کیا عورت اور مرد برابر ہیں؟

شاکرالقادری

لائبریرین
امن ایمان نے کہا:
ہیںںںںںں یہ میرے ذیریں قول پر اتنی دانشورانہ بحث چھڑ گئی۔۔۔ :shock: ۔۔ تفسیر چا ویسے آپ نے لاحاصل بحث چھیڑ دی ہے : ) خیر۔۔۔
آپ سب لوگ پتہ نہیں کیا حساب کتاب لے کر بیٹھ گئے ہیں۔۔۔بات صرف اتنی ہے کہ ایک لڑکی ہونے کے باوجود مجھے وہ عورتیں بری لگتی ہیں جو مردوں کی برابری کا دعوی کرتی ہیں۔۔۔۔جو کہ مردوں کی طرح کام کاج کرنا چاہتی ہیں۔۔جبکہ اس کی ضرورت بھی نہ ہواور اگر کبھی مجبورا انھیں کوئی جاب کرنی پڑ جائے تو اپنی کمائی کا رعب ڈالتی ہیں۔۔۔گھر میں ساس چاہے تنہا مر کھپ جائے خود کسی NGO کے ذیر صدارت بوڑھے لوگوں کی فلاح و بہبود کی پالیسی مرتب کرنے میں پیش پیش ہوتی ہیں۔ خوب بن سنور کر بازار نکلا جاتا ہے اور اگر کوئی راہ چلتا جملہ کس دے تو پھر بھرے بازار میں پٹائی کروانے میں فخر محسوس کرتی ہیں۔۔۔کیا ہے یہ سب۔۔؟؟؟؟

کبھی سوچیں کہ مغرب کی تقلید میں ہم کہاں سے کہاں نکل گئے ہیں اب تو پاکستانی عورت نہ گھر کی ہے اور نہ گھاٹ کی۔۔۔۔ جہاں مطلب ہوا مذہب کو درمیان میں لے آئے کہ جی اسلام میں بھی تو عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ چلتی اور لڑتی رہی ہیں ۔۔۔لیکن جہاں ان کے سخت باپردہ ہونے پر کسی نے کہا وہاں وہ بحث وہ جگہ ہی چھوڑ دی۔

آپ کو پتہ ہے کہ پاکستانی فوج میں عورتوں کی شمولیت کیوں دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔۔اس لیے کے وہ باعمل مسلمان جو اب بھی جہاد کو ایک مقدس فریضہ سمجھتے ہیں۔۔ان کا دھیان ان فضول لغویات کی طرف لگایا جاسکے۔۔سچ کہوں آج کل کی عورت کو دیکھ کر مجھے خود پر شرمندگی ہوتی ہے ۔۔: (
خیر جناب عورت اور مرد کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔۔نہ قوت ِ فیصلہ میں،نہ قوتِ ارادی میں، نہ طاقت میں، نہ مصائب سے نپٹنے میں، نہ آزادی میں۔۔۔کسی بھی حال میں نہیں۔

لیکن امن!
برابری میرے خیال میں انسانی حرمت و احترام ہے اور اس میں مردو عورت دونوں برابر ہیں اور اگر برابری ذہنی، جسمانی، نفسیاتیﹺ ساختوں اور صلاحیتوں کی بنیاد پر ہے تو یہ بات فطرت کے خلاف ہے مجھے آپ کی بات سے پورا اتفاق ہے لیکن بحیثیت انسان خوبیاں اور خامیاں تو مردو عورت دونوں میں ہیں
اور اگر آزادی اسی کا نام ہے کہ ایک بھوکے کے سامنے اشتہا انگیز کھانا عمداً رکھا جائے اور وہ جب اسے کھانے کے لیے لپکے تو اس کی آزادی کو سلب کر لیا جائے یہ کیسی آزادی ہے؟ مجھے تو یہ کہنا ہے کہ جب عورت کو بن سنور کر باہر نکلنے کا حق اور آزادی چاہیے تو پھر مرد اسے گھورنے اور اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے اس بات پر بن سنور کر باہر نکلنے والی عورت کو تکلیف کیوں ہوتی ہے آخر وہ اپنے حسن کی نمائش ااسی لیے تو کرتی ہے کہ مرد اسے دیکھیں
 
بحث تو بہت دلچسپ ہے بلخصو ص کیونکہ اس میں مذہب کا داخلہ ممنوع قرار پایا لہذا مصنف کو اپنے زورِ بازو پر ہی اکتفا کرنا پڑتا ہے۔

اسی سلسلہ میں‌ احباب نے کچھ حوالے مغربی تہذیبوں کے دیئے اور کچھ نے اپنے ذاتی اور عمومی مشاہدات۔
چونکہ میرا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں‌کہ عورت اور مرد برابر نہیں بلکہ دو مختلف اصناف ہیں جنکے مختلف اختیارات و فرائض ہیں۔
بات برتری کی یا کم تری کی نہیں ہورہی ہے بلکہ مقصود صرف فراق کو ملحوظ خاطر رکھنا ہے، رہی بات برتری کی تو ہم تو جانوروں کو بھی خود سے افضل سمجھتے ہیں۔

دوستوں نے مغربی تہذیبوں کے حوالے دیئے تو توجہ دلاؤں گا کہ یہاں پر بھی مرد اور عورت برابر نہیں ہیں۔ ‌عورتوں کی اکثریت آج بھی وہی “پولے پولے“ کام کرتی ہے، ٹیچر ہیں اور کلرک کی نوکری کرتی ہیں اور ساتھ ہی برابر ہونے کےلئے احتجاج بھی جاری ہوتا ہے۔
سنا ہے کہ برطانیہ میں بہت سال پیشتر عورتوں کو ایک فضیلت یہ تھی کہ انکو 60 برس کی عمر میں‌پینشن دے دی جاتی تھی جبکہ مرد حضرات کےلئے مقررہ عمر 65 برس تھی۔ اس طور کی برابری کی لئے کی جانے والی ہڑتالوں اور احتجاجوں کے نتیجہ میں حکومت نے دیگر برابریوں کے ساتھ ہی یہ برابری بھی کردی کہ ان کو بھی 65 برس کی عمر تک کام کرنا پڑے گا۔ پس لگیں مچانے شور کہ ہم نے یہ تو نہیں کہا تھا، اور کہ ایسی برابری پر لعنت ہو پھٹکار ہو، جس میں پانچ سال اور کام کرنا پڑے ۔

