کیا فیض احمد فیض غالب اور اقبال کے بعد سب سے بڑے شاعر ہیں

منصور آفاق

محفلین
مجھے ادب کے بڑوں نے کہا کہ غالب اور اقبال کے بعد تیسرے بڑے شاعر فیض احمد فیض ہیں حتیٰ کہ خوداحمد فراز نے بھی میرے کان میں یہی سرگوشی کی۔ میں کسی کوکچھ نہ کہہ سکا مگر میں نے احتجاجاً اپنے قلم​
پر ایک سیاہ رنگ کی پٹی باندھ لی ۔ممکن ہے میرا احتجاج کچھ روشن دماغوں کوملگجالگے۔ بہتر ہے کچھ دیر کےلئے کھڑکیوں سے پردے اٹھا دیجئے ۔میں دن کی روشنی میں بات کرنا چاہتا ہوں ۔میرے پاس دکھائی دینے والے دلائل ہیں اور نظر کی عنیکیں بھی۔ان عینکوں کے فریموں میں وہی عدسے ہیں جنہوں نے کتنے ہی مسلمات کو پر کھا توانکی کرچےاں کرچےاں بکھر گئےں۔ عنکبوت کی تاروں پر کوئی کتنی دیر کھڑا رہ سکتا ہے۔ میر تقی میرکا یہ مقولہ کتنی دیر تک مسلمہ رہا کہ نظیر اکبر آبادی میلے ٹھیلے کا شاعرہے۔ مصحفی پر انشاءکو، آتش پر ناسخ کو اور غالب پر ذوق کوکتنی دیر تک تر جیح دی جاتی رہی ۔۔۔ تیس چالیس سال یا اس سے کچھ زیادہ ۔۔میں فیض سے بھی کوئی تعصب نہیں رکھتا وہ ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے شاعری سے الگ بھی ان کی بہت سی حیثیتیں ہیں وہ ترقی پسندانہ مزاج رکھتے تھے، ترقی پسند مصنفین میںبھی ان کا ایک اہم مقام ہے، وہ اپنے نظر یات کے ساتھ انتہائی مخلص تھے اور اس راہ میں جو سب پر گزرتی ہے سوگزری تنہا پس زنداں کبھی رسوا سربازار بلاشبہ وہ ایک بڑے شاعر بھی تھے اسکے علاوہ وہ ارد و کے ساتھ ساتھ انگریزی کے بھی بہت بڑے ادیب تھے۔ وہ تنقیدی شعور بھی رکھتے تھے اور اگر اس صنف کی طرف بھر پور توجہ دیتے تو صفِ اول کے نقادوں میںان کا شمار ہوتا ۔ انسان دوستی اور مظلوم اقوام و مظلوم افراد کی درد خواہی و دم سازی میں بھی منفرد حیثیت کے حامل تھے ۔ فلسطینیوں کے ساتھ ان کی وابستگی بھی ضرب المثل ہوچکی ہے ان کے The Lotus میں لکھے ہوئے الفاظ کی گونج آج تک فلسطین کی مظلوم فضاﺅں میں تھر ارہی ہے ۔ انکی نظریات کے ساتھ کومٹ منٹCommitment پر بھی مجھے کچھ شک نہیں ۔ بحیثیت انسان بھی میں انکے کر دار کا معترف ہوں اور بحیثیت شاعر بھی۔میرا موضوع تو فقط ان کی شاعری ہے۔اور میں نے یہ تجزیہ کرتے ہوئے تعصب و ترجیح کی رنگ دار عینک اتار کر میز پر رکھ دی تھی۔(پتہ نہیں وہ اس مشق سخن کے دوران میز پررہی ہے یا نہیں)۔ہاں!میں نے اس بات کا خیال نہیں رکھاکہ قلم کی ضرب سے میرا اپناکوئی ہیرو زخم خوردہ ہورہا ہے یا میرے لفظوں کی فائرنگ خود میرے اپنے نازک جذبوں کاقتل عام کررہی ہے جنہیں میں نے بچپن سے ایک خوبصورت یاد کے کپکپاتے ہوئے دئیے کی طرح طاقِ خیال میں سجایا ہوا ہے ،اس یاد کی روشنی وہاں سے میرے کمرے میں آنی شروع ہوتی ہے جب میرے موحوم بھائی محمد اشفاق چغتائی نے مجھ سے کہا کہ یہ جو تُو نے لفظوں کی کشیدہ کاری شروع کی ہے ،یہ کام مت کر یہ بہت مشکل فن ہے ، زندگی ضائع ہوجائے گی ، کچھ ہاتھ نہیں آئے گاتو میں نے انہیں کہا کیا فیض احمد فیض نے اپنی زندگی ضائع کردی ہے تو ہنس کرکہنے لگے اگرتُونے زندگی میںکوئی ایک مصرعہ بھی فیض کے معیار کاکہہ لیا تو سمجھنا کہ زندگی کا سفر رائیگاں نہیں گیااور میں فیض جیسا ایک مصرعہ کہنے کی تگ و دو میں پچھلے پچیس سال سے شعر کہے جا رہا ہوں ،یعنی زندگی بھر فیض ہی میرا محبوب شاعر رہا ہے۔