برادر محترم، آپ نے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا۔ مبارکباد۔
آپ کا مؤقف دیکھ چکا ہوں، میرا مؤقف یہ ہے کہ "مغرب نے اپنا دھرم چھوڑ کر، قرآن کے اصولوں پر چلنا شروع کردیا۔ جس کی وجہ سے ترقی آئی۔"
سوال: آپ کو، آُ کی فراہم کردہ ، سود اور ٹیکس کی یہ تعریف کہاں سے ملتی ہے؟
سب سے پہلے سود کی تعریف کے بارے میں دیکھتے ہیں۔
ہم کو یہ تعریف ، سنی ازم (اسلام نہیں ) کے اصول سازوں سے ملتی ہے ، اس اصول کا قران حکیم میں کوئی ریفرنس نہیں ملتا۔ آپ نے فرمایا کہ "
قرض شدہ رقم پر اصل سے کچھ بھی زائد طلب کرنا سود ہے۔"
تو بنیادی سوال یہ ہے یہ رقم آئی کہاں سے؟ اگر آپ مجھے 4 لاکھ ڈالر قرض دے رہے ہیں تو یا تو آپ نے خود کمائی ہے یا کمائی کی کمائی (جیسے کرایہ) ہے یا پھر آپ کی زمین کی پیداوار ہے۔ وراثت میں ملی ہوئی رقم ، پر یہی اصول لاگو ہوگا کہ یا تو یہ رقم جس نے ورثہ چھوڑا، اس کی کمائی، یا کمائی کی کمائی یا پھر اس کی زمین کی پیداوار۔ اس لئے کہ اصل دولت تو صرف یہی ہے۔ آپ چاہیں تو آمدنی کی بہت سی صورتیں بنا سکتے ہیں لیکن وہ بھی انہی بنیادی آمدنی کے ذرائع سے پیدا ہوتی ہیں۔ یعنی رقم یا تو مزدوری ہے یا پھر پیداوار کی شکل 'کرنسی' میں ہے۔
ہم فرض کرلیتے ہیں کہ یہ آپ کی مزدوری ہے، میں یہ چار لاکھ ڈالر آپ سے ادھار لیتا ہوں۔ اور اس سے ایک مکان خریدتا ہوں ، اور مرنے سے پہلے وصیت کرجاتا ہوں کہ یہ مکان ، سید رافع کے پیسے سے ، خریدا گیا تھا، میرے مرنے کے بعد سید رافع کو یہ مکان بیچ کر، جو رقم حاصل ہو، تمام کی تمام رقم ادا کردی جائے؟
کیا میں نے "
قرض شدہ رقم پر اصل سے کچھ بھی زائد طلب کرنا سود ہے۔" کا اصول پامال کیا؟
جی نہیں؟
1۔ لیکن میں اس مکان میں 75 سال رہا، اس کا کرایہ آپ کے اصول کے مطابق آپ کا حق نہیں بنتا؟ اس طرح سارے کرائے دار حق بجانب بن جاتے ہیں کہ وہ کرایہ نا ادا کریں۔
2۔ اس کے علاوہ، جب ہم مزدور کی مزدوری کی کوئی قیمت نہیں رکھتے تو گویا میں نے آپ کی یا آپ کے آباء کی اپنی مزدوری یا ان کی زمین کی پیداوار کا فائیدہ اٹھایا لیکن ان کی مزدوری کو استعمال کرنے کی قیمت ادا نہیں کی ،
یہ بالکل ایسا ہے کہ میں آپ کے دو درجن مزدور اپنے پاس لے آؤں ، ان سے دس سال کام کرواؤں اور پھر واپس کردوں۔ ان کے کھانے اور پینے، ان کی صحت کا خرچہ ، ان کے بچوں کی تعلیم کا خرچا، سب آپ کے ذمے رہے
کیا کوئی بھی شخص ، اس غیر منطقی ، اصول پر عمل کرنے کے لئے تیار ہوگا؟
جی نہیں ؟
تو ایک مثال اور دیکھئے،
