کیا صدارتی نظام پاکستان کو برادری سسٹم سے نجات دلا سکتا ہے

شمشاد

لائبریرین
اختلافات اپنی جگہ، مگر ملککے متعلق میری نیک نیتی پر اتنا تو یقین رکھئیے :)


ساجد:
اس کے کیا معنی ہوئے؟ پولیس نظام میں کونسی تبدیلی کی گئی ہے؟
ضلعی حکومتوں کا جس کو فائدہ ہوا ہو، وہ تو ایسی باتیں کر سکتا ہے لیکن مجھے تو اس کا کوئی فائدہ آج تک نظر نہیں آیا۔ اور یہ کوئی نیا نظام تو نہیں تھا اس سے پہلے بھی کافی عرصہ یہ رائج رہا ہے۔

پولیس میں بہت سی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ میں دیکھتی ہوں کہ کوئی لنک مل جائے جہاں آپ تفصیل سے ان تبدیلیوں کو پڑھ سکیں۔ موٹے موٹے الفاظ میں پولیس چلانے کا طریقہ کار وہی تھا جو انگریزوں نے 1850 کے لگ بھگ چالو کیا تھا۔
پھر پولیس میں بھرتی کی صرف سفارش پر ہوتی تھی۔ اس چیز کو ختم کر کے باقاعدہ معیار مقرر کیے گئے ہیں اور اب انتہائی پڑھے لکھے لوگ پولیس میں منتخب کیے جا رہے ہیں [کم از کم پولیس بھرتی کا شعبہ سفارش سے پاک ہو گیا ہے] ۔ امید ہے کہ جب یہ نئی پود پولیس کا انتظام آہستہ آہستہ اپنے ہاتھ میں لینا شروع کرے گی تو پولیس کا کردار پاکستان میں پہلی مرتبہ بدلنا شروع ہو گا۔

/////////////


مہوش مجھے آپ سے اختلاف ہے۔ یہ سب باتیں پرنٹ میڈیا میں ہوں تو ہوں، عملی طور پر وہی مرغے کی ایک ٹانگ ہے۔

میرے ایک قریبی عزیز نے موٹر وے پولیس میں بھرتی کے لیے تمام ٹیسٹ پاس کر لیے، سب کچھ ہو گیا لیکن اس کو تقرری کا خط نہیں ملا کیونکہ وہ آخری شرط پوری نہیں کر پایا تھا کہ اسی ہزار روپے دو۔

پنجاب میں تو یہ افواہ تو عوام ہے کہ پرویز الہٰی نے پولیس میں بہت لوگ بھرتی کئے ہیں، پڑھے لکھے بھرتی کئے ہیں جن کا نرخ اسی ہزار روپے تھا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اس کی کوئی خاص وجہ؟

قیصرانی،
اسکی وجہ مجھے یہ نظر آتی ہے کہ اسمبلی میں اب اُن لوگوں کو دو تہائی کے قریب اکثریت حاصل ہو گئی ہے جنہیں مشرف مخالفین تصور کیا جاتا ہے۔ چنانچہ صدر مشرف کے لیے یہ سیٹ برقرار رکھنا بہت مشکل ہو گا۔ اگر رہ بھی گئے تو یقینا اگلے 5 سال انکی پاور میں بہت کمی آ چکی ہو گی۔
مشرف صاحب کے صدر کے عہدے پر فائز رہنے کا واحد راستہ یہ ہو سکتا ہے کہ زرداری جس "قومی حکومت" کی بات کرتے تھے اس میں قائد لیگ کو بھی شامل کریں۔ اور ایسا ہونا اس لیے ممکن ہو سکتا ہے کیونکہ امریکہ زرداری پر زور ڈال سکتا ہے کہ معتدل قوتیں پاکستان میں متحد رہیں۔

بہرحال جو کچھ بھی ہے، میری صدارتی نظام کے لیے یہ بحث مشرف صاحب کے لیے نہیں ہے بلکہ ایک عمومی فکر ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ نظام پاکستان کے لیے صحیح ہو اور ہو سکتا ہے کہ صحیح نہ ہو۔ مگر ہمیں بطور قوم اپنے اذہان کو وسعت دینے کے لیے اس آپشن پر ضرور غور کرنا چاہیے اور اس کے مثبت منفی پہلووں پر ہماری نظر ہونی چاہیے۔

