"سر" جیسے حساس حصے پر 11 ٹانکے اور ریڑھ کی ہڈی پر چوٹ، اگر یہی صورتِ حال گرنے والے باقی افراد میں سے کسی کی ہوتی تو اسے اگنور کرنے پر قاسمی صاحب کے ردِعمل یا جائزہ یا تنقید پر غور کیا جا سکتا تھا، لیکن ایسی سنجیدہ صورتِ حال کسی کی نہیں تھی، سب کو معمولی چوٹیں آئیں جن کا ذکر بار بار کرنا غیرضروری ہوتا۔
اور اگر کسی کو اتنی شدید چوٹیں آئی بھی ہیں تو میں صرف اتنا کہوں گا کہ اگر اس گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو جائے جس میں میرے والد یا چچا سفر کر رہے ہوں تو سب زخمیوں کے ساتھ میری ہمدردی تو ہوگی لیکن میری ساری توجہ میرے والد یا چچا پر ہی مرکوز ہوگی، بار باران کی خیریت دریافت کرنا میرا فطری عمل ہوگا جسے باقی لوگوں سے لاپرواہی نہیں کہا جا سکتا۔ عمران خان کے ساتھ قوم کی ایک کثیر تعداد کی امیدیں وابسطہ ہیں، ایک کثیر تعداد اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ وطنِ عزیز کو اس بحران سے نکالنے کی یہی ایک امید ہے۔ ایسی صورتِ حال میں ہر لمحہ عمران خان کی خیریت معلوم کرنے کی بیتابی ایک فطری عمل ہے، اسے محافظین سے لاپرواہی کہنا کم از کم مجھے تو غیرضروری لگ رہا ہے۔
میں کوئی سیاسی تبصرہ نگار تو ہوں ںہیں کہ لمبی چوڑی بحث کروں، ایک عام سا پاکستانی ہونے کی حیثیت سے جو محسوس کیا وہ لکھ دیا۔ اختلاف کی گنجائش تو خیر نکل ہی آتی ہے، نہ نکلے تو ہم نکال ہی لیتے ہیں