بات برابری کی کرنے سے پہلے ملحوظِ خاطر رہے کہ خواتین کی نبض کی رفتار اور انکا فطری وزن تک مردوں سے کم ہوتا ہے۔ اسی طرح بلڈ پریشر اور دل ک‌‌ فطری سائیز سے لیکر ہڈیوں کی پیمائیش تک مردوں سے کم ہے۔

مجھے تو حیرت ہوتی ہے ان لوگوں پر جو برابر کرتے ہوئے بہت سے فطری معاملات تک کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتے اور فقط اسی دلیل پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ ہم یہ بھی کر سکتے ہیں اور وہ بھی، فلاں ملک میں میں برابری ہو گئی ہے اور فلاں میں ہو رہی ہے اور ہمارے لوگ دیکھا دیکھی بقول ہمارے پروفیسر منظور ملک صاحب کے “ مکھی پر مکھی مارتے چلے جاتے ہیں“۔ مجھے خود یورپ میں رہتے ہوئے عرصہ ہوچکا ہے اور خواتین کے ساتھ کام کاج کرنے کا بھی اتفاق ہوا ہے ۔ عملی زندگی میں تو یہیں دیکھا گیا کہ جب کوئ زور یا خطرہ کا کام ہے، گولی کھانے کا موقع ہے تو کہا جاتا ہے کہ تم مرد ہو۔ آگے بڑھو اور جب تنخواہ بڑھانے کی بات ہوتو مردو زن برابر ہیں۔
ہم تو اس بات کے قائل ہیں کہ دنیا کا نظام “لے “ پر چل رہا ہے یہ لے، وہ لے، وہ بھی لے لے، اور اس کو لے لینے کے لئے کبھی تو مردوزن کو برابر کردیا جاتا ہے اور کبھی عورت کو ماں کہ کر برتر اور کبھی لونڈی کہہ کر کم تر کردیا جاتا ہے ۔ یہ ہی احوال مرد کا ہے مگر کیا کریں فطری طور پر اس کا وزن کچھ پونڈ زیادہ جو ہے پس اسی کا فائدہ اٹھاتا پھر رہا ہے اور الزام بھی بھگتتا پھرتا ہے ورنہ تو مردوزن زندگی کی گاڑی کے دو پہئیے ہیں۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
السلام و علیکم
امید ہے کہ سب ٹھیک ٹھاک ہوں گے۔
یہ بحث بہت پرانی ہے کہ مرد عورت برابر ہیں یا نہیں۔ میں نے شروع میں جو شرائط پڑھیں ان کے مطابق مجھے ہاں یا ناں میں کسی ایک گروپ کا ساتھ دینا ہے لیکن میں یہ سمجھتی ہیوں کہ اس بحث کوlogical انداز میں کیا جائے تو صرف کوئی ایک رائے صحیح نہیں ہے۔۔۔
مذہب نہ سہی اگر قانونِ فظرت کو ایک دہرئے کی نظر سے بھی دیکھا جائے تو بھی مسئلے کا حل سامنے ہے۔
Genetics کی بات ہوئی تو وہاں بھی دونوں میں فرق ہے۔ مرد کے کروموسومل پیٹرن اور عورت کے کوموسومل پیٹرن میں فرق ہے ۔ اور ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مرد کے کروموسمز ہیں جو بچے کی جنس کا تعین کرتے ہیں نہ کہ عورت کے۔ تو ہیاں کس کا اپر ہینڈ ہوا؟
عورت کو ماں کا درجہ دیا گیا۔ یہ بھی عورت کے ایک خاص مقام کی دلیل ہے۔
جہاں تک آج کی عورت اور معاشرے میں اس کے مقام کی بات ہے تو عورت کسی بھی شعبے میں مرد سے کم نہیں۔ دیکھیں ذرا کون سا جسمانی مشقت کا کام ہے جو وہ نہیں کر سکتی۔ یہ اور بات ہے کہ کیوں کہ وہ بچوں کو پالتی ہے تو یہ اس کا حق ہے اور مرد کا فرض ہے کہ وہ اس کی اور اس کے بچوں کی معاشی کفالت کرے۔ لیکن جہاں ضرورت ہے وہاں عورت مرد سے بڑھ کر حوصلہ مند اور پریکٹیکل ثابت ہوتی ہے۔ مجھے یاد ہے بہت بچپن میں ایک سونگ سنا تھا ۔۔“باپ کی جگہ ماں لے سکتی ہے، ماں کی جگہ باپ لے نہیں سکتا۔۔لوری دے نہیں سکتا“ اور جب میں نے اپنے والد سے اس کا مطلب پوچھا تو انھوں نے کہا۔۔بیٹے اگر باپ سر پر نہ رہے توماں بچوں کی معاشی اور جذباتی دونوں طریقے سے care کر سکتی ہے لیکن باپ ماں کی عدم موجودگی میں کبھی بھی اس کا رول ادا نہیں کر سکتا۔ سو یہ حالات پر منحصر ہے کہ عورت کو کس طرح کا رول ادا کرنا ہے۔ اور وہ سب رول بآسانی اورeffectivelyادا کر سکتی ہے۔
پیچھے کسی پوسٹ میں کہا گیا کہ“ عورت اور مرد کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔۔نہ قوت ِ فیصلہ میں،نہ قوتِ ارادی میں، نہ طاقت میں، نہ مصائب سے نپٹنے میں، نہ آزادی میں۔۔۔کسی بھی حال میں نہیں“

