اسلامی معاشرے میںبڑھتی ہوئی بے پردگی اوربے باکی اس وقت ایک سنگین مسئلہ ہے
غیر اسلامی معاشروں میں بھی بے حیائی کے حوالے سے وہاں کا سنجیدہ طبقہ تشویش میں مبتلا ہے۔
اس بگڑتی ہوئی صورتحال میں تبدیلی وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے
اس حوالے سے لوگوں کے چار گروہ پائے جاتے ہیں
پہلاوہ گروہ جو ان تمام غیرمسلموں پر مشتمل ہے جو اسلام میں دل چسپی رکھتے ہیںمگراسلام کے نظام ستروحجاب کو جابرانہ اور تکلیف دہ سمجھتے ہیںاور نہ صرف مخالف پروپیگنڈہ سے متاثرہیں بلکہ مسلمانوں کی افراط وتفریط کی وجہ سے بھی متذبذب ہیں۔
.
دوسرا وہ مسلمان گروہ جو احکام ِ سترو حجاب پر جزوی طورپراوررسماً عمل کرتاہے اوربے پرد لوگوںکے طور طریقوںپربڑاشاکی اور فکرمند رہتاہے۔
.
تیسرا وہ مسلمان گروہ جو احکاماتِ سترو حجاب کا تارک ہے اورعملاً لاعلم ہے
۔چوتھا وہ گروہ جو احکام سترو حجاب کا سخت مخالف ہے اوراس کے خلاف سازشیں کرتا ہے اور اس کا مذاق اڑاتا ہے۔
وہ غیرمسلم جن کاذکر اوپر کیاگیاہے اورجن کیلئے اسلام کے نظامِ ستروحجاب کادفاع ہم پر فرض ہے ۔
وہ مسلمان جو حالات میں تبدیلی چاہتے ہیں مگربنیادی وجوہات سے لاعلم اوران کی اہمیت سے بے خبرہیں۔یہ تحریراصل وجوہات کے ادراک اورآگے کیلئے لائحہ عمل مہیاکرتی ہے ۔
ہمار ا تیسرا مخاطَب وہ نوجوان مسلمان مرد و خواتین ہیں جو واقعتا لا علمی کی بنیاد پر احکامِ سترو حجاب کے تارک ہیں ۔ یہ لوگ زیادہ حساس اور سمجھ دار ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ وہ اس ساری بحث کو غیر جانبداری اور سنجیدگی سے لیں گے اور حقائق کی بنیاد پر معاملہ کو جانچیں گے۔
زندگی کے دیگر معاملات میں جستجو ،لگن اور محنت کی طرح وہ اس مسئلہ پر بھی بھرپور توجہ دیں گے اور قائل ہوںگے یا قائل کریںگے کے اصول(Convince or Be Convinced) کے تحت ایک حتمی نتیجہ اخذ کریں گے ۔
چوتھا گروہ ان نام نہاد مسلمانوں پر مشتمل ہے جو دین کے احکام کے باغی اور سخت مخالف ہیں۔ ان کے لئے ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ اغیار کی ہمنوائی میں مسلمانوں کو گمراہ کرنے کا اتنا بھاری بوجھ نہ اٹھائیں
26. اور وہ (دوسروں کو) اس (نبی کی اتباع اور قرآن) سے روکتے ہیں اور (خود بھی) اس سے دور بھاگتے ہیں، اور وہ محض اپنی ہی جانوں کو ہلاک کررہے ہیں اور وہ (اس ہلاکت کا) شعور (بھی) نہیں رکھتے
پارہ 7 سورہ 6 سورہ الانعام آیت 26
. اتنا تو آپ جانتے ہوں گےکہ شیطان نے حضرت آدم وحواعلیہما السلام کو جنت سے نکالنے کے لئے کیا حربہ استعمال کیا یعنی ایک ایسی غلطی اور جرم سرزد کروایا جو انہیں بے لباس کردے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور نتیجہ ہمیںمعلوم ہے یعنی
اور اے آدم! تم اور تمہاری زوجہ (دونوں) جنت میں سکونت اختیار کرو سو جہاں سے تم دونوں چاہو کھایا کرو اور (بس) اس درخت کے قریب مت جانا ورنہ تم دونوں حد سے تجاوز کرنے والوں میں سے ہو جاؤ گے
پارہ 8 سورہ 7 سورہ الاعراف آیت 19
پھر شیطان نے دونوں کے دل میں وسوسہ ڈالا تاکہ ان کی شرم گاہیں جو ان (کی نظروں) سے پوشیدہ تھیں ان پر ظاہر کر دے اور کہنے لگا: (اے آدم و حوا!) تمہارے رب نے تمہیں اس درخت (کا پھل کھانے) سے نہیں روکا مگر (صرف اس لئے کہ اسے کھانے سے) تم دونوں فرشتے بن جاؤ گے (یعنی علائقِ بشری سے پاک ہو جاؤ گے) یا تم دونوں (اس میں) ہمیشہ رہنے والے بن جاؤ گے (یعنی اس مقامِ قرب سے کبھی محروم نہیں کئے جاؤ گے)
