خواجہ طلحہ
محفلین
یہ دعویٰ بالکل غلط اور صرف قیاس پر مبنی ہے کہ:" موجودہ زمانہ ہی روئے زمین پر انسانی تہذیب کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ دور ہے"۔۔۔ یہ بات انتہائی حد تک حقائق سے دور ہے۔ موجودوہ زمانہ کا سائنس دان اور ریسرچر دراصل قرآن کی سچائی سے ڈرتا ہے۔اسی لیے وہ حقیقت کو ماننے سے پس و پیش کررہا ہے۔ہمارے پاس لاکھوں یا کروڑوں سال کی انسانی تہذیب کا تحریری ریکارڈ موجود نہیں ہے۔تحریری رکارڈ صرف پانچ ہزار سال تک ہے۔ یہاں تک کہ صرف چند ہزار سال کے ماضی کو بیان کرنے کے لیے بھی ہم " قبل از مسیح " کے الفاظ کا سہارا لینے پر مجبور ہیں۔
انسانی تاریخ کے بارے میں ہمارے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے۔ہاں ! البتہ لیکن آسمانی کتابیں ٹھوس ثبوت کہی جاسکتی ہیں ۔تاہم سب سے متعبر اور مصدقہ آسمانی تحریر صرف قرآن ہی اب موجود ہے۔ غیر مسلم ریسرچر اور سائنس دان کو کائناتی کتاب قرآن سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ اگر وہ تسلیم کر لیتا ہے کہ ماضی میں سائنس آج کے زمانہ سے زیادہ ترقی یافتہ تھی تو اسے قرآن کی حقانیت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔اور اسی سے وہ انکاری ہے۔آج کا ریسرچر مانے یا نہ مانے قرآن فرماتا ہے"تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے کیا برتاو کیا اونچے ستونوں والے عادارم کے ساتھ،جن کے مانند(ترقی یافتہ)کوئی قوم دنیا کے ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی ۔اور ثمود کے ساتھ جو وادی میں (اونچے اونچے گھر بنانے کے لیے ) چٹانیں تراشتے تھے۔ اور اہراموں ( پرامڈز) والے فرعون کے ساتھ۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا کے ملکوں میں بڑی سرکشی کی تھی"۔۔۔قوم عاد کے افراد قد کاٹھ کے لحاظ سے لحیم شحیم تھے۔ اللہ تعالٰی نے انہیں جسمانی قوت سے بھی نوازا تھا۔ وہ بڑی بڑی عالی شان عمارتیں اور یاد گاریں تعمیر کرتے تھے۔قرآن کا ہر قانون اٹل ہے۔قرآن کہتا ہے کہ ان قوموں جیسی ترقی یافتہ کوئی قوم آج تک ساری دنیا کے شہروں میں پیدا نہیں کی گئی۔مندرجہ بالا آیات کے الفاظ واضح طور پر بتارہے ہیں کہ ماضی میں سائنس زیادہ ترقی یافتہ تھی۔ ہمیں موجودہ زمانہ کے سائنس دانوں اور ریسرچروں کے برعکس قرآان کی بات کو زیادہ مصدقہ ماننا پڑے گا۔ اسکا ایک ثبوت یہ ہے کہ اتنی ترقی ہونے کے باوجود ساری دنیا کے سائنس دان اور ریسرچر، عالمی شہرت یافتہ ماہرین آر کیٹکٹس اور انجینر ز مل کر بھی غزہ کے " شی اوپس" جیسا پرامڈ تیار نہیں کرسکتے، اور یہ بات آج سائنسدان خود تسلیم کرتاہے۔
قارئین کرام! گزشتہ ہفتہ جون کو میرا کالمؔ" پرامڈ تھراپی۔۔ تما امراض کا مکمل علاج ہے" شائع ہواتھا۔۔۔۔۔
ریسرچروں اور سائنسدانوں کی 2010ء میں جدید کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی مدد سے " شی اوپس" پر کی گئی نئی سٹڈی کے بارے میں آپ سے شئیر کرنا چاہوں گا۔ اس تازہ ترین سٹڈی کے اہم نقاظ یہ ہیں کہ " اہرام " یا پرامڈز انتہائی ترقی یافتہ سائنسی ایجادات کا مظہر ہیں'اور یہ ترقی یافتہ سائنس حضرت عیسٰی کی پیدائش سے ہزاروں سال پہلے کی ہے۔اہراموں کے معمار "ماورائی" سربستہ رازوں سے واقف تھے۔ وہ اعلٰی ترین ریاضی (ایڈوانسڈ ٹرگنومیٹری) کا ادراک رکھتے تھے۔علم مثلت یعنی ٹرگنو میٹری اور جیومیٹری کے علوم پر انہیں دسترس تھی۔ جغرافیہ کے بارے میں انکا علم حیرت انگیز تھا۔ کمپیوٹر کی مدد سے اہرام پر ریسرچ کرنے والے سائنس دانوں نے اہراموں کے تعمیر سے متعلق ریاضی و جیومیٹری کے رموز قوانین کی جلدوں کے ڈھیر لگا دیے ہیں۔ان میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہمارے سیارہ زمین کا" محیط" دن اور رات کے وقفوں کی پیمائش ،سورج اور زمین کا درمیانی فاصلہ ،روشنی کی سپیڈ،زمین کی کشش ثقل اور اسراع کے قوانین اور فارمولے بھی اہرام کی دیواروں پر قدیم طرز تحریر میں کندہ ہیں۔ ماہرین فن تعمیر بتاتے ہیں کہ اہرام سے زیادہ مضبوط کوئی اور جیو میٹریکل شکل نہیں ہے۔ اہرام کی ساری پراسرایت اسکی مخصوص بناوٹ اور زاویہ میں ہے۔اگر ایک بڑی سی عمارت اہرام کی شکل میں تعمیر کرکے اسکی باہر والی سطح کو" Lead" یعنی سکے کی پلیٹوں سے ڈھانپ دیا جائے تو اس پر ایٹمی تابکاری کے اثرات صفر ہوجائیں گے۔