صرف میرا ہی نہیں وہ ایک زمانے کا محبوب شاعر ہے ،اس کے چاہنے والے لاتعداد ہیں،مجھے ان کا ایک گمنام عاشق یاد آرہا ہے فیض جب برمنگھم آتے تھے تو انہی کے ہاں قیام کرتے تھے ،میں ان سے جب پہلی بارملا تو کہنے لگے۔”مجھے اب بھی سیڑھیوں سے اترتے ہوئے فیض صاحب کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے ۔اب بھی ان کی کپکپاتی ہوئی آواز کے وقار کی یاد مجھے مودب بنا دیتی ہے۔یہ وہ کرسی ہے جس پر فیض صاحب بیٹھا کرتے تھے ۔میری ہمیشہ کوشش رہتی ہے کہ اس کرسی پر آکر کوئی اور نہ بیٹھے ۔ہاں جب بھی احمد فراز آتے ہیں تو اسی کرسی پربیٹھتے ہیں فیض صاحب کی نشست پر بیٹھنا انہی کا حق ہے۔یہ جو تمہیں تصویر نظر آر ہی ہے یہ فیض صاحب کی آخری تصویر ہے۔فیض صاحب یوں بیٹھتے تھے۔۔ یوں اٹھتے تھے۔۔ یوں چلتے تھے ۔۔بات کرنے کا انداز یوں تھا۔۔ دیر دیر تک خاموش بیٹھے رہتے تھے مگر ان کی خاموشی بھی کلام کرتی تھی‘ ‘ وہ تقریباً دو گھنٹے میرے ساتھ فیض احمد فیض کے متعلق گفتگو کرتے رہے ۔ میں جو اُن کے ساتھ پہلی بار ملا تھا فیض صاحب کے ساتھ ان کی محبت کو رشک بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا اور فیض صاحب کو بھی ۔ ۔ ۔۔ ۔کہ انہیں ایسے چاہنے والے نصیب ہوئے ہیں ۔ وہ تو وہ ہے تمہیں ہو جائے گی الفت مجھ سے اک نظر تم مرا محبوبِ نظر تو دیکھو میںجب ان کے گھر سے نکلاتو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں فیض صاحب کے ساتھ ساتھ چل رہا ہوں ۔پھر مجھے یوں احساس ہوا کہ چلتے چلتے فیض صاحب میری ذات میں مدغم ہو گئے ہیں۔اور پھر میں خود فیض بن گیا ۔ مجھے پندرہ بیس سالہ پرانا وہ ٹیبلو یاد آیا جو میں نے فیض صاحب کی شاعری پرمیانوالی میں کیا تھا ،جب ہم دوستوںنے کئی دن تحقیق کے بعد گھنٹوں اس پر بات پر بحث کی تھی کہ فیض صاحب کیسے اٹھتے ہیں، کیسے بیٹھتے ہیں۔،کیسے چلتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔قصہ دراصل یہ تھا کہ میں میانوالی کا واحد نوجوان قلمکار تھا جسے کراچی میں ہونے والی ترقی پسند مصنفین کی کانفر نس پر بلا یا گیا تھا۔ اِس کانفرنس کا احوال مےں نے اپنے مضمون " سبط ِحسن اور مےں" مےں تفصےل سے لِکھا ہے ۔وہاں ہمےں فیض صاحب کی شاعری پرایک ٹیبلو بھی دکھایا گیا تھا جوشاید فریال گوہر اور جمال شاہ کی پشکشے تھی ۔مجھے وہ ٹیبلو بہت پسند آیا تھا میں نے واپس آکر میانوالی مںت اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ویسا ہی ایک ٹیبلو تیار کیا۔ وہ ٹیبلو یہ تھا کہ پسِ منظر مےں فیض صاحب کی شاعری تحت اللّفظ سے پڑھی جارہی تھی اور سٹیج پر کفن کی طرح کا لباس پہنے ہوئے دس بارہ لڑکے اپنی جسمانی حرکات و سکنات سے اُس شاعری کومفہوم دے رہے تھے ۔ اپنے ٹےبلو کے سکرپٹ کے آخر مںج ہم نے جواضافہ کیا تھا وہ ےہ تھا کہ ٹیبلو کے اختتام پر فیض صاحب سٹیج پر آتے ہےںاور ان کرداروں سے اےک روشن مستقبل کی گفتگو کرتے ہےں۔خوش قِسمتی سے فیض صاحب کا کردار ادا کرنے کی ذمہ داری میرے حصے میں آئی تھی۔مےرے لئے مسئلہ یہ تھا کہ میں نے فیض صاحب کی صرف تصویریں دیکھی ہوئی تھیں یا آواز سنی ہوئی تھی ۔