کیا ماضی کی سائنس زیادہ ترقی یافتہ تھی؟ از ڈاکٹر مطلوب حسین۔

رانا

محفلین
آپ اپنی طرف سے پہلے ایک بار پھر تحقیق کرلیں کہ پہلے انبیاء کی قوموں میں نماز ، روزہ ، حج زکوۃ وغیرہ اللہ کے حکم سے رائج تھے کہ نہیں۔

ایک تو وعدہ کے مطابق میں نے اپنا پیغام حذف کردیا ہے۔ دوسرا اس ضمن میں تحقیق کی ضرورت ہی نہیں۔ قرآن میں صاف طورپر ذکر ہے کہ تم پر روزے فرض کئے گئے جس طرح تم سے پہلی قوموں پرفرض کئے گئے تھے۔ یہی حال نماز وغیرہ کا ہے سورہ مریم میں بنی اسرائیل میں نمازفرض ہونے کا ذکر ملتا ہے۔ میرا مطلب تو کچھ اور تھا جو شائد میں ٹھیک سے سمجھا نہیں سکا۔ چلیں خیر۔ اسے یہیں تک رہنے دیں۔ پھر کسی دوسرے دھاگے میں تفصیلی بات کریں گے۔
 

arifkarim

معطل
اسکا ایک ثبوت یہ ہے کہ اتنی ترقی ہونے کے باوجود ساری دنیا کے سائنس دان اور ریسرچر، عالمی شہرت یافتہ ماہرین آر کیٹکٹس اور انجینر ز مل کر بھی غزہ کے " شی اوپس" جیسا پرامڈ تیار نہیں کرسکتے، اور یہ بات آج سائنسدان خود تسلیم کرتاہے۔
قارئین کرام! گزشتہ ہفتہ جون کو میرا کالمؔ" پرامڈ تھراپی۔۔ تما امراض کا مکمل علاج ہے" شائع ہواتھا۔۔۔۔۔

ریسرچروں اور سائنسدانوں کی 2010ء میں جدید کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی مدد سے " شی اوپس" پر کی گئی نئی سٹڈی کے بارے میں آپ سے شئیر کرنا چاہوں گا۔ اس تازہ ترین سٹڈی کے اہم نقاظ یہ ہیں کہ " اہرام " یا پرامڈز انتہائی ترقی یافتہ سائنسی ایجادات کا مظہر ہیں'اور یہ ترقی یافتہ سائنس حضرت عیسٰی کی پیدائش سے ہزاروں سال پہلے کی ہے۔اہراموں کے معمار "ماورائی" سربستہ رازوں سے واقف تھے۔ وہ اعلٰی ترین ریاضی (ایڈوانسڈ ٹرگنومیٹری) کا ادراک رکھتے تھے۔علم مثلت یعنی ٹرگنو میٹری اور جیومیٹری کے علوم پر انہیں دسترس تھی۔ جغرافیہ کے بارے میں انکا علم حیرت انگیز تھا۔ کمپیوٹر کی مدد سے اہرام پر ریسرچ کرنے والے سائنس دانوں نے اہراموں کے تعمیر سے متعلق ریاضی و جیومیٹری کے رموز قوانین کی جلدوں کے ڈھیر لگا دیے ہیں۔ان میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہمارے سیارہ زمین کا" محیط" دن اور رات کے وقفوں کی پیمائش ،سورج اور زمین کا درمیانی فاصلہ ،روشنی کی سپیڈ،زمین کی کشش ثقل اور اسراع کے قوانین اور فارمولے بھی اہرام کی دیواروں پر قدیم طرز تحریر میں کندہ ہیں۔

یہ ایک پرانا مسئلہ ہے جو کہ سازشی کہانیوں والے اکثر اکھاڑتے رہتے ہیں، اور کوئی ٹھوس تھیوری نہ ہونے کے سبب اسکا کریڈٹ اٹلانٹس کی گمنام تہذیب یا خلائی مخلوق سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسمیں کوئی شک نہیں کہ اہرام مصر کی بناوٹ اسوقت کے انسانوں کا ایک شاہکار ہے، مگر یہ کسی بھی صورت موجودہ تہذیب کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ بعض کمیاں جو ان اہمرام میں رہ گئیں:

As the stones forming the core of the pyramids were roughly cut, especially in the Great Pyramid, the material used to fill the gaps was another problem. Huge quantities of gypsum and rubble were needed. The filling has almost no binding properties, but it was necessary to stabilize the construction. To make the gypsum mortar, it had to be dehydrated by heating, and this required a lot of wood. The findings of the David H. Koch Pyramids Radiocarbon Project[5] suggest that Egypt had to strip its forest and scrap every bit of wood it had to build the pyramids of Giza.
http://en.wikipedia.org/wiki/Egyptian_pyramid_construction_techniques
اور پھر اس عظیم تہذیب کا اپنے آپ مٹ جانا بھی شاید اسی بات کی ضمانت ہے کہ اپنی پچھلی تہذیبوں کی طرح اسمیں بھی وہ دم نہ تھا جو آنے والی تہذیبوں میں قائم رہا۔
ان سب باتوں سے تو یہ سمجھ آ رہا ہے کہ گزشتہ قوموں میں ذہنی ارتقاء کی تو کافی صلاحیت موجود تھی لیکن اس کے اظہار کے مادی اسباب ان کے پاس موجود نہیں تھے، یا وہ تلاش نہیں کر سکے۔ آج کے انسان نے مادی اسباب کے اظہار پر محنت کر کے اتنی قوت حاصل کر لی ہے کہ وہ ان کو مشاہداتی طور پر محسوس کر سکتا ہے لیکن پھر بھی ذہنی ارتقاء کے آثار کے لحاظ سے پچھلوں کی سبقت معلوم ہوتی ہے۔
آپ کی بات سو فیصد درست ہے، ورنہ اگر روحانی و ذہنی ارتقاء آج بھی ہوتا تو اس دنیا سے زیادہ امن پسند جگہ اور کوئی نہ ہوتی۔ در حقیقت پچھلے وقتوں میں مادیت کی حوث انسانی خون میں ویسے نہیں دوڑتی تھی جیسا کہ آج دوڑتی ہے۔ یوں اپنے گردونواح کی کھوج میں روحانی مذاہب کا رواج ہوا جسے بعد میں مرچ مثالہ لگا کرمختلف مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا۔ اور آج بھی ہو رہا ہے۔ کوئی ایک مذہب بتا دیں جسمیں صرف روحانیت اور اخلاق ہو اور کوئی سیاست نہ ہو؟
 

محمد سعد

محفلین
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
انسانی تاریخ میں بہت سی ایسی اقوام گزری ہیں جن کے پاس کوئی بڑا ہی شان دار ہنر تھا لیکن کسی نہ کسی وجہ سے وہ اقوام تباہ ہو گئیں اور ان کے ہنر بھی ناپید ہو گئے جن میں بعد میں آنے والے انسان اس درجے کی مہارت حاصل نہ کر پائے۔ البتہ جو ہنر اس طرح ناپید نہیں ہوئے، ان میں وقت کے ساتھ ساتھ ترقی ہوتی گئی اور ان میں سے اکثر سے ہم آج بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس مضمون میں صرف پہلی قسم کے علوم پر ہی توجہ دی گئی ہے جبکہ مجموعی طور پر انسان کا علم وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہے، یہ اللہ کا نظام ہے۔

قرآن کہتا ہے کہ ان قوموں جیسی ترقی یافتہ کوئی قوم آج تک ساری دنیا کے شہروں میں پیدا نہیں کی گئی۔
اس طرح کی کوئی آیت میرے ذہن میں نہیں آتی جس میں کہا گیا ہو کہ یہ اقوام ہر دور سے زیادہ ترقی یافتہ تھیں۔ براہِ مہربانی یہاں زیرِ بحث آیت کے متعلق بتائیے تاکہ اسے سیاق و سباق سمیت دیکھ کر سمجھ پاؤں کہ کیا انہیں صرف اپنے دور کے حوالے سے سب سے ترقی یافتہ بتایا گیا ہے یا ہر دور کی بات کی گئی ہے۔
 

