منصور آفاق
محفلین
مجھے ادب کے بڑوں نے کہا کہ غالب اور اقبال کے بعد تیسرے بڑے شاعر فیض احمد فیض ہیں حتیٰ کہ خوداحمد فراز نے بھی میرے کان میں یہی سرگوشی کی۔ میں کسی کوکچھ نہ کہہ سکا مگر میں نے احتجاجاً اپنے قلم
پر ایک سیاہ رنگ کی پٹی باندھ لی ۔ممکن ہے میرا احتجاج کچھ روشن دماغوں کوملگجالگے۔ بہتر ہے کچھ دیر کےلئے کھڑکیوں سے پردے اٹھا دیجئے ۔میں دن کی روشنی میں بات کرنا چاہتا ہوں ۔میرے پاس دکھائی دینے والے دلائل ہیں اور نظر کی عنیکیں بھی۔ان عینکوں کے فریموں میں وہی عدسے ہیں جنہوں نے کتنے ہی مسلمات کو پر کھا توانکی کرچےاں کرچےاں بکھر گئےں۔ عنکبوت کی تاروں پر کوئی کتنی دیر کھڑا رہ سکتا ہے۔ میر تقی میرکا یہ مقولہ کتنی دیر تک مسلمہ رہا کہ نظیر اکبر آبادی میلے ٹھیلے کا شاعرہے۔ مصحفی پر انشاءکو، آتش پر ناسخ کو اور غالب پر ذوق کوکتنی دیر تک تر جیح دی جاتی رہی ۔۔۔ تیس چالیس سال یا اس سے کچھ زیادہ ۔۔میں فیض سے بھی کوئی تعصب نہیں رکھتا وہ ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے شاعری سے الگ بھی ان کی بہت سی حیثیتیں ہیں وہ ترقی پسندانہ مزاج رکھتے تھے، ترقی پسند مصنفین میںبھی ان کا ایک اہم مقام ہے، وہ اپنے نظر یات کے ساتھ انتہائی مخلص تھے اور اس راہ میں جو سب پر گزرتی ہے سوگزری تنہا پس زنداں کبھی رسوا سربازار بلاشبہ وہ ایک بڑے شاعر بھی تھے اسکے علاوہ وہ ارد و کے ساتھ ساتھ انگریزی کے بھی بہت بڑے ادیب تھے۔ وہ تنقیدی شعور بھی رکھتے تھے اور اگر اس صنف کی طرف بھر پور توجہ دیتے تو صفِ اول کے نقادوں میںان کا شمار ہوتا ۔ انسان دوستی اور مظلوم اقوام و مظلوم افراد کی درد خواہی و دم سازی میں بھی منفرد حیثیت کے حامل تھے ۔ فلسطینیوں کے ساتھ ان کی وابستگی بھی ضرب المثل ہوچکی ہے ان کے The Lotus میں لکھے ہوئے الفاظ کی گونج آج تک فلسطین کی مظلوم فضاﺅں میں تھر ارہی ہے ۔ انکی نظریات کے ساتھ کومٹ منٹCommitment پر بھی مجھے کچھ شک نہیں ۔ بحیثیت انسان بھی میں انکے کر دار کا معترف ہوں اور بحیثیت شاعر بھی۔میرا موضوع تو فقط ان کی شاعری ہے۔اور میں نے یہ تجزیہ کرتے ہوئے تعصب و ترجیح کی رنگ دار عینک اتار کر میز پر رکھ دی تھی۔(پتہ نہیں وہ اس مشق سخن کے دوران میز پررہی ہے یا نہیں)۔ہاں!میں نے اس بات کا خیال نہیں رکھاکہ قلم کی ضرب سے میرا اپناکوئی ہیرو زخم خوردہ ہورہا ہے یا میرے لفظوں کی فائرنگ خود میرے اپنے نازک جذبوں کاقتل عام کررہی ہے جنہیں میں نے بچپن سے ایک خوبصورت یاد کے کپکپاتے ہوئے دئیے کی طرح طاقِ خیال میں سجایا ہوا ہے ،اس یاد کی روشنی وہاں سے میرے کمرے میں آنی شروع ہوتی ہے جب میرے موحوم بھائی محمد اشفاق چغتائی نے مجھ سے کہا کہ یہ جو تُو نے لفظوں کی کشیدہ کاری شروع کی ہے ،یہ کام مت کر یہ بہت مشکل فن ہے ، زندگی ضائع ہوجائے گی ، کچھ ہاتھ نہیں آئے گاتو میں نے انہیں کہا کیا فیض احمد فیض نے اپنی زندگی ضائع کردی ہے تو ہنس کرکہنے لگے اگرتُونے زندگی میںکوئی ایک مصرعہ بھی فیض کے معیار کاکہہ لیا تو سمجھنا کہ زندگی کا سفر رائیگاں نہیں گیااور میں فیض جیسا ایک مصرعہ کہنے کی تگ و دو میں پچھلے پچیس سال سے شعر کہے جا رہا ہوں ،یعنی زندگی بھر فیض ہی میرا محبوب شاعر رہا ہے۔