ہمارے معاشرے میں مذہب کے لبادے میں لپیٹ کر تحریر لکھنا سیف پلے سمجھا جاتا ہے۔
ایسا ناول جس کی ہیروئن باپردہ، پابندِ صوم و صلوٰۃ اور صالحہ ہو، وہ بہت عمدہ ناول سمجھا جاتا ہے۔
یہ نیچےکا تبصرہ ایک دن
محمد تابش صدیقی صاحب نے پوسٹ کیا تھا، بالکل درست تجزیہ ہے اس میں:
عام ناول:
لڑکے نے لڑکی کا ہاتھ پکڑا اور دونوں ساحل پر چہل قدمی کرنے لگے۔
عمیرہ احمد کے ناول:
لڑکے نے فجر کے وضو میں دھوئے ہوئے ہاتھوں سے ماہِ مبارک میں چھٹکتی چاندنی جیسی دودھیا رنگت کی حامل لڑکی کا سیاہ دستانوں میں ملبوس گورا اجلا ہاتھ تھاما اور دونوں بآوازِ بلند الحمد للہ کہتے ہوئے ننگے پیر ساحلِ سمندر کی پاک ریت پر دھیمے قدموں سے چلنے لگے۔
نسیم حجازی کا ناول:
نوجوان نے, جس کا چہره آہنی خود میں نصف چھپا تھا, مگر عقابی آنکھوں میں محبت کی لکیریں واضح تھیں. نیام میں تلوار درست کرتے ہوئے مڑ کر اپنی محبوبہ کو دیکھا.
شرم وحیا کی دیوی ,جس کےہونٹ اظہار محبت کرتے ہوئے کپکپا رہے تھے, اور وه کچھ کہہ نہ سکی. دور نوجوان نے لشکر کو دیکھا اور گھوڑے کو ایڑھ لگا دی۔