arifkarim

معطل
اس طرح کی کوئی آیت میرے ذہن میں نہیں آتی جس میں کہا گیا ہو کہ یہ اقوام ہر دور سے زیادہ ترقی یافتہ تھیں۔ براہِ مہربانی یہاں زیرِ بحث آیت کے متعلق بتائیے تاکہ اسے سیاق و سباق سمیت دیکھ کر سمجھ پاؤں کہ کیا انہیں صرف اپنے دور کے حوالے سے سب سے ترقی یافتہ بتایا گیا ہے یا ہر دور کی بات کی گئی ہے۔
سعد بھائی، اصل بات یہ ہے کہ قرآن پاک اپنی ذات میں کچھ بھی نہیں کہتا! یعنی اس پاک کتاب میں جو کچھ بھی موجود ہے وہی 1400 سال قبل بھی موجود تھا۔ 600 سال قبل بھی اور سو سال قبل بھی۔ البتہ اسکی “تشریح“ زمانہ کے حساب سے بدلتی آئی ہے۔ اور یہی وہ فہم وادراک ہے جو ہم مسلمان قرآن پاک سے زمانہ کے مطابق حاصل کرتے ہیں۔ خود سوچئے: آج بعض علماء کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں تو فلاں ایجاد کا ذکر ملتا ہے، فلاں سائنسی فارمولے کے بارہ میں لکھا ہے وغیرہ۔ بندہ انسے پوچھے کہ اگر اسمیں وہی لکھا ہے جیسا کہ یہ کہتے ہیں تو پھر مسلمانوں نے یہ سب خود ہی “پہلے“ ہی کیوں نہ ایجاد کر لیا؟ :)
پس ثابت ہوا کہ قرآن پاک کوئی تاریخی یا سائنسی کتب نہیں بلکہ ایک روحانی اور اخلاقی موضواعت پر مبنی رہتی دنیا تک انسانوں کیلئے ہدایت کا راستہ ہے۔ مجھے سخت افسوس ہوتا ہے جب میں 21ویں صدی کے مسلمانوں کو 1400 سال قبل پہلے زمانہ کے حساب سے لکھی گئی باتوں کو آج کے دور کے مطابق “اپلائی “ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ زمانہ و حالات بالکل بدل چکے ہیں۔ اسلئے ہمیں قرآنی تعلیمات ہی کی روح سے دور جدید کے تقاضوں کے مطابق اسلام یعنی دین حق کو سمجھنا چاہئے کیونکہ سائنس، تاریخ ، مذہب و فلسفہ کا مقصد ایک ہی ہے: اپنی تخلیق کی تلاش اور مقصد۔ اور یہ سب اپنی جگہ خود مختار طور پر موجود رہیں گے۔ کیونکہ نہ تو سائنس ان سب باتوں کا مکمل جواب دے سکتی ہے، نہ فلسفہ، نہ تاریخی شواہد اور نہ ہی مذہب۔
 

خواجہ طلحہ

محفلین
محترم احباب یہ کالم جیسا کہ عنوان میں لکھا ہے۔ڈاکٹر مطلوب حسین کا ہے۔ یہاں محفل میں پیش کرنے کا میرا مقصد یہی پرکھنا تھا کہ آیا انکا یہ دعویٰ کہ ًماضی کی سائنس زیادہ ترقی یافتہ تھیً انکے دئیے گئے ثبوتوں اور تحقیق کے مطابق ،یا دیگر کسی اور کی تحقیق کے مطابق درست ہے کہ نہیں؟
اس تحقیقی مواد سے متعلق کسی بھی قسم کی جانچ کے لیے موصوف نے اپنا ای میل ایڈریس دیا ہوا ہے جو کہ ----ای میل ایڈریس حذف کردہ از ایڈمن---- ہے۔
 

خواجہ طلحہ

محفلین
جبکہ زمانہ و حالات بالکل بدل چکے ہیں۔ اسلئے ہمیں قرآنی تعلیمات ہی کی روح سے دور جدید کے تقاضوں کے مطابق اسلام یعنی دین حق کو سمجھنا چاہئے۔
بالکل یہی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے ہم لوگ اسلامی تعلیمات پر عمل نہیں کرپا رہے ہیں۔ کہ عام بندہ یہی سمجھتا ہے کہ اگرہم دین پرعمل کریں تو ہمیں اپنی وضح قطع رہن سہن اس دور جیسا کرنا پڑے گا۔ اور بہت سے معمالات میں ایسا کرنا محال ہے،اس کے ثبوت کے طورپر ہم لوگ دیکھ سکتے ہیں کہ اگر مسلمان تلواریں لے کر بمبار طیاروں کے سامنے آجائیں تو کیا جنگ جیت جائیں گے۔
 