زیک نے جو لنکز دیے ہیں، وہ اس سلسلے میں کافی مدد کر سکتے ہیں، مگر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمیں پاکستان کی صورتحال کو نظر میں رکھتے ہوئے اس نئے نظام کے خدوخال وضع کرنا ہوں گے۔

////////////////////

پاکستان کا ایک بہت بڑا طبقہ ہے جو کہ نظریاتی طور پر قائد لیگ سے متفق ہے، نہ نواز لیگ سے اور زرداری پارٹی سے۔ [میں بذات خود ان تینوں سے متفق نہیں بلکہ صرف صدر مشرف کی حامی ہوں]۔

تو ان میں سے کچھ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں، مگر پارلیمانی نظام میں رہتے ہوئے یہ تبدیلی ممکن نہیں اور ہر دفعہ لوٹ پلٹ کر انہیں تینوں میں سے کوئی نہ کوئی حکومت میں آتا رہے گا۔

اور مثال کے طور پر عمران خان ایک Individual ہے جو ان تینوں جماعتوں کو کرپٹ جماعتیں سمجھتا ہے۔ مگر پارلیمانی نظام میں یہ عمران خان کے لیے کبھی بھی ممکن نہیں ہو سکے گا کہ حکومت میں آئے کیونکہ کم از کم دیہی علاقوں میں جاگیرداروں کی موجودگی میں وہ وہاں سے نہیں جیت سکتا۔ اور اس برائی کا رد صرف صدارتی نظام میں ممکن ہے کہ اگر عوام ان تینوں کرپٹ جماعتوں سے مایوس ہوں تو ان کے پاس آپشن کھلا ہے اور وہ کسی چوتھے، پانچویں، چھٹے۔۔۔ امیدوار کو کامیاب کر کے ان جماعتوں سے انتقام لے سکتے ہیں٫

اور اگر ان 5 سالوں میں زرداری پارٹی حکومت کو صحیح نہ چلا سکی، تو پھر بطور قوم ہمیں صدارتی نظام پر زیادہ غور و فکر کرنی چاہیے۔

////////////////////

پاکستان کے حوالے سے صدارتی نظام کی ایک اور برکت میری نظر میں یہ ہو سکتی ہے کہ:

1۔ یہ تجربہ یاد رکھئیے کہ ہمارے امیدوار جو انتخابات میں کھڑے ہوتے ہیں اُن کا بنیادی مقصد پاکستان کا نظریہ نہیں بلکہ کرپشن کے ذریعے اپنی جیبیں بھرنا ہوتا ہے تاکہ ترقیاتی کاموں کے نام پر جو رقوم اُن کے حوالے کی جائیں اس میں سے کمیشن کھا سکیں۔

2۔ اس چیز کا صحیح مشاہدہ اُس وقت ہوا جب ان کرپٹ لوگوں کی ترجیحات صوبائی اسمبلی کے لیے ختم ہو گئی اور انہیں صوبائی سیٹ کی جگہ ضلعی ناظمین کی سیٹ زیادہ پر کشش محسوس ہونے لگی۔ کیونکہ ضلعی نظام کے بعد ترقیاتی رقوم ضلعی سیٹ کے لیے مختص ہو گئی اور صوبائی اسمبلی کا کام صرف قانون سازی رہ گیا۔

3۔ جب صدارتی نظام متعارف کروایا جائے گا تو قومی اسمبلی کی بھی یہی حالت ہو جائے گی اور اسکا کام صرف قانون سازی تک محدود ہو جائے گا یا پھر صدر پر چیک رکھنے کے۔ اس طرح وہ لوگ جو قومی اسمبلی کے انتخابات اپنی جیبیں بھرنے کے لیے لڑتے ہیں، اُنکے لیے قومی اسمبلی کی یہ کشش کم ہو جائے گی۔

اگرچہ کہ یہ ایک تھیوری ہی ہے، مگر اگر ٹھیک ہے تو پھر یہ بھی صدارتی نظام کے لیے مثبت پوائنٹ ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
میرا علم محدود ہے۔ لیکن کل جیو کے ایک پروگرام میں ق لیگ کے ایک صاحب بتا رہے تھے کہ سینیٹ میں اب بھی ان کی اکثریت ہے
 

