کیا عورت مرد برابر ہیں؟

x boy

محفلین
واہ کیا تعصب ہے اسلام کے ساتھ "زکریا بلیلکل نام والے کا، اگر آپکو پسند نہیں اسلام کے شعائر تو مت بیٹھیں مسلمانوں کے ساتھ۔
 

x boy

محفلین
آپ ایک عالم سے نہیں بلکہ دس عالم سے پوچھیں ۔ مگر فیصلہ آپ کو ہی کرنا ہوتا ہے کہ کس کی بات زیادہ قرآن وسنت کے قریب ہے ۔ کس کی بات زیادہ دل و دماغ کے قریب ہے اور کس کی بات فطرت کے قریب ہے ۔ بس یہ خیال رہے کہ آپ کی نیت مخلص ہونی چاہیئے کہ آپ جو بھی نتیجہ اخذ کریں گے ۔ اس میں آپ کا کوئی مفاد پوشیدہ نہ ہو ۔ ورنہ لوگ غلط فیصلے کرتے ہیں کہ آخر انسان ہیں ۔ غلطی ہو جاتی ہے ۔ مگر فیصلوں کے پیچھے محرکات بہت اہم ہوتے ہیں ۔
اور اللہ نے آپ کو آزاد پیدا کیا ہے ۔ آپ کو عقل و فہم عطا کیا ہے ۔ اس سے کام لیں ۔ نہ کہ کسی کے مقلد ہوکر کسی روبوٹ کی طرح بیٹھ جائیں ۔

سو فیصد درست بات، لیکن سوال کیا تھا جو میں نے کوٹ کیا لے کر کیا بیٹھ گئے، فارغ اوقات میں اگر ہم غور سے پڑھیں گے تو ان شاء اللہ ، نفع ہوگا۔
اس سائٹ تمام باتیں اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوٹ کی جاتی ہے کبھی اس سائٹ میں اس کے علاوہ پایا ہو۔
 

زیک

مسافر
اس بات کا اسلام اور اسلام کے احکامات سے کیا تعلق ہے ۔ اس کا تعلق تو فرد اور اس کی طاقت سے ہے ۔ اگر کوئی مذہب کو اپنے مفادات کے لیئے استعمال کرتا ہے ۔ اس مقصد کے لیئے وہ علماؤں کو خرید کر ان سے کتابیں لکھواتاہے( جیسا کہ ملکویت کے دور میں ہوا ۔ عرب ممالک کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ اپنی بادشاہت کی بقا کے لیے وہاں علماء کیسے کیسے فتوے دیتے ہیں ) ۔ تو اس سے اصل ماخذ کا کیا تعلق بنتا ہے ۔ ؟
632 سے پہلے کا حوالہ دیا تھا۔ مگر واقعی حکمران مذہبی احکامات سے مستثنٰی ہوتے ہیں
 

x boy

محفلین
آپ ایک عالم سے نہیں بلکہ دس عالم سے پوچھیں ۔ مگر فیصلہ آپ کو ہی کرنا ہوتا ہے کہ کس کی بات زیادہ قرآن وسنت کے قریب ہے ۔ کس کی بات زیادہ دل و دماغ کے قریب ہے اور کس کی بات فطرت کے قریب ہے ۔ بس یہ خیال رہے کہ آپ کی نیت مخلص ہونی چاہیئے کہ آپ جو بھی نتیجہ اخذ کریں گے ۔ اس میں آپ کا کوئی مفاد پوشیدہ نہ ہو ۔ ورنہ لوگ غلط فیصلے کرتے ہیں کہ آخر انسان ہیں ۔ غلطی ہو جاتی ہے ۔ مگر فیصلوں کے پیچھے محرکات بہت اہم ہوتے ہیں ۔
اور اللہ نے آپ کو آزاد پیدا کیا ہے ۔ آپ کو عقل و فہم عطا کیا ہے ۔ اس سے کام لیں ۔ نہ کہ کسی کے مقلد ہوکر کسی روبوٹ کی طرح بیٹھ جائیں ۔


بات بالکل صحیح میں بھی یہی کہتا چاہ رہا ہوں کہ " عزت والے عرش کے رب نے کیا نازل کیا اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا سنایا اور عمل کیا"
اس میں ذرا برابر کی بھی ملاوٹ اللہ کو قبول نہیں۔ انتھی۔
 