ایک ایکر زمین میں 75 سے 120 پاؤنڈ بیج ڈلتے ہیں۔ ہم آسانی کے لئے 100 پاؤنڈ رکھ لیتے ہیں۔ پچاس پاؤنڈ کا بیگ ساڑھے بارہ ڈالر کا ملتا ہے۔ گویا ایک ایکڑ زمین 25 ڈالر میں اور مزدوری ملا کر 50 ڈالر میں تیار ہوتی ہے۔ جس سے 25 بشل گیہوں پیدا ہوتا ہے۔ جس کی قیمت کا تخمینہ تقریباً 175 ڈالر بنتا ہے۔ میں آپ سے 100 ایکڑ زمین اور بیجوں کے لئے 5 ہزار ڈالر قرض لیتا ہوں اور 17500 ڈالر کی آمدنی سے آپ کو فصل بکنے کے بعد، آُ کے اصول اور تعریف کے مطابق، 5000 ڈالر واپس اور آپ کی زمین واپس دے دیتا ہوں۔ اور 12500 ڈالر کھا جاتا ہوں۔
کیا آپ کے اصول کے مطابق میں نے کچھ غلط کیا؟
جی نہیں؟
ایسی ہی درجنوں مثالیں میں آپ کو ہر انڈسٹری سے دے سکتا ہوں۔ آپ غریب سے غریب تر اور میں امیر سے امیر تر ہوتا جاؤں گا۔
تو یہ اصول بنیادی طور پر، غیر انصافی اور غیر منطقی ہے۔ اور سنی ازم کے پیروکار اس کو بغداد شریف سے امپورٹ کرکے سنی سنائی کے طور بناء سوچے سمجھے مانتے رہے ہیں۔ کچھ لوگ اسی اصول کو رسول اکرم سے منسوب روایات سے بھی ثابت کرتے ہیں۔ لیکن پھر یہ اصول "مزدور کی مزدوری، پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردو" کے اصول کو توڑ دیتا ہے۔
ممکن ہے کہ سابقہ ، سادہ جیسے معاشرے میں ، کسی درد مند یا صاحب عقل نے اپنی محدود معلومات کی بنیاد پر یہ اصول وضع کیا ہو لیکن یہ اصول قرآن حکیم کے فراہم کردہ اصولوں سے بہت ہی دور ہے۔
آئیے قرآن کے اصول دیکھتے ہیں، آُ خود ایک مغربی ملک میں قیام پزیر ہیں۔ ، خود دیکھئے کہ مالی معاملات میں ان اصولوں پر کتا عمل ہوتا ہے۔۔
سورہ البقرۃ، آیت 177
1۔ بیت المال کو اللہ کی محبت میں رقم ادا کر
2۔ قرابت داروں کے لئے، اور یتیموں کے لئے، اورملازموں کے لئے، اور مسافروں کے لئے، اور مانگنے والوں کے لئے، اور گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کیا جائے
3۔ زکوۃ ادا کرو
سورۃ التوبہ آیت نمبر 60 ،
1۔ بیت المال میں وصول شدہ ارقام ان ڈیپہارٹمنٹس کے لئے ہیں
2۔ غریبوں اور محتاجوں کی ویلفئیر کے لئے (پبلک ویلفئیر)
3۔ اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں کے لئے (آئی آر آیس جیسا ٹیکس کے وصولی کا سرکاری ادارہ)
4۔ اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو(یعنی علم پہنچانے کے لئے)
5۔ اور انسانی گردنوں کو آزاد کرانے میں (غلامی سے نجات، قید سے نجات، جرمانوں کی مد میں)
6۔ اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں (پبلک قرضے کی ریلیف)
7۔ اور اللہ کی راہ میں اور (ڈیفینس آف آئیڈیالوجیکل سٹیٹ)
8۔ مسافروں کے لئے (ذرائع آمد رفت کے انفرا سٹرکچر کی تعمیر)
سورۃ الانعام، آیت 141 ( اوپر نمبر 3 کے) سرکاری ادارے کو ٹیکس کب واجب الادا ہے؟ کسی بھی بڑھوتری کے ہوتے ہیں ، اللہ کا حق سب سے پہلے واجب الادا ہے۔ یہی رقم بیت المال کو ادا ہوگی، اور اس ٹیکس کو کھاجانے والے کو سزا ملے گی۔