رانا

محفلین
میرا تو یہ یقین ہے قرآن کی کسی آیت کے بارے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کسی خاص زمانے کے لئے تھی۔ قرآن کی ہر آیت علوم کے بے انتہا خزانے سموئے ہوئے ہے جو اپنے اپنے وقت پر اور ہر زمانے کے حالات کے مطابق ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ایک ہی آیت ہوتی ہے 1400 سال پہلے اس کے صرف ایک مطلب کی طرف لوگوں کی نظر جاتی ہے اور صرف ایک ہی پہلو لوگوں کو نظر آتا ہے۔ لیکن وہی آیت آج ہم پڑھتے ہیں تو اس میں موجود اور نئے حقائق نظر آتے ہیں جن پر پہلے لوگوں کی نظر نہیں پڑ سکی تھی کیونکہ اس کا یہ پہلو اس زمانے کے لئے تھا اس لئے پہلے لوگ اسکا وہی مطلب سمجھ سکتے تھے جو ان کے حالات کے مطابق تھا۔ اور یہی قرآن کا معجزہ ہے کہ ہر زمانے کے لئے اس میں رہنمائی موجود ہے جو اپنے وقت پر ظاہر ہوتی ہے۔

اس سے بھی انکار نہیں کہ قرآن میں آئندہ زمانے کی کئی نہ صرف کئی ایجادات کا ذکر ہے بلکہ کئی علوم جن کا 1400 سال پہلے وجود بھی نہیںتھا ان کا بھی ذکر ہے آج کے کئی سائنسی نظریات کا بھی ذکر ہے۔ لیکن کیونکہ وہ آج کے حالات میں ہی سمجھ آسکتےتھے اس لئے پہلے لوگوں کی اس طرف توجہ جا ہی نہیں سکتی تھی۔ باقی رہی یہ بات کہ پھر مسلمانوں نے یہ سب پہلے ہی کیوں نہیں ایجاد کرلیا تو قرآن میں صرف ذکر ہے نہ کہ تفاصیل کیونکہ اس بات سے میں اتفاق کرتا ہوں کہ قرآن کوئی سائینس کی کتاب نہیں کہ ان ایجادات اور نظریات کی پوری تفاصیل بیان کرے۔ البتہ بعض نظریات تو قرآن نے بہت تفصیل سے بھی بیان کئے ہیں مثلاً بگ بینگ تھیوری اور نظریہ ارتقا وغیرہ۔ اور سب سے بڑھ کر اگر مسلمانوں نے ایجاد نہیں کئے تو کیا صرف اس وجہ سے ہم قرآن کی بیان کردہ ان پیش خبریوں کا انکار کردیں۔
 

محمد سعد

محفلین
قرآن مجید میں پائی جانے والی نشانیاں ان لوگوں کے لیے ہیں جو ان پر غور و فکر کرتے ہیں۔ اگر کوئی غور و فکر ہی نہ کرے تو چاہے وہ مسلمان ہی ہو، ان رازوں کو نہیں پا سکتا۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ مسلمانوں کو ان نشانیوں کو سمجھنے کے لیے غیر مسلموں کی تحقیق کے سہارے کی ضرورت پڑی، کیونکہ انہوں نے عرصہ دراز سے غور و فکر کی عادت کو ہی ترک کر چھوڑا ہے۔
 

arifkarim

معطل
میں صرف ذکر ہے نہ کہ تفاصیل کیونکہ اس بات سے میں اتفاق کرتا ہوں کہ قرآن کوئی سائینس کی کتاب نہیں کہ ان ایجادات اور نظریات کی پوری تفاصیل بیان کرے۔ البتہ بعض نظریات تو قرآن نے بہت تفصیل سے بھی بیان کئے ہیں مثلاً بگ بینگ تھیوری اور نظریہ ارتقا وغیرہ۔ اور سب سے بڑھ کر اگر مسلمانوں نے ایجاد نہیں کئے تو کیا صرف اس وجہ سے ہم قرآن کی بیان کردہ ان پیش خبریوں کا انکار کردیں۔
یہاں میں آپسے اختلاف کروں گا۔ میں نے ذاتی طور پر مسلمانوں کی تاریخ کو اس زمانہ میں ٹٹولا جب مغرب اپنے سائنسی عروج کی ابتداء میں تھی:
Corrupt religious opposition to critical thinking; the corrupt ulema wanted to "protect" their position as heads of state. They discouraged creativity to keep the populace from information that might be disseminated through books other than the Koran. Muslims had been aware of the printing press since the 15th century, but it was not until 1727–272 years after Gutenberg that the Şeyhülislam released a fetva decreeing its compatibility with Islam.[71]
http://en.wikipedia.org/wiki/Fall_of_the_Ottoman_Empire
جب ہم مسلمانوں تک پرنٹگ مشین سے لیکر انٹرنیٹ تک ہر سائنسی ایجاد کسی نہ کسی “عالم“ کے فتوے سے تصادم کرکے پہنچی ہے، تو گو آپکے کہنے کے مطابق قرآن سائنس کو رد نہیں کرتا، البتہ علماء جو اسکا ہر زمانہ میں “سب سے زیادہ علم یا اتھارٹی“ رکھتے ہیں خود ہی ہر نئی سائنسی مشعل کا اسکے اول دنوں میں انکار کرتے آئے ہیں :)
 