پوری تحریرپڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔
انسانی تاریخ کے بارے میں ہمارے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے۔ہاں ! البتہ لیکن آسمانی کتابیں ٹھوس ثبوت کہی جاسکتی ہیں ۔تاہم سب سے متعبر اور مصدقہ آسمانی تحریر صرف قرآن ہی اب موجود ہے۔ غیر مسلم ریسرچر اور سائنس دان کو کائناتی کتاب قرآن سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ اگر وہ تسلیم کر لیتا ہے کہ ماضی میں سائنس آج کے زمانہ سے زیادہ ترقی یافتہ تھی تو اسے قرآن کی حقانیت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔اور اسی سے وہ انکاری ہے۔آج کا ریسرچر مانے یا نہ مانے قرآن فرماتا ہے"تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے کیا برتاو کیا اونچے ستونوں والے عادارم کے ساتھ،جن کے مانند(ترقی یافتہ)کوئی قوم دنیا کے ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی ۔اور ثمود کے ساتھ جو وادی میں (اونچے اونچے گھر بنانے کے لیے ) چٹانیں تراشتے تھے۔ اور اہراموں ( پرامڈز) والے فرعون کے ساتھ۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا کے ملکوں میں بڑی سرکشی کی تھی"۔۔۔قوم عاد کے افراد قد کاٹھ کے لحاظ سے لحیم شحیم تھے۔ اللہ تعالٰی نے انہیں جسمانی قوت سے بھی نوازا تھا۔ وہ بڑی بڑی عالی شان عمارتیں اور یاد گاریں تعمیر کرتے تھے۔قرآن کا ہر قانون اٹل ہے۔قرآن کہتا ہے کہ ان قوموں جیسی ترقی یافتہ کوئی قوم آج تک ساری دنیا کے شہروں میں پیدا نہیں کی گئی۔مندرجہ بالا آیات کے الفاظ واضح طور پر بتارہے ہیں کہ ماضی میں سائنس زیادہ ترقی یافتہ تھی۔ ہمیں موجودہ زمانہ کے سائنس دانوں اور ریسرچروں کے برعکس قرآان کی بات کو زیادہ مصدقہ ماننا پڑے گا۔ اسکا ایک ثبوت یہ ہے کہ اتنی ترقی ہونے کے باوجود ساری دنیا کے سائنس دان اور ریسرچر، عالمی شہرت یافتہ ماہرین آر کیٹکٹس اور انجینر ز مل کر بھی غزہ کے " شی اوپس" جیسا پرامڈ تیار نہیں کرسکتے، اور یہ بات آج سائنسدان خود تسلیم کرتاہے۔
قارئین کرام! گزشتہ ہفتہ جون کو میرا کالمؔ" پرامڈ تھراپی۔۔ تما امراض کا مکمل علاج ہے" شائع ہواتھا۔۔۔۔۔
ریسرچروں اور سائنسدانوں کی 2010ء میں جدید کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی مدد سے " شی اوپس" پر کی گئی نئی سٹڈی کے بارے میں آپ سے شئیر کرنا چاہوں گا۔ اس تازہ ترین سٹڈی کے اہم نقاظ یہ ہیں کہ " اہرام " یا پرامڈز انتہائی ترقی یافتہ سائنسی ایجادات کا مظہر ہیں'اور یہ ترقی یافتہ سائنس حضرت عیسٰی کی پیدائش سے ہزاروں سال پہلے کی ہے۔اہراموں کے معمار "ماورائی" سربستہ رازوں سے واقف تھے۔ وہ اعلٰی ترین ریاضی (ایڈوانسڈ ٹرگنومیٹری) کا ادراک رکھتے تھے۔علم مثلت یعنی ٹرگنو میٹری اور جیومیٹری کے علوم پر انہیں دسترس تھی۔ جغرافیہ کے بارے میں انکا علم حیرت انگیز تھا۔ کمپیوٹر کی مدد سے اہرام پر ریسرچ کرنے والے سائنس دانوں نے اہراموں کے تعمیر سے متعلق ریاضی و جیومیٹری کے رموز قوانین کی جلدوں کے ڈھیر لگا دیے ہیں۔ان میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہمارے سیارہ زمین کا" محیط" دن اور رات کے وقفوں کی پیمائش ،سورج اور زمین کا درمیانی فاصلہ ،روشنی کی سپیڈ،زمین کی کشش ثقل اور اسراع کے قوانین اور فارمولے بھی اہرام کی دیواروں پر قدیم طرز تحریر میں کندہ ہیں۔ ماہرین فن تعمیر بتاتے ہیں کہ اہرام سے زیادہ مضبوط کوئی اور جیو میٹریکل شکل نہیں ہے۔ اہرام کی ساری پراسرایت اسکی مخصوص بناوٹ اور زاویہ میں ہے۔اگر ایک بڑی سی عمارت اہرام کی شکل میں تعمیر کرکے اسکی باہر والی سطح کو" Lead" یعنی سکے کی پلیٹوں سے ڈھانپ دیا جائے تو اس پر ایٹمی تابکاری کے اثرات صفر ہوجائیں گے۔
پوری تحریرپڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