بوچھی نے کہا:
تفسیر نے کہا:
ہاں عورتیں اور مرد برابر ہیں ۔اسلئے کہ ۔۔۔۔
1۔ مسلم خواتین لیڈر، حکمراں اور سپہ سالار تھیں اور انہوں نے جنگیں لڑیں
250 مسلم خواتین لیڈر
2 ۔عورتوں نے اپنے جائز حقوق کے جنگیں لڑی ہیں
اپنی کتاب “Great Acestorors: Women Assertig Rights in Muslim Contexts“ فریدہ شاہد اور آئشہ شاہد میں لکھتیں ہیں کہ عورتوں کے حقوق کی جدوجہد میں ان ملکوں میں موجود نہیں ۔ جنہوں نے اسلام اپنایا ہے۔حقیقت یہ ہے جسطرح دوسرے ممالک کی عورتوں نے اپنے جائز حقوق کے جنگیں لڑی ہیں۔ مسلمان ملکوں کے لیے عورتوں نے بھی اس کام میں اسلام کے شروع دنوں سے بارہوں صدی تک عام اور مشہور عورتوں کے سماجی انصاف اور حقوق میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا۔
3 ۔محنت کے کام میں برابری
خاص پوانیٹ؛
پاکستان کی 48 فی صد آبادی عورتیں اور52 صد مرد ہیں۔
16 فی صد عورتیں تعلیم یافتہ ہیں اور 35 صد مرد
دیہاتوں میں 61 فی صد عورتیں زراعت میں کام کرتی ہیں اور 79 فی صد مرد
عورتوں پر کی زمہ داری میں کشتکاری کرنا ، بیچنے کے لیےمویشی پالنا ، بچوں کو دیکھ بھال اور گھر کا کام شامل ہے۔
پاکستان کی کاشتکاری میں جنس کا حصہ
کام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عورت ۔۔۔۔۔۔۔ مرد۔۔۔۔۔۔۔۔۔دونوں
زمین کی تیاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔X
کھات ڈالنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔X۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔XX
کیمیاوی کھاد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔X
نلائی اور ہل چلانا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔X
فصل کاٹنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔X
چھلکا نکالنا اور چھاٹنا۔۔۔۔۔۔XX ۔۔۔۔۔۔۔X
سوکھنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔X
گودام کے تیار کرنا اور کھنا ۔۔X ۔۔۔۔۔۔۔۔۔X
Proceedings of the Workshop on 'Role of Rural Women in Farming Systems Research', Pakistan Agricultural Research
Council, Islamabad
نہیں - عورتیں اور مرد برابر ہیں ۔اسلئے کہ ۔۔۔۔
یاسمن مرزا اپنی کتاب “ Between Chaddor and the Market لکھتی ہیں کہ پاکستان میں عورتوں کی کام کاج اور کاروبار میں شمولیت میں یکسانیت نہیں ہے۔ ان عورتوں کو showpieces کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی سانولے اور گورے سنگ میں امتیاز برتا جاتا ہے۔یہ کتاب شہری عورتوں کی sociological and statistical study ہے۔
بڑے بھیا یا تو ٹیم اے میں آئیے یا بی میں جائیے ۔
نوٹ فئیر ، یہ تو لڑانے والی بات ہوئی نا کبھی تھوڑا اے ٹیم کا تو کبھی بی کا ۔
سیدھی طرح اے ٹیم کا لکھئیے
اب کے بی میں گئے تو میں نے جو دعا دینی تھی نہیں دوں گی ۔
بلکے شادی دفتر سے بھی آؤٹ کردوں گی ۔
پھر بیٹھے رہئیے گا ٹیم بی میں ۔
پیاری بہن
جب زکریا صاحب نے کہا “ میرے خیال سے کچھ genetic differences کے باوجود مرد اور عورت برابر ہیں“۔
کیا "مرد اور عورت برابر ہیں" سے ان کی مراد لفظی تھی یا حقیقی
" مرد اور عورت برابر ہیں"
" مرد اور عورت برابر ہیں یعنی مرد اور عورت دونوں کو تمام انسانی حقوق حاصل ہیں“
اس لیے یہ گفتگو دونوں پہلو لے سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اس گفتگو کے دونوں پہلو پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہا ہوں ۔ میرے خیال میں
ہاں۔۔۔۔ مرد اور عورت برابر ہیں
او ر
نہیں۔۔۔ عورت کو مرد کے برابر انسانی
حقوق حاصل نہیں ہیں اور
ہونے چائیں[/color]
میرے خیال میں جب ہم مرد اور عورت کی برابری کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد “ انسان حقوق“ ہوتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے
مرد اور عورت دونوں انسان ہیں اور کیا اس ناطہ سےعورتوں کے تمام حقوق ملنے چاہیں جو مردوں کو حاصل ہیں؟
عورتوں کو ان حقوق میں برابری نہیں ہے۔
عورتیں کو زیادہ غربت ملی
عورتیں کی تعلیم ہر درجہ پر کم ہوئ
عورتیں اور صحت کی زرایع میں کمی
عورتیں پر ظلم و تشدد اور ذیادتی
عورتیں اور اقتصادیات میں کم حصہ ملا
عورتیں اور فیصلہ اور خود اختیاری کی کمی
عورتیں اور ٹیلی ویژن ریڈیو اور اخبارات کا خراب برتاؤ
کم عمر بچیوں کو حقوق نہیں ہیں
عورتیں اور غربت
دنیا کی کل آبادی میں 1.3 Billion مرد اور عورتیں غربت کی زندگی بسر کرتے ہیں۔اس میں سے 70 فی صد عورتیں ہیں ۔