پارہ 8 سورہ 7 سورہ الاعراف آیت 20
پس وہ فریب کے ذریعے دونوں کو (درخت کا پھل کھانے تک) اتار لایا، سو جب دونوں نے درخت (کے پھل) کو چکھ لیا تو دونوں کی شرم گاہیں ان کے لئے ظاہر ہوگئیں اور دونوں اپنے (بدن کے) اوپر جنت کے پتے چپکانے لگے، تو ان کے رب نے انہیں ندا فرمائی کہ کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت (کے قریب جانے) سے روکا نہ تھا اور تم سے یہ (نہ) فرمایا تھا کہ بیشک شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے
پارہ 8 سورہ 7 سورہ الاعراف آیت 22
. اتنا تو آپ جانتے ہوں گےکہ شیطان نے حضرت آدم وحواعلیہما السلام کو جنت سے نکالنے کے لئے کیا حربہ استعمال کیا یعنی ایک ایسی غلطی اور جرم سرزد کروایا جو انہیں بے لباس کردے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور نتیجہ ہمیںمعلوم ہے یعنی
اور اے آدم! تم اور تمہاری زوجہ (دونوں) جنت میں سکونت اختیار کرو سو جہاں سے تم دونوں چاہو کھایا کرو اور (بس) اس درخت کے قریب مت جانا ورنہ تم دونوں حد سے تجاوز کرنے والوں میں سے ہو جاؤ گے
پارہ 8 سورہ 7 سورہ الاعراف آیت 19
پھر شیطان نے دونوں کے دل میں وسوسہ ڈالا تاکہ ان کی شرم گاہیں جو ان (کی نظروں) سے پوشیدہ تھیں ان پر ظاہر کر دے اور کہنے لگا: (اے آدم و حوا!) تمہارے رب نے تمہیں اس درخت (کا پھل کھانے) سے نہیں روکا مگر (صرف اس لئے کہ اسے کھانے سے) تم دونوں فرشتے بن جاؤ گے (یعنی علائقِ بشری سے پاک ہو جاؤ گے) یا تم دونوں (اس میں) ہمیشہ رہنے والے بن جاؤ گے (یعنی اس مقامِ قرب سے کبھی محروم نہیں کئے جاؤ گے)
پارہ 8 سورہ 7 سورہ الاعراف آیت 20
پس وہ فریب کے ذریعے دونوں کو (درخت کا پھل کھانے تک) اتار لایا، سو جب دونوں نے درخت (کے پھل) کو چکھ لیا تو دونوں کی شرم گاہیں ان کے لئے ظاہر ہوگئیں اور دونوں اپنے (بدن کے) اوپر جنت کے پتے چپکانے لگے، تو ان کے رب نے انہیں ندا فرمائی کہ کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت (کے قریب جانے) سے روکا نہ تھا اور تم سے یہ (نہ) فرمایا تھا کہ بیشک شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے
پارہ 8 سورہ 7 سورہ الاعراف آیت 22
اے اولادِ آدم! (کہیں) تمہیں شیطان فتنہ میں نہ ڈال دے جس طرح اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکال دیا، ان سے ان کا لباس اتروا دیا تاکہ انہیں ان کی شرم گاہیں دکھا دے۔ بیشک وہ (خود) اور اس کا قبیلہ تمہیں (ایسی ایسی جگہوں سے) دیکھتا (رہتا) ہے جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ بیشک ہم نے شیطانوں کو ایسے لوگوں کا دوست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں رکھتے
پارہ 8 سورہ 7 سورہ الاعراف آیت 27
ان آیات کے حوالے سے چار اہم نکات ہم پر واضح ہوتے ہیں ۔
بے لباسی جنت سے دوری کا سبب ہے۔
لباس لازمی ہے تاکہ بے پردگی کے گناہ اور جرم سے بچا جاسکے۔
بے پردگی شیطان کا ہتھیار ہے ۔
آدم سے لے کر قیامت سے پہلے پیداہونے والے آخری انسان غرض دنیا کے تمام انسانوں خواہ ان کا تعلق کسی بھی رنگ ، قوم،نسل، امت، علاقے، زمانے سے ہو بنی آدم ہونے کے ناطے سب کامشترکہ دشمن ایک ہی ہے اور وہ ابلیس ہے
عموی طورپرلباس انسانی جسم کو موسمی اثرات سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ سمجھاجاتاہے
اوراسی سوچ کے تحت لباس میں کمی بیشی کاجواز نکالاجاتاہے یہ درست نہیں