میں اس بات سے کسی صورت اتفاق نہیں کرتی۔ قوتِ فیصلہ کی بات کی جائے تو قلو پطرا سی ذہین اور زیرک عورت نے کس طرح بروقت فیصلے کیے سب جانتے ہیں۔ آپ نے مذہب کے حوالے سے بات کرنے کو منع کیا ہے ورنہ یہاں قلوپطرا کی بجائے کوئی اور نام ہوتا۔
قوتِ ارادی ارو قوتِ فیصلہ کی مثال کے لئے زیادہ دور نہیں جانا پڑے گا۔ اندرا گاندھی نے ایک عورت ہو کر جس ہوشیاری سے ایک ہاری ہوئی بازی پاکستان سے مذاکرات کے میز پر جیتی وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔
طاقت سے مراد اگر جسمانی طاقت ہے تو واقعی مرد اس میں قوی ہے لیکن وہ مرد کی اس طاقت کو بھی اپنی ذہانت سے tackle کر سکتی ہے۔یہں مثال لیجیے ویلنٹینا ٹریشکوا کی جس نے یوری گاگرین جیسی ہی سخت تربیت حاصل کی اور اس کے ساتھ space میں گئی ۔یہ کوئی ایسی بات نہیں۔ مصائب سے نمٹنے کے لئے ایسی کتنی ہی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ شوہر کی عدم موجودگی میں کتنی ہی مائیں اپنے بچوں کو بھرپور زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرنے کے لئے ہر مسئلے اور مصیبت کا بے جگری سے مقابلہ کرتی ہیں۔ شازیہ جی کی مثال آپ کے سامنے ہے۔
ان سب باتوں کو اگر میں اپنے مذہب کے حوالے سےڈسکس کرتی تو مجھے زیادہ خوشی ہوتی لیکن چونکہ منع کیا گیا ہے تو :)
خیر یہ سب تو اس بات کا جواب تھا کہ عورت مرد کے برابر ہو سکتی ہے یا نہیں۔۔ اب جہاں تک بات ہے کہ
so called woman rights fighters کا تو بات یہ ہے جناب کہ آپ ایک چھوٹے سے گروپ کو تمام عورتوں کی نمائندہ جماعت نہیں کہہ سکتے۔ یہ لوگ بس اپنے فائدے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔
ہر معاملے میں اعتدال ہی ایک کامیاب زندگی کی ضمانت ہے۔
اگر ایک عورت کو اس کا جائز حق گھر بیٹھے مل رہا ہے۔ مرد اس کی ارو اس کے بچوں کی تمام معاشی ضروریات پوری کر رہا ہے تو اس کو باہر نکلنے کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی کوئی سمجھدار خاتون اپنے گھر کو یوں نظر انداز کر
سکتی ہے۔ ہاں جہاں ضرورت ہے وہاں وہ زندگی کا ساتھی ہونے کی حیثیت سے اس کا ہر معاملے میں 50 50 ساتھ دے سکتی ہے۔
سو کینے کا مقصد یہ ہے کہ مرد اور عورت کو اگر گاڑی کے دو پہیوں کا نام دیا گیا ہے تو وہ سہی ہے۔ دونوں مل کر زندگی کی گاڑی کو بہتر طریقے سے کھینچ سکتے ہیں اور اس میں عورت کی اہمیت کو کم سمجھنا بہت غلط ہے کہ اگر گاڑی کا ایک پہیہ بڑا اور دوسرا چھوٹا ہو تو گاڑی ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔بات اپنے اپنے حقوق و فرائض کے سمجھنے کی ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
قوتِ ارادی ارو قوتِ فیصلہ کی مثال کے لئے زیادہ دور نہیں جانا پڑے گا۔ اندرا گاندھی نے ایک عورت ہو کر جس ہوشیاری سے ایک ہاری ہوئی بازی پاکستان سے مذاکرات کے میز پر جیتی وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔

اس تاریخی حوالے کا تو جواب نہیں۔۔ :?: :!: :idea: :arrow:
 

فرحت کیانی

لائبریرین
نبیل نے کہا:
قوتِ ارادی ارو قوتِ فیصلہ کی مثال کے لئے زیادہ دور نہیں جانا پڑے گا۔ اندرا گاندھی نے ایک عورت ہو کر جس ہوشیاری سے ایک ہاری ہوئی بازی پاکستان سے مذاکرات کے میز پر جیتی وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔

اس تاریخی حوالے کا تو جواب نہیں۔۔ :?: :!: :idea: :arrow:
so nice of u :)
 

تیشہ

محفلین
واہ، فرحت واقعی میں بہت عمدہ ۔ میں تو قائل ہوگئی ۔ :) بلکل درست اور بہت عمدہ لکھا ۔
میں چاہتی ہوں کچھ اور بھی لکھئیے ۔ تاکہ جن کے ذہنوں میں یہ سوچ ہے کہ عورت مرد کے برابر نہیں انکی غلطفہمی دور نہیں تو کم سے کم کم تو ہو ۔ کیا پتا انکی سوچ میں تبدیلی ہیآئے ۔

جو آج کے دور میں بھی رہتے ہوئے صدیوں پرانی جاہلانہ سوچیں رکھتے ہیں ۔ :chalo:
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بہت شکریہ نبیل اور شازیہ جی۔ بات یہ ہے کہ ہمیں کسی کے بھی point of view کو صرف اس لئے رد نہیں کرنا چاہیے کہ وہ ہماری سوچ سے مطابقت نہیں رکھتا بلکہ ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے کہ لوجک کیا کہتی ہے۔
 

تیشہ

محفلین
مگر میں تو قائل ہوئی اتنی وضاحت دلیل کے ساتھ
باقی تو سب اپنی اپنی بول گئے ۔ مگر آپکی پڑھکر تو مجھے واقعی مزہ آگیا ۔
:lol: میری بیٹی نے شروع سے لے کر اب تک کی پڑھی ۔ شروع کی پڑھکر اسکا حیرت سے منہ کھلا رہ گیا کہ امی ۔ ۔ یہ کیسی سوچ شئیر کی گئی ہیں ۔ :lol: :lol: کہنے لگی آج کے دور میں رہتے ہوئے بھی اور پڑھ لکھنے کے باوجود بھی :? حیرت ہے ۔ :D

آپکی پڑھکر بولی آنٹی نے اک اک بات ٹھیک کی ۔ بالکے ہر بات میں وزن ہے ۔ بہت امپریس ہوئی ۔