شمشاد

لائبریرین
سینٹ میں اکثریت پر ہی تو پرویز الہٰی اور پرویز مشرف اکڑ رہے ہیں کہ منتخب حکومت کوئی قانون بنا کر تو دکھائے۔
 

زرقا مفتی

محفلین
مہوش صاحبہ
آپ نے شاید پاکستان میں الیکشن کے عمل کو قریب سے نہیں دیکھا
صحیح معنوں میں لینڈ ریفارمز کے بغیر جاگیردارانہ نظام ختم نہیں ہو سکتا ۔ دیہات میں برادری سسٹم بھی کسی حد تک جاگیردارانہ نظام کے زیرِ اثر ہے
شہروں میں لوگ ذاتی مسائل اور ذاتی تعلقات اور ذاتی پسند نا پسند کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں
پارلیمانی نظام میں ایسی کوئی خرابی نہیں
یہی نظام بہت کامیابی سے ہمارے ہمسایہ ملک میں چل رہا ہے
شاید وہاں طالع آزما اداروں کو مقدس سمجھتے ہیں اور انہیں تباہ کرنے سے اجتناب کرتے ہیں
اسی لئے وہاں کبھی فوج نے اقتدار پر قبضہ نہیں کیا
کسی صدر نے وزیرِ اعظم کے اختیارات سلب نہیں کئے
میں سمجھتی ہوںکہ ہمارے ملک کے لئے پا رلیمانی صدارتی نظام بہتر ہے (پارلیمانی نظام کے تحت منتخب ہونے والے حکمران کو صدر یا وزیرِاعظم کوئی بھی نام دیا جا سکتا ہے
تاکہ صدر اور وزیرِ اعظم کے درمیاں اختیارات کی رسہ کشی ختم ہو سکے
ویسے بھی ایک نمائشی عہدے کی کوئی خاص افادیت نہیں
نمائشی صدر اور گورنر ٹیکس گزاروں پر ایک معاشی بوجھ کے سوا کچھ نہیں
والسلام
زرقا
 

مہوش علی

لائبریرین
اس موضوع کو ایک دفعہ پھر تازہ کرنے کی ضرورت پیش آ رہی ہے تاکہ بہت سے نئے ممبران بھی اس سے گفتگو میں شریک ہو سکیں۔

پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام پر کیا فوقیت حاصل ہے؟
ابتک کے تبادلہ خیالات کے بعد پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام پر فوقیت دینے کے لیے ذیل کے دلائل پیش کیے گئے ہیں:

1۔ انڈیا اور آس پاس کے ممالک میں پارلیمانی نظام کامیابی سے چل رہا ہے (جیسا زرقا نے اوپر بیان کیا ہے)۔
مجھے انڈیا کے الیکشنز اور پارلیمانی نظام پر انڈین مسلمانوں سے بات کرنے کا اتفاق ہوا ہے اور میرا نہیں خیال کہ انڈیا میں یہ نظام بہت کامیابی سے چل رہا ہے۔ انڈین اقلیتوں کو (بشمول مسلمانوں کے) اس پارلیمانی نظام میں سب سے زیادہ شکایت ہے کیونکہ انکے ووٹ اس میں خاص طور پر مارے جاتے ہیں اور انکی آبادی کے تناسب سے کبھی بھی سیٹیں مسلمانوں کو مل ہی نہیں سکتی ہیں۔ بہرحال، انڈیا کا مسئلہ الگ ہے۔

