بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
جن آیات پر کالم کی بنیاد رکھی گئی وہ یہ ہیں۔
سورۃ الفجر، آیات 6 تا 11۔
[ARABIC]
اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ ۪ۙ﴿۶﴾
اِرَمَ ذَاتِ الۡعِمَادِ ۪ۙ﴿۷﴾
الَّتِیۡ لَمۡ یُخۡلَقۡ مِثۡلُہَا فِی الۡبِلَادِ ۪ۙ﴿۸﴾
وَ ثَمُوۡدَ الَّذِیۡنَ جَابُوا الصَّخۡرَ بِالۡوَادِ ۪ۙ﴿۹﴾
وَ فِرۡعَوۡنَ ذِی الۡاَوۡتَادِ ﴿۪ۙ۱۰﴾
الَّذِیۡنَ طَغَوۡا فِی الۡبِلَادِ ﴿۪ۙ۱۱﴾
[/ARABIC]
سیاق و سباق کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہاں اس بات کا ذکر ہو رہا ہے کہ دنیا میں کیسی کیسی طاقت ور قومیں گزریں (کوئی جسمانی لحاظ سے، کوئی فوجی لحاظ سے، وغیرہ) لیکن جس نے بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، اپنی تمام تر طاقت کے باوجود اللہ کے عذاب سے نہ بچ پایا۔
ان کے میں نے جو بھی تراجم اب تک دیکھے وہ کم و بیش ایک جیسے ہی ہیں۔ ان میں سے دو تراجم کا حوالہ دے دیتا ہوں جو کہ آن لائن دیکھے جا سکتے ہیں۔ میں نے یہ تراجم اس ویب سائٹ سے حاصل کیے۔
http://www.noorehidayat.org/index.php?p=alquran
مولانا فتح محمد جالندھری کا کیا ہوا ترجمہ:
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے قوم عاد کے ساتھ کیا کیا۔ (آیت۔ ۶)
جو ارم کہلاتے تھے درازقد مانند ستونوں کے۔ (آیت۔ ۷)
کہ تمام ملک میں ایسے پیدا نہیں ہوئے تھے۔ (آیت۔ ۸)
اور ثمود کے ساتھ کیا کیا جو وادی قرٰی میں چٹانیں تراشتے تھے۔ (آیت۔ ۹)
اور فرعون کے ساتھ کیا کیا جو خیمے اور میخیں رکھتا تھا۔ (آیت۔ ۱۰)
یہ لوگ ملکوں میں سرکش ہو رہے تھے۔ (آیت۔ ۱۱)
ویب سائٹ پر مولانا محمود الحسن کا کیا ہوا ترجمہ بمع تشریح کے بھی دیکھا جا سکتا ہے:
تو نے نہ دیکھا کیسا کیا تیرے رب نے عاد کے ساتھ۔ (آیت۔ ۶)
وہ جو ارم میں تھے [۳] بڑے ستونوں والے [۴]۔ (آیت۔ ۷)
کہ بنی نہیں ویسی سارے شہروں میں [۵]۔ (آیت۔ ۸)
اور ثمود کے ساتھ جنہوں نے تراشا پتھروں کو وادی میں [۶]۔ (آیت۔ ۹)
اور فرعون کے ساتھ و ہ میخوں والا [۷]۔ (آیت۔ ۱۰)
یہ سب تھے جنہوں نے سر اٹھایا ملکوں میں۔ (آیت۔ ۱۱)
اعداد کے ذریعے نمایاں کیے گئے نکات کی تشریح یہ ہے:
[۳]عاد اور اِرم:
"عاد" ایک شخص کا نام ہے جس کی طرف یہ قوم منسوب ہوئی، ان کے اجداد میں سے ایک شخص "ارم" نامی تھا۔ اس کی طرف نسبت کرنے سے شاید اس طرف اشارہ ہو کہ یہاں "عاد" سے "عاد اولیٰ" مراد ہے۔ "عاد ثانیہ" نہیں، اور بعض نے کہا کہ "قوم عاد" میں جو شاہی خاندان تھا اسے "ارم" کہتے تھے۔ واللہ اعلم۔
[۴]اونچے ستونوں والے:
یعنی ستون کھڑے کرکے بڑی بڑی اونچی عمارتیں بناتے۔ یا یہ مطلب ہے کہ اکثر سیروسیاحت میں رہتے اور اونچے ستونوں پر خیمے تانتے تھے اور بعض کے نزدیک ذَاتِ الْعِمَادِ کہہ کر ان کے اونچے قدوقامت اور ڈیل دول کو ستونوں سے تشبیہ دی ہے۔ واللہ اعلم۔
[۵]یعنی اس وقت دنیا میں اس قوم جیسی کوئی مضبوط و طاقتور نہ تھی، یا ان کی عمارتیں اپنا جواب نہیں رکھتی تھیں۔
[۶]وادئ القُریٰ:
" وادئ القُریٰ" ان کے مقام کا نام ہے جہاں پہاڑ کے پتھروں کو تراش کر نہایت محفوظ و مضبوط مکان بناتے تھے۔
