کیا دین اور سیاست دو الگ الگ چیزیں ہے؟؟؟

arifkarim

معطل
پاکستانی آئین مسلمان کی تعریف کچھ اسطرح کرتا ہے کہ
وہ شخص جو اللہ کی واحدانیت کا اقرار کرے اور محمد صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم کو اللہ کا آخری بنی و رسول مانتے ہوئے ان پر نازل ہوئی کتاب قرآن پر ایمان و عمل کرے وہ مسلمان ہے ۔
صرف قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کیلئے پاکستانی قانون سازوں کو اپنے قومی آئین میں مسلمان کی تعریف شامل کرنے کی ایسی کیا ضرورت پیش آگئی؟ کیا صدیوں سے موجود کلمہ طیبہ پڑھنے والا مسلمان کی تعریف کافی نہیں تھی؟
 

ابیرٹ

محفلین
میں یوسف ثانی صاحب سے دخواست کروں گا کہ وہ اس موضوع پر کچھ روشنی ڈالیں۔
@رمان بھائی عسکری صاحب شاید جواب دینے سے کترا رہے ہیں۔
لیکن بحرحال، ابھی میرے مخاطب بس وہی لوگ ہیں جواللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کی ہر بات کو حق مانتے ہیں۔ باقی رہے وہ لوگ جنہیں ابھی اللہ کی ذات پر ہی شک ہے اور وہ اللہ کو اللہ ماننے کے لیئے ہی تیار نہیں ہیں تو ان کے لیئے ایک الگ دھاگہ تخلیق کرنے کی ضرورت ہے جس میں اللہ کا اللہ ہونا ثابت کیا جائے۔
یہاں جو شخص بھی دین کو سیاست سے الگ ثابت کرنا چاہ رہا ہے ہیں اور وہ اللہ کی ذات اور اس کی نازل کردہ آیات پر ایمان رکھتے ہیں تو ان کے لیئے دلیل کے طور پر میں قرآن کی چند آیت پیش خدمت کرتا ہوں۔


ۭوَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ​
اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔ (المائدہ: 44)​
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ​
اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔ (المائدہ:45)​
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ​
اور جو لوگ اللہ کے نا زل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں۔ (المائدہ:47)​
اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُوْنَ ۭوَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ​
(اگر یہ خدا کے قانون سے منہ موڑتے ہیں) تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے۔ (المائدہ: 50)​
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِه ۭ وَيُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا​
اے نبیؐ ! تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نا ز ل کی گئی تھیں ، مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کریں ، حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ شیطان انہیں بھٹکا کر راہِ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے۔(النساء: 60)​
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ۭ وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ​
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکٰوۃ دیں گے ، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے ۔ اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ (الحج: 41)​
 