کہ اب لگا ہے کوئی تعلیم یافتہ اور بہت سمجھدار سلجھا ہوا رپلائی ۔ :lol:

:chalo:
 

بدتمیز

محفلین
فرحت کیانی نے کہا:
السلام و علیکم
امید ہے کہ سب ٹھیک ٹھاک ہوں گے۔
یہ بحث بہت پرانی ہے کہ مرد عورت برابر ہیں یا نہیں۔ میں نے شروع میں جو شرائط پڑھیں ان کے مطابق مجھے ہاں یا ناں میں کسی ایک گروپ کا ساتھ دینا ہے لیکن میں یہ سمجھتی ہیوں کہ اس بحث کوlogical انداز میں کیا جائے تو صرف کوئی ایک رائے صحیح نہیں ہے۔۔۔
مذہب نہ سہی اگر قانونِ فظرت کو ایک دہرئے کی نظر سے بھی دیکھا جائے تو بھی مسئلے کا حل سامنے ہے۔
Genetics کی بات ہوئی تو وہاں بھی دونوں میں فرق ہے۔ مرد کے کروموسومل پیٹرن اور عورت کے کوموسومل پیٹرن میں فرق ہے ۔ اور ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مرد کے کروموسمز ہیں جو بچے کی جنس کا تعین کرتے ہیں نہ کہ عورت کے۔ تو ہیاں کس کا اپر ہینڈ ہوا؟
عورت کو ماں کا درجہ دیا گیا۔ یہ بھی عورت کے ایک خاص مقام کی دلیل ہے۔
جہاں تک آج کی عورت اور معاشرے میں اس کے مقام کی بات ہے تو عورت کسی بھی شعبے میں مرد سے کم نہیں۔ دیکھیں ذرا کون سا جسمانی مشقت کا کام ہے جو وہ نہیں کر سکتی۔ یہ اور بات ہے کہ کیوں کہ وہ بچوں کو پالتی ہے تو یہ اس کا حق ہے اور مرد کا فرض ہے کہ وہ اس کی اور اس کے بچوں کی معاشی کفالت کرے۔ لیکن جہاں ضرورت ہے وہاں عورت مرد سے بڑھ کر حوصلہ مند اور پریکٹیکل ثابت ہوتی ہے۔ مجھے یاد ہے بہت بچپن میں ایک سونگ سنا تھا ۔۔“باپ کی جگہ ماں لے سکتی ہے، ماں کی جگہ باپ لے نہیں سکتا۔۔لوری دے نہیں سکتا“ اور جب میں نے اپنے والد سے اس کا مطلب پوچھا تو انھوں نے کہا۔۔بیٹے اگر باپ سر پر نہ رہے توماں بچوں کی معاشی اور جذباتی دونوں طریقے سے care کر سکتی ہے لیکن باپ ماں کی عدم موجودگی میں کبھی بھی اس کا رول ادا نہیں کر سکتا۔ سو یہ حالات پر منحصر ہے کہ عورت کو کس طرح کا رول ادا کرنا ہے۔ اور وہ سب رول بآسانی اورeffectivelyادا کر سکتی ہے۔
پیچھے کسی پوسٹ میں کہا گیا کہ“ عورت اور مرد کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔۔نہ قوت ِ فیصلہ میں،نہ قوتِ ارادی میں، نہ طاقت میں، نہ مصائب سے نپٹنے میں، نہ آزادی میں۔۔۔کسی بھی حال میں نہیں“

میں اس بات سے کسی صورت اتفاق نہیں کرتی۔ قوتِ فیصلہ کی بات کی جائے تو قلو پطرا سی ذہین اور زیرک عورت نے کس طرح بروقت فیصلے کیے سب جانتے ہیں۔ آپ نے مذہب کے حوالے سے بات کرنے کو منع کیا ہے ورنہ یہاں قلوپطرا کی بجائے کوئی اور نام ہوتا۔
قوتِ ارادی ارو قوتِ فیصلہ کی مثال کے لئے زیادہ دور نہیں جانا پڑے گا۔ اندرا گاندھی نے ایک عورت ہو کر جس ہوشیاری سے ایک ہاری ہوئی بازی پاکستان سے مذاکرات کے میز پر جیتی وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔
طاقت سے مراد اگر جسمانی طاقت ہے تو واقعی مرد اس میں قوی ہے لیکن وہ مرد کی اس طاقت کو بھی اپنی ذہانت سے tackle کر سکتی ہے۔یہں مثال لیجیے ویلنٹینا ٹریشکوا کی جس نے یوری گاگرین جیسی ہی سخت تربیت حاصل کی اور اس کے ساتھ space میں گئی ۔یہ کوئی ایسی بات نہیں۔ مصائب سے نمٹنے کے لئے ایسی کتنی ہی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ شوہر کی عدم موجودگی میں کتنی ہی مائیں اپنے بچوں کو بھرپور زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرنے کے لئے ہر مسئلے اور مصیبت کا بے جگری سے مقابلہ کرتی ہیں۔ شازیہ جی کی مثال آپ کے سامنے ہے۔
ان سب باتوں کو اگر میں اپنے مذہب کے حوالے سےڈسکس کرتی تو مجھے زیادہ خوشی ہوتی لیکن چونکہ منع کیا گیا ہے تو :)
خیر یہ سب تو اس بات کا جواب تھا کہ عورت مرد کے برابر ہو سکتی ہے یا نہیں۔۔ اب جہاں تک بات ہے کہ
so called woman rights fighters کا تو بات یہ ہے جناب کہ آپ ایک چھوٹے سے گروپ کو تمام عورتوں کی نمائندہ جماعت نہیں کہہ سکتے۔ یہ لوگ بس اپنے فائدے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔
ہر معاملے میں اعتدال ہی ایک کامیاب زندگی کی ضمانت ہے۔
اگر ایک عورت کو اس کا جائز حق گھر بیٹھے مل رہا ہے۔ مرد اس کی ارو اس کے بچوں کی تمام معاشی ضروریات پوری کر رہا ہے تو اس کو باہر نکلنے کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی کوئی سمجھدار خاتون اپنے گھر کو یوں نظر انداز کر
سکتی ہے۔ ہاں جہاں ضرورت ہے وہاں وہ زندگی کا ساتھی ہونے کی حیثیت سے اس کا ہر معاملے میں 50 50 ساتھ دے سکتی ہے۔
سو کینے کا مقصد یہ ہے کہ مرد اور عورت کو اگر گاڑی کے دو پہیوں کا نام دیا گیا ہے تو وہ سہی ہے۔ دونوں مل کر زندگی کی گاڑی کو بہتر طریقے سے کھینچ سکتے ہیں اور اس میں عورت کی اہمیت کو کم سمجھنا بہت غلط ہے کہ اگر گاڑی کا ایک پہیہ بڑا اور دوسرا چھوٹا ہو تو گاڑی ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔بات اپنے اپنے حقوق و فرائض کے سمجھنے کی ہے۔

