مجھے اندازہ ہے کہ ہم دونوں اعلی تعلیم کے معاملے میں ایک ہی صفحے پر ہیں ۔ آپ کا حل اچھا ہے۔ میں نے اس سے آگے کے لئے راہ ہموار کی ہے۔ کہ ہم سب کو اپنے معاشرے کو اس طرح تشکیل دینا ہے کہ لوگوں کے ذہن میں لڑکوں اور لڑکیوں ، دونوں کی اعلی تعلیم کی یکسان اہمیت ہو۔
اب آئیے تعلیم حاصل کرنے کے لئے باہر جانے کی ضرورت کیوں کی طرف۔ یہ کچھ لوگوں کو ناپسند لگ سکتا ہے لیکن دل آزاری مقصد نہیں ہے۔ ہماری زبان اردو کی لغات میں الفاظ کی تعداد محض ساٹھ ہزار کے لگ بھگ ہے۔ جب کہ انگریزی زبان کی ڈکشنڑی کوئی ساڑے تین لاکھ الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے۔ جبکہ ان ساڑے تین لاکھ الفاظ میں سائنٹیفک الفاظ، میڈیسن اور انجئنیرنگ کے الفاظ تو شامل ہی نہیں ہیں۔ پھر اٰیڈوانسڈ نظریات کا ابھی تک اردو زبان میں وجود نہیں ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ دوسری قوموں سے وہ کچھ سیکھا جائے جو اردو دانوں کو نہیں آتا۔ اس کے لئے دوسرے ممالک میں جانے کی ضرورت ہے۔
ایک مثال۔
1980-81 میں میں نے اپنی انجینئرنگ کی تعلیم کے دوران ایک کورس لیا تھا -- ایڈوانسڈ کمپیوٹر کمیونیکیشن نیٹ ورک - جو آرپا نیٹ کے بارے میں تھا۔ یہ انٹرنیٹ کا باوا آدم تھا اور عام نہیں تھا۔ البتہ بات ہورہی تھی کہ اس کو عام کیا جائے گا۔ میں اس کے بعد جب پاکستان آیا اور اپنے ہی کالج کے انجینئر دوستوں کو اس نئے نیٹ ورک کے بارے میں بتایا کہ یہ کیا کیا کرے گا، کس طرح کمیونی کیشن کی دنیا میں انقلاب آنے والا ہے تو میرے کچھ دوستوں نے خوب ہنسی اڑائی اور میر انام ہی "چھوڑو" رکھ چھوڑا ۔۔ جی؟ لیکن آج بھی ان سے جب ملاقات ہوتی ہے تو لفظ انٹرنیٹ پر معنی خیز مسکراہٹوں کے تبادلے ہوتے ہیں۔۔۔
میں نے آپ کو یہ کہانی کیوں سنائی؟؟ اس لئے کہ جو اہم خیالات یا نظریات آپ نے اس سے سابقہ مراسلے میں خواتین کی مساوی تعلیم کے لئے پڑھے ان پر آج لوگ متفق ہوں یا نا ہوں ۔۔۔ کل اسی بات کو ضروری سمجھیں گے اور مانیں گے۔ اس کی وجہ آج بنیادی سمجھ کی کمی ہے۔ جب بات سمجھ میں آجائے گی تو کل یہی خواتین ایسے قوانین بنائیں گی کہ جس سے خواتین کی حصول تعلیم میں حق تلفی نا ہو نا ہی کوئی کسی خاتون کو تعلیم کے لئے باہر جانے سے روک سکے گا۔
میں نے کوئی نئی بات نہیں کی
یہ نظریہ کہ عورتوں کو مساوی تعلیم دی جائے آج سے لگ بھگ 1500 سال پہلے -- مسلمان -- کو پیش کیا گیا تھا لیکن اپنی ہی سمجھ کی کمی سے -- مسلمان کو --- اب تک یہ بات سمجھ نہیں آئی ہے کہ مرد و خواتین کی مساوی تعلیم ضروری ہے ۔ ان دونوں کی قانون ساز اسمبلی میں مساوی موجودگی ضروری ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ جو دو نکات یہاں پیش کئے ۔۔ پہلا نکتہ یہ کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے رفیق مدد گار بن کر بری باتوں سے روکیں اور اچھی باتوں کا حکم دیں یعنی قانون ساز اسمبلی میں برابر کے شریک ہوں ، جس کے ئے بہترین تعلیم ضروری ہے ۔ اور دوسرا نکتہ یہ کہ ابھی تک ہم نے سب الفاظ نہیں سیکھے ہیں جس کا ثبوت ہماری لغات ہیں، جو دوسری قوموں سے کم ہیں ۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ اس بارے میں اللہ تعالی کا کیا فرمان ہے ۔
قانون سازی کے لئے عورت و مرد کی مساوی شراکت۔
سورۃ التوبہ 9، آیت نمبر 71 ۔
اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں، وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں،
ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے
جب مرد اور عورت مل کر قانون بنائیں گے تو معاشرے میں عورتوں کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے کوئی حق تلفی نہیں ہوگی، اس میں دوسرے ممالک میں جانا بھی شامل ہے۔ اور اعلی ترین تعلیم ہر شعبے میں حاصل کرنا بھی شامل ہے۔
اللہ تعالی نے تو سارے الفاظ سکھا دئے تھے کہ جو فرشتوں کو بھی نہیں آتے تھے ۔۔۔ جہاں دوسری قومیں اپنے نظریات کی تعمیر کے لئے نت نئے الفاظ تراشنے میں آگے آگے ہیں وہاں مسلمان کی لغت محض لگ بھگ 60 ہزار الفاظ پر مشتمل ہے ؟؟؟
البقرۃ 2، آیت 31
2:31
اور اللہ نے آدم کو تمام نام سکھا دیئے پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا، اور فرمایا: مجھے ان اشیاء کے نام بتا دو اگر تم سچے ہو
جب الفاظ ہی نہیں ہونگے تو نظریات کیسے بنیں گے؟ سوچ کیسے بڑھے گی؟ سوچ بڑھانے کے لئے جو کچھ دوسری قوموں نے سیکھا ہے وہیں جا کر سیکھنا ہوگا۔
آپ کا پیش کیا ہوامسئلے کا حل اچھا ہے لیکن وقتی ہے، دائمی حل، رب عظیم کے فراہم کردہ نظریات کی نشو نما ہے۔
والسلام۔