آپ ایک عالم سے نہیں بلکہ دس عالم سے پوچھیں ۔ مگر فیصلہ آپ کو ہی کرنا ہوتا ہے کہ کس کی بات زیادہ قرآن وسنت کے قریب ہے ۔ کس کی بات زیادہ دل و دماغ کے قریب ہے اور کس کی بات فطرت کے قریب ہے ۔ بس یہ خیال رہے کہ آپ کی نیت مخلص ہونی چاہیئے کہ آپ جو بھی نتیجہ اخذ کریں گے ۔ اس میں آپ کا کوئی مفاد پوشیدہ نہ ہو ۔ ورنہ لوگ غلط فیصلے کرتے ہیں کہ آخر انسان ہیں ۔ غلطی ہو جاتی ہے ۔ مگر فیصلوں کے پیچھے محرکات بہت اہم ہوتے ہیں ۔
اور اللہ نے آپ کو آزاد پیدا کیا ہے ۔ آپ کو عقل و فہم عطا کیا ہے ۔ اس سے کام لیں ۔ نہ کہ کسی کے مقلد ہوکر کسی روبوٹ کی طرح بیٹھ جائیں ۔
632 سے پہلے کا حوالہ دیا تھا۔ مگر واقعی حکمران مذہبی احکامات سے مستثنٰی ہوتے ہیںاس بات کا اسلام اور اسلام کے احکامات سے کیا تعلق ہے ۔ اس کا تعلق تو فرد اور اس کی طاقت سے ہے ۔ اگر کوئی مذہب کو اپنے مفادات کے لیئے استعمال کرتا ہے ۔ اس مقصد کے لیئے وہ علماؤں کو خرید کر ان سے کتابیں لکھواتاہے( جیسا کہ ملکویت کے دور میں ہوا ۔ عرب ممالک کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ اپنی بادشاہت کی بقا کے لیے وہاں علماء کیسے کیسے فتوے دیتے ہیں ) ۔ تو اس سے اصل ماخذ کا کیا تعلق بنتا ہے ۔ ؟
آپ ایک عالم سے نہیں بلکہ دس عالم سے پوچھیں ۔ مگر فیصلہ آپ کو ہی کرنا ہوتا ہے کہ کس کی بات زیادہ قرآن وسنت کے قریب ہے ۔ کس کی بات زیادہ دل و دماغ کے قریب ہے اور کس کی بات فطرت کے قریب ہے ۔ بس یہ خیال رہے کہ آپ کی نیت مخلص ہونی چاہیئے کہ آپ جو بھی نتیجہ اخذ کریں گے ۔ اس میں آپ کا کوئی مفاد پوشیدہ نہ ہو ۔ ورنہ لوگ غلط فیصلے کرتے ہیں کہ آخر انسان ہیں ۔ غلطی ہو جاتی ہے ۔ مگر فیصلوں کے پیچھے محرکات بہت اہم ہوتے ہیں ۔
اور اللہ نے آپ کو آزاد پیدا کیا ہے ۔ آپ کو عقل و فہم عطا کیا ہے ۔ اس سے کام لیں ۔ نہ کہ کسی کے مقلد ہوکر کسی روبوٹ کی طرح بیٹھ جائیں ۔
ٹھیک مگر اپنی بات کسی پر مسلط نہیں کریں ۔ اپنی بات ٹھیک اور احسن طریقے سے لوگوں تک پہنچائیں ۔ اس سے زیادہ کا اللہ نے ہم کو مکلف نہیں بنایاکیونکہ دین پر کوئی جبر نہیں ہے ۔بات بالکل صحیح میں بھی یہی کہتا چاہ رہا ہوں کہ " عزت والے عرش کے رب نے کیا نازل کیا اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا سنایا اور عمل کیا"
اس میں ذرا برابر کی بھی ملاوٹ اللہ کو قبول نہیں۔ انتھی۔
ملوکیت کوئی یکطرفہ شے نہیں تھی۔ شیعان علی بھی ملوکیت ہی چاہتے تھےجیسا کہ ملکویت کے دور میں ہوا ۔
حکمران کوئی آسمان سے اُتری ہوئی تو چیز نہیں ہیں ۔632 سے پہلے کا حوالہ دیا تھا۔ مگر واقعی حکمران مذہبی احکامات سے مستثنٰی ہوتے ہیں
آج کے یا ملوکیت کے دور کا کوئی ذکر نہیں۔ اس سے بھی پہلے کی بات کی تھی۔حکمران کوئی آسمان سے اُتری ہوئی تو چیز نہیں ہیں ۔
