کیا میں بیمار ہوں

السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاۃ
میں بی اے کے امتحانات دے کر فارغ ہوئی تھی غالباً امتحانات کے بعد دوسرا دن تھا بھائی کے ساتھ چاچا کے گھر سے آ رہی تھی موٹر سائیکل پر تو ہمارا حادثہ ہو گیا ایک کار کے ساتھ
بھائی تو موٹر سائیکل چلا رہے تھے ان کو کم چوٹ لگی لیکن میرا سر زمین کے ساتھ ضرور سے لگا اور میں بے ہوش ہوگئی.
تقریباً ایک ہفتہ کے بعد ہوش آیا تو خود کو لاہور کے جرنل ہسپتال میں پایا آنکھیں کھولوں تو سب چیزیں مجھے دو کی بجائے تین تین نظر آئے اور سر کسی پھوڑے کی طرح دکھنے لگتا تھا آہستہ آہستہ طبیعت کچھ بہتر ہونا شروع ہوئی
خیر تقریباً ایک ماہ ہسپتال میں رہنے کے بعد جب گھر آئی تو حالت زیادہ تشویشناک نہیں تھی بس سیدھی لیٹی رہوں تو ٹھیک نظر آتا تھا لیکن جب سائیڈ پر کروٹ لیتی یاں بیٹھنے کی کوشش کرتی تو وہی حالت پھر سے چیزیں دو دو نظر آنے شروع ہو جاتی
ہوں ہی فارغ لیٹے رہنے کی وجہ سے مجھے ایک عادت پڑ گئی پاوں ہلانے کی مانو زہین کو جیسے سکون ملتا ہو پاوں ہلانے سے کچھ عرصہ بعد میں تو بلکل ٹھیک ہو گئی لیکن پاوں ہلانے کی عادت ایسی لگی کے جانے کا نام ہی نہیں لیا مطالعہ کر رہی ہوتی تو بے اختیار پاوں ہلانا شروع کر دیتی لیٹی ہوتی تو پاوں ہلانا شروع کر دیتی یاں تک کہ اکثر روزمرہ کے معمولات میں جیسے سبزی کاٹتے ہوے یاں فون پر بات کرتے ہوئے بھی پاوں ہلانا شروع کر دیتی ہوں
یہاں تک کہ عدنان نے بھی مجھے کئی دفعہ روکا ہے لیکن یہ عادت ہے جاتی نہیں

بارے مہربان مجھے کوئی اچھا مشورہ دیں کہ کیسے میں اس عادت کو ختم کر سکوں
 
اسی سڑک پر جاکر دوبارہ سر زمین پر ماریں ..
ہوسکتا ہے افاقہ ہو۔۔۔
فلموں میں تو ایسا ہی ہوتا ہے
 
آخری تدوین:
مذاق ایک طرف
ہو سکتا ہے اسے کسی درجے میں بیماری کہا جا سکے مگر یقین کیجئے یہ خطرناک نہیں ہے اور کوئی مسئلہ نہیں ہے بس آپ اس پر توجہ دینا ترک کر دیں
 

اسد مقصود

محفلین
پاؤں ہلانے کی عادت مجھے بھی ہے اور مجھے اکثر میرے بھائی نے منع بھی کیا ہے۔ لیکن میں بھی جب بھی فارغ ہوتا ہوں تو پاؤں یا ٹانگ ہلاتا ہوں۔ اور اکثر بستر پر لیٹے ہوئے لیپ ٹاپ پر فلم دیکھتے وقت ٹانگ یا پاؤں ہلاتا ہوں۔ یہ کوئی سنجیدہ مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کے کوئی منفی اثرات ہیں میرے خیال میں۔ آپ ہرگز پریشان نہ ہوں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
حمیرا عدنان صاحبہ ! آپ کے حسبِ ارشاد ایک مشورہ حاضر ہے ۔

آپ اپنی ٹانگ میں ایک گھنٹی باندھ لیں ۔ ( وہ چھوٹی سی ٹلی جو گائے بھینسوں کے گلے میں باندھی جاتی ہے ) ۔ چونکہ ٹانگ ہلانا ایک غیر شعوری عمل ہے اسلئے جب بھی آپ ٹانگ ہلائیں گی گھنٹی کا شور آپ کو متوجہ کرلے گا ۔ تب آپ ٹانگ ہلانا بند کر دیں ۔ کچھ دنوں تک اس طرح کرنے سے عین ممکن ہے کہ یہ عادت ختم ہوجائے ۔