اگر یہ باتیں کسی بھائی بند کے منہ سے ہوتیں تو جتنے لوگ واہ واہ کر رہے ہیں وہ اس کے پیچھے پڑ جاتے۔ اس کی جان توڑ لیتے کہ گاؤں میں ایسا کیوں ہو رہا ہے قبائلی علاقے میں کیوں ہو رہا ہے۔ سبھی لوگ اس کو مانتے ہیں لیکن یہ اور بات ہے اگر کوئی اور کہے تو اس کے پیچھے پڑ جائیں گے۔ اور جتنے واہ واہ کر رہے ہیں وہ ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے مگر اس طرح بات کرنا ان کو بھی نہیں آئی تو ان کو کسی نے نہیں کہا کہ یہ آپ خود کیا لکھتے/لکھتی رہے/رہی ہیں؟ جب سب کو اتنی عقل ہے تو ایسی بحث شروع کرتے ہی کیوں ہیں :shock: اور اب اس کے بعد تو شامل بحث لوگوں کو کہیں بھی دوبارہ ایسی بحث برائے بحث نہیں کرنی چاہئے۔

افتخار راجہ آپ کا جواب پڑھ کر مزہ آیا۔ وجہ میری "جاہلانہ" سوچ نہیں بلکہ ذمہ داریاں بتانے والےلوگوں کا اس طرح کے پہلو کو نظر انداز کرنا تھا۔

قدیر احمد تمہاری چیٹ کا حوالہ دوں تو تمہیں بغیر کسی وجہ کے مرچیں لگتی ہیں اور تم کہنے لگتے ہو گھر کی باتیں مت کرو تو تم ذرا اپنی اداؤں پر غور کرو میں نے کچھ کہا تو شکوہ بن جائے گا۔
 

تیشہ

محفلین
فرحت کیانی نے کہا:
بہت شکریہ نبیل اور شازیہ جی۔ بات یہ ہے کہ ہمیں کسی کے بھی point of view کو صرف اس لئے رد نہیں کرنا چاہیے کہ وہ ہماری سوچ سے مطابقت نہیں رکھتا بلکہ ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے کہ لوجک کیا کہتی ہے۔



واہ ،فرحت واہ ، بہت عمدہ ، :lol: :lol:

:great:

:mogambo:

:chalo:
 

تیشہ

محفلین
:D ادھر اتنی خاموشی کس لئے بھئی ؟ :lol: :lol: مجھے لگتا ہے اندر ہی اندر کوئی نا کوئی :D پوائنٹ سوچ رہا ہوگا کہ اب کیا پوائنٹ کو سامنے رکھا جائے ۔ :lol:
ایم شیور :p

جب کسی نے کچھ سوچ لیا تو رپلائی لکھنے آئے گے ۔ :lol: :lol:
 

تیشہ

محفلین
:lol: نہیں زکریا ، آپ بھلے یہاں پر لکھئیے ۔ آپکو نہیں کہہ رہی ۔ آپ تو اب جہاز میں ہیں امید شام تک آپ ادھر کو ضرور آئے گے ۔ آپ کی چھٹی ختم ہوئی میری شروع ہوئی شاید آپکے محفل پر آتے آتے میں گئی ۔ اب عید کے بعد آتی ہوں ۔
پر ادھر ذرا آپ بھی کچھ سوچ ۔ خیالات شیئر کئے گا آکر پڑھوں گی ۔ 8) :lol: :lol:

میرا کرسمس ٹری ؟ :? ساتھ میں ہے کہ نہیں ؟ :D
 

عمر سیف

محفلین
فرحت کیانی نے کہا:

سو کینے کا مقصد یہ ہے کہ مرد اور عورت کو اگر گاڑی کے دو پہیوں کا نام دیا گیا ہے تو وہ سہی ہے۔ دونوں مل کر زندگی کی گاڑی کو بہتر طریقے سے کھینچ سکتے ہیں اور اس میں عورت کی اہمیت کو کم سمجھنا بہت غلط ہے کہ اگر گاڑی کا ایک پہیہ بڑا اور دوسرا چھوٹا ہو تو گاڑی ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔بات اپنے اپنے حقوق و فرائض کے سمجھنے کی ہے۔

اس بحث کی باٹم لائن یہی ہے۔ اچھا لکھا فرحت۔
 

امن ایمان

محفلین
بوچھی باجو نے کہا:
نہیں امن ۔ ایسی بھی کوئی بات نہیں ۔ مگر آپکہہ کر کیوں اتنی کنفیوز ہورہی ہیں ؟ اب اتنا تو کنفیڈنٹ ہونا ہی چاہئیے کہ اپنی سوچ اظہار خیالات کو بیان کرنے کے بعد بندہ اعتماد سے کہ سکے کہ بھئی میں نے تو سولہ آنے ٹھیک بات کی ہے
اس لئے آپ میں اعتماد کی کمی ہے ۔ بولڈ ہونا چاہئیے ۔
میں کچھ کہوں لکھوں تو بعد میں یہ نہیں سوچتی کہیں غلط تو نہیں
کیوں کہ میں غلط کہتی ہی نہیں

