سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس منفی تصویر کے اجاگر کرنے میں ہمارا کتنا ہاتھ ہے؟
کیا ہم نے کبھی کسی کوڑے کے ڈھیر پر کاغذ چنتے بچے کو پوچھا کہ کیا اس نے کھانا کھایا ہے؟ اس کی کیا پریشانیاں ہیں جن کے باعث وہ یہ کام کرنے پر مجبور ہے؟ کیا ہم نے کبھی اپنے گھریلو ملازموں (بچے) کی تعلیم کا فکر کیا؟ کیا ہم نے کسی ورکشاپ کے ’’استاد‘‘ کو اس بات پر آمادہ کیا کہ اپنی ورکشاپ کے چھوٹے صبح کے چار گھنٹے کسی سرکاری سکول میں ہی بھیج دے کہ جہاں کتابیں بھی مفت اور تعلیم بھی مفت؟ کیا ہم نے کسی ایسے طالب علم کی کفایت کی جو پڑھائی میں تو بہت اچھا ہو مگر گھریلو حالات کے باعث پڑھ نہ سکتا ہو؟ کیا ہم نے کبھی اپنے مال سے پوری زکوٰۃ نکال کر ایسے لوگوں کی فلاح پر خرچ کی؟ کیا ہم نے کبھی اپنی فصلوں سے ایمانداری سے عشر نکال کر ان لوگوں پر خرچ کیا؟ ذمہ دار ہم بھی ہیں۔ اگر آپ ناراض ہوں تو فقط یہ کہوں کہ ذمہ دار میں ہوں۔