2۔ دوسرا فائدہ یہ گنوایا گیا ہے کہ صدارتی نظام میں ہو سکتا ہے کہ بقیہ صوبے احتجاج کریں کہ پنجاب سے کوئی امیدوار اس بنیاد پر زیادہ ووٹ لے جائے گا کیونکہ اہل پنجاب کی آبادی زیادہ ہے۔
مگر میرے خیال میں یہ صحیح تجزیہ نہیں ہے کیونکہ یہی الزام اُس وقت بھی لگتا ہے جب پارلیمان میں پنجاب کی سیٹیں تقریبا فیصلہ کن حد تک موجود ہیں کیونکہ یہ مجموعی طور پر پاکستان کی آبادی کا بہت بڑا حصہ اہل پنجاب پر مشتمل ہے۔ اب چاہے کان یہاں سے پکڑیں یا وہاں سے، پنجاب کا یہ تناسب تو باقی رہنا ہی ہے۔
بلکہ حالات خراب ہو رہے ہیں اور پارٹیوں پر اب زیادہ چھاپ ہے کہ وہ صرف ایک طبقے کی نمائندگی کرتی ہیں جیسے:
۔ عوامی نیشنل پارٹی مجیب الرحمان والی پر مشرقی پاکستان کی چھاپ تھی۔
۔ نواز لیگ پر پنجاب کی چھاپ ہے۔
۔ ایم کیو ایم پر کراچی کی چھاپ ہے۔
۔ اے این پی پر پشاور کی چھاپ ہے۔
۔ ایم ایم اے پر بلوچستان اور کچھ پشتون علاقوں کی چھاپ ہے۔
۔ پیپلز پارٹی کو سندھی پارٹی کے طور پر متعارف کروایا جاتا ہے۔
چنانچہ نیٹ رزلٹ ہر صورت میں برابر ہی ہے۔ چاہے کان کو یہاں سے پکڑیں یا وہاں سے۔ بلکہ صدارتی نظام میں ہو سکتا ہے کہ صدارتی امیدواروں پر یہ چھاپ پارٹیوں کی نسبت کم ہی ہو۔

3۔ ایک ڈر یہ بھی تھا کہ جس طرح پہلے کچھ افریقی یا ساؤتھ امریکن ممالک وغیرہ میں صدارتی نظام آمریت میں تبدیل ہوئے ہیں، ایسا ہی پاکستان میں نہ ہو جائے۔
مگر یہ ڈر بھی اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ آج میڈیا آزاد ہے اور یہ جتنی بھی مثالیں ہیں، یہ بہت پرانی ہیں۔ آج کی دنیا میں یہ ممکن نہیں۔ بلکہ مشرف صاحب تو فوجی صدر تھے۔ تو اسکے مقابلے میں کسی "جمہوری صدر" سے ڈرنا یقینا غیر ضروری اعتراض ہو جائے گا۔

صدارتی نظام کو پارلیمانی نظام پر کیا فوقیت حاصل ہے؟

1۔ اسکا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ عوام کو کرپٹ پارٹی سسٹم کو نہیں، بلکہ براہ راست اپنا لیڈر چننے کا موقع ملے گا۔
۔ یہ عوام کا براہ راست چنندہ لیڈر بہت حد تک کسی بھی پارٹی کی بلیک میلنگ سے آزاد ہو گا۔
۔ چونکہ اسے عوام براہ راست منتخب کریں گے، اس لیے آپ کو اسمبلیوں میں کوئی لوٹا گیم یا ہارس ٹریڈنگ ہوتی مزید نظر نہیں آئے گی اور نہ ہی چھوٹی پارٹیاں حکومتی پارٹی کو بلیک میل کرتی نظر آئیں گی۔ یہ ساری برکتیں صرف پارلیمانی نظام میں نظر آتی ہیں۔ میرے خیال میں صرف ایک یہ ہی چیز کافی ہے کہ پاکستان میں صدارتی نظام کا اطلاق کیا جائے۔

پاکستان کے انتخابات میں بہت سے لوگ جاگیردارانہ یا برادری سسٹم کے تحت اپنے اپنے علاقوں سے جیت جاتے ہیں۔
صدارتی نظام میں بھی یہ لوگ ہو سکتا ہے کہ اپنے اپنے علاقوں سے یوں ہی جیتے رہیں۔ مگر صدارتی نظام کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ایسے منتخب لوگوں کی طاقت اسمبلی میں "حکومت سازی کے کھیل" سے ختم ہو کر صرف اور صرف "قانون سازی" تک رہ جاتی ہے جو کہ پارلیمنٹ کا اصل مقصد ہے۔ اور یہ چیز جاگیرداروں یا مفاد پرستوں کے لیے دلچسپی کا باعث نہیں۔
اسکی ایک مثال آپ کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں بہت کھل کر نظر آئی ہو گی کہ جب ضلعی نظام نافذ ہوا اور ترقیاتی کاموں وغیرہ کا چارج ضلعی حکومت کے پاس گیا، اور صوبائی اسمبلی کے ذمہ صرف قانون سازی کا کام رہ گیا تو ان مفاد پرستوں اور جاگیرداروں کی دلچسپی ان صوبائی انتخابات میں اتنی کم ہو گئی کہ انہوں نے صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کے لیے لڑنے کے بجائے ضلعی انتظامیہ کے الیکشنز کے لڑنے کو ترجیح دی۔
چنانچہ اگر قومی اسمبلی کا کام بھی فقط "قانون سازی" رہ گیا، تو پھر مجھے یقین ہے کہ صوبائی اسمبلی جیسا خوشگوار تجربہ ہم قومی اسمبلی میں بھی ہوتے دیکھے گے، اور پھر قومی اسمبلی میں فقط وہی لوگ آیا کریں گے جو واقعی پاکستان کے لیے قانون سازی کرنے میں مخلص ہوں گے۔


3۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں بہت کرپٹ نظام کا شکار ہیں اور ان میں بہتری کی گنجائش مشکل سے ہی نظر آتی ہے۔ ان تمام تر برائیوں کے باوجود پارلیمانی نظام میں یہی پارٹیاں الٹ پلٹ کر حکومت میں آتی رہیں گی۔
جبکہ صدارتی نظام وہ واحد نظام ہے جس میں ایک غریب، مگر پاکستان کا مخلص شخص اپنی انفرادیت کو منواتا ہوا ملک کا صدر بن سکتا ہے۔ اسکی سب سے اچھی مثال ہمارے سامنے احمدی نجاد کی شکل میں موجود ہے جو کہ یونیورسٹی کا ایک سادہ سا پروفیسر تھا اور اتنا غریب تھا کہ اسکے بچے اگر زیادہ انٹرنیٹ استعمال کر لیتے تھے تو اسے بل بھرنا مشکل ہو جاتا تھا۔

پاکستان میں اللہ کے فضل ہو کرم سے انفرادی رجل پیدا ہوتے رہی ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ قوم انہیں جانتی بھی ہے۔ مگر پھر بھی پارٹی سسٹم کے تحت ایسے لوگوں کا منزل تک پہنچنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ بہت سے تو ان میں سے ایسے خواب سرے سے دیکھیں گے ہی نہیں۔ بہت سے کوشش کریں گے کہ پارٹیوں کے اسی کرپٹ سسٹم میں آ کر کام کریں، مگر یہ ممکن ن ہو گا۔ واحد ایک مثال عمران خان کی ہے جس نے اتنا جگر گردہ دکھایا ہے کہ اپنی الگ پارٹی بنا لے، مگر آج اسکی پارلیمنٹ میں ایک بھی سیٹ نہیں ہے، اور اگلے انتخابات میں اگر پچاس سیٹیں بھی لے جاتا ہے تب بھی حکومت کا وہ کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

چنانچہ، ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف یہ کہنا چاہتی ہوں کہ اگر پارلیمانی نظام ناکام ہوتا دکھائی دے تو پھر ہمیں سنجیدگی سے صدارتی نظام کو بطور آپشن دیکھنے کی ضرورت ہے۔ دیگر ممالک میں قائم صدارتی نظام کا ہم مطالعہ کر سکتے ہیں اور اپنے حالات کے مطابق چیزوں کا تجزیہ کر سکتے ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
زیک، میں نے ان تمام لنکز کو اوپن کیا تھا اور ان میں سے دو کو توجہ سے پڑھا بھی تھا، جبکہ باقیوں پر سرسری نظر پڑی تھی۔
اسکے علاوہ بھی آرٹیکلز میں نے اس موضوع پر پڑھے ہیں۔ خاص طور پر پاکستان کے حوالے سے تو نہیں، لیکن انڈیا میں صدارتی نظام کے حوالے سے اُس وقت کچھ اچھے ریسرچ آرٹیکلز پڑھنے کو ملے تھے۔