آواز بھی ایسی کہ مریے کلور کوٹ کے دوست کے پاس ایک آڈیو کیسٹ تھا جو شاید وہ کسی مشاعرے سے ریکارڈ کر کے لے آیا تھا۔ اس نے اس کی ایک کاپی مجھے بھی دے دی تھی ۔۔اب جب میںفیض سے ایک محبت کرنے والے شخص کے گھر سے نکلتے ہوئے خودکوفیض احمد فیض سمجھ رہا تھا تو دارصل مجھے وہی ٹیبلو یاد آگیا تھا جس میں میں فیض بنا ہوا تھا ۔میں نے اس وقت بھی اپنے دوستوں سے کہا تھا کہ میرے لئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ میں فیض صاحب کا کردار ادا کر رہا ہوں۔ فیض صاحب واقعی اتنے بڑے شاعر ہےں کہ آج بھی مےری وہ کاوِش مےرے لئے باعثِ اعزاز ہے۔ہماری ڈرامہ ٹیم میں بڑے بڑے ذہین نوجوان تھے ۔مجھے یادہے کہ جب ہم نے میانوالی میں میجر اسحاق کا لکھا ہوا ڈرامہ "مصّلی" کیا تھاتو اس میں تھیسِس(Thesis) اینٹی تھےسِس(Anti thesis) اورسِن تھیسِز (Synthesis) کا فلسفہ اےک اےسے کردار کی زبان سے ادا کراےا گےا ہے جِس کی ذہنی ےا علمی سطح اُس کی متحمل نہےں ہوسکتی۔تو ہوا ےہ کہ جونوجوان وہ کردارادا کر رہا تھا اس نے اِسی وجہ سے وہ جُملے ادا کرنے سے اِنکار کردیا تھا۔ میں خدانخواستہ میجر اسحاق کو نشانہ نہں بنا رہا یہ بات مجھے ویسے ہی یاد آگئی ہے ۔بات کوئی بھی ہو مرتے اندر مر ی "ماسنوالویت" جاگ اُٹھتی ہے۔ میجر اسحاق تو وہ شخصیت ہیں جِن سے فیض صاحب نے اپنے شعری مجموعے ”زنداں نامہ “ کا دیباچہ لکھوایا تھا۔ہاں تو بات ہورہی تھی فیض صاحب کیسے بیٹھتے تھے کیسے چلتے تھے کیسے پڑھتے تھے ۔۔اُس آڈیو کیسٹ کی وجہ سے میں اُن کی آوازکی نقل اُتارنے مےں توشاےد کسی حد تک کامیاب ہو گیا تھا مگرسچ یہ ہے کہ میں فضی احمد فضت بالکل نہںص لگتا تھا۔ پھر زندگی بھر پڑھنے کا شوق ہی جاری رہاایک دن یہی مطالعہ مجھے اس مقام پر لے آیا کہ میں نے فیض جیسی بڑی شخصیت پر ایساکچھ لکھنے کا ارادہ کرلیا جو اس سے پہلے نہیں لکھا گیا یہ تحریر لکھتے ہوئے مجھے اس بات کا احساس بہت زیادہ رہاکہ اگر کہیں مجھ سے سچائی کا دامن چھوٹ گیاتو یہ اوراق عمر بھرمیری اپنی شیلف کو شرمسار کرتے رہیں گے سو سب سے پہلے میں نے تعصب اور ترجیح کی عینک اتاری ۔یقین کیجئے عینک کے اترتے ہی تصویر کا رنگ بدلتا چلا گیامیں جو بچپن سے فیض کے قصیدے لکھتا چلا آرہا تھا میں جوفیض کے بارے میں کہا کرتا تھا۔۔”پھول جیسے تیرے مصرعے پر مکمل تبصرہ“سوچنے لگا کہ میں فیض کے خلاف کوئی جملہ کیسے لکھوں گا۔بڑا حوصلہ کرکے کام شروع کیا تو پہلے موڑ پرمیںاُس اسم ِ خیال کے دائرے میں آگیاجو کچھ بزرگوں نے سفید بالوں میں گھر بنانے والی دانش کومجھ جیسے شکاریوں سے محفوظ رکھنے کےلئے کھینچ رکھا تھا کہ خطائے بزرگاں گر فتن خطا است، یعنی بزرگوں کی غلطیاں پکڑنا بجائے خود غلط کا م ہے ۔مگر اس اسم اعظم کے حصار سے بھی رفتہ رفتہ باہر نکل آیا ۔مجھے اس بات میں زیادہ قوت نظر آئی کہ غلطی اور خطا کو دانستہ بر قرار رہنے دیا جائے تو آنے والوں کے لئے وہ غلطی جو از بن جاتی ہے اور پھر غلطیوں کے پھاٹک کھل جاتے ہیں ۔اس مشکل مقام سے گزرتے ہوئے غالب کی ایک بات نے بھی مجھے بہت حوصلہ دیا غالب نے اپنے ایک خط میں مرزا ہرگوپال تفتہ کو لکھا ہے”یہ نہ سمجھا کرو کہ اگلے جو کچھ لکھ گئے ہیں وہ حق ہے کیا آگے آدمی احمق پیدا نہیں ہوتے تھے​
 