نوٹ: عادت ختم ہونے کے بعد ٹانگ سے گھنٹی اتارنا مت بھولئے گا ۔ ورنہ ایسا نہ ہو کہ آپ کو گھنٹی کے شور کی عادت پڑ جائے اور پھر اس کے لئے آپ ایک نیا مراسلہ یہاں پوسٹ کریں ۔ :)
 
اسی سڑک پر جاکر دوبارہ سر زمین پر ماریں ..
ہوسکتا ہے افاقہ ہو۔۔۔
فلموں میں تو ایسے ہی ہوتا ہے
پہلی مرتبہ تو زندہ بچ گئی تھی موت کے ہاتھ سے لیکن اب کی بار تو وہ بھی میری تاک میں بیٹھی ہے اپنے سب ساز اوزار تیار کر کے میں نے تو موٹر سائیکل پر بیٹھنا ہی چھوڑ دیا ہے
 
مذاق ایک طرف
ہو سکتا ہے اسے کسی درجے میں بیماری کہا جا سکے مگر یقین کیجئے یہ خطرناک نہیں ہے اور کوئی مسئلہ نہیں ہے بس آپ اس پر توجہ دینا ترک کر دیں
شکریہ محترم ادب دوست جی یہ تو مجھ بھی پتا ہے کہ یہ کوئی خطرناک بیماری نہیں ہے. میں توجہ نا بھی دوں لیکن دوسرے لوگ میری توجہ اسی جانب متوجہ کرائیں گے
 

نادر علی

محفلین
حمیرا عدنان صاحبہ ! آپ کے حسبِ ارشاد ایک مشورہ حاضر ہے ۔

آپ اپنی ٹانگ میں ایک گھنٹی باندھ لیں ۔ ( وہ چھوٹی سی ٹلی جو گائے بھینسوں کے گلے میں باندھی جاتی ہے ) ۔ چونکہ ٹانگ ہلانا ایک غیر شعوری عمل ہے اسلئے جب بھی آپ ٹانگ ہلائیں گی گھنٹی کا شور آپ کو متوجہ کرلے گا ۔ تب آپ ٹانگ ہلانا بند کر دیں ۔ کچھ دنوں تک اس طرح کرنے سے عین ممکن ہے کہ یہ عادت ختم ہوجائے ۔

نوٹ: عادت ختم ہونے کے بعد ٹانگ سے گھنٹی اتارنا مت بھولئے گا ۔ ورنہ ایسا نہ ہو کہ آپ کو گھنٹی کے شور کی عادت پڑ جائے اور پھر اس کے لئے آپ ایک نیا مراسلہ یہاں پوسٹ کریں ۔ :)

چھا گئے ۔۔۔اُستاد
 

اکمل زیدی

محفلین
ایک چھوٹا سا مشورہ میری طرف سے بھی ....بہتر ہوگا کسی اچھے معالج سے مشورہ لے لیں زیادہ مناسب کسی نفسیاتی ڈاکٹر سے بہتر رہے گا ....اور آخر میں(اپنی عادت سے مجبور) ایک جملے نے مجھے متوجہ کیا کے "یہاں تک کہ عدنان نے بھی مجھے کئی دفعہ روکا ہے" لگتا ہے جب آپ زور زور سے ہلا رہی ہونگی تو وہ زد میں آگئے ہونگے ...:LOL:
 
پاؤں ہلانے کی عادت مجھے بھی ہے اور مجھے اکثر میرے بھائی نے منع بھی کیا ہے۔ لیکن میں بھی جب بھی فارغ ہوتا ہوں تو پاؤں یا ٹانگ ہلاتا ہوں۔ اور اکثر بستر پر لیٹے ہوئے لیپ ٹاپ پر فلم دیکھتے وقت ٹانگ یا پاؤں ہلاتا ہوں۔ یہ کوئی سنجیدہ مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کے کوئی منفی اثرات ہیں میرے خیال میں۔ آپ ہرگز پریشان نہ ہوں۔
شکر ہے میں اکیلی بیمار نہیں ہوں اسد مقصود صاحب بھی اس عجیب و غریب بیماری کے شکار ہیں
 