arifkarim

معطل
قرآن مجید میں پائی جانے والی نشانیاں ان لوگوں کے لیے ہیں جو ان پر غور و فکر کرتے ہیں۔ اگر کوئی غور و فکر ہی نہ کرے تو چاہے وہ مسلمان ہی ہو، ان رازوں کو نہیں پا سکتا۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ مسلمانوں کو ان نشانیوں کو سمجھنے کے لیے غیر مسلموں کی تحقیق کے سہارے کی ضرورت پڑی، کیونکہ انہوں نے عرصہ دراز سے غور و فکر کی عادت کو ہی ترک کر چھوڑا ہے۔
جی ہاں، کیونکہ غور و فکر کرنے سے ہمارے علماء کی اتھارٹی پر حرف آتا تھا۔ اور یوں ہمنے یہ کام انہی کے سپرد کرکے خود رخصت اختیار کر لی۔ تاریخ مسلمانان میں صاف لکھا ہے کہ کس طرح مختلف ادوار: سلطنت بغداد و اندلس میں آزادی اظہار اور تنقیدی سوچ کے بدولت مسلمانوں نے ترقیات حاصل کیں، اور پھر بعد میں کس طرح اسلامی فتووں کی بدولت حاصل کر دوہ علوم پر مزید ریسرچ نہ کرنے کے باعث مغربی عیسائی ہم سے آگے نکل گئے۔
بہر حال یہ دھاگہ اس بحث کیلئے نہیں۔
 

رانا

محفلین
جب ہم مسلمانوں تک پرنٹگ مشین سے لیکر انٹرنیٹ تک ہر سائنسی ایجاد کسی نہ کسی “عالم“ کے فتوے سے تصادم کرکے پہنچی ہے، تو گو آپکے کہنے کے مطابق قرآن سائنس کو رد نہیں کرتا، البتہ علماء جو اسکا ہر زمانہ میں “سب سے زیادہ علم یا اتھارٹی“ رکھتے ہیں خود ہی ہر نئی سائنسی مشعل کا اسکے اول دنوں میں انکار کرتے آئے ہیں :)

بالکل ٹھیک کہا آپ نے کہ ہر سائنسی نظریہ اور ایجاد کی اول مخالفت یہ نام نہاد علما ہی کرتے ہیں۔ لیکن یہ علما وہ نہیں جو نبیوں کے وارث ہوتے ہیں۔ آپ یہ بھی تو دیکھئے کہ قرآن و حدیث میں دو طرح کے علما کا ذکر ملتا ہے۔ ایک وہ جن کے بارے میں کہا گیا کہ وہ نبیوں کے وارث ہیں۔ یہ وہ علما ہیں جو قرآن کا صحیح ادراک رکھتے ہیں اور انہی کے دور میں مسلمانوں نے سائنس میں ترقی بھی کی۔ اور دوسرے وہ علما ہیں جن کو اشرار الناس کہا گیا ہے۔ اب آپ کو دونوں قسم کے علما میں فرق کرنا ہوگا۔ دوسری قسم کے علما نے ہمیشہ نہ صرف سائنسی ایجادات پر فتوے جاری کئے بلکہ پہلی قسم کے علما پر بھی فتوے جاری کئے اور پہلی قسم کے علما میں سےشائد کوئی ایک بھی محفوظ نہیں رہا ان کے فتوؤں سے۔ اور اس طرح کے علما ہر مذہب میں مل جائیں گے گلیلیو کے خلاف فتوے دینے والے بھی مذہبی علما ہی تھے۔

