصين ‏ ‏عن ‏ ‏جابر بن سمرة ‏ ‏قال سمعت ‏ ‏النبي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏يقول ‏ ‏ح ‏ ‏و حدثنا ‏ ‏رفاعة بن الهيثم الواسطي ‏ ‏واللفظ له ‏ ‏حدثنا ‏ ‏خالد يعني ابن عبد الله الطحان ‏ ‏عن ‏ ‏حصين ‏ ‏عن ‏ ‏جابر بن سمرة ‏ ‏قال ‏
‏دخلت مع أبي على النبي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏فسمعته يقول ‏ ‏إن هذا الأمر لا ‏ ‏ينقضي حتى يمضي فيهم اثنا عشر خليفة ‏ ‏قال ثم تكلم بكلام خفي علي قال فقلت ‏ ‏لأبي ‏ ‏ما قال قال ‏ ‏كلهم من ‏ ‏قريش[/ARABIC]

اس حدیث اور اس کی تشریح کا لنک یہ ہے :

http://hadith.al-islam.com/Display/...c=-1&SID=-1&pos=&CurRecPos=&dsd=&ST=&Tag=&SP=
 

باذوق

محفلین
چلئے یہ طے پا گیا کہ تفسیر ابن کثیر قابل اعتبار نہیں۔ اور تاریخ و سیر بھی قابل اعتبار نہیں ۔جس کو صحیح حدیث کہا جارہا ہے ۔ اس کی ایک درست لسٹ کہاں‌مل سکتی ہے۔ یہ لسٹ ایک فرقہ سے دوسرے فرقہ میں‌بدلتی کیوں رہتی ہے؟ آپ کی ہی صحیح حدیث سے ایک سے زیادہ روایات سے بھی حوالہ جات ہیں۔ جس حضرت اسماء (ر) کی عمر ، سورۃ قمر کا نزول، اور حضرت فاطمہ (ر) سے عمر کی نسبت وغیرہ ہیں۔ یہ اگر ضعیف روایات ہیں تو پھر صحیح کتب رویات کا حصہ کیوں ہیں؟

قابل اعتبار کتب اور قابل اعتبار روایات کی متفقہ علیہ لسٹ کیوں دستیاب نہیں؟ کیا 1400 سال اس کام کے لئے کم تھے؟ یا یہ کہ ان رویات کو اتنی اہمیت ہی نہیں دی گئی؟ صرف 150 سال پہلے احمد رضا خان بریلوی کیوں ان کتب کو کوئی واضح حیثیت و اہمیت نہیں دیتے؟ کیا یہ کتب روایات سے لوگوں کا پیار نیا نیا ہے؟

صحیح مسلم کی درج ذیل روایت کا ترجمہ فرما دیجئے۔ اور قریش سے جن 12 خللفاء کا اس روایت میں میں تذکرہ ہے عنایت فرمادیجئے۔ بہت شکرگزار ہوں گا۔

[ARABIC] ‏حدثنا ‏ ‏قتيبة بن سعيد ‏ ‏حدثنا ‏ ‏جرير ‏ ‏عن ‏ ‏حصين ‏ ‏عن ‏ ‏جابر بن سمرة ‏ ‏قال سمعت ‏ ‏النبي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏يقول ‏ ‏ح ‏ ‏و حدثنا ‏ ‏رفاعة بن الهيثم الواسطي ‏ ‏واللفظ له ‏ ‏حدثنا ‏ ‏خالد يعني ابن عبد الله الطحان ‏ ‏عن ‏ ‏حصين ‏ ‏عن ‏ ‏جابر بن سمرة ‏ ‏قال ‏
‏دخلت مع أبي على النبي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏فسمعته يقول ‏ ‏إن هذا الأمر لا ‏ ‏ينقضي حتى يمضي فيهم اثنا عشر خليفة ‏ ‏قال ثم تكلم بكلام خفي علي قال فقلت ‏ ‏لأبي ‏ ‏ما قال قال ‏ ‏كلهم من ‏ ‏قريش[/ARABIC]

اس حدیث اور اس کی تشریح کا لنک یہ ہے :

http://hadith.al-islam.com/Display/...c=-1&SID=-1&pos=&CurRecPos=&dsd=&ST=&Tag=&SP=
محترمی فاروق صاحب !
پہلے تو آپ " تفسیر ابن کثیر" اور " البدائیہ و النھائیہ" میں فرق جان لیں۔
تفسیر ابن کثیر ۔۔۔ تاریخ کی کتاب نہیں بلکہ قرآن کریم کی معروف عربی تفاسیر میں سے ایک تفسیر ہے جسے " ام التفاسیر" کا بھی لقب دیا گیا ہے۔
جبکہ " البدائیہ و النھائیہ" ، تاریخ کی کتاب ہے جسے ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے ہی تصنیف فرمایا ہے۔

اور تاریخ و سیر بھی قابل اعتبار نہیں
یہ بھی الزام ہے آپ کا ہم پر !
میں نے یوں کہا تھا :
کیا آپ "منکرینِ حدیث" سے ہٹ کر علماءِ متقدمین میں‌ سے کسی بھی ایک ایسے معروف عالم یا امام کا قول دکھا سکتے ہیں جس نے تاریخ و سیر کی کتب یا ان کتب میں درج اقوال کو دین میں حجت قرار دیا ہو ؟ یا کتبِ سیر و تواریخ کو کتبِ حدیث کے ہم پلہ قرار دیا ہو؟؟
درج بالا قول سے ایسا مفہوم قطعاَ ثابت نہیں ہوتا کہ کتبِ تاریخ و سیر یکسر ناقابلِ اعتبار ہیں۔
بلکہ صرف اتنا ظاہر ہوتا ہے کہ : تاریخ و سیر کی کتب میں درج ایک ایک قول ، دین میں حجت ہرگز نہیں ہے اور کتبِ سیر و تواریخ کا درجہ کتبِ حدیث کے برابر نہیں ہے !