آپ اپنی ٹانگ میں ایک گھنٹی باندھ لیں ۔ ( وہ چھوٹی سی ٹلی جو گائے بھینسوں کے گلے میں باندھی جاتی ہے ) ۔
محترم ظہیر بھائی کیا میں اس عادت کی وجہ سے انسانوں کی فہرست سے خارج ہو گئی ہوں جو اتنا عمدہ مشورہ دے رہیں ہیں
ویسے میرے بڑے بھائی مجھے بچپن میں بھینس ہی کہتے تھی :p:p
چونکہ ٹانگ ہلانا ایک غیر شعوری عمل ہے اسلئے جب بھی آپ ٹانگ ہلائیں گی گھنٹی کا شور آپ کو متوجہ کرلے گا ۔ تب آپ ٹانگ ہلانا بند کر دیں ۔ کچھ دنوں تک اس طرح کرنے سے عین ممکن ہے کہ یہ عادت ختم ہوجائے ۔
کیا یہ آزمودہ نسخہ ہے امید کا ساتھ عمل شروع کر دوں کہ یہ کام کرئے گا ۔۔۔
نوٹ: عادت ختم ہونے کے بعد ٹانگ سے گھنٹی اتارنا مت بھولئے گا ۔ ورنہ ایسا نہ ہو کہ آپ کو گھنٹی کے شور کی عادت پڑ جائے اور پھر اس کے لئے آپ ایک نیا مراسلہ یہاں پوسٹ کریں ۔
یعنی اس سے پہلے بھی یہ معاملہ پیش آ چکا ہے کہ ایک عادت کو ختم کرو تو دوسری عادت آپ کو لگ جائے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
محترم ظہیر بھائی کیا میں اس عادت کی وجہ سے انسانوں کی فہرست سے خارج ہو گئی ہوں جو اتنا عمدہ مشورہ دے رہیں ہیں
ویسے میرے بڑے بھائی مجھے بچپن میں بھینس ہی کہتے تھی :p:p

کیا یہ آزمودہ نسخہ ہے امید کا ساتھ عمل شروع کر دوں کہ یہ کام کرئے گا ۔۔۔

یعنی اس سے پہلے بھی یہ معاملہ پیش آ چکا ہے کہ ایک عادت کو ختم کرو تو دوسری عادت آپ کو لگ جائے


نہیں حمیرا عدنان ! ایسی کوئی بات نہیں ۔ آپ نہ صرف اچھی انسان ہیں بلکہ ایک صاف دل کی مالک انسان ہیں ۔ گائے بھینس کا ذکر تو محض گھنٹی کا سائز بتانے کے لئے کیا تھا تاکہ آپ اسکول کی چھٹی کرانے والی گھنٹی پیر میں نہ باندھ لیں ۔ فائدہ تو خیر اُس گھنٹی سے بھی ہوگا اور بہت جلد ہوگا ۔ آپ دو منٹ کے بعد ہی خود بخود درد کی وجہ سے ٹانگ ہلانا بند کردیں گی ۔ لیکن اس گھنٹی کی وجہ سے آپ کا چلنا پھرنا دوبھر ہوجائے گا ۔ چنانچہ آپ کے لئے بھینس والی گھنٹی ہی ٹھیک رہے گی ۔