بوچھی باجوالحمداللہ مجھ میں اعتماد کی کمی نہیں ہے۔۔۔ لیکن یہاں میرے ساتھ تھوڑاایج ڈیفرینس پرابلم ہے۔۔آپ اسے چاہے میری بےوقوفی کہہ لیں کہ مجھے لگتا ہے کہ بڑے لوگ زیادہ مناسب اور ٹھیک بات کہہ اور سوچ سکتے ہیں۔۔اس لیے میں نے بار بار آپ سے پوچھا کہ اگر میں نے کچھ زیادہ غلط کہہ دیا ہے تو مجھے بتا دیں۔ میں بہرحال بہت غلط کہہ بھی جاتی ہوں اور اگر کوئی بتادے تو اپنی غلطی ماننے میں وقت بھی نہیں لیتی۔



قدیر احمد نے کہا:
محترمہ بوچھی کو معلوم نہیں کس بات پر ہنسی آئی ہے ، مگر مجھے آپ کے “ذیریں قول“ پر مسکرانا پڑا ہے ۔ ویسے محترمہ امن ایمان ! آپ نے خود ہی ایسا موضوع چھیڑا ہے کہ جس کی وجہ سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو رہا ہے ۔

جی یہ ذیریں نہیں “ذریں قول“ تھا ۔۔جو کہ اب واقعی ذیریں بن گیا ۔۔۔ اور یہ بحث تو میری اور زیک کی ہونی تھی۔۔اور میں نے ان سے یہ بھی کہا تھا کہ کچھ غلط کہہ دوں تو غصہ بھی نہیں ہونا۔۔لیکن وہ تو چھٹیوں پر ہیں۔۔ ویسے آپ فکر نہ کریں امن و امان کا مسئلہ نہیں بنے گا۔۔۔ہم جلدی ہی ایلیٹ فورس منگوا لیں گے۔


اور میں اب بھی کہوں گی کہ مرد اور عورت برابر ہو ہی نہیں سکتے۔۔۔ایک تنہا عورت مردوں کے معاشرے میں کیوں غیر محفوظ ہے جبکہ مرد کو تنہا رہنے میں کوئی ڈر خوف نہیں۔۔؟

اگر بات موازنہ سے کی جائے تو ایک اندراگاندھی، قلوپطرا کی مثال کے بعد دنیا کے باقی حکمران مرد حضرات کی کیا تعداد ہے جن لوگوں نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔۔؟

ایک ضروری بات۔۔۔مرد اور عورت کی برابری پر بحث اپنی جگہ لیکن مجھے عورت کے اس مقام اور مرتبے پر کوئی شک نہیں جو اللہ نے اسے دے رکھا ہے۔۔۔ایک ماں،بیٹی، بہن اور بیوی کے روپ میں جو اس کی عزت ہے ۔۔مجھے بس اعتراض ان ہی so called woman rights fighters پر ہے جو باقی عورتوں کا دماغ خراب کرتی ہیں۔


باقی my hands up ۔۔۔میں اب صرف پڑھوں گی۔۔لکھوں گی نہیں۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ضبط نے کہا:
فرحت کیانی نے کہا:

سو کینے کا مقصد یہ ہے کہ مرد اور عورت کو اگر گاڑی کے دو پہیوں کا نام دیا گیا ہے تو وہ سہی ہے۔ دونوں مل کر زندگی کی گاڑی کو بہتر طریقے سے کھینچ سکتے ہیں اور اس میں عورت کی اہمیت کو کم سمجھنا بہت غلط ہے کہ اگر گاڑی کا ایک پہیہ بڑا اور دوسرا چھوٹا ہو تو گاڑی ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔بات اپنے اپنے حقوق و فرائض کے سمجھنے کی ہے۔

اس بحث کی باٹم لائن یہی ہے۔ اچھا لکھا فرحت۔

بہت شکریہ ضبط۔ میں نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اس سے ہر کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ :) آپ کا ایک بار پھر شکریہ کہ آپ نے میری بات کو سمجھا :)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
امن ایمان نے کہا:
اور میں اب بھی کہوں گی کہ مرد اور عورت برابر ہو ہی نہیں سکتے۔۔۔ایک تنہا عورت مردوں کے معاشرے میں کیوں غیر محفوظ ہے جبکہ مرد کو تنہا رہنے میں کوئی ڈر خوف نہیں۔۔؟

اگر بات موازنہ سے کی جائے تو ایک اندراگاندھی، قلوپطرا کی مثال کے بعد دنیا کے باقی حکمران مرد حضرات کی کیا تعداد ہے جن لوگوں نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔۔؟

ایک ضروری بات۔۔۔مرد اور عورت کی برابری پر بحث اپنی جگہ لیکن مجھے عورت کے اس مقام اور مرتبے پر کوئی شک نہیں جو اللہ نے اسے دے رکھا ہے۔۔۔ایک ماں،بیٹی، بہن اور بیوی کے روپ میں جو اس کی عزت ہے ۔۔مجھے بس اعتراض ان ہی so called woman rights fighters پر ہے جو باقی عورتوں کا دماغ خراب کرتی ہیں۔