مغزل

محفلین
بہزاد حسن صاحب و دیگر کے غیر ضروری مراسلات حذف کردیے گیے ہیں ، امید ہے آئندہ نفسِ مضمون کی پاسداری کے ساتھ مراسلت کی جائے گی ۔ مدیر
 

باذوق

محفلین
واہ بہت خوب۔ نہایت خوبصورت تاثرات کا اظہار ہے۔
لیکن مضمون میں فیض کی شاعری پر جائزہ غیرموجود ہے۔ کیا اس مضمون کی کوئی دوسری قسط بھی ہے؟
معروف ناقد شمس الرحمٰن فاروقی تو فیض کو ایسا شاعر مانتے ہی نہیں جسے اقبال و غالب سے موازنے کے دائرے میں لایا جائے۔ مگر ۔۔۔ فیض کی شاعری پر ناصر عباس نیر کا یہ جملہ تو نہایت جامع تبصرہ لگتا ہے :
فیض کی شاعری میں "معنی آفرینی" سے کہیں زیادہ ، احساس کی جلوہ گری ہے۔
 

سعدی غالب

محفلین
یہ کیا تھا؟
"سوئے قطار می کشم ناقہ بے زمام را" کہہ دوں تو برا ہی نہ مان جائیے گا
فیض صاحب کی شاعری پر لکھتے لکھتے کس طرف چل دیئے؟
فیض صاحب کی کتابوں کے نام ہی ذہن میں لائیے تو واضح ہو جاتا ہے کہ انکا غالبؔ سے کیا قلبی تعلق ہوگا
غالبؔ اور فیض میں ایک مماثلت ان کی قید (وجہ چاہے جو بھی رہی ہو) اور پھر قید میں حبسیہ کہنا بھی ہے
ویسے بھی اگر اردو کے ان شاعروں کی لسٹ بنائی جائے جن کو ہم فخر کے ساتھ عالمی (انٹرنیشنل) شاعر کہہ سکتے ہیں
تو غالبؔ ، اقبال، فیض ، پروین شاکر ہی ہیں
 