اس سب تحقیق کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ پارلیمانی نظام کی طرفداری کرنے والے حضرات کا صدارتی نظام پر سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ ماضی میں "تناسب" کے اعتبار سے یہ زیادہ تر فوجی آمریت کا شکار ہوا ہے۔ اس اعتراض کے علاوہ مجھے کوئی اور خاص اعتراض کی وجہ نظر نہیں آئی اور اگر دو چار چھوٹے موٹے پوائنٹ پارلیمانی سسٹم کے حق میں جا بھی رہے ہیں تو انہیں صدارتی سسٹم میں بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ اور آمریت کے حوالے سے میں پہلے اپنا تبصرہ لکھ چکی ہوں کہ ماضی کے مقابلے میں اگر ہم "آج" پر نظر ڈالیں تو میڈیا اسقدر آزاد ہو چکا ہے کہ "فوجی صدر" کی کوئی آمریت نہیں چل سکتی تو پھر "جمہوری صدر" کی آمریت چلنے کا سوال ہی ختم ہو گیا ہے۔

اوپر انڈیا کے متعلق مثال دی گئی تھی کہ انڈیا نے پارلیمانی نظام کے تحت ترقی کی ہے۔ یہ بات صرف partially درست ہے اور لوگوں کو انڈیا کے اصل مسائل کا علم نہیں، جو کہ بعینہ وہی مسائل ہیں جو پاکستان میں پارلیمانی، جاگیردارانہ، غندہ گردانہ نظاموں کے وجہ سے ناسور کی طرح پھیلے ہوئے ہیں۔

ابتدائی طور پر میں آپ کو انڈیا کے پارلیمانی نظام کے متعلق یہ آرٹیکل سٹڈی کرنے کی درخواست کروں گی۔ آپکو اندازہ ہو گا کہ پارلیمانی نظام کے تحت انڈیا میں جو برائیاں پیدا ہوئی ہیں وہ کتنی Real ہیں اور کس طرح پاکستان بھی ان تمام برائیوں کا سامنا کر رہا ہے۔ پارلیمانی نظام کی سب سے بڑی بُرائی یہ ہے کہ اسمبلی میں بیٹھے ہوئے لوگ "بہت طاقتور" ہیں اور قانون سازی انکے لیے ثانوی چیز ہے اور انکا اصل انٹرسٹ "حکومت سازی" کے لیے ہارس ٹریڈنگ و بلیک میلنگ وغیرہ پر مشتمل ہے۔ اسمبلی میں بیٹھے یہ "طاقتور لوگ" اپنی برادری، یا جاگیردارانہ سسٹم کے تحت حکومت کا حصہ بن کر اپنا عمل دخل و اختیارات بڑھا لیتے ہیں، جبکہ صدارتی سسٹم میں جاگیردارانہ نظام، یا غنڈہ گردی کا نظام یا برادری نظام وغیرہ یہ سب چیزیں کام نہیں آ سکتیں۔

اوپر والے آرٹیکل میں پارلیمانی نظام کو انڈیا کے لیے Discord کا باعث قرار دیا گیا ہے، جاگیردارانہ سسٹم، مافیا سسٹم، بڑے بڑے غنڈوں کا اسمبلیوں تک پہنچنا، برادریوں کی بنیاد پر جاہلوں کا اسمبلیوں تک پہنچنا وغیرہ یہ سب کی سب پارلیمانی سسٹم کی سوغات ہیں۔

آخر میں صرف اتنی سی بات کہ پارلیمانی سسٹم کامیاب ہو سکتا ہے، لیکن صرف انتہائی پڑھی لکھی ڈسپلنڈ اقوام میں جہاں کوئی غنڈہ، کوئی جاگیردار موجود نہیں ہے اور نہ ہی کرپشن کھلے عام ہو سکتی ہے۔ ورنہ الٹا یہ سسٹم آپ کے گلے پڑ جائے گا جیسا کہ آج پڑا ہوا ہے۔ انڈیا و پاکستان کے حوالے سے خاص طور پر کھلے عام کرپشن، جاگیردارانہ سسٹم، کھلے عام ہارس ٹریڈنگ، سیاسی پارٹیوں کی انتہائی بری حالت اور خود کرپٹ ہونا، ۔۔۔۔ یہ سب کی سب وہ بیماریاں ہیں جنکے ہوتے ہوئے پارلیمانی نظام کا سوچنا کم از کم میرے نزدیک بہت بڑی غلطی ہے۔
[آپ لوگوں سے درخواست ہے کہ اوپر موجود انڈیا کے متعلق آرٹیکل کو ضرور سے پڑھیں کیونکہ اس سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں]
 

arifkarim

معطل
اس بحث کا نتیجہ صفر نکلے گا کیونکہ صدارتی نظام کا آقا حضرت امریکہ میں خود برادری سسٹم رائج ہے۔ بش اوبامہ و ڈک چینی سب آپس میں رشتہ دار ہیں۔ امریکہ پر پچھلے سو سال سے راکفیلر اور مارگن خاندانوں کا قبضہ ہے:
جس نظام کو بنیاد بنا کر بحث کی جا رہی ہے، جب وہاں ہی وہ درست کام نہیں‌کر رہا تو پاکستان جیسے کرپٹ ملک میں‌کیا خاک کام کرے گا؟
 

