سات سال میں شادی اور نو سال میں نکاح، قرآن کیا کہتا ہے۔
رسول اکرم صلعم اور حضرت ابوبکر صدیق (ر)اسلام کی دو بہت بڑی نامی گرامی شخصیتیں کیا قرآن سے باہر جاسکتے ہیں۔ جبکہ اول الذکر تو چلتا پھرتا قرآن ہیں۔ یہ دونوں حضرات کس طرح ایک 7 سال کی ایک ناسمجھ بچی کا نکاح کے لئے راضی ہوگئے؟ جبکہ اس قسم کی دوسری عرب روایات بھی نہیں ملتی ہیں اور جبکہ قرآن واضح طریقے سے کہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شادی ایک بھاری معاہدہ ہے ، قرآن شادی کو ایک بھاری معاہدہ قرار دیتا ہے۔ جو کہ نابالغوں کے درمیان ناممکن ہے۔ 7 سال کی عمر دنیا کے کسی بھی مذہب کے مطابق بالغ ہونے کی عمر نہیں۔ ہمارے رسول صلعم قرآن کے خلاف کیونکر عمل کرسکتے تھے، یہ عقل و قیاس سے بعید ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بہت واضح ثبوت ہے کہ دشمنان اسلام نے ان روایات میں کہیں تبدیلی کی لیکن دوسری جگہوں پر حساب کرنے سے ان روایات کی تصدیق نہیں ہوتی۔
السلام علیکم محترمین !
راقم کے مطالعے پر بھی غور فرمانے کے لئے کچھ وقت نکالئے گا ۔۔۔۔۔ شکریہ !
سارا زور اس بات پر دیا گیا ہے کہ نابالغ کی شادی نہیں ہو سکتی۔
ٹھیک ہے یہ اہم اور بنیادی اصول ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس میں کوئی استثنٰی بھی ہے یا نہیں ؟؟
مطلب کہ کوئی رخصت بھی دی گئی ہے یا نہیں ؟؟
اس کی مثال یوں سمجھئے کہ :
مردار حرام ہے لیکن حالت اضطرار میں (یا تین دن فاقے بعد) مردار کھا لینے کی رخصت شریعت میں دی گئی ہے۔
روزے تمام عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہیں لیکن لاعلاج مریض پر کفارہ کی ادائیگی کی رخصت ہے۔
اسی طرح کی بیسوں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
رخصت بہرحال ایک استثنٰی ہے ، یہ اصولی حکم نہیں بن سکتا۔ مگر شریعت میں رخصت کی اہمیت یقیناً ہے۔ لہذا ہر معاملے میں پہلے ہمیں یہ تمیز کر لینا چاہئے کہ اصولی حکم کیا ہے اور رخصت کیا؟ اور ان دونوں کو آپس میں گڈ مڈ نہیں کرنا چاہئے۔
اب یہاں مسئلہ یہ ہے کہ :
اصولی طور پر نکاح کی عمر کیا ہے؟
تو سب کے ساتھ ساتھ ہم بھی یہی کہیں گے کہ نکاح کی اصل عمر بلوغت ہی ہے !
اب یہاں یہ سوال اٹھے گا کہ : کیا اس اصول میں کچھ مستثنیات بھی ہیں یا نہیں ؟؟ بالفاظ دیگر ۔۔۔۔
بلوغت سے قبل بچپن میں بھی نکاح جائز ہے یا نہیں ؟؟
مستثنیات کی تلاش و تحقیق سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ نکاح کے مقاصد کیا ہیں؟
نکاح کا واحد مقصد صرف حصول اولاد نہیں ہے۔ بلکہ اولاد تو مقصد کا ثمرہ ہے جو انسان کے بس میں ہے نہیں۔ کیونکہ عین ممکن ہے کہ دو بالغ جوڑوں کی شادی کر دی جائے اور ان کے ہاں تازیست اولاد نہ ہو ۔۔۔ تب کیا کہا جائے گا کہ یہ نکاح بلامقصد ہے؟؟
نکاح کا اصل مقصد ، جس کے لیے اسلام نے نکاح کا حکم دیا ہے :
فحاشی ، بےحیائی اور زنا سے اجتناب ، مرد و عورت دونوں کی عفیف زندگی اور اس طرح پاک اور صاف ستھرے معاشرے کا قیام ہے۔ نکاح کا ایک دوسرا مقصد قریبی رشتہ داروں میں قرابت کے تعلق کو برقرار رکھنا اور مودت کو بڑھانا ہے۔
تیسرا مقصد دینی اخوت کا قیام اور اس میں اضافہ ہے۔
غرض یہ کہ نکاح ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعے کئی طرح کے دینی ، سیاسی ، معاشی اور معاشرتی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر نظر ڈالیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کتنے نکاح کئے ؟ کس عمر میں کیے ؟ کس عمر کی عورتوں سے کئے؟ اور کس کس مقصد کے تحت کئے؟
تب یہ حقیقت سامنے آ جائے گی کہ نکاح کا مقصد محض جنسی خواہشات کی تکمیل یا حصولِ اولاد ہی نہیں ہوتا بلکہ اس سے بلند تر مقاصد بھی ہو سکتے ہیں !!