ظفری

لائبریرین
بات بالکل صحیح میں بھی یہی کہتا چاہ رہا ہوں کہ " عزت والے عرش کے رب نے کیا نازل کیا اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا سنایا اور عمل کیا"
اس میں ذرا برابر کی بھی ملاوٹ اللہ کو قبول نہیں۔ انتھی۔
ٹھیک مگر اپنی بات کسی پر مسلط نہیں کریں ۔ اپنی بات ٹھیک اور احسن طریقے سے لوگوں تک پہنچائیں ۔ اس سے زیادہ کا اللہ نے ہم کو مکلف نہیں بنایاکیونکہ دین پر کوئی جبر نہیں ہے ۔
 

ظفری

لائبریرین
632 سے پہلے کا حوالہ دیا تھا۔ مگر واقعی حکمران مذہبی احکامات سے مستثنٰی ہوتے ہیں
حکمران کوئی آسمان سے اُتری ہوئی تو چیز نہیں ہیں ۔ :)
ملکویت اور اسے پہلے کیوں جاتے ہیں ۔ انسانی نفسیات کیساتھ اگر حکمرانوں کے رحجان کو سمجھنا ہی ہے تو ہم آج کے دور کے مسلم حکمرانوں کو دیکھ لیں ۔ کیا وہ قرآن وسنت سے واقف نہیں ہیں ۔ کیا ان کے ہاں روزِجزا اور سزا کا کوئی تصور موجود نہیں ہے ۔ سب ہے مگر وہ کیا سے کیا کر جاتے ہیں ۔ یہ سب انسانی نفسیات ہے ۔ جو اپنے اختیارات اور محرکات کے نتیجے میں ایسے فیصلے بھی کر جاتی ہے ۔ جس سے ان کے سامنے مذہب کا تصور دھندلا جاتا ہے ۔
طاقتور حکمرانوں پر ہی کیوں جاتے ہیں ۔ ہم اپنا ہی محاسبہ کر تے ہیں ۔ کیونکہ بات مذہب اور اس کے احکامات کے حوالے سے ہو رہی ہے تو ہم دیکھتے ہیں بعض ادنی درجے کے غلط کام بھی ہم کر جاتے ہیں ۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں تو وہ ادنی درجے کے ہیں ۔کچھ نہیں ہوتا ۔ کیونکہ ہم اپنے دائرہِ اختیار میں دیکھتے ہیں ۔ حکمرانوں کا دائرہِ اختیار لامحدود ہوتا ہے ۔
قرآن میں جو احکامات بیان ہوئے ہیں ۔ ان کا تعلق زیادہ تر معاشرے سے ہے ۔ کچھ سزائیں بھی مختص کیں ہیں ۔ ان کا تعلق بھی معاشرے سے ہے ۔ کیونکہ اسلام کو معاشرے میں بگاڑ مقصود نہیں ہے ۔ یہ اخلاق کا وہ پہلو ہے ۔ جس پر دین کی اساس قائم ہے ۔ مگر آپ دیکھیں کہ نماز ، روزہ وغیرہ جس کا تعلق انسان کی انفرادی زندگی ہے ۔ اس پر اللہ نے کوئی سزا نہیں مقرر کی ہے ۔ کیونکہ یہ معاملہ فرد اور اللہ کے مابین ہے ۔ مگر ہم دیکھتے ہیں بعض عرب ممالک میں اس سلسلے میں قانون بنا ہوا ہے ۔ وہ نما ز کے معاملے میں زبردستی کرتے ہیں ۔ اس سے اصل احکامات کا کیا تعلق بنتاہے ۔
 