ملائیت سے دور رہتے ہوئے دین کے مطابق حکومت چلائی جاسکتی ہے یہ کوئی ناممکن کام نہیں ہے۔ اس ضمن میں جتنے اعتراضات کئے جاتے ہیں اور جن خدشوں کا اظہار کیا جاتا ہے وہ سب بآسانی دور ہوسکتے ہیں۔۔کرنا صرف یہ ہوگا کہ دین کے حوالے سے وہ سب باتیں جن میں کوئی اختلاف نہیں ہے، ان کو سب سے پہلے لاگو کیا جائے۔اور دین کا Essence بھی یہی امور ہیں جن میں کوئی اختلاف نہیں، مثلاّ سچ کا کلچر، امانت دیانت اور عدل و انصاف کی اقدار،ظلم کا تدارک، دولت کی منصفانہ تقسیم، اجارہ داریوں کا خاتمہ، cartelsپر پابندی، تعلیم اور معاش کے حسول کیلئے یکساں مواقع ، احترامِ انسانیت ، وغیرہ وغیرہ یہی اصلِ دین ہیں ان میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں ۔ انہیں بنیاد بناتے ہوئے امورِ مملکت چلائے جائیں۔۔۔۔۔انفرادی اختلافی امور کو فرد کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے اور اجتماعی اختلافی امور کے حوالے سے متعلقہ علماّ کی مشاورت سے win win approachکی بنیاد پر قابلِ عمل راہیں تلاش کر لی جائیں۔۔۔یہ سب ممکن ہے صرف اور صرف سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
عسکری بھائی جس مُلا کا ذکر کر رہے ہیں ۔ اس کا ذکر اقبال نے کچھ یوں کیا ہے:
اقتباس از "حکمت خیرکثیر است " ۔ (جاوید نامہ)۔
دین حق از کافری رسوا تر است
زانکہ ملا مؤمن کافر گر است
کم نگاہ و کور ذوق و ہرزہ گرد
ملت از قال و اقولش فرد فرد
مکتب و ملا و اسرارِ کتاب
کورِ مادر زاد و نورِ آفتاب
دین کافر فکر و تدبیر و جہاد
دین ملا فی سبیل اللہ فساد
آج دینِ حق کفارکے دین سے زیادہ رسوا ہے​
کیونکہ ہمارا ملا مومنوں کو کافر بنانے پر لگا ہوا ہے​
یہ کم نگاہ، کم سمجھ اور ہرزہ گرد ہے​
جسکی وجہ سے آج ملت فرد فرد میں بٹ گئی ہے​
مکتب، ملا اور اسرار قرآن کا تعلق ایسا ہی ہے​
جو کسی پیدائشی اندھے کا سورج کی روشنی سے ہوتا ہے​
آج کافر کا دین فکراور تدبیرِجہاد(جہد مسلسل) ہے​
جبکہ ملا کا دین فی سبیل اللہ فساد ہے​
--------------------​
یہ تحریر ہم نے اردو محفل ہی کی ایک پوسٹ سے نقل کی ہے۔​
لیکن اقبال نے ہی یہ بھی کہا کہ:​
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
سو ہم بھی نہیں چاہتے کہ اِس مُلا کو حکومت دی جائے۔ پھر ہم کیا چاہتے ہیں؟؟؟​
ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے سیاستدان، ہمارے سائنسدان، ہمارے مفکر، ہمارے دانشور، ہمارے ٹیکنوکریٹس، ہمارے بیوروکریٹس، ہمارے اساتذہ، ہمارے کاروباری لوگ اور ہمارے علماء اپنے اپنے شعبوں میں مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ دین کا فہم بھی رکھتے ہوں، ان میں اسلامی فلسفے کی سمجھ بوجھ ہو، اُنہیں اسلامی نظامِ معاشرت اور فلاحی معاشرے کے قیام کا بھرپور ادراک ہو۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے رہنماؤں میں اخلاص ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے پیش روؤں میں اخلاص کی کمی ہو بھی تو جوابدہی کا خوف اس کمی کو پورا کردے۔ ہم جس اسلامی حکومت کا خواب دیکھتے ہیں اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہر عہدے پر مدرسے سے مُلا کو بلا کر بٹھا دیا جائے بلکہ ہم تو ایسے قابل لوگوں کے ہاتھوں میں حکومت کی باگ دوڑ دیکھنا چاہتے ہیں جو اپنے کام میں طاق ہوں لیکن ان میں اسلامی مساوات کی روح ہو، جن کے دلوں میں اسلامی عدل و انصاف کی قدر ہو، جن کی سب ترجیحات میں معاشرے کی فلاح مقدم ہو اور جن کے دلوں میں خوفِ خدا ہو کہ وہ کسی کے ساتھ ناجائز کرتے ہوئے سو بار سوچیں ۔ جوابدہی کے خوف سے بڑا سا بڑا لالچ بھی اُنہیں صراطِ مستقیم سے نہ بھٹکا سکے اور بڑے سے بڑا خوف بھی اُنہیں حق بات کی تائید سے نہ روک سکے۔​
آج اگر مسلم معاشرہ ابتری کا شکار ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ عوام کی دین سے دوری ہے، آج ہم میں اور ہمارے اربابِ اختیار میں خوفِ خدا پیدا ہو جائے تو یہی معاشرہ بہترین معاشرہ بن سکتا ہے۔​
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
اسلام ایک مکمل ضابطہء حیات ہے وہ جو اصول لے کر آیا رہتی دنیا تک وہ روشن اور تابندہ عمل کرنے کے قابل رہیں گے
اگرکوئی ان اصولوں پر عمل نہیں کرتا تو ظاہر ہے وہ کسی بھی طبقے سے ہو ذاتی طور پر اس کا عمل غلط قرار دیا جائے گا
یہ کہہ دینا کہ مذہب اور سیاست الگ الگ چیزیں ہیں ان کا آپس میں کوئی عمل دخل نہیں بہت ہی عجیب بات ہے
مذہب نے پیدائش سے لے موت تک کی تعلیمات ہمیں ودیعت کردیں
وہ کبھی پرانا نہیں ہو سکتا
نہ اس کے اصول پرانے ہو سکتے ہیں۔۔۔
مذہب کی پہچان ملا سے نہیں ملا کی پہچان مذہب سے ہے
پھر ہر غلط فعل پر ملا کو طعن و تشنع کرنا کونسا انصاف ہوا
جہاں کہیں جو بھی غلط کرے وہ غلط ہے چاہے وہ کوئی ملا ہو یا سیکولر طبقہ
لیکن یہاں بات مذہب اور سیاست کی ہے تو یہ دونوں ایک دوسرے جدا ہو کر کیا بن جاتے ہیں بغیر روح کے جسم کی مانند بے جان۔۔۔۔
 