یہ نسخہ آزمودہ تو نہیں لیکن ساتویں حس کہتی ہے کہ کام کرے گا ۔ دراصل کسی بھی عادت کو ختم کرنے کے لئے شعوری کوشش ضروری ہے ۔ عادت خود بخود تو ختم ہونے سے رہی ۔ بار بار کوشش تو کرنی پڑے گی ۔ اور جہاں تک ایک عادت ترک کرنے سے دوسری عادت پڑنے کا تعلق ہے تو ا بعض اوقات ایسا ہوجاتا ہے ۔ بہت پہلے مجھے ریڈیو سننے کی عادت تھی۔ بی بی سی پر سیربین اور دوسرے پروگرام سنے بغیر نیند نہیں آتی تھی ۔ الحمدللہ شادی کے بعد بی بی سی کی عادت ختم ہوگئی۔ ریڈیو بھی اپنے سسر کو تحفے میں دیدیا کہ اب اس کی ضرورت نہیں رہی ۔ لیکن کچھ عرصے بعد سر درد کی وجہ سے دن میں کئی بار چائے پینے کی عادت پڑگئی ۔ عادت حد سے بڑھنے لگی تو بیگم نے کہا کہ آپ کے جسم کو کیفین کی ایڈِ کشن ہوگئی ہے ۔ دن میں چائے کے پانچ چھ کپ کے بجائے بس ایک دو کپ کافی پی لیا کریں ۔ یہ نسخہ کارآمد رہا۔ لیکن کچھ عرصے بعد کافی کی لت پڑگئی ۔ بہت وقت ضائع ہوتا تھا ہر تین گھنٹے بعد تازہ کافی بنانے میں۔ اس عادت کو ختم کرنے کے لئے بیگم کے مشورے پر کیفین والا سوڈا پینا شروع کیا ۔ کئی سوڈے آزمانے کے بعد ڈاکٹر پیپر پسند آیا ۔ پھر کچھ ہی دنوں میں اس کی عادت پڑگئی ۔ تنگ آکر ہماری بیگم نے اپنے ایک چچا سے مشورہ کیا جو یونانی و غیر یونانی طب کے علاوہ روحانیات ، نفسیات ، ما بعدالطبیعات اور دیگر خرافاتیات میں رعشہ آمیز یدِ طولیٰ رکھتے ہیں ۔ روایت ہے کہ انہوں نے ہماری نا معقول عاداتِ ماکولات و مشروبات بغور سننے کے بعد مایوسی سے سر ہلایا اور فرمایا کہ بیٹا یہ تو لاعلاج کیس ہے ۔ انہیں عادتیں بدلنے کی عادت پڑگئی ہے ۔ اس کے بعد بیگم نے ہمیں سوڈا پینے سے نہیں روکا ۔ لیکن کچھ دنوں بعد جب بات یہاں تک پہنچی کہ فرج کے ہر سیکشن میں اس مائع حلال نے قبضہ جمالیا ا ور اس میں ٹماٹر اور ہرا دھنیا رکھنے کی بھی جگہ نہ بچی تو بیگم نے الٹی میٹم دیدیا ۔ کہنے لگیں اس گھر میں اب ایک ہی ڈاکٹر رہے گا ۔ یا آپ رہیں گے یا ڈاکٹر پیپر ۔ چونکہ ہمیں بیگم کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا بھی دن میں تین بار کھانے کی عادت ہے اس لئے بے چارے ڈاکٹر پیپر ہی کو بے آبرو ہو کر گھر بدر ہونا پڑا ۔ چنانچہ آ ج کل صرف سادہ پانی پر گزارا ہے ۔ اور وہ بھی زیادہ اس لئے نہیں پیتا کہ کہیں اس کی بھی عادت نہ پڑ جائے ۔

خداوندا یہ تیرے تشنہ لب بندے کدھر جائیں
کہ چائے کافی عیاشی تھی ، اب پانی بھی عیاشی
 
آخری تدوین:
اللہ آپ کی مدد کرے ، آپ جب بھی پاؤں ہلانا شروع کرے تو فورا اسے ترک کیا کیجیے ، کبھی ہمت نہ ہارے ، ایک دن چھوٹ جائے گی یہ عادت
 

نادر علی

محفلین
نہیں حمیرا عدنان ! ایسی کوئی بات نہیں ۔ آپ نہ صرف اچھی انسان ہیں بلکہ ایک صاف دل کی مالک انسان ہیں ۔ گائے بھینس کا ذکر تو محض گھنٹی کا سائز بتانے کے لئے کیا تھا تاکہ آپ اسکول کی چھٹی کرانے والی گھنٹی پیر میں نہ باندھ لیں ۔ فائدہ تو خیر اُس گھنٹی سے بھی ہوگا اور بہت جلد ہوگا ۔ آپ دو منٹ کے بعد ہی خود بخود درد کی وجہ سے ٹانگ ہلانا بند کردیں گی ۔ لیکن اس گھنٹی کی وجہ سے آپ کا چلنا پھرنا دوبھر ہوجائے گا ۔ چنانچہ آپ کے لئے بھینس والی گھنٹی ہی ٹھیک رہے گی ۔