ملکویت اور اسے پہلے کیوں جاتے ہیں ۔ انسانی نفسیات کیساتھ اگر حکمرانوں کے رحجان کو سمجھنا ہی ہے تو ہم آج کے دور کے مسلم حکمرانوں کو دیکھ لیں ۔ کیا وہ قرآن وسنت سے واقف نہیں ہیں ۔ کیا ان کے ہاں روزِجزا اور سزا کا کوئی تصور موجود نہیں ہے ۔ سب ہے مگر وہ کیا سے کیا کر جاتے ہیں ۔ یہ سب انسانی نفسیات ہے ۔ جو اپنے اختیارات اور محرکات کے نتیجے میں ایسے فیصلے بھی کر جاتی ہے ۔ جس سے ان کے سامنے مذہب کا تصور دھندلا جاتا ہے ۔
طاقتور حکمرانوں پر ہی کیوں جاتے ہیں ۔ ہم اپنا ہی محاسبہ کر تے ہیں ۔ کیونکہ بات مذہب اور اس کے احکامات کے حوالے سے ہو رہی ہے تو ہم دیکھتے ہیں بعض ادنی درجے کے غلط کام بھی ہم کر جاتے ہیں ۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں تو وہ ادنی درجے کے ہیں ۔کچھ نہیں ہوتا ۔ کیونکہ ہم اپنے دائرہِ اختیار میں دیکھتے ہیں ۔ حکمرانوں کا دائرہِ اختیار لامحدود ہوتا ہے ۔
قرآن میں جو احکامات بیان ہوئے ہیں ۔ ان کا تعلق زیادہ تر معاشرے سے ہے ۔ کچھ سزائیں بھی مختص کیں ہیں ۔ ان کا تعلق بھی معاشرے سے ہے ۔ کیونکہ اسلام کو معاشرے میں بگاڑ مقصود نہیں ہے ۔ یہ اخلاق کا وہ پہلو ہے ۔ جس پر دین کی اساس قائم ہے ۔ مگر آپ دیکھیں کہ نماز ، روزہ وغیرہ جس کا تعلق انسان کی انفرادی زندگی ہے ۔ اس پر اللہ نے کوئی سزا نہیں مقرر کی ہے ۔ کیونکہ یہ معاملہ فرد اور اللہ کے مابین ہے ۔ مگر ہم دیکھتے ہیں بعض عرب ممالک میں اس سلسلے میں قانون بنا ہوا ہے ۔ وہ نما ز کے معاملے میں زبردستی کرتے ہیں ۔ اس سے اصل احکامات کا کیا تعلق بنتاہے ۔
یہ رویئے ،انسان کےمخصوص ذہن ، مختلف رحجانات ، مختلف جبلت اورنفسیات کے اتار چڑھاؤ کی مرہونِ منت ہے ۔ آج بھی دنیا میں اس قسم کے رحجانات عام ہیں ۔ چونکہ یہاں بات طرزِ حکومت کی ہو رہی ہےتو ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن میں " امرا ھم شوریٰ بینا ھم " کہہ کر بات ختم کردی ہے ۔ یعنی مسلمانوں کا اجتماعی نظم ان کے باہمی صلاح و مشورے سے ہوگا ۔ اب کوئی اس اصول کو نظر انداز کردے تو اس میں مذہب کہاں سے تختہِ مشق بن جائے گا ۔ملوکیت کوئی یکطرفہ شے نہیں تھی۔ شیعان علی بھی ملوکیت ہی چاہتے تھے
632 سے پہلے تو کئی ادوار ہیں ۔بتایئے کہ آپ کا اشارہ کس طرف ہے ۔ یقین جانیئے ۔ میں آپ کو کوئی دھمکی نہیں دوں گا ۔آج کے یا ملوکیت کے دور کا کوئی ذکر نہیں۔ اس سے بھی پہلے کی بات کی تھی۔
629 خیبر632 سے پہلے تو کئی ادوار ہیں ۔بتایئے کہ آپ کا اشارہ کس طرف ہے ۔ یقین جانیئے ۔ میں آپ کو کوئی دھمکی نہیں دوں گا ۔