[۷]یعنی بڑے لاؤلشکر والا جس کو فوجی ضروریات کے لئے بہت کثیر مقدار میں میخیں رکھنا پڑتی تھیں یا یہ مطلب ہے کہ لوگوں کو چومیخا کر کے سزا دیتا تھا۔
آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ "بنی نہیں ویسی سارے شہروں میں" والی بات قومِ عاد کے لیے کی گئی ہے اور وہ بھی علمی ترقی کے حوالے سے نہیں بلکہ جسمانی طاقت کے حوالے سے۔ مجھے عربی زبان میں اتنی زیادہ مہارت تو حاصل نہیں کہ یہ فرق کر سکوں کہ موازنہ صرف اپنے دور تک کی دیگر قوموں سے کیا گیا ہے یا مستقبل میں آنے والی قوموں کو بھی ساتھ شامل کیا گیا ہے۔ لیکن جہاں تک کالم کے موضوع کا تعلق ہے، اس سے فرق بھی نہیں پڑتا کیونکہ علمی ترقی کی بات ہی نہیں ہو رہی۔ کالم نگار نے ترجمے میں "ترقی یافتہ" کا لفظ خود ہی شامل کیا ہے (جو کہ بریکٹ سے بھی معلوم ہوتا ہے لیکن تصدیق کرنا ضروری تھا)۔
ایک اور نکتے کی طرف بھی توجہ دلا دوں۔
فرعون کے حوالے سے اہراموں کا ذکر نہیں آیا بلکہ میخوں کا ذکر آیا ہے جس کی مجھے جو بھی تشریح ملی، اس میں لشکر میں استعمال ہونے والی میخوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی غالباً میخوں کی کثیر تعداد اس کے بڑے لشکر کی طرف اشارہ ہے۔
تاج کمپنی کے شائع کردہ ایک نسخے میں شاہ عبد القادر صاحب کی تشریح کے مطابق، یہاں فرعون کے لشکر کے گھوڑوں کی، سونے کی میخیں رکھنے کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی اس صورت میں لشکر کی تعداد کے ساتھ ساتھ دولت کی طرف بھی اشارہ ہوگا۔
اگر بالفرض میخوں سے مراد اہرام ہوں تب بھی یہ نہیں کہا گیا کہ یہ کس حد تک ترقی یافتہ اور "حیرت انگیز" تھے۔آیا ان کا ذکر اس لیے آیا ہے کہ اتنی بڑی اور مضبوط عمارتوں سے فرعون کی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے، یا یہ واقعی اس حد تک ترقی یافتہ تھے جس کا کالم نگار ذکر کرتا ہے۔ چنانچہ نہ تو اس آیت سے کالم نگار کے دعووں کی تصدیق ہوتی ہے نہ ہی تردید۔
لہٰذا اگر کالم نگار کو اپنی بات ثابت کرنی ہے تو اسے پکے ثبوت کی ضرورت پیش آئے گی۔ اگر اس میں درج کیے گئے تجربات کو کالم نگار "سائنسی تجربات" قرار دیتا ہے تو اس کا طریقہ کار غلط ہے۔ سائنسی تجربات میں ایک ایک چیز کی تفصیل نوٹ کی جاتی ہے اور طویل عرصے تک مختلف حالات میں مسلسل تجربات کیے جاتے ہیں۔ تب جا کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا خیال کس حد تک درست ہو سکتا ہے اور کس حد تک غلط۔ تجربے کا مفصل طریقہء کار بھی سب کو دستیاب کیا جاتا ہے تاکہ دوسرے لوگ بھی اس کو دہرا کر تصدیق یا تردید کر سکیں۔ ایک شخص کے کیے گئے تجربات میں اس بات کا زیادہ امکان ہوتا ہے کہ اس کی اپنی سوچ کے رجحانات کی وجہ سے تجربے پر منفی اثر پڑے گا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے خلاف آنے والے نتائج کو نظر انداز کر دے، یا کسی ایسے نکتے کا اسے خیال نہ آئے جو بہت ہی اہم ہو۔ واقعی اتنی مفصل باتیں کالم میں نہیں ہو سکتیں لیکن کم از کم کہیں اور یہ تمام تفصیلات مہیا کر کے اس مقام کا حوالہ تو دیا جا سکتا ہے۔