یوسف-2

محفلین
انسانوں کے بغیر مذہب کیا ہے ؟ اگر انسان نا ہوں تو مذہب اپنی موت تو خود مر جائے گا انسان کے دم سے مذہب ہے مذہب کے دم سے انسان نہیں ۔ آج اگر سارے مسلمان دنیا سے غائب ہو جائیں تو اگلی ازان کون دے گا کوئی عیسائی یا یہودی؟ آپ لوگ مذہب کو بچانے کے لیے انسانیت کو الزام دے سکتے ہیں میں نہین دے سکتا اسلام وہی ہے جو مسلمانوں نے اپنے افعال اور اعمال سے دکھایا اور آج کا اسلام خونی اور بہت ہی بھیانک ہو چکا ہے یہ ہم سب جانتے ہیں ۔
رہی بات عورتوں کی تو ہر مذہب نے انہین اچھی طرح نچوڑا ہے
آپ تو مادام اندرا گاندھی کے چیلے نکلے :p ایک مرتبہ کسی نے ان سے پوچھا کہ ہندو مذہب کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا تھا کہ جو ہندو کرتا ہے، وہی ہندو مذہب ہے :)
  1. اسلام وہ نہیں ہے، جو مسلمان کرتا ہے بلکہ
  2. مسلمان وہ ہے جو ”اسلام“ پر عمل کرتا ہے
  3. اور اسلام صرف اور صرف ”قرآن و سنت“ کا نام ہے
  4. مسلمان ہونے کی ”کم سے کم شرائط“ میں قرآن و صحیح حدیث کے بیان کردہ ”عقائد“ پردل سے ایمان لانا اور زبان سے اس کی تصدیق کرنا ہے۔
  5. ایک اچھا مسلمان ”فرائض “ کا تارک اور حرام کا مرتکب نہیں ہوتا۔ فرائض و حرام کو دل سے مانتے ہوئے اس پر عمل نہ کرنے والا فاسق و فاجر کہلا تا ہے۔
مسلمانوں کی تاریخ ایک الگ شئے ہے اور اسلام چیز دیگر است۔ اسلام آج کا یا کل کا نہیں ہوتا۔ اسلام حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قیامت تک ایک ہی تھا، ایک ہی ہے اور ایک ہی رہے گا۔ گو کہ ہر نبی و رسول ”شریعت“ میں کچھ نہ کچھ فرق رہا ہے مگر دین اور اسلام ایک ہی رہا ہے۔ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئے شریعت ان کی زندگی مین “مکمل“ ہوگئی تھی۔ اب اس دین و شریعت میں نہ اضافہ کیا جاسکتا ہے، نہ کمی
اسلام بنیادی طور پر تین اجزا کا مرکب ہے
  1. عقائد یا ایمانیات جیسے اللہ، رسول، آخری نبی، قیامات، قرآن، فرشتے، جنت دوزخ وغیرہ وغیرہ پر اسی طرح ایمان رکھنا، جیسا کہ قرآن و حدیث پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے۔ کوئی بھی مسلمان ان عقائد میں نہ تو کمی کرسکتا ہے، نہ اضافہ
  2. عبادات و مذہبی رسومات جو فرائض، مستحبات اور نوافل پر مشتمل ہیں۔ یہ بھی طے شدہ ہیں۔ اس میں بھی ترمیم، اضافہ یا کمی نہیں کی جاسکتی۔ جیسے روزانہ کی پانچ فرض نمازوں کو تین یا سات نہین کی سکتیں۔ اسی طرح اسلام کی 2 عیدوں میں نہ تو اضافہ کیا جاسکتا ہے اور نہ کمی کی جاسکتی ہے۔ دین اسلام میں عقائد اور عبادات طے شدہ اور فکسڈ ہیں، گو کہ عبادات کے طریقوں میں کہیں کہیں (سنت کے عین مطابق) فرق بھی پایا جاتا ہے۔
  3. معاملات ۔ دنیوی امور کو نمٹانے کے لئے جو کچھ کیا جاتا ہے (عقائد، عبادات اور مذہبی رسومات کے علاوہ) وہ سب ”معاملات“ کے ضمن میں آتا ہے۔ اس میں انسان کو کھلی آزادی دی گئی ہے کہ وہ شرعی قوائد و ضوابط (شریعت اسلامی کے بنیادی اصول) کی پاسداری کرتے ہوئے جس طرح چاہے عمل کرے۔ مثلاً وہ چاہے گدھے گھوڑے پر سفر کرے یا ہوائی جہاز پر، روٹی کھائے یا کیک،ٹینٹ میں رہے یا سیون استار ہوٹل میں۔۔۔ لیکن اپنی مرضی سے سفر، قیام و طعام کے باوجود ”ارکان حج“ میں نہ کمی کرسکتا ہے نہ زیادتی۔ کہ حج ایک طے شدہ عبادت ہے، جس کا جملہ طریقہ بھی طے شدہ ہے۔ جبکہ سفر، کھانا پینا، رہائش یہ سب ”معاملات“ کا حصہ ہیں۔ اگر جملہ انسانی معاملات (بشمول تجارت، سیاست، ریاست، دوستی دشمنی، ادائیگی حقوق زوجین، کھانا پینا، سونا وغیرہ وغیرہ) کو شرعی ضوابط کے تحت ادا کیا جائے تو یہ سب کچھ بھی ”عبادت“ بن جاتا ہے۔ اور یوں ہم اپنی پوری زندگی ”عبادت میں گذارسکتے ہی“ جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ہم نے انسانوں اور جنوں کو صرف اور صرف اپنی ”عبادت“ کے لئے پیدا کیا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب۔ اللہ کسی کمی بیشی کو معاف فرمائے۔ آمین ثم آمین
 