قیصرانی

لائبریرین
نظام یا ملک کو برا کہنے کا کیا فائدہ؟ ہر نظام درست بھی استعمال ہو سکتا ہے اور غلط بھی۔ اگر آپ کے پاس ایک ہتھیار یا علم ہے لیکن آپ اسے استعمال نہیں کر پا رہے یا اس کا درست استعمال نہیں جانتے تو غلطی آپ کی ہے نا کہ علم یا ہتھیار کی۔ اب پھر آپ اس وجہ سے اس ہتھیار کو چھوڑ کر دوسرا پکڑیں یا اس علم کو چھوڑ کر دوسرا علم اپنائیں، نتیجہ ڈھاک کے تین پات ہی رہنا ہے
 

راشد احمد

محفلین
پارلیمانی نظام ہو یا سیاسی نظام دونوں میں کافی قباحتیں ہیں۔
پاکستان میں پارلیمانی نظام ناکام ہونے کی وجوہات

1۔ جاگیرداری نظام
ہر جاگیردار کا ایک مخصوص حلقہ ہوتا ہے جس میں رہ کر وہ سیٹ جیت کر اسمبلی میں پہنچ جاتا ہے۔ جاگیرداری نظام کی وجہ سے ہی تعلیم، صحت، قانون اور دیگر شعبوں میں کوئی خاص ترقی نہیں‌ہوسکی

2۔ موروثیت
ایسا شخص جو خود سیاستدان ہو اس کا باپ، بیٹا، بھائی، بہن، بیٹی یا بیوی سیاست میں‌آجاتی ہے جیسے
میاں نواز شریف کا بھائی وزیر اعلٰی پنجاب شہباز شریف کا بیٹا حمزہ شہباز، میاں نواز شریف کے دیگر رشتہ دار عابد شیر علی، بلال یاسین
یوسف رضاگیلانی کا بیٹا عبدالقادر گیلانی
چوہدری شجاعت کے بھائی اور کزن پرویز الہٰی کا بیٹا مونس الٰہی
آصف زرداری کی بہنیں
قائم علی شاہ کی بیٹی
خواجہ سعد رفیق کی بیوی اور بھائی
پیرپگاڑا کا بیٹا اور بہو
فاروق لغاری کا بیٹا، سرحد میں بلور برادران، اسفندیارولی
اکبر بگٹی کے بیٹے اور پوتے

3۔ غیر جمہوری پارٹی سسٹم
پارٹیوں میں کوئی جمہوریت نہیں ہے جو شخص پارٹی بناتا ہے اس کا بھائی، بیٹا، بیٹی اس پارٹی کے مالک بن جاتے ہیں جو تمام فیصلے اکیلے ہی کرتے ہیں۔

4۔ کمزور پارلیمنٹ
پارلیمنٹ میں کوئی فیصلہ نہیں‌ہوتا صرف بحث یا لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔

5۔ آپس کے لڑائی جھگڑے
مختلف پارٹیاں‌آپس میں گتھم گتھا ہوتی رہتی ہیں۔ جس کی وجہ سے جمہوری نظام کمزور ہوتا رہتا ہے۔

6۔ لوٹا کریسی
پارٹی میں حکومت بنانے کے لئے لوٹا کریسی کا سہارا لیا جاتا ہے جیسے کسی جماعت کے پاس مطلوبہ اکثریت نہ ہو تو وہ دوسری پارٹی کے رکن توڑلیتا ہے اس کے لئے وہ رشوت، دھمکیوں اور دیگر مراعات کا لالچ دیتا ہے۔