اب جبکہ عقلی طور پر ہم نے مان لیا کہ نکاح کے مقاصد میں تنوع ہے تو ضروری ہے کہ نکاح کی عمر ، بلوغت میں بھی استثناء موجود ہو۔
ایک بار پھر کہا جائے گا کہ اگر چہ اصولی طور پر نکاح کی عمر بلوغت ہی ہے تاہم یہ ہر عمر میں جائز ہے اور جائز ہونا بھی چاہئے۔
اس لحاظ سے اگر ایک طرف نابالغ بچی کا نکاح نابالغ لڑکے یا جوان یا بوڑھے سے جائز ہے تو دوسری طرف ایک لڑکے کا نکاح اپنے سے بہت بڑی عمر کی عورت یا مطلقہ بلکہ دو تین بار کی مطلقہ عورت سے بھی جائز ہے۔
یہ تو عقلی توجیہات ہم نے پیش کر دیں۔
اب "نکاحِ نابالغان" کے اسی استثنائی جواز کو قرآن سے بھی ثابت دکھایا جائے گا ان شاءاللہ ، لیجئے ملاحظہ فرمائیں :
وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ
( سورة الطلاق : 65 ، آیت : 4 )
اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اگر تمہیں شک ہو (کہ اُن کی عدّت کیا ہوگی) تو اُن کی عدّت تین مہینے ہے اور وہ عورتیں جنہیں (ابھی) حیض نہیں آیا (ان کی بھی یہی عدّت ہے)
(اردو ترجمہ : ڈاکٹر طاہر القادری)
غور کیجئے کہ درج بالا آیت میں دو قسم کی مطلقہ عورتوں کی عدت تین ماہ بتائی گئی ہے۔
ایک : ایسی بوڑھی عورتیں جنہیں حیض آنا بند ہو چکا ہو
دو : ایسی نابالغ بچیاں جنہیں ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو۔
یہ تو ظاہر ہے کہ طلاق کا مرحلہ نکاح کے بعد ہی آ سکتا ہے ، پھر جب بلوغت سے پہلے طلاق ہو سکتی ہے تو نکاح کیوں نہیں ہو سکتا ؟؟
ممکن ہے کہ بعض احباب اعتراض کر بیٹھیں کہ اس آیت میں "نابالغ بچیوں" کا ذکر ہی کیوں؟ حیض نہ آنے کے دوسرے سبب بھی ہو سکتے ہیں۔
احباب کے ایسے اعتراض پر ہم جواباً پوچھنا چاہیں گے کہ ۔۔۔۔
آپ کے موقف کے مطابق نکاح کی عمر بلوغت ہے اور بلوغت کی عمر کی علامت لڑکے کے لئے احتلام اور لڑکی کے لیے حیض کا آنا ہے۔
اب اگر کسی لڑکی کو تادیر حیض آتا ہی نہیں چاہے کسی عارضے کے باعث ہی ہو ، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ نہ وہ بالغہ کہلا سکتی ہے اور نہ ہی اس کا نکاح ہو سکتا ہے ، لہذا اس کی طلاق یا عدت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ پھر ذرا بتائیں کہ آیت میں وہ کون سی "عورتیں" مراد ہیں؟؟
ظاہر ہے قرآن مجید نے یہاں وہی "استثنائی صورت" بتاتے ہوئے عدت کا ذکر کیا ہے تو یہ عدت طلاق کے بعد اور طلاق نکاح کے بعد ہی واقع ہوتی ہے ، لہذا معلوم ہوا کہ حیض آئے بغیر یا حیض آنے سے پہلے بھی عورت کا نکاح ہو سکتا ہے۔
اور ہاں ۔۔۔۔۔۔
قرآن کی اس آیت کی ایسی تفسیر و تشریح ۔۔۔۔ کسی ایرے غیرے کی نہیں ہے
مفسرین کے حوالے بھی ذیل میں ملاحظہ فرما لیں :
حافظ ابن کثیر نے لفظ
"وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ" کی تفسیر میں لکھا ہے کہ
( وکذا الصغار اللائی لم یبلغن سن الحیض )
یعنی ان نابالغ لڑکیوں کی عدت بھی تین ماہ ہے جو حیض کو نہیں پہنچیں یعنی ان کا نکاح ہوا اور رخصتی بھی ہوئی پھر کسی وجہ سے ان کو طلاق ہو گئی۔
"وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ" لفظ کی تفسیر ابن جریر طبری نے مشہور مفسرینِ قرآن مثلاً سدی کبیر اور قتادہ اور ضحاک سے بھی یہی نقل کی ہے کہ : اس لفظ سے ان نابالغ لڑکیوں کی عدت مراد ہے جو سن بلوغت کو نہیں پہنچیں اور ظاہر ہے کہ عدت طلاق کے بعد ہوتی ہے اور طلاق نکاح سے پہلے ممکن نہیں ہے۔
اب آئیے ذرا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے بھی پوچھ لیتے ہیں :
صحیح بخاری میں بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے متعلق حدیث کو امام بخاری رحمۃ اﷲ علیہ جس باب کے تحت لائے ہیں اس کا عنوان اسطرح ہے :
باب إنكاح الرجل ولده الصغار لقوله تعالى {واللائي لم يحضن} فجعل عدتها ثلاثة أشهر قبل البلوغ
باب اس بات پر کہ آدمی اپنی نابالغ لڑکی کا نکاح کر سکتا ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ {واللائي لم يحضن} یعنی نابالغ لڑکی کی عدت تین ماہ ہے۔
اس باب کے تحت جو حدیث امام بخاری لائے ہیں اس کے الفاظ یہ ہیں کہ:
حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة ۔ رضى الله عنها ۔ أن النبي صلى الله عليه وسلم تزوجها وهى بنت ست سنين، وأدخلت عليه وهى بنت تسع، ومكثت عنده تسعا
بخاری ، کتاب النکاح ، باب إنكاح الرجل ولده الصغار ، حدیث:5188
محمد بن یوسف نے کہا کہ مجھ سے سفیان نے کہا کہ ہشام نے اپنے والد عروہ سے روایت کرتے ہوئے بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ :
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا عقد ہوا توان کی عمر چھ (6) سال تھی اورجب رخصتی ہوئی تو وہ نو(9) سال کی لڑکی تھیں اور شادی کے بعد وہ نو(9) سال تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہیں۔
صحیح بخاری کے علاوہ یہ حدیث صحیح مسلم ، سنن ابو داؤد ، سنن ابن ماجہ اورمسند احمد وغیرہ میں بھی آئی ہے اوراس حدیث کی سند اورمتن کی صحت پر تمام محدثین کا اتفاق ہے ۔
مذکورہ مسئلہ یعنی بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کا نو (9) سال کی عمر میں نکاح متفق علیہ ہے !!
اس نکاح کے وقوع سے لے کر آج تک اہل علم کے مابین یہ اتفاقی مسئلہ رہا ہے تمام اسلامی فرقے اس نکا ح کو صحیح مانتے ہیں اوراس کا انکار صرف ان لوگوں کی طرف سے آیا ہے جو احادیث کی حجیت کے منکر ہیں خواہ وہ کسی بھی دور میں رہے ہوں !!