یہ نسخہ آزمودہ تو نہیں لیکن ساتویں حس کہتی ہے کہ کام کرے گا ۔ دراصل کسی بھی عادت کو ختم کرنے کے لئے شعوری کوشش ضروری ہے ۔ عادت خود بخود تو ختم ہونے سے رہی ۔ بار بار کوشش تو کرنی پڑے گی ۔ اور جہاں تک ایک عادت ترک کرنے سے دوسری عادت پڑنے کا تعلق ہے تو ا بعض اوقات ایسا ہوجاتا ہے ۔ بہت پہلے مجھے ریڈیو سننے کی عادت تھی۔ بی بی سی پر سیربین اور دوسرے پروگرام سنے بغیر نیند نہیں آتی تھی ۔ الحمدللہ شادی کے بعد بی بی سی کی عادت ختم ہوگئی۔ ریڈیو بھی اپنے سسر کو تحفے میں دیدیا کہ اب اس کی ضرورت نہیں رہی ۔ لیکن کچھ عرصے بعد سر درد کی وجہ سے دن میں کئی بار چائے پینے کی عادت پڑگئی ۔ عادت حد سے بڑھنے لگی تو بیگم نے کہا کہ آپ کے جسم کو کیفین کی ایڈِ کشن ہوگئی ہے ۔ دن میں چائے کے پانچ چھ کپ کے بجائے بس ایک دو کپ کافی پی لیا کریں ۔ یہ نسخہ کارآمد رہا۔ لیکن کچھ عرصے بعد کافی کی لت پڑگئی ۔ بہت وقت ضائع ہوتا تھا ہر تین گھنٹے بعد تازہ کافی بنانے میں۔ اس عادت کو ختم کرنے کے لئے بیگم کے مشورے پر کیفین والا سوڈا پینا شروع کیا ۔ کئی سوڈے آزمانے کے بعد ڈاکٹر پیپر پسند آیا ۔ پھر کچھ ہی دنوں میں اس کی عادت پڑگئی ۔ تنگ آکر ہماری بیگم نے اپنے ایک چچا سے مشورہ کیا جو یونانی و غیر یونانی طب کے علاوہ روحانیات ، نفسیات ، ما بعدالطبیعات اور دیگر خرافاتیات میں رعشہ آمیز یدِ طولیٰ رکھتے ہیں ۔ روایت ہے کہ انہوں نے ہماری نا معقول عاداتِ ماکولات و مشروبات بغور سننے کے بعد مایوسی سے سر ہلایا اور فرمایا کہ بیٹا یہ تو لاعلاج کیس ہے ۔ انہیں عادتیں بدلنے کی عادت پڑگئی ہے ۔ اس کے بعد بیگم نے ہمیں سوڈا پینے سے نہیں روکا ۔ لیکن کچھ دنوں بعد جب بات یہاں تک پہنچی کہ فرج کے ہر سیکشن میں اس مائع حلال نے قبضہ جمالیا ا ور اس میں ٹماٹر اور ہرا دھنیا رکھنے کی بھی جگہ نہ بچی تو بیگم نے الٹی میٹم دیدیا ۔ کہنے لگیں اس گھر میں اب ایک ہی ڈاکٹر رہے گا ۔ یا آپ رہیں گے یا ڈاکٹر پیپر ۔ چونکہ ہمیں بیگم کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا بھی دن میں تین بار کھانے کی عادت ہے اس لئے بے چارے ڈاکٹر پیپر ہی کو بے آبرو ہو کر گھر بدر ہونا پڑا ۔ چنانچہ آ ج کل صرف سادہ پانی پر گزارا ہے ۔ اور وہ بھی زیادہ اس لئے نہیں پیتا کہ کہیں اس کی بھی عادت نہ پڑ جائے ۔

خداوندا یہ تیرے تشنہ لب بندے کدھر جائیں
کہ چائے کافی عیاشی تھی ، اب پانی بھی عیاشی



بھائی یوں ہی بیگمات کہتی ہیں ۔۔۔ آپ بہت بدل گئے ہیں ، عادتوں کو تبدیل بھی وہ خود کراتی ہیں اور شکوہ بھی کرتی ہیں
 
Top