صرف میرا ہی نہیں وہ ایک زمانے کا محبوب شاعر ہے ،اس کے چاہنے والے لاتعداد ہیں،مجھے ان کا ایک گمنام عاشق یاد آرہا ہے فیض جب برمنگھم آتے تھے تو انہی کے ہاں قیام کرتے تھے ،میں ان سے جب پہلی بارملا تو کہنے لگے۔”مجھے اب بھی سیڑھیوں سے اترتے ہوئے فیض صاحب کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے ۔اب بھی ان کی کپکپاتی ہوئی آواز کے وقار کی یاد مجھے مودب بنا دیتی ہے۔یہ وہ کرسی ہے جس پر فیض صاحب بیٹھا کرتے تھے ۔میری ہمیشہ کوشش رہتی ہے کہ اس کرسی پر آکر کوئی اور نہ بیٹھے ۔ہاں جب بھی احمد فراز آتے ہیں تو اسی کرسی پربیٹھتے ہیں فیض صاحب کی نشست پر بیٹھنا انہی کا حق ہے۔یہ جو تمہیں تصویر نظر آر ہی ہے یہ فیض صاحب کی آخری تصویر ہے۔فیض صاحب یوں بیٹھتے تھے۔۔ یوں اٹھتے تھے۔۔ یوں چلتے تھے ۔۔بات کرنے کا انداز یوں تھا۔۔ دیر دیر تک خاموش بیٹھے رہتے تھے مگر ان کی خاموشی بھی کلام کرتی تھی‘ ‘ وہ تقریباً دو گھنٹے میرے ساتھ فیض احمد فیض کے متعلق گفتگو کرتے رہے ۔ میں جو اُن کے ساتھ پہلی بار ملا تھا فیض صاحب کے ساتھ ان کی محبت کو رشک بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا اور فیض صاحب کو بھی ۔ ۔ ۔۔ ۔کہ انہیں ایسے چاہنے والے نصیب ہوئے ہیں ۔ وہ تو وہ ہے تمہیں ہو جائے گی الفت مجھ سے اک نظر تم مرا محبوبِ نظر تو دیکھو میںجب ان کے گھر سے نکلاتو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں فیض صاحب کے ساتھ ساتھ چل رہا ہوں ۔پھر مجھے یوں احساس ہوا کہ چلتے چلتے فیض صاحب میری ذات میں مدغم ہو گئے ہیں۔اور پھر میں خود فیض بن گیا ۔ مجھے پندرہ بیس سالہ پرانا وہ ٹیبلو یاد آیا جو میں نے فیض صاحب کی شاعری پرمیانوالی میں کیا تھا ،جب ہم دوستوںنے کئی دن تحقیق کے بعد گھنٹوں اس پر بات پر بحث کی تھی کہ فیض صاحب کیسے اٹھتے ہیں، کیسے بیٹھتے ہیں۔،کیسے چلتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔قصہ دراصل یہ تھا کہ میں میانوالی کا واحد نوجوان قلمکار تھا جسے کراچی میں ہونے والی ترقی پسند مصنفین کی کانفر نس پر بلا یا گیا تھا۔ اِس کانفرنس کا احوال مےں نے اپنے مضمون " سبط ِحسن اور مےں" مےں تفصےل سے لِکھا ہے ۔وہاں ہمےں فیض صاحب کی شاعری پرایک ٹیبلو بھی دکھایا گیا تھا جوشاید فریال گوہر اور جمال شاہ کی پشکشے تھی ۔مجھے وہ ٹیبلو بہت پسند آیا تھا میں نے واپس آکر میانوالی مںت اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ویسا ہی ایک ٹیبلو تیار کیا۔ وہ ٹیبلو یہ تھا کہ پسِ منظر مےں فیض صاحب کی شاعری تحت اللّفظ سے پڑھی جارہی تھی اور سٹیج پر کفن کی طرح کا لباس پہنے ہوئے دس بارہ لڑکے اپنی جسمانی حرکات و سکنات سے اُس شاعری کومفہوم دے رہے تھے ۔ اپنے ٹےبلو کے سکرپٹ کے آخر مںج ہم نے جواضافہ کیا تھا وہ ےہ تھا کہ ٹیبلو کے اختتام پر فیض صاحب سٹیج پر آتے ہےںاور ان کرداروں سے اےک روشن مستقبل کی گفتگو کرتے ہےں۔خوش قِسمتی سے فیض صاحب کا کردار ادا کرنے کی ذمہ داری میرے حصے میں آئی تھی۔مےرے لئے مسئلہ یہ تھا کہ میں نے فیض صاحب کی صرف تصویریں دیکھی ہوئی تھیں یا آواز سنی ہوئی تھی ۔