روم نے سینکڑوں سال کسی قسم کا رپبلک جاری رکھا۔ یونانی شہروں میں بھی کافی عرصہ کسی قسم کی جمہوریت رہی۔ یہ بیچارے مسلمان ہی تھے کہ قرآن کے حکم کے باوجود شورٰی سے فورا ہی محروم ہو گئےیہ رویئے ،انسان کےمخصوص ذہن ، مختلف رحجانات ، مختلف جبلت اورنفسیات کے اتار چڑھاؤ کی مرہونِ منت ہے ۔ آج بھی دنیا میں اس قسم کے رحجانات عام ہیں ۔ چونکہ یہاں بات طرزِ حکومت کی ہو رہی ہےتو ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن میں " امرا ھم شوریٰ بینا ھم " کہہ کر بات ختم کردی ہے ۔ یعنی مسلمانوں کا اجتماعی نظم ان کے باہمی صلاح و مشورے سے ہوگا ۔ اب کوئی اس اصول کو نظر انداز کردے تو اس میں مذہب کہاں سے تختہِ مشق بن جائے گا ۔
بلکل ۔۔۔ بدقسمتی کی بات ہے ۔روم نے سینکڑوں سال کسی قسم کا رپبلک جاری رکھا۔ یونانی شہروں میں بھی کافی عرصہ کسی قسم کی جمہوریت رہی۔ یہ بیچارے مسلمان ہی تھے کہ قرآن کے حکم کے باوجود شورٰی سے فورا ہی محروم ہو گئے
جب انسان خالق کے فیصلوں سے انحراف و انصراف پر اتر آنے لگے تو ذلت و خواری کا سامان و اسباب خود کرنے لگتا ہے۔ مثلاً اس قسم کے مباحثے ۔اس کالم سے قطع نظر جب اللہ کا فیصلہ ہے کہ یہ دونوں برابر نہیں، بلکہ لازم و ملزوم ہیں تو پھر مباحث کاہے کے؟
الفاظ کے چناؤ پر غور کریںسارے مرد ذہین نہیں ہوتے اور ساری عورتیں بیوقوف نہیں ہوتیں
بہت عرصے بعد انہوں نے خود سے کچھ لکھنا شروع کیا ہے، آہستہ آہستہ عادت بنے گیالفاظ کے چناؤ پر غور کریں
کوئی مجھے بلیلکل کا مطلب بتا دےواہ کیا تعصب ہے اسلام کے ساتھ "زکریا بلیلکل نام والے کا، اگر آپکو پسند نہیں اسلام کے شعائر تو مت بیٹھیں مسلمانوں کے ساتھ۔
بیوی، برتن، گاڑی، موٹرسائیکل، ٹشو پیپر، کاغذ، موبائل یہ سب ایک ہی قسم کی اجناس ہیں۔اس محفل میں یہ بھی سوال اٹھایا گیا کہ شوہر‘ بیوی کو اپنی ملکیت کیوں سمجھتاہے؟ میں ملکیت کے ظالمانہ تصور کے خلاف ہوں تاہم ملکیت کا ایک بڑا خوبصورت پہلو بھی ہے‘ جس چیز کے بارے میں ہمیں پتا ہو کہ یہ ہماری ملکیت ہے‘ اُس کا حد درجہ خیال رکھا جاتاہے‘ ہم اپنے گھر کے برتنوں تک کا بہت خیال رکھتے ہیں کیونکہ وہ ہماری ملکیت ہوتے ہیں‘ ہم اپنی گاڑی یا موٹر سائیکل کوپارک کرتے وقت پوری تسلی کرتے ہیں کہ اِنہیں لاک کرلیا جائے کیونکہ یہ ہماری ملکیت ہیں‘ ہم اپنی چیزوں کو صاف رکھتے ہیں‘ ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں کیونکہ وہ ہماری ملکیت ہوتی ہیں‘ اس کے برعکس جو چیز ہماری ملکیت نہیں ہوتی اُس کی ہم کوئی پرواہ نہیں کرتے‘ مثلاً ہم کسی ہوٹل میں کھانا کھاتے وقت بے دریغ ٹشو پیپرز کا استعمال کرتے ہیں‘ گھر کے اندر ایک کاغذ تک برداشت نہیں کرتے اور سڑک پر بکھرے کاغذوں کی بالکل پرواہ نہیں کرتے‘ ہم اپنے موبائل کو حفاظت سے رکھتے ہیں‘ کسی دوسرے کے موبائل کو نہیں۔ وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ اپنی چیز اپنی ہوتی ہے۔شوہر اگر بیوی کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے تو
میں بتا دیتا ہوں، ببلیکل کے معنی ہے بائیبل ، کتابوں کی لائبریری۔کوئی مجھے بلیلکل کا مطلب بتا دے
اردوویب کا بانی ہوں اور اردو مادری زبان ہے اس لئے یہاں آتا ہوں مسلمانوں کے ساتھ بیٹھنے نہیں