فاتح

لائبریرین
یہ کیا تھا؟
"سوئے قطار می کشم ناقہ بے زمام را" کہہ دوں تو برا ہی نہ مان جائیے گا
فیض صاحب کی شاعری پر لکھتے لکھتے کس طرف چل دیئے؟
فیض صاحب کی کتابوں کے نام ہی ذہن میں لائیے تو واضح ہو جاتا ہے کہ انکا غالبؔ سے کیا قلبی تعلق ہوگا
غالبؔ اور فیض میں ایک مماثلت ان کی قید (وجہ چاہے جو بھی رہی ہو) اور پھر قید میں حبسیہ کہنا بھی ہے
ویسے بھی اگر اردو کے ان شاعروں کی لسٹ بنائی جائے جن کو ہم فخر کے ساتھ عالمی (انٹرنیشنل) شاعر کہہ سکتے ہیں
تو غالبؔ ، اقبال، فیض ، پروین شاکر ہی ہیں
تنقید نگار کا لکھا ہوا مکمل مضمون (موازنۂ فیض و فراز) یہاں سے پڑھ سکتی ہیں۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
بلاشبہ فیض احمد فیض اردو شاعری کے چند انتہائی اہم ترین شعراء میں سے ایک ہیں لیکن ان کا تقابل میر، غالب اور اقبال سے کرنا مناسب نہ ہو گا ۔۔۔۔۔ منصور آفاق سے کافی حد تک متفق ہوں ۔۔۔۔۔ ایک بات کا اضافہ کرنا چاہوں گا کہ میر، غالب اور اقبال، سبھی کا شعور ذات اور شعور کائنات فیض سے کہیں بڑھ کر تھا ۔۔۔۔۔ ان تینوں شعراء کا کائناتی شعور اپنے عہد کے کائناتی شعور کی روشنیاں اپنے اندر سموئے ہوئے تھا اور ان کے کائناتی شعور کی سطح بھی کافی بلند تھی لیکن فیض کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے ہاں رومان اور حقیقت کا امتزاج ضرور ہوا ہے اور روایت کی پیروی میں بھی وہ کامیاب ہوئے ہیں، لیکن ان کے اشعار میں ویسی آفاقیت، ویسا کائناتی شعور اور ویسی ہمہ گیریت دیکھنے میں نہیں ملتی جو متذکرہ بالا تین بڑے شعراء کے کلام میں جابجا ملتی ہے ۔۔۔۔
 
فیض کا اقبال اور غالب کے ساتھ تقابلی جائزہ کرتے وقت ہمیں ان کے ادوار پر بھی نظر ڈالنی ہو گی۔
مرزا غالب کا دور ہر اعتبار سے شاعری کا سنہری دور تھا اس دور میں شیخ محمد ابراہیم ذوق،حکیم مومن خان مومن، نواب مرزا خان داغ دہلوی، نواب مصطفیٰ خان شیفتہ،مرزا قربان علی بیگ سالک جیسے نابع روزگار ہستیاں موجود تھیں یہاں میں مزید کہوں گا ذوق اور داغ قادرالکامی میں مرزا سے کہیں بڑھ کر تھے مگر ان کی شاعری میں وہ ندرتِ خیال اور سوچ کی گہرائی نہیں پائی جاتی جو غالب کا خاصہ ہے غالباََ یہ صحتمند مسابقت ہی ہے جو غالب کو ان دونوں شعرا سے ممتاز کرتی ہے غا لب کا ایک شعر ملاحظہ ہو
ہے پرے سرحدِ ادراک سے اپنا مسجود
قبلے کو اہل نظرقبلہ نما کہتے ہیں
اور یہی سوچ و فکر کی گہرائی ہے جو غالب کو معاصرین میں ممتاز کرتی ہے،
اب آتے ہیں اقبال کی طرف اقبال کا دور اک پُر آشوب دور تھا برصغیر میں انگریزوں کے اقتدار کا سورج ڈوبنے والا تھا اللہ شاید اقبال کو اسی لئے پیدا کیا کہ وہ برصغیر میں مسلمانوں کی سوچ کر فکری رہنمائی کریں اور شاید یہ وجہ ہے کہ سب سے پہلے آذاد مسلم ریاست کا تصور اقبال نے پیش کیا
مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے میں اقبال کا بہت بڑا کردار ہے اقبال کا کردار ایک قومی رہبر کا ہے انکی عظمت اور درجہ کو شاید ہی کوئی پہنچ سکے
گرم ہو جاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہو
تھرتھراتا ہے جہاں چارسُو رنگ و بو
ضربِ پیہم سے ہو جاتا ہے آخر پاش پاش
حاکمیت کا بُتِ سنگیں دل آئینہ رو
فیض کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار بعد میں اسی دھاگے میں کروں گا
فلحال تنگیِ وقت کا مسلئہ درپیش ہے
 

فاتح

لائبریرین
ہے پرے سرحدِ ادراک سے اپنا مسجود
قبلے کو اہل نظر مرغ قبلہ نما کہتے ہیں

گرم ہو جاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہو
تھتھراتا ہے جہاں چارسُو رنگ و بو
ضربِ پیہم سے ہو جاتا ہے آخر پاش پاش
حاکمیت کا بُتِ سنگیں دل و آئینہ رو
غالب اور اقبال کے شعروں کی اصلاح کرنے کی بجائے انھیں ویسا ہی رہنے دیں جیسے انھوں نے لکھے تھے۔ :laughing:
شعروں پر نظر ثانی کر کے درست کر دیں۔
 