زیک

مسافر
حکمران کوئی آسمان سے اُتری ہوئی تو چیز نہیں ہیں ۔ :)
ملکویت اور اسے پہلے کیوں جاتے ہیں ۔ انسانی نفسیات کیساتھ اگر حکمرانوں کے رحجان کو سمجھنا ہی ہے تو ہم آج کے دور کے مسلم حکمرانوں کو دیکھ لیں ۔ کیا وہ قرآن وسنت سے واقف نہیں ہیں ۔ کیا ان کے ہاں روزِجزا اور سزا کا کوئی تصور موجود نہیں ہے ۔ سب ہے مگر وہ کیا سے کیا کر جاتے ہیں ۔ یہ سب انسانی نفسیات ہے ۔ جو اپنے اختیارات اور محرکات کے نتیجے میں ایسے فیصلے بھی کر جاتی ہے ۔ جس سے ان کے سامنے مذہب کا تصور دھندلا جاتا ہے ۔
طاقتور حکمرانوں پر ہی کیوں جاتے ہیں ۔ ہم اپنا ہی محاسبہ کر تے ہیں ۔ کیونکہ بات مذہب اور اس کے احکامات کے حوالے سے ہو رہی ہے تو ہم دیکھتے ہیں بعض ادنی درجے کے غلط کام بھی ہم کر جاتے ہیں ۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں تو وہ ادنی درجے کے ہیں ۔کچھ نہیں ہوتا ۔ کیونکہ ہم اپنے دائرہِ اختیار میں دیکھتے ہیں ۔ حکمرانوں کا دائرہِ اختیار لامحدود ہوتا ہے ۔
قرآن میں جو احکامات بیان ہوئے ہیں ۔ ان کا تعلق زیادہ تر معاشرے سے ہے ۔ کچھ سزائیں بھی مختص کیں ہیں ۔ ان کا تعلق بھی معاشرے سے ہے ۔ کیونکہ اسلام کو معاشرے میں بگاڑ مقصود نہیں ہے ۔ یہ اخلاق کا وہ پہلو ہے ۔ جس پر دین کی اساس قائم ہے ۔ مگر آپ دیکھیں کہ نماز ، روزہ وغیرہ جس کا تعلق انسان کی انفرادی زندگی ہے ۔ اس پر اللہ نے کوئی سزا نہیں مقرر کی ہے ۔ کیونکہ یہ معاملہ فرد اور اللہ کے مابین ہے ۔ مگر ہم دیکھتے ہیں بعض عرب ممالک میں اس سلسلے میں قانون بنا ہوا ہے ۔ وہ نما ز کے معاملے میں زبردستی کرتے ہیں ۔ اس سے اصل احکامات کا کیا تعلق بنتاہے ۔
آج کے یا ملوکیت کے دور کا کوئی ذکر نہیں۔ اس سے بھی پہلے کی بات کی تھی۔
 

ظفری

لائبریرین
ملوکیت کوئی یکطرفہ شے نہیں تھی۔ شیعان علی بھی ملوکیت ہی چاہتے تھے
یہ رویئے ،انسان کےمخصوص ذہن ، مختلف رحجانات ، مختلف جبلت اورنفسیات کے اتار چڑھاؤ کی مرہونِ منت ہے ۔ آج بھی دنیا میں اس قسم کے رحجانات عام ہیں ۔ چونکہ یہاں بات طرزِ حکومت کی ہو رہی ہےتو ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن میں " امرا ھم شوریٰ بینا ھم " کہہ کر بات ختم کردی ہے ۔ یعنی مسلمانوں کا اجتماعی نظم ان کے باہمی صلاح و مشورے سے ہوگا ۔ اب کوئی اس اصول کو نظر انداز کردے تو اس میں مذہب کہاں سے تختہِ مشق بن جائے گا ۔
 

زیک

مسافر
یہ رویئے ،انسان کےمخصوص ذہن ، مختلف رحجانات ، مختلف جبلت اورنفسیات کے اتار چڑھاؤ کی مرہونِ منت ہے ۔ آج بھی دنیا میں اس قسم کے رحجانات عام ہیں ۔ چونکہ یہاں بات طرزِ حکومت کی ہو رہی ہےتو ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن میں " امرا ھم شوریٰ بینا ھم " کہہ کر بات ختم کردی ہے ۔ یعنی مسلمانوں کا اجتماعی نظم ان کے باہمی صلاح و مشورے سے ہوگا ۔ اب کوئی اس اصول کو نظر انداز کردے تو اس میں مذہب کہاں سے تختہِ مشق بن جائے گا ۔
روم نے سینکڑوں سال کسی قسم کا رپبلک جاری رکھا۔ یونانی شہروں میں بھی کافی عرصہ کسی قسم کی جمہوریت رہی۔ یہ بیچارے مسلمان ہی تھے کہ قرآن کے حکم کے باوجود شورٰی سے فورا ہی محروم ہو گئے
 

ظفری

لائبریرین
روم نے سینکڑوں سال کسی قسم کا رپبلک جاری رکھا۔ یونانی شہروں میں بھی کافی عرصہ کسی قسم کی جمہوریت رہی۔ یہ بیچارے مسلمان ہی تھے کہ قرآن کے حکم کے باوجود شورٰی سے فورا ہی محروم ہو گئے
بلکل ۔۔۔ بدقسمتی کی بات ہے ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اس کالم سے قطع نظر جب اللہ کا فیصلہ ہے کہ یہ دونوں برابر نہیں، بلکہ لازم و ملزوم ہیں تو پھر مباحث کاہے کے؟
جب انسان خالق کے فیصلوں سے انحراف و انصراف پر اتر آنے لگے تو ذلت و خواری کا سامان و اسباب خود کرنے لگتا ہے۔ مثلاً اس قسم کے مباحثے ۔
 