وجی

لائبریرین
صرف قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کیلئے پاکستانی قانون سازوں کو اپنے قومی آئین میں مسلمان کی تعریف شامل کرنے کی ایسی کیا ضرورت پیش آگئی؟ کیا صدیوں سے موجود کلمہ طیبہ پڑھنے والا مسلمان کی تعریف کافی نہیں تھی؟
جناب بات صاف کروں تو ہاں بلکل قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کےلیئے پاکستانی قانون سازوں نے ایسا کیا ۔
لیکن قانون کی ضرورت کیوں پیش آئی وہ الگ بحث ہے شاید عرصہ دراز سے کلمہ طیبہ پڑھنے والے مسلمانوں کے مسلمان کی تعریف کی ضرورت نہیں ہوئی مگر یہ تعریف پاکستانی قانون دانوں یا علماء یا آپکے نزدیک ملاؤں نے اسلام میں نہیں کی بلکہ پاکستانی قانون میں کی ہے
جسکا انکو پورا حق حاصل ہے اگر آپکو اس قانون سے تکلیف ہے تو سپریم کورٹ یا پھر قومی اسمبلی پاکستان میں جاکر اسکو تبدیل کروالیں
 

وجی

لائبریرین
عسکری بھائی جس مُلا کا ذکر کر رہے ہیں ۔ اس کا ذکر اقبال نے کچھ یوں کیا ہے:
اقتباس از "حکمت خیرکثیر است " ۔ (جاوید نامہ)۔
دین حق از کافری رسوا تر است
زانکہ ملا مؤمن کافر گر است
کم نگاہ و کور ذوق و ہرزہ گرد
ملت از قال و اقولش فرد فرد
مکتب و ملا و اسرارِ کتاب
کورِ مادر زاد و نورِ آفتاب
دین کافر فکر و تدبیر و جہاد
دین ملا فی سبیل اللہ فساد
آج دینِ حق کفارکے دین سے زیادہ رسوا ہے​
کیونکہ ہمارا ملا مومنوں کو کافر بنانے پر لگا ہوا ہے​
یہ کم نگاہ، کم سمجھ اور ہرزہ گرد ہے​
جسکی وجہ سے آج ملت فرد فرد میں بٹ گئی ہے​
مکتب، ملا اور اسرار قرآن کا تعلق ایسا ہی ہے​
جو کسی پیدائشی اندھے کا سورج کی روشنی سے ہوتا ہے​
آج کافر کا دین فکراور تدبیرِجہاد(جہد مسلسل) ہے​
جبکہ ملا کا دین فی سبیل اللہ فساد ہے​
--------------------​
یہ تحریر ہم نے اردو محفل ہی کی ایک پوسٹ سے نقل کی ہے۔​
لیکن اقبال نے ہی یہ بھی کہا کہ:​
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
سو ہم بھی نہیں چاہتے کہ اِس مُلا کو حکومت دی جائے۔ پھر ہم کیا چاہتے ہیں؟؟؟​
ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے سیاستدان، ہمارے سائنسدان، ہمارے مفکر، ہمارے دانشور، ہمارے ٹیکنوکریٹس، ہمارے بیوروکریٹس، ہمارے اساتذہ، ہمارے کاروباری لوگ اور ہمارے علماء اپنے اپنے شعبوں میں مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ دین کا فہم بھی رکھتے ہوں، ان میں اسلامی فلسفے کی سمجھ بوجھ ہو، اُنہیں اسلامی نظامِ معاشرت اور فلاحی معاشرے کے قیام کا بھرپور ادراک ہو۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے رہنماؤں میں اخلاص ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے پیش روؤں میں اخلاص کی کمی ہو بھی تو جوابدہی کا خوف اس کمی کو پورا کردے۔ ہم جس اسلامی حکومت کا خواب دیکھتے ہیں اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہر عہدے پر مدرسے سے مُلا کو بلا کر بٹھا دیا جائے بلکہ ہم تو ایسے قابل لوگوں کے ہاتھوں میں حکومت کی باگ دوڑ دیکھنا چاہتے ہیں جو اپنے کام میں طاق ہوں لیکن ان میں اسلامی مساوات کی روح ہو، جن کے دلوں میں اسلامی عدل و انصاف کی قدر ہو، جن کی سب ترجیحات میں معاشرے کی فلاح مقدم ہو اور جن کے دلوں میں خوفِ خدا ہو کہ وہ کسی کے ساتھ ناجائز کرتے ہوئے سو بار سوچیں ۔ جوابدہی کے خوف سے بڑا سا بڑا لالچ بھی اُنہیں صراطِ مستقیم سے نہ بھٹکا سکے اور بڑے سے بڑا خوف بھی اُنہیں حق بات کی تائید سے نہ روک سکے۔​
آج اگر مسلم معاشرہ ابتری کا شکار ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ عوام کی دین سے دوری ہے، آج ہم میں اور ہمارے اربابِ اختیار میں خوفِ خدا پیدا ہو جائے تو یہی معاشرہ بہترین معاشرہ بن سکتا ہے۔​
جناب عسکری صاحب تو دھاگے کے موضوع سے بلکل ہٹ گئے تھے
یہ موضوع نہیں تھا کہ ملا کو سیاست کرنی چاہیئے کہ نہیں
بلکہ موضوع تو یہ تھا کیا دین و سیاست کیا ایک چیز ہے کہ نہیں
 

عسکری

معطل
آپ تو مادام اندرا گاندھی کے چیلے نکلے :p ایک مرتبہ کسی نے ان سے پوچھا کہ ہندو مذہب کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا تھا کہ جو ہندو کرتا ہے، وہی ہندو مذہب ہے :)
واللہ اعلم بالصواب۔ اللہ کسی کمی بیشی کو معاف فرمائے۔ آمین ثم آمین
آپ کو ملانے کے لیے اور کوئی نہیں ملا کہ اس کا چیلا بنا دیا:D
----------------------​
ساجد نے مدون کیا
 