بات دراصل یہ ہے کہ قرآن خدا کا قول ہے اور سائنس خدا کا فعل۔ اب خدا کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہو سکتا۔ یہ تضاد کا خطرہ صرف ان نام نہاد علما کو نظر آتا ہے جن کے نزدیک قرآن تو خدا نے اتارا اور سائنس کے قوانین سائنسدان بیٹھے ایجاد کررہےہوتے ہیں اب انہیں کون سمجھائے کہ سائنسدان سائنس کے قوانین ایجاد نہیں کرتے بلکہ جو اللہ تعالی نے ازل سے سائنسی قوانین بنادیئے ہیں، صرف ان کو دریافت کرتے ہیںِ۔ اور جب درست راستے پر چلتے ہوئے دریافت کرتے ہیں تو وہ لامحالہ قرآن کے مطابق ہی ہوتا ہے۔ اور جب سائنسدان غلطی کرتے ہیں تو وہ ظاہر ہے قرآن کے خلاف ہی نظر آئے گا۔ لیکن بہرحال جلد یا بدیروہ غلطی سائنسدان خود ہی پکڑ لیتے ہیں۔
 

arifkarim

معطل
بات دراصل یہ ہے کہ قرآن خدا کا قول ہے اور سائنس خدا کا فعل۔ اب خدا کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہو سکتا۔ یہ تضاد کا خطرہ صرف ان نام نہاد علما کو نظر آتا ہے جن کے نزدیک قرآن تو خدا نے اتارا اور سائنس کے قوانین سائنسدان بیٹھے ایجاد کررہےہوتے ہیں اب انہیں کون سمجھائے کہ سائنسدان سائنس کے قوانین ایجاد نہیں کرتے بلکہ جو اللہ تعالی نے ازل سے سائنسی قوانین بنادیئے ہیں، صرف ان کو دریافت کرتے ہیںِ۔
آپکی بات سے متفق ہوں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ سائنسدان محض مشاہدہ معائنہ کی بدولت عالم جسمانی کی تسخیر کرتے ہوئے اسکو اپنے فائدہ و نقصان کا موجب بنا لیتے ہیں۔ جبکہ ہم تو تحقیق کو اہمیت دیتے ہی نہی۔ وگرنہ مصر و بابل تو عرصہ دراز تک مسلمانوں کے قبضہ میں رہا، پر کسی مسلمان کو بھی ان پر تحقیق کی فرصت نہ ملی :(
 

محمد سعد

محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
جن آیات پر کالم کی بنیاد رکھی گئی وہ یہ ہیں۔
سورۃ الفجر، آیات 6 تا 11۔
[ARABIC]
اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ ۪ۙ﴿۶﴾
اِرَمَ ذَاتِ الۡعِمَادِ ۪ۙ﴿۷﴾
الَّتِیۡ لَمۡ یُخۡلَقۡ مِثۡلُہَا فِی الۡبِلَادِ ۪ۙ﴿۸﴾
وَ ثَمُوۡدَ الَّذِیۡنَ جَابُوا الصَّخۡرَ بِالۡوَادِ ۪ۙ﴿۹﴾
وَ فِرۡعَوۡنَ ذِی الۡاَوۡتَادِ ﴿۪ۙ۱۰﴾
الَّذِیۡنَ طَغَوۡا فِی الۡبِلَادِ ﴿۪ۙ۱۱﴾
[/ARABIC]
سیاق و سباق کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہاں اس بات کا ذکر ہو رہا ہے کہ دنیا میں کیسی کیسی طاقت ور قومیں گزریں (کوئی جسمانی لحاظ سے، کوئی فوجی لحاظ سے، وغیرہ) لیکن جس نے بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، اپنی تمام تر طاقت کے باوجود اللہ کے عذاب سے نہ بچ پایا۔

ان کے میں نے جو بھی تراجم اب تک دیکھے وہ کم و بیش ایک جیسے ہی ہیں۔ ان میں سے دو تراجم کا حوالہ دے دیتا ہوں جو کہ آن لائن دیکھے جا سکتے ہیں۔ میں نے یہ تراجم اس ویب سائٹ سے حاصل کیے۔
http://www.noorehidayat.org/index.php?p=alquran

مولانا فتح محمد جالندھری کا کیا ہوا ترجمہ:
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے قوم عاد کے ساتھ کیا کیا۔ (آیت۔ ۶)
جو ارم کہلاتے تھے درازقد مانند ستونوں کے۔ (آیت۔ ۷)
کہ تمام ملک میں ایسے پیدا نہیں ہوئے تھے۔ (آیت۔ ۸)
اور ثمود کے ساتھ کیا کیا جو وادی قرٰی میں چٹانیں تراشتے تھے۔ (آیت۔ ۹)
اور فرعون کے ساتھ کیا کیا جو خیمے اور میخیں رکھتا تھا۔ (آیت۔ ۱۰)
یہ لوگ ملکوں میں سرکش ہو رہے تھے۔ (آیت۔ ۱۱)