زیک

مسافر
واہ کیا تعصب ہے اسلام کے ساتھ "زکریا بلیلکل نام والے کا، اگر آپکو پسند نہیں اسلام کے شعائر تو مت بیٹھیں مسلمانوں کے ساتھ۔
کوئی مجھے بلیلکل کا مطلب بتا دے

اردوویب کا بانی ہوں اور اردو مادری زبان ہے اس لئے یہاں آتا ہوں مسلمانوں کے ساتھ بیٹھنے نہیں
 

زیک

مسافر
اس محفل میں یہ بھی سوال اٹھایا گیا کہ شوہر‘ بیوی کو اپنی ملکیت کیوں سمجھتاہے؟ میں ملکیت کے ظالمانہ تصور کے خلاف ہوں تاہم ملکیت کا ایک بڑا خوبصورت پہلو بھی ہے‘ جس چیز کے بارے میں ہمیں پتا ہو کہ یہ ہماری ملکیت ہے‘ اُس کا حد درجہ خیال رکھا جاتاہے‘ ہم اپنے گھر کے برتنوں تک کا بہت خیال رکھتے ہیں کیونکہ وہ ہماری ملکیت ہوتے ہیں‘ ہم اپنی گاڑی یا موٹر سائیکل کوپارک کرتے وقت پوری تسلی کرتے ہیں کہ اِنہیں لاک کرلیا جائے کیونکہ یہ ہماری ملکیت ہیں‘ ہم اپنی چیزوں کو صاف رکھتے ہیں‘ ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں کیونکہ وہ ہماری ملکیت ہوتی ہیں‘ اس کے برعکس جو چیز ہماری ملکیت نہیں ہوتی اُس کی ہم کوئی پرواہ نہیں کرتے‘ مثلاً ہم کسی ہوٹل میں کھانا کھاتے وقت بے دریغ ٹشو پیپرز کا استعمال کرتے ہیں‘ گھر کے اندر ایک کاغذ تک برداشت نہیں کرتے اور سڑک پر بکھرے کاغذوں کی بالکل پرواہ نہیں کرتے‘ ہم اپنے موبائل کو حفاظت سے رکھتے ہیں‘ کسی دوسرے کے موبائل کو نہیں۔ وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ اپنی چیز اپنی ہوتی ہے۔شوہر اگر بیوی کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے تو
بیوی، برتن، گاڑی، موٹرسائیکل، ٹشو پیپر، کاغذ، موبائل یہ سب ایک ہی قسم کی اجناس ہیں۔
 

x boy

محفلین
کوئی مجھے بلیلکل کا مطلب بتا دے

اردوویب کا بانی ہوں اور اردو مادری زبان ہے اس لئے یہاں آتا ہوں مسلمانوں کے ساتھ بیٹھنے نہیں
میں بتا دیتا ہوں، ببلیکل کے معنی ہے بائیبل ، کتابوں کی لائبریری۔
دوسری بات اگر آپ بانی ہیں تو اس میں ایک شرط عائد کردیں کہ یہاں بالکل اسلام اور پاکستان کی بات نہیں ہوگی صرف شعر و شاعری اور دیگر متفرقات۔
جو بھی ہوگی صرف اور صرف سیکولر لوگوں کی باتیں مسلمانوں کو جنگ دھکیل کی باتیں نہیں ہونگی 8 سو سال تک مسلمانوں نے برصغیر کی خدمت کی ہے
جب ان لوگوں نے کسی غیر قوم کو خطرہ قرار نہیں دیا تو انگریزوں کے آتے ہی اس خطے میں یہ تعصب کیسے ہوگیا۔
اس وقت ایسے لوگ ہوتے کہ گھر گھر جاکر تلواروں کے زوروں پر لوگوں کو کہتے مسلمان ہوجاؤ ورنہ قتل ہو جاؤگے جسطرح عیساؤں نے اسپین میں گن گن کر مسلمانوں کو اور مسلمانوں کے چھوڑے آثار ختم کیے اسی طرح۔
 
Top