آواز بھی ایسی کہ مریے کلور کوٹ کے دوست کے پاس ایک آڈیو کیسٹ تھا جو شاید وہ کسی مشاعرے سے ریکارڈ کر کے لے آیا تھا۔ اس نے اس کی ایک کاپی مجھے بھی دے دی تھی ۔۔اب جب میںفیض سے ایک محبت کرنے والے شخص کے گھر سے نکلتے ہوئے خودکوفیض احمد فیض سمجھ رہا تھا تو دارصل مجھے وہی ٹیبلو یاد آگیا تھا جس میں میں فیض بنا ہوا تھا ۔میں نے اس وقت بھی اپنے دوستوں سے کہا تھا کہ میرے لئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ میں فیض صاحب کا کردار ادا کر رہا ہوں۔ فیض صاحب واقعی اتنے بڑے شاعر ہےں کہ آج بھی مےری وہ کاوِش مےرے لئے باعثِ اعزاز ہے۔ہماری ڈرامہ ٹیم میں بڑے بڑے ذہین نوجوان تھے ۔مجھے یادہے کہ جب ہم نے میانوالی میں میجر اسحاق کا لکھا ہوا ڈرامہ "مصّلی" کیا تھاتو اس میں تھیسِس(Thesis) اینٹی تھےسِس(Anti thesis) اورسِن تھیسِز (Synthesis) کا فلسفہ اےک اےسے کردار کی زبان سے ادا کراےا گےا ہے جِس کی ذہنی ےا علمی سطح اُس کی متحمل نہےں ہوسکتی۔تو ہوا ےہ کہ جونوجوان وہ کردارادا کر رہا تھا اس نے اِسی وجہ سے وہ جُملے ادا کرنے سے اِنکار کردیا تھا۔ میں خدانخواستہ میجر اسحاق کو نشانہ نہں بنا رہا یہ بات مجھے ویسے ہی یاد آگئی ہے ۔بات کوئی بھی ہو مرتے اندر مر ی "ماسنوالویت" جاگ اُٹھتی ہے۔ میجر اسحاق تو وہ شخصیت ہیں جِن سے فیض صاحب نے اپنے شعری مجموعے ”زنداں نامہ “ کا دیباچہ لکھوایا تھا۔ہاں تو بات ہورہی تھی فیض صاحب کیسے بیٹھتے تھے کیسے چلتے تھے کیسے پڑھتے تھے ۔۔اُس آڈیو کیسٹ کی وجہ سے میں اُن کی آوازکی نقل اُتارنے مےں توشاےد کسی حد تک کامیاب ہو گیا تھا مگرسچ یہ ہے کہ میں فضی احمد فضت بالکل نہںص لگتا تھا۔ پھر زندگی بھر پڑھنے کا شوق ہی جاری رہاایک دن یہی مطالعہ مجھے اس مقام پر لے آیا کہ میں نے فیض جیسی بڑی شخصیت پر ایساکچھ لکھنے کا ارادہ کرلیا جو اس سے پہلے نہیں لکھا گیا یہ تحریر لکھتے ہوئے مجھے اس بات کا احساس بہت زیادہ رہاکہ اگر کہیں مجھ سے سچائی کا دامن چھوٹ گیاتو یہ اوراق عمر بھرمیری اپنی شیلف کو شرمسار کرتے رہیں گے سو سب سے پہلے میں نے تعصب اور ترجیح کی عینک اتاری ۔یقین کیجئے عینک کے اترتے ہی تصویر کا رنگ بدلتا چلا گیامیں جو بچپن سے فیض کے قصیدے لکھتا چلا آرہا تھا میں جوفیض کے بارے میں کہا کرتا تھا۔۔”پھول جیسے تیرے مصرعے پر مکمل تبصرہ“سوچنے لگا کہ میں فیض کے خلاف کوئی جملہ کیسے لکھوں گا۔بڑا حوصلہ کرکے کام شروع کیا تو پہلے موڑ پرمیںاُس اسم ِ خیال کے دائرے میں آگیاجو کچھ بزرگوں نے سفید بالوں میں گھر بنانے والی دانش کومجھ جیسے شکاریوں سے محفوظ رکھنے کےلئے کھینچ رکھا تھا کہ خطائے بزرگاں گر فتن خطا است، یعنی بزرگوں کی غلطیاں پکڑنا بجائے خود غلط کا م ہے ۔مگر اس اسم اعظم کے حصار سے بھی رفتہ رفتہ باہر نکل آیا ۔مجھے اس بات میں زیادہ قوت نظر آئی کہ غلطی اور خطا کو دانستہ بر قرار رہنے دیا جائے تو آنے والوں کے لئے وہ غلطی جو از بن جاتی ہے اور پھر غلطیوں کے پھاٹک کھل جاتے ہیں ۔اس مشکل مقام سے گزرتے ہوئے غالب کی ایک بات نے بھی مجھے بہت حوصلہ دیا غالب نے اپنے ایک خط میں مرزا ہرگوپال تفتہ کو لکھا ہے”یہ نہ سمجھا کرو کہ اگلے جو کچھ لکھ گئے ہیں وہ حق ہے کیا آگے آدمی احمق پیدا نہیں ہوتے تھے