ویب سائٹ پر مولانا محمود الحسن کا کیا ہوا ترجمہ بمع تشریح کے بھی دیکھا جا سکتا ہے:
تو نے نہ دیکھا کیسا کیا تیرے رب نے عاد کے ساتھ۔ (آیت۔ ۶)
وہ جو ارم میں تھے [۳] بڑے ستونوں والے [۴]۔ (آیت۔ ۷)
کہ بنی نہیں ویسی سارے شہروں میں [۵]۔ (آیت۔ ۸)
اور ثمود کے ساتھ جنہوں نے تراشا پتھروں کو وادی میں [۶]۔ (آیت۔ ۹)
اور فرعون کے ساتھ و ہ میخوں والا [۷]۔ (آیت۔ ۱۰)
یہ سب تھے جنہوں نے سر اٹھایا ملکوں میں۔ (آیت۔ ۱۱)

اعداد کے ذریعے نمایاں کیے گئے نکات کی تشریح یہ ہے:
[۳]عاد اور اِرم:
"عاد" ایک شخص کا نام ہے جس کی طرف یہ قوم منسوب ہوئی، ان کے اجداد میں سے ایک شخص "ارم" نامی تھا۔ اس کی طرف نسبت کرنے سے شاید اس طرف اشارہ ہو کہ یہاں "عاد" سے "عاد اولیٰ" مراد ہے۔ "عاد ثانیہ" نہیں، اور بعض نے کہا کہ "قوم عاد" میں جو شاہی خاندان تھا اسے "ارم" کہتے تھے۔ واللہ اعلم۔
[۴]اونچے ستونوں والے:
یعنی ستون کھڑے کرکے بڑی بڑی اونچی عمارتیں بناتے۔ یا یہ مطلب ہے کہ اکثر سیروسیاحت میں رہتے اور اونچے ستونوں پر خیمے تانتے تھے اور بعض کے نزدیک ذَاتِ الْعِمَادِ کہہ کر ان کے اونچے قدوقامت اور ڈیل دول کو ستونوں سے تشبیہ دی ہے۔ واللہ اعلم۔
[۵]یعنی اس وقت دنیا میں اس قوم جیسی کوئی مضبوط و طاقتور نہ تھی، یا ان کی عمارتیں اپنا جواب نہیں رکھتی تھیں۔
[۶]وادئ القُریٰ:
" وادئ القُریٰ" ان کے مقام کا نام ہے جہاں پہاڑ کے پتھروں کو تراش کر نہایت محفوظ و مضبوط مکان بناتے تھے۔
[۷]یعنی بڑے لاؤلشکر والا جس کو فوجی ضروریات کے لئے بہت کثیر مقدار میں میخیں رکھنا پڑتی تھیں یا یہ مطلب ہے کہ لوگوں کو چومیخا کر کے سزا دیتا تھا۔

آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ "بنی نہیں ویسی سارے شہروں میں" والی بات قومِ عاد کے لیے کی گئی ہے اور وہ بھی علمی ترقی کے حوالے سے نہیں بلکہ جسمانی طاقت کے حوالے سے۔ مجھے عربی زبان میں اتنی زیادہ مہارت تو حاصل نہیں کہ یہ فرق کر سکوں کہ موازنہ صرف اپنے دور تک کی دیگر قوموں سے کیا گیا ہے یا مستقبل میں آنے والی قوموں کو بھی ساتھ شامل کیا گیا ہے۔ لیکن جہاں تک کالم کے موضوع کا تعلق ہے، اس سے فرق بھی نہیں پڑتا کیونکہ علمی ترقی کی بات ہی نہیں ہو رہی۔ کالم نگار نے ترجمے میں "ترقی یافتہ" کا لفظ خود ہی شامل کیا ہے (جو کہ بریکٹ سے بھی معلوم ہوتا ہے لیکن تصدیق کرنا ضروری تھا)۔