آپ کی باقی باتوں کا جواب بھی فرصت سے دوں گا ، ان شاءاللہ
 

الف نظامی

لائبریرین
یہاں صرف ایک جملہ کہنا مقصود ہے۔ ورنہ میں اس تھریڈ کو کھول کر بھی نہ دیکھتا۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ قیامت کو آقا علیہ الصلوۃ‌ والسلام کو کیا منہ دکھائیں گے۔
 
صاحب آپ کو ایسا خیال کیونکر آیا کہ ہم میں سے کوئی رسول اکرم یا ام المومنین کے خلاف کچھ کہے گا؟
بات ان لوگوں کی ہورہی ہے جنہوں نے ایسی روایات شامل کیں‌ اور اہانت رسول صلعم و اہانت ام المومنین (ر)کے مرتکب ہوئے۔ ایسے لوگوں کے بیانات جو کہ تاریخ‌ اور دوسرے واقعات کی کسوٹی پر پورے نہیں‌اترتے دشمنان اسلام کے ہی ہوسکتے ہیں ۔ ان دشمنان اسلام کے بیانات کو پرکھنا، کسی طور رسول اکرم اور ام المومنین کے خلاف نہیں ہے۔

اسلام کسی اندھے ایمان کا نام نہیں ہے کہ جو کوئی بھی اسلام کے نام پر کہہ دے مان لو۔ پرکھ کا حکم خود رسول اکرم صلعم نے دیا ہے۔
بلکہ اسلام بنا دیکھے ان امور پر بناء دیکھے ایمان لانے کا نام ہے جو کسی نے بھی آج تک نہیں دیکھے۔ مثلاً‌ اللہ تعالی، فرشتے اور یوم آخرت وغیرہ، جن کا تذکرہ آپ کو قرآن میں ملتا ہے۔

والسلام
 

رضا

معطل
بہار شریعت(حصہ 16،باب۔کھیل۔) کا مطالعہ کررہا تھا تو چند احادیث نظر سے گزریں۔جن سے ثابت ہوتا ہے۔کہ نکاح کی وقت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ تعالی عنہا کی عمر مبارک کم تھی۔ملاحظہ فرمائیں۔
hazrateayshajx1.gif
 

آبی ٹوکول

محفلین
میرا نوٹ:
لگتا ہے کہ کوئی نہ کوئی گڑبڑ کی گئی ہے یا ہوئی ہے۔ ممکن ہےکہ کتابت کی غلطی کی وجہ سے بھی کسی کتاب میں 19 کی جگہ 9 سال کتابت ہوگیا۔ اور پھر اس کتاب کی تقلید ہوتی رہی۔
جی یہ کتابت کی غلطی والی بات یقینا غور طلب ہے اور اس معاملے میں لگتا بھی ہیی ہے کہ کتابت کی غلطی کی وجہ سے یہ بات مشہور ہوگئی ہے ۔
 

arifkarim

معطل
جہاں‌تک میں نے پڑھا ہے: ‌حضرت عائشہ رضی اللہ کی عمر آپ ﷺ سے شادی کے وقت 12 سال کے قریب تھی، مگر آپ ﷺ نے صرف انسے نکاح کیا تھا۔ دلہن بنا کر گھر نہیں لائے تھے۔ جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ اپنی بلوغت کی عمر غلباً 18 -16 سال کی عمر کو پہنچیں تو تب آپﷺ کے گھر گئیں‌ تھی۔ لیکن یقیناً اس بات میں‌اختلاف ہو سکتا ہے۔
 

باذوق

محفلین
جی یہ کتابت کی غلطی والی بات یقینا غور طلب ہے اور اس معاملے میں لگتا بھی ہیی ہے کہ کتابت کی غلطی کی وجہ سے یہ بات مشہور ہوگئی ہے ۔
صحیح بخاری کی حدیث میں عمر ، ہندسہ میں نہیں بلکہ الفاظ میں درج ہے۔
حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة ۔ رضى الله عنها ۔ أن النبي صلى الله عليه وسلم تزوجها وهى بنت ست سنين، وأدخلت عليه وهى بنت تسع، ومكثت عنده تسعا‏
بخاری ، کتاب النکاح ، باب إنكاح الرجل ولده الصغار ، حدیث:5188
اتنی عربی تو آپ کو آتی ہوگی کہ " ست " اور " تسع " کا مطلب سمجھ سکیں۔
ویسے اپنی پوسٹ ( نمبر : 24 ) میں تفصیل سے میں لکھ چکا ہوں۔ دوبارہ غیرضروری بحث کرنے کے لئے ، میرے پاس وقت نہیں ہے ، معذرت۔
ہاں ۔۔۔۔ ذرا آپ اپنے خیال سے یہ بتائیے کہ چھ سال میں شادی کرنے کی ممانعت قرآن میں کس جگہ پائی جاتی ہے؟؟‌ اور متقدمین مفسرین میں سے کسی ایک ایسے مفسر کی تفسیر بھی پیش فرمائیں جس نے
"وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ"
کی تفسیر میں " نابالغ لڑکیوں کی عدت " کا انکار کیا ہو۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top