دین اور سیاست کی علیحدگی پر بات کرنے سے پہلے مناسب ہے کہ دین اور مذہب پر بات کر لی جائے۔ مذہب میں چونکہ چند مذہبی رسومات و عبادات سے متعلق راہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔ اس لئے آپ کہہ سکتے ہیں کہ مذہب اور سیاست دو الگ چیزیں ہیں۔ اور وہ ممالک جو مختلف مذاہب رکھتے ہیں اور مذہب اور سیاست کو الگ الگ رکھنے کا نعرہ بھی لگاتے ہیں، وہ اپنے اس نعرے میں حق بجانب ہو سکتے ہیں۔کیونکہ وہ محض ایک مذہب کے پیروکار ہیں۔۔۔ لیکن اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں اسلام کو دین کا لقب عطا فرمایا ہے۔ اور دین ایک مکمل ضابطہ حیات کا نام ہے۔ جو زندگی کے ہر شعبے میں ، چاہے وہ مذہب ہو یا سیاست ،آپ کی راہنمائی کرتا ہے۔ بلکہ دین تو نہ صرف اس زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق راہنمائی کرتا ہے بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ آپ کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں، یہاں پر کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔ اور یہاں سے منتقل ہونے کے بعد کہاں جانا ہے اور وہاں کیا ہونا ہے۔تمام معلومات فراہم کرتا ہے۔۔۔ اسلئے اسلام کو مذہب نہیں بلکہ دین اسلام کہہ کر پکارا جاتا ہے۔جو دنیا اور آخرت کے تمام پہلؤں کا احاطہ کرتا ہے۔۔۔ انّ الدین عنداللہ الاسلام۔۔۔
جہاں تک مُلا کی اصطلاح کا معاملہ ہے تو اگر ملا سے مراد بنیادی دینی معلومات کا علم رکھنے اور اس پر عمل کرنے والا شخص ہے۔ تو پھر ہر مسلمان کے لئے ملا ہونا ضروری ہے۔۔۔ اور اس قدر ملا بننے کے بعد اب وہ چاہے ماہر معاشیات بنے،طبیب بنے، پائلٹ بنے، یا کسی کارخانے کا مزدور۔ ان شاءاللہ نہ صرف کامیاب ہوگا بلکہ جس بھی پیشے میں ہوگا اُس پیشے کا وقار بڑھائے گا۔۔۔
اور اگر مُلا سے مراد اسلامیات کا وسیع تر علم رکھنے والا، اس پر تحقیق کرنے والا اور دوسروں کو اس کی تعلیم دینے والا شخص ہے تو وہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح کسی بھی شعبے کا ماہر ہوتاہے۔ جیسے ماہر معاشیات، ڈاکٹر، سائنسدان وغیرہ۔ جو اپنے مخصوص شعبے سے متعلق اعلٰی تعلیم حاصل کر کے دوسروں کو اس کا فائدہ پہنچاتا ہے اور معاشرے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔۔۔