کیونکہ اگر لباس کا واحدمقصد بیرونی اثرات سے بچانا ہی ہو تو نفس پرست انسان بے لباسی کیلئے ایسے ماحول کو جواز بناسکتے ہیں جو موسم کی سختیوں یعنی گرمی ،سردی،بارش، گرد وغبار اور دیگر آلودگیوں سے محفوظ ہوجب کہ اسلام کا مطلوب یہ ہے کہ انسان لباس میں رہے ۔ایسا لباس جو سادہ ہو اوربنیا دی ستر وحجاب کے تقاضے پورے کرے
اے اولادِ آدم! بیشک ہم نے تمہارے لئے (ایسا) لباس اتارا ہے جو تمہاری شرم گاہوں کو چھپائے اور (تمہیں) زینت بخشے اور (اس ظاہری لباس کے ساتھ ایک باطنی لباس بھی اتارا ہے اور وہی) تقوٰی کا لباس ہی بہتر ہے۔ یہ (ظاہر و باطن کے لباس سب) اﷲ کی نشانیاں ہیں تاکہ وہ نصیحت قبول کریں
پارہ 8 سورہ 7 سورہ الاعراف آیت 26
یہ واضح رہے کہ لباس کے دو حصے ہیں اولاً بنیادی لباس جو ستر کوعمومی اوقات اور حالات میں محرم اورنامحرم دونوںسے چھپائے اورثانیاًوہ بیرونی چادرجس سے چہرہ ،جسمانی محاسن اورخد وخال نامحرموں سے ڈھکے چھپے رہیںجس کو حجاب کہتے ہیں چنانچہ اسلامی نقطہ نگاہ سے لباس کا اصل مقصد سترکو چھپانا اوربے پردگی اور اس کے اثرات سے بچاناہے نہ کہ دیگر وجوہات جس کو اہل مغرب اوردیگرغیرمسلم اقوام جواز بناکر کم لباسی ،تنگ لباسی یا مکمل بے لباسی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔
اﷲ کسی (کی) بری بات کا بآوازِ بلند (ظاہراً و علانیۃً) کہنا پسند نہیں فرماتا سوائے اس کے جس پر ظلم ہوا ہو (اسے ظالم کا ظلم آشکار کرنے کی اجازت ہے)، اور اﷲ خوب سننے والا جاننے والا ہے
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس (قرآن) کی طرف جسے اللہ نے نازل فرمایا ہے اور رسولِ (مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف رجوع کرو تو کہتے ہیں: ہمیں وہی (طریقہ) کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا۔ اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ (دین کا) علم رکھتے ہوں اور نہ ہی ہدایت یافتہ ہوں
پارہ 7 سورہ 5 سورہ المائدہ آیت 104
کوئی اہم مسلئہ درپیش ہو جائے قرآن اس بابت کیا کہتا ہم جاننے کی کوشش نہیں کرتے
والدین کو خود معلوم ہو تو اولاد کی بہترین تربیت ہو گی جب وہ ہی نا جانتے ہوں تو کیسے ممکن ہے کہ نئی نسل جانے اسی غفلت کی وجہ سے آج کی نسل زیادہ پریشانی میں مبتلا ہے
آج کی پاکستانی نوجوان لڑکیوں کو شائد یہ بات بتائی ہی نہیں گئی کہ چہرہ اوربازو بھی چھپانے کی چیزیں ہیں اور پردے کے ضمن میں آتی ہیں۔
اب مستورات کی اصطلاح عملاًغیرمستعمل ہے کیونکہ اب مستور(باپردہ)خواتین کا وجودڈائنوسارکی طرح معدوم ہوتاجارہاہے ۔
مسجد میںعورتوں کے باپرد آنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے جبکہ بازارمیںبے پردگی پر کوئی تنقید یا لازمی فتویٰ نہیںجاری کیاجاتاہے۔
یہ اسی بنیادی لا علمی کا نتیجہ ہے کہ لڑکیوں کا ٹخنہ تو کیا پنڈلی بھی کھل گئی
اور مرد حضرات چھپانے پر آئے توٹخنہ بھی چھپادیا
یعنی شلوار ،پینٹ وغیرہ ٹخنوں سے نیچے کردی اور تفریط کی صورت میںنیکر گھٹنوں سے اوپرہوگئی۔
یعنی آدھا تیترآدھا بٹیروالی صورتِ حال سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا اس حوالے سے اسلام کا نقطہ نظران دوآیات سے واضح ہوجاتاہے