ایک اور نکتے کی طرف بھی توجہ دلا دوں۔
فرعون کے حوالے سے اہراموں کا ذکر نہیں آیا بلکہ میخوں کا ذکر آیا ہے جس کی مجھے جو بھی تشریح ملی، اس میں لشکر میں استعمال ہونے والی میخوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی غالباً میخوں کی کثیر تعداد اس کے بڑے لشکر کی طرف اشارہ ہے۔
تاج کمپنی کے شائع کردہ ایک نسخے میں شاہ عبد القادر صاحب کی تشریح کے مطابق، یہاں فرعون کے لشکر کے گھوڑوں کی، سونے کی میخیں رکھنے کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی اس صورت میں لشکر کی تعداد کے ساتھ ساتھ دولت کی طرف بھی اشارہ ہوگا۔
اگر بالفرض میخوں سے مراد اہرام ہوں تب بھی یہ نہیں کہا گیا کہ یہ کس حد تک ترقی یافتہ اور "حیرت انگیز" تھے۔آیا ان کا ذکر اس لیے آیا ہے کہ اتنی بڑی اور مضبوط عمارتوں سے فرعون کی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے، یا یہ واقعی اس حد تک ترقی یافتہ تھے جس کا کالم نگار ذکر کرتا ہے۔ چنانچہ نہ تو اس آیت سے کالم نگار کے دعووں کی تصدیق ہوتی ہے نہ ہی تردید۔
لہٰذا اگر کالم نگار کو اپنی بات ثابت کرنی ہے تو اسے پکے ثبوت کی ضرورت پیش آئے گی۔ اگر اس میں درج کیے گئے تجربات کو کالم نگار "سائنسی تجربات" قرار دیتا ہے تو اس کا طریقہ کار غلط ہے۔ سائنسی تجربات میں ایک ایک چیز کی تفصیل نوٹ کی جاتی ہے اور طویل عرصے تک مختلف حالات میں مسلسل تجربات کیے جاتے ہیں۔ تب جا کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا خیال کس حد تک درست ہو سکتا ہے اور کس حد تک غلط۔ تجربے کا مفصل طریقہء کار بھی سب کو دستیاب کیا جاتا ہے تاکہ دوسرے لوگ بھی اس کو دہرا کر تصدیق یا تردید کر سکیں۔ ایک شخص کے کیے گئے تجربات میں اس بات کا زیادہ امکان ہوتا ہے کہ اس کی اپنی سوچ کے رجحانات کی وجہ سے تجربے پر منفی اثر پڑے گا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے خلاف آنے والے نتائج کو نظر انداز کر دے، یا کسی ایسے نکتے کا اسے خیال نہ آئے جو بہت ہی اہم ہو۔ واقعی اتنی مفصل باتیں کالم میں نہیں ہو سکتیں لیکن کم از کم کہیں اور یہ تمام تفصیلات مہیا کر کے اس مقام کا حوالہ تو دیا جا سکتا ہے۔
 

محمد سعد

محفلین
کالم میں اٹھائے گئے کچھ نکات بڑے ہی دلچسپ ہیں۔
اگر ایک بڑی سی عمارت اہرام کی شکل میں تعمیر کرکے اسکی باہر والی سطح کو" Lead" یعنی سکے کی پلیٹوں سے ڈھانپ دیا جائے تو اس پر ایٹمی تابکاری کے اثرات صفر ہوجائیں گے۔
یہ خصوصیت سرے سے اہرام کی شکل کی ہے ہی نہیں بلکہ در حقیقت یہ سیسے (lead) کی اپنی خصوصیت ہے۔ سیسے کا آپ چاہے کرہ (sphere) بنائیں یا مکعب ڈبہ۔ وہ اندر والی چیز کو بیرونی تابکار اشعاع سے بچائے گا۔
منرل واٹر کو اس کے اندر دو ماہ کے لیے رکھا، پھر آگ سے جھلسے ہوئے ایک مریض کو اس سے چہرہ دھونے کے لیے کہا، اگلے چار ماہ کے اندر ہی اس کے داغ ٹھیک ہو گئے۔
چار ماہ کے اندر تو ویسے بھی ٹھیک ہو جاتے۔ :-P خصوصاً اگر ساتھ ہی کوئی اور علاج بھی جاری ہو جس کا ذکر ڈاکٹر صاحب نے نہیں کیا۔
پرامڈ سے چارج شدہ پانی معدے کے جس بھی مریض کو دیا اس کا معدہ زبردست ہو گیا۔
معدہ تو میرا بھی جلد یا بدیر ٹھیک ہو جایا کرتا ہے چاہے علاج نہ بھی کروں۔ :biggrin:

بچے کی عینک کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ کوئی تفصیل دستیاب نہیں کہ اس کا نمبر کیا تھا، وغیرہ۔ ڈاکٹر لوگوں سے سنا ہے کہ اگر نمبر کم ہو اور عینک مسلسل لگائی جاتی رہے تو بچوں کی آنکھیں پوری طرح درست ہو سکتی ہیں کہ ان کا جسم ابھی "زیرِ تعمیر" ہوتا ہے۔
 
Top