غلام محی الدین ریسریچ فیلو ایٹ دیپارٹمنٹ آفایکنامیکس جی سی یونیورسٹی لاہور ہاکستان۔ اپنی رپورٹ میں
میں لکھتے ہیں کہ پاکستان میں 1998 Census کے مطابق 42 Million عورتیں غربت کی زندگی بسر کررہی ہیں۔
عورت کا سوسائٹی میں مقام
تہذیب اور معاشرے کے لحاظ سے پاکستانی سوسائٹی patriarchal ہے ۔ عورت کا مقام گھر میں ہے اور مرد باہر کی دنیا کا مالک ہے۔ دوسرے الفاظ میں عورت کو ایک Provider and Producer کے رول میں برابریت نہیں حاصل ہےاسلئے عورت کو معاشرہ میں مردوں کے برابر مقام حاصل نہیں ہے۔ اس وجہ سے خاندان لڑکوں تعلیم کے لیے ملک اور ملک سے باہر تعلیم میں فوقیت دی جاتی ہے۔
عورتوں کیا صحت اور تعلیم
عورتوں کا شوشل، اقتصادی اور کلچرل قدر و مقام عورت کو معاشرے میں صحت اور تعلیم کے شعبوں میں overall نیچلا درجہ دیتا ہے۔ عورت پر کنڑول ۔ عورتوں کی جنس سے متلعق بیماریاں کے علاج، مالیت میں خود اختیاری، اور ان کے آنے جانے پر پابندیاں نے ان کے علاج اور معالجہ میں عدم مساوات پیدا کردی ہے۔ یہاں تک کہ گھر میں اچھی غذائت پر پہلا حق مرد کا ہے۔ بچپن میں شادی ، بغیر حد کے بچوں کی پیدائش، اپنے جسم کی دیکھ بال کے فیصلہ پرحق نہ ہونا اور صحت سے متعلق تعلیم کی کمی یہ سب عدم مساوات ہیں۔
تعلیم کے لحاظ سے شہروں میں صرف 28 فی صد اور دیہاتوں میں 12 فی صد عورتوں کو تعلیم کے زرائع موجود ہیں۔
عورتوں کا سیاست میں حصہ
قوانین اور کاغذات ہر عورتوں کو سیاست میں حصہ دینا کا اہتمام موجود ہے۔ لیکن کیوں کہ تہذیب اور معاشرے میں عورت کا مقام پابند ہے۔ اسلئے عورتوں کو قومی صوبائ، اور علاقائ فیصلہ کرنے والی پوزیشن سے دور رکھاجاتا ہے۔
عورت اور ظلم و تشدد
حکومت، خاندان اور معاشرہ کا عورتوں کے خلاف ظلم و تشدد کا استعمال عورتوں کو انسانی حقوق کی جدوجہد سے روکتا ہے۔یہ زندگی، حفاطت، خود داری ، عزت ، عظمت جو ہرانسان کے بنیادی حقوق ہیں ان کو چھین لیتاہے ۔ ظلم و تشدد میں دماغی تکلیف، جان سےمار دینا۔honor-killing اورعورتوں کو خاموش کرنے کے لے rape کا استعمال عام ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اور قریبی ملکوں سے اغوا کر کے ہرسال 50 سے لیکر 70 ہزار لڑکیاں مشرق وسطی اور یورپ کو بھیجی جاتی ہیں جہاں ان سے غلامی اور جسم کے بیچنے کے کام لیئے کاتے ہیں
عورتیں اور جائداد
1995 میں پنجاب کے ایک سروے کے مطابق 3.6 فی صد عورتوں کے نام زمین کی ملکیت ہے۔ اور 0.1 فی صد کا زمین پر کنٹرول ہے۔ کیونکہ عورتوں کے پاس ذاتی ملیکت نہیں ۔ بنک اور مالی اردارے عورتوں کو ذاتی قرضے نہیں دیتے۔ اس طرح عورتوں کو مالی سہولتیں آسامی سے مہیا نہیں ہہیں ۔ دیہانوں میں پاکستانی لڑکیاں زیادہ تعداس میں اپنا وقت پانی بھرنے ، لانڈری، کھانا پکانے، اور کھیتوں میں کام کرنے میں گزارتی ہیں۔
year 2003 - Statistics
عورتوں کی آبادی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ = 48 فی صد
اوسط عمر مرد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ = 63
اوسط عمر عورت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔= 65
بچہ کی قبل پیدایش دیکھ بھال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔= 43 فی صد (57 فی صد کو مہیا نہیں ہے)
عورتیں غیر زراعت پیشہ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔= 8 فی صد
عورتیں زراعت پیشہ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔= 21 فی صد
بغیر تنحواہ کے مرد ( فیلمی کا کام ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔= 16 فی صد
بغیر تنحواہ کے عورت ( فیلمی کا کام ) ۔۔۔۔۔۔۔۔= 50 فی صد
پارلیمنٹ میں عورتیں (year 2004) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔= 22
ڈاکٹر رخشندہ پروین لکھتی ہیں
The need of the hour is to define, interpret and apply Gender in a purely Pakistani context. Only then we would be able to reduce the disparities and loses in vital areas of national development named as education, economy and health. Converting the gaps into gains in such areas would take us as a nation on the path to development. That development would not be reflected in the stock exchange only but in a society marked by gender harmony, sensitivity and and human dignity
اور ہاں ۔۔۔۔ اس بڑے بھائ کو ہمشہ چھوٹی بہن کی دُعا اور خلوص و محبت چایئے۔ اس میں کمی نا کیجئیے
[/size]