کیا تم کتاب کے بعض حصوں پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو؟ پس تم میں سے جو شخص ایسا کرے اس کی کیا سزا ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ دنیا کی زندگی میں ذلّت (اور رُسوائی) ہو، اور قیامت کے دن (بھی ایسے لوگ) سخت ترین عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے، اور اللہ تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں
(امت کی تعلیم کے لئے فرمایا اور اگر (بفرضِ محال) آپ نے (بھی) اپنے پاس علم آجانے کے بعد ان کی خواہشات کی پیروی کی تو بیشک آپ (اپنی جان پر) زیادتی کرنے والوں میں سے ہو جائیں گے
اور جب ان پر ہماری روشن آیتیںپڑھی جاتی ہیں وہ کہنے لگتے ہیں جنہیں ہم سے ملنے کی امید نہیں کہ اس کے سوا اور قرآن لے آیئے یا اسی کو بدل دیجئے تم فرماؤ مجھے نہیں پہنچتا کہ میں اسے اپنی طرف سے بدل دوں میں تو اسی کا تابع ہوں جو میری طرف وحی ہوتی ہے میں اگر اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے
لڑکیوں میں فطرتی شرم ہونا لازمی ہے عورت کا زیور بھی شرم و حیا ہے
اور حیا ایمان کی شاخ بھی ہے
خود کو ماڈ اور پڑھی لکھی ثابت کرنے کے چکر میں لڑکی عورت شرم و حیا کو کہیں بہت پیچھے چھوڑ جاتی ہے
حیااورپردہ ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم ہیںحیا پردے کی روح ہے اور پردہ احساسِ حیاکومضبوط کرنے کاذریعہ ہے ۔ حیا کے عدم احساس کی وجہ سے انسان مختلف قسم کے گنا ہ کرتاہے جس میں بے پردگی بھی شامل ہے۔ زبردستی اور دکھلا وے کا پردہ دین و دنیا کے لحاظ سے کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
:ترجمہ : جب تجھ میں حیا نہ رہے تو تیرا جو جی چاہے کر(بخاری )
اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر، البتہ مردوں کو ان پر فضیلت ہے، اور اﷲ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے
پارہ 2 سورہ 2 سورہ البقرہ آیت 228
مزید یہ کہ عورتوں کے لئے انکی طبعی کمزوی اور اہم ذمہ داریوں مثلاً حمل ، ولادت ، رضاعت اور پرورش جیسے کاموں کی وجہ سے مراعات زیادہ اوردیگر ذمہ داریاں کم رکھی گئی ہیں۔اس کے بر عکس مردوں کو جسمانی اور اعصابی طور پر مضبوط بنایا گیا ہے اورتمام بیرونی ذمہ داریاں
اسلام نے بیرونی ذمہ داریوں کے تحت عورت کو باہر نکلنے کا مکلف ہی نہیں بنایا۔
اسلام نہیں چاہتاکہ عورتیں باہر نکلیں اوران پر بیرونی ذمہ داریوں کاکوئی دباؤ ہو۔ نہ ہی ان کو ستایا جائے اورنہ ہی نقصان پہنچایاجائے ۔
اسلام میں عورت کی ضرورتوں، سامانِ تفریح ،آرام اورمسائل کا حل غرض ساری امکانی صورتوں کا انتظام گھرکی چار دیواری کے اندراورمردوں کے ذمہ لگایاگیاہے۔چنانچہ اس حوالے سے اسلام کا نقطۂ نظر واضح اور دو ٹوک ہے ۔
خرابی کی چوتھی وجہ ۔۔۔۔۔ مرد حضرات کااحکام ستروحجاب پراز خودعمل نہ کرنا
اصل ذمہ داری مردوں کی ہے مثلاًغض بصر(نگاہ نیچی رکھنے ) کا حکم مردوعورت دونوں کیلئے ہے
مردوں کے لئے بھی بیوٹی پارلروں کا استعمال، بالوں کی تزئین وآرائش ، تنگ وچست لباس ،نیکروں کااستعمال اورگریبان کھلا رکھنا وغیرہ سب ممنوع ہیں۔
چنانچہ مرد حضرات بھی ستر وحجاب کے احکامات سے کسی طور پر مستثنیٰ نہیں ہے بلکہ ان کی ذمہ داریاں ازخود عمل کے حوالے سے زیادہ ہیں ۔ کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ کسی معاشرے میں مرد با حیا ہوں اور وہاں کی عورتیں بے حیا اور بے پردہ رہیں ۔
اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی پہچان ہو تو ستائی نہ جائیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے
پارہ 22 سورہ 33 سورہ الاحزاب آیت 59