7۔ علاقائی اور قوم پرست جماعتیں
علاقائی اور قوم پرست جماعتیں بھی پارلیمانی نظام کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ یہ جماعتیں حکومت سازی کے لئے کسی بڑی جماعت سے اتحاد کرلیتی ہیں اور مختلف اوقات میں انہیں‌ اپنے مفادات کے لئے بلیک میل کرتی رہتی ہیں جیسے اے این پی اور فضل الرحمان لیگ کرتی ہیں

8۔ الیکشن
الیکشن بھی پارلیمانی نظام میں‌حائل ہے۔ ہمارے ہاں‌آزاد الیکشن کمیشن کا تصور نہیں ہے اور الیکشن کمیشن حکومت کے ماتحت ہوتا ہے جس کی وجہ سے دھاندلی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ الیکشن میں دھاندلی کی ایک وجہ پرانا الیکشن کا نظام ہے۔

9۔ مضبوط بلدیاتی نظام
مضبوط بلدیاتی نظام کا نہ ہونا بھی پارلیمانی نظام کی ناکامی ہے۔ اصل قیادت بلدیاتی نظام سے ہی پیداہوتی ہے۔

10۔ خواتین کی مخصوص نشستوں کا غلط طریقہ کار
خواتین کی مخصوص نشستوں کا غلط طریقہ کار بھی پارلیمانی نظام کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اگر ہم دیکھیں تو خواتین کی مخصوص نشستوں پر کسی اسمبلی ممبر کی بیٹی، بیوی یا بہن بیٹھی ہوئی ہے یا ایسی خواتین بیٹھی ہوئی ہیں جو پارٹی کی منظور نظر ہیں۔ ان کی کارکردگی انتہائی بری ہے۔

11۔ برادری ازم
برادری ازم بھی پارلیمانی نظام کی ناکامی ہے۔ لوگ اس شخص کو ووٹ دیتے ہیں جو اس کی برادری یا ذات کا ہو۔

12۔ عبوری حکومت
نئے الیکشن کرانے کے لئے عبوری حکومت قائم کی جاتی ہے۔ اس عبوری حکومت کے دوران کوئی ترقیاتی کام نہیں‌ہوتا اور جو بھی نئی حکومت آتی ہے اسے نظام سمجھنے کے لئے عرصہ درکار ہوتا ہے۔ برطانوی طرز پر شیڈو منسٹرز کا ہمارے ہاں‌کوئی تصور نہیں‌ہے

صدارتی نظام کے فوائد

1۔ تمام لوگ کسی بھی پارٹی کے ایک شخص کو ووٹ دیتے ہیں۔ اور وہی عوام کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے۔ اگر اس کی کابینہ کی کارکردگی اچھی نہ ہو تو وہی موروالزام ٹھہرایا جاتا ہے جیسے بش، اوبامہ اگر ان کی حکومت میں کوئی شخص غلط سمت جاتا ہے تو سارا نزلہ صدر پر گرتا ہے جس کی وجہ سے وہ انتہائی احتیاط سے کام لیتا ہے۔

لیکن پاکستان میں صدارتی نظام میں چند رکاوٹیں‌حائل ہیں

1۔ پاکستان میں 150سے زائد پارٹیاں ہیں۔ اس طرح کسی پارٹی کو 50 فی‌صد ووٹ ملنا ناممکن ہے۔
2۔ پاکستان میں‌صوبوں کا سائز ایک نہیں‌ہے۔ پنجاب کی آبادی 60 فی صد ہے اور اس کی آبادی کسی پارٹی کے جیتنے میں‌فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ مزید صوبے بنائیں جائیں تاکہ کوئی پارٹی کسی مخصوص صوبے پرانگلی نہ اٹھا سکے کہ یہاں دھاندلی ہوئی ہے۔
 

arifkarim

معطل
راشد بھائی آپکا تجزیہ بجا ہے۔ جسکے مطابق پاکستان میں‌پارلیمانی، صدارتی، جاگیردارانہ وغیرہ سب نظام بیکار ہیں۔ جسکی لاٹھی اسکی بھینس والی حکومت آجکل ہر جگہ ہو رہی ہے۔مغرب میں "عام" انسانوں کو وہ اسلئے نظر نہیں آتی کہ وہاں کے لوگ پڑھے لکھے ہونے کی وجہ سے اپنی ذہانت کی بدولت عوام کو الو بنا لیتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں خاندانی چور باآسانی پکڑے جاتے ہیں :)
 
Top