غالب اور اقبال کے شعروں کی اصلاح کرنے کی بجائے انھیں ویسا ہی رہنے دیں جیسے انھوں نے لکھے تھے۔ :laughing:
شعروں پر نظر ثانی کر کے درست کر دیں۔
یار کبھی کبھی پتہ نہیں چلتا املا کی غلطیاں ہو جاتی ہیں :shocked:
ویسے عزت افزائی کے لئے ممنون ہوں
اگر آپ یہ کہنے کے بجائے اصلاح کر دیتے یا تدوین کر دیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا :(
اک بار پھر اس عزت افزائی کا بہت بہت شکریہ
 

فاتح

لائبریرین
یار کبھی کبھی پتہ نہیں چلتا املا کی غلطیاں ہو جاتی ہیں :shocked:
ویسے عزت افزائی کے لئے ممنون ہوں
اگر آپ یہ کہنے کے بجائے اصلاح کر دیتے یا تدوین کر دیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا :(
اک بار پھر اس عزت افزائی کا بہت بہت شکریہ
میاں اپنے سے بڑوں کو مخاطب کرنے کے لیے "یار" کا لفظ شریفوں کو زیب نہیں دیتا
 

فاتح

لائبریرین
ویسے یہ املا کی غلطیاں تو بہرحال نہیں۔۔۔ ایک پورے کا پورا مرغا نجانے کہاں سے لا کر غالب کے شعر میں ڈال دیا۔
قبلے کو اہل نظر مرغ قبلہ نما کہتے ہیں
 
شاید آپ کو معلوم نہیں کہ میں گزشتہ ایک سے یہاں کس طرح مغز ماری کر رہا ہوں؟ِ
آپ نے شاید وہ دھاگے نہیں دیکھے جو میں نے اس ہفتے میں لگائے ہیں
میرے پاس دیوان غالب موجود ہے
یہ سب میرے آفس کولیگ کی شرارت ہے
میں نے اُس سے دیوان سے یہ شعر نقل کرنے کو کہا تھا
اُس نے شرارت کی اور مرغا پتہ نہیں کہاں سے لا کر بیچ میں ڈال دیا
اور آپ نے آن بورڈ میری عزت افزائی شروع کر دی
مجھے تو لگ رہا ہے کہ میں یہاں پورا ہفتہ جھک مارتا رہا ہوں
اتنی محنت پر اسقدر عزت افزائی کی امید نہ تھی
 
شناختی کارڈ تو آپ کا دیکھا نہیں ہم نے۔۔۔ اگر آپ نے اوتار میں تصویر کسی اور کی لگا رکھی ہو تو ہمیں کیسے علم ہو سکتا ہے :)
کم از کم آپ کو میرے دھاگے دیکھ کرمیری عمر کا اندازہ ہو جانا چاہئے تھا
ممکن ہے میں آپ سے بڑا ہوں
 

فاتح

لائبریرین
شاید آپ کو معلوم نہیں کہ میں گزشتہ ایک سے یہاں کس طرح مغز ماری کر رہا ہوں؟ِ
آپ نے شاید وہ دھاگے نہیں دیکھے جو میں نے اس ہفتے میں لگائے ہیں
میرے پاس دیوان غالب موجود ہے
یہ سب میرے آفس کولیگ کی شرارت ہے
میں نے اُس سے دیوان سے یہ شعر نقل کرنے کو کہا تھا
اُس نے شرارت کی اور مرغا پتہ نہیں کہاں سے لا کر بیچ میں ڈال دیا
اور آپ نے آن بورڈ میری عزت افزائی شروع کر دی
مجھے تو لگ رہا ہے کہ میں یہاں پورا ہفتہ جھک مارتا رہا ہوں
اتنی محنت پر اسقدر عزت افزائی کی امید نہ تھی
ارے بھائی، ابھی تو ہم نے نفسِ مضمون کی جانب انگلی نہیں اٹھائی ورنہ جیسے آپ نے غالب، مومن، ذوق کے دور میں ہی داغ اور سالک کو بھی لا کھڑا کیا ہے اس پر بھی اعتراض تھا۔
نیز اقبال کے اشعار بھی غلط لکھے ہیں آپ نے، انھیں بھی درست کر لیجیے حضور
 
Top