باقی my hands up ۔۔۔میں اب صرف پڑھوں گی۔۔لکھوں گی نہیں۔


ما ئی ڈیئر امن سس۔ میں نے اپنی رائے کا اظہار کیا تھا اور مزید بحث برائے بحث نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن ۔۔
young lady بات یہ ہے کہ میں نے کہیں یہ بات نہیں کہی کہ ایک عورت تنِ تنہا معاشرے میں رہ سکتی ہے۔ ڈئیر یہ مردوں کا معاشرہ ہے اور باری تعا لیٰ نے مرد کو عورت کے تحفظ کی زمہ داری تفویض کی ہے۔ سو اس میں کوئی حیرت نہیں کہ عورت مرد پر dependent ہے۔مرد کے معاشرے میں مقام کو میں نے چیلنج نہیں کیا کہ یہ غیر فطری بات ہے۔
میرا کہنا صرف یہ ہے کہ قدرت نے دونوں جنسوں کو جو مقام دیا ہے وہی ان کی پہچان ہے لیکن جناب اس بیس پر یہ کہنا کہ ایک جنس کمتر اور دوسری بر تر ہے یہ ٹھیک نہیں ہے۔آپ نے کہا کہ چند عورتوں کے مقابلے مین دنیا بدلنے والے مردوں کی تعداد بہت زیادہ ہے بجا کہا۔ میں نے کہیں بھی یہ نہیں کہا کہ عورتیں مرد سے بر تر ہیں۔ میں نے صرف یہ کہا کہ قوتِ فیصلہ اور قوتِ ارادی میں عورت بھی اتنی مضبوط ہے جتنے کہ مرد۔
ایسا نہیں ہوتا تو نہ ہی رسولِ پاک(درودوسلام آپ پر) حضرت خدیجہ (رضی اللّہ تعالیٰ) سے مشورے لیتے ارو نہ ہی آپ((درودوسلام آپ پر) کے وصال کے بعد صحابہ حضرت عائشہ(رضی اللّہ تعالیٰ) سے رہنمائی حاصل کرنے آتے۔ مصائب سے مقابلے کی بات کریں تو امام حسین (رضی اللّہ تعالیٰ) کے ساتھ ساتھ جناب زینب(رضی اللّہ تعالیٰ) کا نام بھی تاریخ میں درج ہے۔ جس ہمت اور دلیری سے انھوں نے اپنے بچے کھچے گھرانے کی حفاظت کی، یزید کو للکارا اور مسلمانوں کو اس پُر آشوب دور میں سیدھی راہ دکھائی وہ کسی سے چھپی نہیں۔
کہنےکا مقصد یہ ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے سے کمتر یا بر تر نہیں ہیں ۔ہاں قدرت نے ان کے حقوق و فرائض میں فرق رکھا ہے۔ اور اگر کچھ معاملوں میں مرد کو افضل حیثیت دی ہے تو کچھ اور معاملات میں عورت کو بہترین درجہ دیا ہے۔
ایک اور بات ۔ کوئی کسی کا دماغ خراب نہیں کرتا جب تک ہم خود نہ چاہیں۔ باری تعالیٰ نے انسان کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی ہے سو خرابی کا الزام اگرso called rights fighters کو جاتا ہے تو اس میں 90 نہیں تو 80٪ قصور ان لوگوں کا خود ہے جو بغیر سوچے سمجھے دوسروں کو follow کرتے ہیں۔
میں ایک بار پھر یہی کہوں گی کہ مرد اور عورت کو جو مقام فطرت نے دیا ہے وہی ان کا اصل ہے لیکن قوتِ فیصلہ اور قوتِ ارادی میں عورت بھی اتنی ہی مضبوط ہے جتنا کہ مرد۔امید ہے کہ میں نے اپنا پوائنٹ واضح کر دیا ہے۔
 

تیشہ

محفلین
امن ایمان نے کہا:
بوچھی باجو نے کہا:
نہیں امن ۔ ایسی بھی کوئی بات نہیں ۔ مگر آپکہہ کر کیوں اتنی کنفیوز ہورہی ہیں ؟ اب اتنا تو کنفیڈنٹ ہونا ہی چاہئیے کہ اپنی سوچ اظہار خیالات کو بیان کرنے کے بعد بندہ اعتماد سے کہ سکے کہ بھئی میں نے تو سولہ آنے ٹھیک بات کی ہے
اس لئے آپ میں اعتماد کی کمی ہے ۔ بولڈ ہونا چاہئیے ۔
میں کچھ کہوں لکھوں تو بعد میں یہ نہیں سوچتی کہیں غلط تو نہیں
کیوں کہ میں غلط کہتی ہی نہیں

بوچھی باجوالحمداللہ مجھ میں اعتماد کی کمی نہیں ہے۔۔۔ لیکن یہاں میرے ساتھ تھوڑاایج ڈیفرینس پرابلم ہے۔۔آپ اسے چاہے میری بےوقوفی کہہ لیں کہ مجھے لگتا ہے کہ بڑے لوگ زیادہ مناسب اور ٹھیک بات کہہ اور سوچ سکتے ہیں۔۔اس لیے میں نے بار بار آپ سے پوچھا کہ اگر میں نے کچھ زیادہ غلط کہہ دیا ہے تو مجھے بتا دیں۔ میں بہرحال بہت غلط کہہ بھی جاتی ہوں اور اگر کوئی بتادے تو اپنی غلطی ماننے میں وقت بھی نہیں لیتی۔



قدیر احمد نے کہا:
محترمہ بوچھی کو معلوم نہیں کس بات پر ہنسی آئی ہے ، مگر مجھے آپ کے “ذیریں قول“ پر مسکرانا پڑا ہے ۔ ویسے محترمہ امن ایمان ! آپ نے خود ہی ایسا موضوع چھیڑا ہے کہ جس کی وجہ سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو رہا ہے ۔

جی یہ ذیریں نہیں “ذریں قول“ تھا ۔۔جو کہ اب واقعی ذیریں بن گیا ۔۔۔ اور یہ بحث تو میری اور زیک کی ہونی تھی۔۔اور میں نے ان سے یہ بھی کہا تھا کہ کچھ غلط کہہ دوں تو غصہ بھی نہیں ہونا۔۔لیکن وہ تو چھٹیوں پر ہیں۔۔ ویسے آپ فکر نہ کریں امن و امان کا مسئلہ نہیں بنے گا۔۔۔ہم جلدی ہی ایلیٹ فورس منگوا لیں گے۔


اور میں اب بھی کہوں گی کہ مرد اور عورت برابر ہو ہی نہیں سکتے۔۔۔ایک تنہا عورت مردوں کے معاشرے میں کیوں غیر محفوظ ہے جبکہ مرد کو تنہا رہنے میں کوئی ڈر خوف نہیں۔۔؟

اگر بات موازنہ سے کی جائے تو ایک اندراگاندھی، قلوپطرا کی مثال کے بعد دنیا کے باقی حکمران مرد حضرات کی کیا تعداد ہے جن لوگوں نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔۔؟