یوسف-2

محفلین
آپ کو ملانے کے لیے اور کوئی نہیں ملا کہ اس کا چیلا بنا دیا:D
چلیں اندرا گاندھی کو آپ کا چیلہ بلکہ چیلی بنادیتے ہیں۔ اب خوش :D ایک مرتبہ کسی بات پر میں نے اپنے چھوٹے برخوردار عدنان سے کہا کہ تم اور تمہاری امی دونوں ایک جیسے ہو۔ وہ شوخ امی کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔ امی میرے اوپر گئی ہیں نا :) اس کی امی نے اسے گھور کر دیکھتے ہوئے کہا: تم میرے اوپر گئے ہو یا میں تمہارے اوپر گئی ہوں۔ :) آپ چیلہ بنیں یا گرو، یہ تو طے ہے کہ مذہب کی ڈے فینیشن کے بارے میں آپ دونوں ایک دوسرے پر گئے ہیں :p
 

محمداحمد

لائبریرین
جناب عسکری صاحب تو دھاگے کے موضوع سے بلکل ہٹ گئے تھے
یہ موضوع نہیں تھا کہ ملا کو سیاست کرنی چاہیئے کہ نہیں
بلکہ موضوع تو یہ تھا کیا دین و سیاست کیا ایک چیز ہے کہ نہیں

وجی بھائی ! میرے مخاطب تو عمران بھائی ہی تھے، لیکن میرا جواب غیر متعلقہ نہیں تھا۔
 

عسکری

معطل
بس بھئی ہم جا رہے ہیں اس دھاگے سے یا تو ہماری پوسٹیں شائع نہیں کی جا رہی یا آدھی ادھوری کی جا رہی ہیں :sad:
 

محمداحمد

لائبریرین
بس بھئی ہم جا رہے ہیں اس دھاگے سے یا تو ہماری پوسٹیں شائع نہیں کی جا رہی یا آدھی ادھوری کی جا رہی ہیں :sad:

حیرت ہے ۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہاں انتظامیہ کو تدوین کا بھی اختیار ہے ۔

کہیں آپ نے "ایسی ویسی" تو کوئی بات نہیں لکھ دی؟ :)
 

شمشاد

لائبریرین
بس بھئی ہم جا رہے ہیں اس دھاگے سے یا تو ہماری پوسٹیں شائع نہیں کی جا رہی یا آدھی ادھوری کی جا رہی ہیں :sad:
تمہارے سب کے سب مراسلے شائع ضرور ہوئے ہیں لیکن ان میں سے کئی ایک غیر متعلقہ ہونے کی وجہ حذف ہوئے ہیں۔ اور صرف تمہارے ہی مراسلے حذف نہیں ہوئے، کئی ایک اور اراکین کے بھی ہوئے ہیں۔

اسی طرح بہت سارے مراسلے مختلف دھاگوں سے نکال کر گپ شپ والے زمرے میں "فضول کی گپ شپ" کے دھاگے میں منتقل کیے گئے ہیں۔

تمہارا کوئی بھی مراسلہ یا تو شائع ہوا ہے، یا حذف ہوا ہے۔ آدھا ادھورا کوئی بھی مراسلہ نہیں ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
حیرت ہے ۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہاں انتظامیہ کو تدوین کا بھی اختیار ہے ۔

کہیں آپ نے "ایسی ویسی" تو کوئی بات نہیں لکھ دی؟ :)
احمد بھائی انتظامیہ کو تدوین کا اختیار حاصل ضرور ہے لیکن انتظامیہ نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ کسی رکن کا مراسلہ اپنی مرضی سے مدون کر دیا ہو جس سے مراسلے کا مطلب بدل گیا ہے۔

انتظامیہ یا تو صاحب مراسلہ کی درخواست پر مراسلہ مدون کرتی ہے، کہ عام رکن کے پاس مراسلہ پوسٹ کرنے کے تقریباً 30 منٹ بعد مراسلے کو مدون کرنے کا اختیار نہیں رہتا، یا پھر انتظامیہ اس صورت میں مراسلہ مدون کرتی ہے کہ املاء کی غلطی سے مراسلے کا مطلب ہی بدل رہا ہو۔

مزید کچھ جاننا چاہیں گے تو ضرور پوچھیں، مجھے خوشی ہو گی۔
 
Top