قیصرانی،
اسکی وجہ مجھے یہ نظر آتی ہے کہ اسمبلی میں اب اُن لوگوں کو دو تہائی کے قریب اکثریت حاصل ہو گئی ہے جنہیں مشرف مخالفین تصور کیا جاتا ہے۔ چنانچہ صدر مشرف کے لیے یہ سیٹ برقرار رکھنا بہت مشکل ہو گا۔ اگر رہ بھی گئے تو یقینا اگلے 5 سال انکی پاور میں بہت کمی آ چکی ہو گی۔
مشرف صاحب کے صدر کے عہدے پر فائز رہنے کا واحد راستہ یہ ہو سکتا ہے کہ زرداری جس "قومی حکومت" کی بات کرتے تھے اس میں قائد لیگ کو بھی شامل کریں۔ اور ایسا ہونا اس لیے ممکن ہو سکتا ہے کیونکہ امریکہ زرداری پر زور ڈال سکتا ہے کہ معتدل قوتیں پاکستان میں متحد رہیں۔
بہرحال جو کچھ بھی ہے، میری صدارتی نظام کے لیے یہ بحث مشرف صاحب کے لیے نہیں ہے بلکہ ایک عمومی فکر ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ نظام پاکستان کے لیے صحیح ہو اور ہو سکتا ہے کہ صحیح نہ ہو۔ مگر ہمیں بطور قوم اپنے اذہان کو وسعت دینے کے لیے اس آپشن پر ضرور غور کرنا چاہیے اور اس کے مثبت منفی پہلووں پر ہماری نظر ہونی چاہیے۔
زیک نے جو لنکز دیے ہیں، وہ اس سلسلے میں کافی مدد کر سکتے ہیں، مگر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمیں پاکستان کی صورتحال کو نظر میں رکھتے ہوئے اس نئے نظام کے خدوخال وضع کرنا ہوں گے۔
////////////////////
پاکستان کا ایک بہت بڑا طبقہ ہے جو کہ نظریاتی طور پر قائد لیگ سے متفق ہے، نہ نواز لیگ سے اور زرداری پارٹی سے۔ [میں بذات خود ان تینوں سے متفق نہیں بلکہ صرف صدر مشرف کی حامی ہوں]۔
تو ان میں سے کچھ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں، مگر پارلیمانی نظام میں رہتے ہوئے یہ تبدیلی ممکن نہیں اور ہر دفعہ لوٹ پلٹ کر انہیں تینوں میں سے کوئی نہ کوئی حکومت میں آتا رہے گا۔
اور مثال کے طور پر عمران خان ایک Individual ہے جو ان تینوں جماعتوں کو کرپٹ جماعتیں سمجھتا ہے۔ مگر پارلیمانی نظام میں یہ عمران خان کے لیے کبھی بھی ممکن نہیں ہو سکے گا کہ حکومت میں آئے کیونکہ کم از کم دیہی علاقوں میں جاگیرداروں کی موجودگی میں وہ وہاں سے نہیں جیت سکتا۔ اور اس برائی کا رد صرف صدارتی نظام میں ممکن ہے کہ اگر عوام ان تینوں کرپٹ جماعتوں سے مایوس ہوں تو ان کے پاس آپشن کھلا ہے اور وہ کسی چوتھے، پانچویں، چھٹے۔۔۔ امیدوار کو کامیاب کر کے ان جماعتوں سے انتقام لے سکتے ہیں٫
اور اگر ان 5 سالوں میں زرداری پارٹی حکومت کو صحیح نہ چلا سکی، تو پھر بطور قوم ہمیں صدارتی نظام پر زیادہ غور و فکر کرنی چاہیے۔
////////////////////
پاکستان کے حوالے سے صدارتی نظام کی ایک اور برکت میری نظر میں یہ ہو سکتی ہے کہ:
1۔ یہ تجربہ یاد رکھئیے کہ ہمارے امیدوار جو انتخابات میں کھڑے ہوتے ہیں اُن کا بنیادی مقصد پاکستان کا نظریہ نہیں بلکہ کرپشن کے ذریعے اپنی جیبیں بھرنا ہوتا ہے تاکہ ترقیاتی کاموں کے نام پر جو رقوم اُن کے حوالے کی جائیں اس میں سے کمیشن کھا سکیں۔
2۔ اس چیز کا صحیح مشاہدہ اُس وقت ہوا جب ان کرپٹ لوگوں کی ترجیحات صوبائی اسمبلی کے لیے ختم ہو گئی اور انہیں صوبائی سیٹ کی جگہ ضلعی ناظمین کی سیٹ زیادہ پر کشش محسوس ہونے لگی۔ کیونکہ ضلعی نظام کے بعد ترقیاتی رقوم ضلعی سیٹ کے لیے مختص ہو گئی اور صوبائی اسمبلی کا کام صرف قانون سازی رہ گیا۔
3۔ جب صدارتی نظام متعارف کروایا جائے گا تو قومی اسمبلی کی بھی یہی حالت ہو جائے گی اور اسکا کام صرف قانون سازی تک محدود ہو جائے گا یا پھر صدر پر چیک رکھنے کے۔ اس طرح وہ لوگ جو قومی اسمبلی کے انتخابات اپنی جیبیں بھرنے کے لیے لڑتے ہیں، اُنکے لیے قومی اسمبلی کی یہ کشش کم ہو جائے گی۔
اگرچہ کہ یہ ایک تھیوری ہی ہے، مگر اگر ٹھیک ہے تو پھر یہ بھی صدارتی نظام کے لیے مثبت پوائنٹ ہے۔