ایک ضروری بات۔۔۔مرد اور عورت کی برابری پر بحث اپنی جگہ لیکن مجھے عورت کے اس مقام اور مرتبے پر کوئی شک نہیں جو اللہ نے اسے دے رکھا ہے۔۔۔ایک ماں،بیٹی، بہن اور بیوی کے روپ میں جو اس کی عزت ہے ۔۔مجھے بس اعتراض ان ہی so called woman rights fighters پر ہے جو باقی عورتوں کا دماغ خراب کرتی ہیں۔


باقی my hands up ۔۔۔میں اب صرف پڑھوں گی۔۔لکھوں گی نہیں۔



:lol: امن ، میں تنہا اپنے گھر میں رہتی ہوں مجھے نہ تو اس معاشرے کا کؤئی ڈر ہے نہ کوئی کسی سے خوف کھاتی ہوں ۔ پتا نہیں آپ شاید مجھے لگتا ہے عورتیں کے بارے میں بہت برُی طرح سے آپ کے ذہن میں برا امیج ہے اب نہیں معلوم کیوں اور کس وجہ سے ۔ :? مے بی آپکے کوئی فیم لی پرابلم کچھ ایسا رہا ہو یا آپکو کوئی برا تجربہ دیکھنے سننے کو ملا ہو اسی وجہ سے آپ اک چھوٹی بچی کے جیسے یہی ضد لگائے ہوئے ہیں کہ مرد عورت برابر ہو ہی نہیں سکتے ۔ ہو ہی نہیں سکتے ۔ ہو ہی نہیں سکتے ۔ کبھی ہو ہی نہیں سکتے ۔ حیرت بے انتہا حیرت ہے مجھے آپ کے اس پوائنٹ کو لے کر ۔
مگر اس لئے نہیں بول رہی زیادہ بحث کو کہ مجھے اک ہی میں وجہ سامنے نظر آرہی ہے کہ اتنی شدت سے انکاری صرف وہی لوگ کرتے ہیں جن کو بذات خود اک تجربہ ،مشاہدہ ہو چکا ہو،
یا دوسری وجہ گھر میں بہت سختی ہوتی ہو اور مرد لوگ اپنی عورتوں کے بارے میں یا باہر کی کسی بھی عورت کے خلاف اتنا زہر اگلتے ہیں کہ بچے یہ سب کچھ سن سن دیکھ دیکھکر انکے ذہنوں میں کچھ ایسا ہی تصور آتا ہے اور انکی سوچ بلکل ایسی ہی بن جاتی ہے کہ وہ یہیسوچنے سمجھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ نہیں کبھی نہیں عورت وہی اچھی جو گھر میں چپکے سے بیٹھے ۔ باہر نکلے تو وہ عورت ٹھیک نہیں ؟ :?

میں یہ سب کچھ آپکو ہرگز نہیں کہہ رہی اس لئے دل پر مت لیجئے گا ،
مگر یہ بھی درست ہے کہ جتنی بھی ایجوکیشین حاصل کر کے بھی اگر بندے کی سوچ ایسی رہے تو کیا فائدہ ؟ ایسی تعلیم کا ؟ جو ہمیں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت تک نہ دے سکے ۔ :?
اس سے کہیں بہتر ہے عورت پڑھائی لکھائی نہ کرے اور گھر میں بیٹھی رہے چولہے کے آگے سڑے ا تا عمر مرد کی غلامی کرے بچے پیدا کرے اور جوتیاں کھاتی رہے ۔ اور میرے خیال میں یہ عورت اس عورت سے کہیں بہتر رہے گی جو بن ٹھن کر بھرے بازار میں نکلتی ہے اور کسی کے دیکھنے پر پٹائی کرواتی ہے ۔ بہتر نہیں خود گھر بٹھکر جوتیاں کھائے ؟ :roll:
کہ عورت کا مقام یہی ہے کیوں کہ مرد کے برابری کرنے سے بہتر پیروں کی جگہ رہے ۔
خاص ہمارے ہاں کی بچاریاں ۔
:(
 

تیشہ

محفلین
نہیں معلوم :? ۔

بیچ میں کوئی رائے کا اظہار تو کر ہی سکتے ہیں کہ بول کے لب آزاد ہیں تیرے ‘
اور ویسے بھی بحث چل رہی ہے مجھے تو بہت مزہ اس پر آرہا ہے :p
 

تیشہ

محفلین
آج کے دور میں جب شادی کے لئے رشتے آتے ہیں لڑکوں کی پہلی ڈیمانڈ ہی یہی ہوتی ہے کہ ہماری جیون ساتھی ایسی ہو جو ہمارے ساتھ شانہ بشانہ چل سکتی ہو ۔ قدم سے قدم ملا کر چلنے والی جیون ساتھی کی خواہش ہوتی ہے ۔ اور جو خود کو ہی کمتر سجھتی ہوں وہ کیسے شانہ بشانہ چل سکتی ہیں ۔ انکے تو دلوں میں ساری زندگی یہی کمپیلکس ہوتا ہے ہم تو برابری کر ہی نہیں سکتے ۔ سو ، کچھ مرد جو ذرا نیورو مائنڈ ہوں شادی کے لئے ایسی جیون ساتھی چاہتے ہیں جو صرف گھر میں رہے ۔ بچے بنائے چولہے کے کام کرے اور باقی کی زندگی انکے گھر والوں کی خدمت گزاری کرتے ہوئے گزار دے ۔ انکو اپنے سے کمتر ساتھی کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ اک گائے جیسی رہے عورت انکے ساتھ ۔ :lol:


سو ، میری اپنی سوچ یہ ہے کہ مجھے ایسی عورتیں بھی بری لگتیں ہیں جو بچاریاں خود کو کمتر محسوس کرتی ہوں ۔ ایسی عورتیں ہر طرح سے ،ہر لجاظ سے دوسروں کی محتاج رہتی ہے ۔ اور اسی محتاجی میں باقی کی زندگی کو مار کھاتے ظلم سہتے ہوئے گزارنے پر مجبور ہیں ۔

انکی کمتری انکو لے ڈوبتی ہے ۔
:chalo:
 
Top