1۔ اس (کھیتی اور پھل) کے کٹنے کے دن اس کا (اﷲ کی طرف سے مقرر کردہ) حق (بھی) ادا کر دیا کرو
سورۃ الانفال، آیت 41 (منافع یا سود کا کتنا حصہ ، اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے؟)
اور جان لو کہ کسی شے سے بھی بڑھوتری، منافع، اضافہ، ہو تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے
قرآن حکیم کے یہ وہ اصول ہیں ، جو منطقی بھی ہیں اور ثابت شدہ بھی ہیں، جن کو مغرب نے اپنایا اور پوپ کے دھرم سے سے جان بوجھ کر دور ہوتے چلے گئے۔ اس کی بڑی وجہ سلطنت عثمانیہ تھی کہ سارا یورپ ، اس سلطنت سے مرعوب تھا، اور جاننا چاہتا تھا کہ وہ کون سی وجوہات ہیں ، جن کی بنیاد پر یہ حکومت اتنی مظبوط ہے۔ ٹیکسٹ بکس میں ہم کو جا بجا یہ بحثیں ملتی ہیں جو اس وقت کے سمجھداروں نے کیں اور کس طرح ان مالیاتی اصول کو ایک بار پھر سے رائج کیا۔
اس کے برعکس، ہمیں "
قرض شدہ رقم پر اصل سے کچھ بھی زائد طلب کرنا سود ہے۔" کی تعریف کی بنیاد نا تو قرآن حکیم میں ملتی ہے ، نا ہی سنت میں اور نا ہی دین حنیفہ (یہودی، نصرانی، سلیمانی، داؤدی، یعقوبی، ابراہیمی) فرقوں کی کتب یا باقایت میں میں بھی نہیں ملتی۔ آج بھی دین حنیفہ (ابراہیمی ناتوں ، رشتوں) کے پیروکار ، آج بھی "تزید کہ" یعنی تیرے پاس جو بھی اضافہ ہو، یا زیادہ ہو پر عمل کرتے ہیں، یہی صورت حال نصرانی، سلیمانی، داؤدی اور یعقوبی فرقوں کی ہے۔ کہ وہ کسی بھی اضافہ کا 10 فی صد ادا کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اور منافع کے اس حصے کو یہ تمام سابقہ ادیان - اللہ کا حق - سمجھتے ہیں۔ ان کی بنیاد کی تصحیح ، قرآن حکیم میں بہت ہی واضح ہے کہ
1۔ 20 فی صد ٹیکس اس دن ، مرکزی حکومت کے بیت المال کو ادا کرو جس دن کمایا ہو،
2۔ جس نے منافع کا یہ پانچواں حصہ (ٹیکس) کھایا ، اس نے منافع (سود) میں سے اللہ کا حق (رباء) کھایا
بنیادی فرق یہ ہے کہ آپ گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ کا ڈھائی فی صد حصہ ، لکوئیڈ کیش رکھ کر رفاہ عامہ اور ترقیاتی کاموں میں خرچ کیا جائے گا
یا
آپ جی ڈی پی ، 20 فی صد، لکوئیڈ کیش رکھ کر رفاہ عامہ اور ترقیاتی کاموں میں خرچ کریں گے؟
یہ ذہن میں رکھئے کہ ساری قوم ، ٹیکس دیتی نہیں ۔۔۔۔ ٹیکس لیتی ہے، ان ترقیاتی کاموں کے لئے، جی ڈی پی کا کم از کم 20 فی صد فراہم کرنا ضروری ہے۔ اس طرح اس 20 فی صد سے بننے والے دفاعی نظام، سماجی نظام، ثقافتی نظام، مالی نظام، ، تجارتی نظام، سڑکوں کا انفرا سٹرکچر سے سب کے سب افراد فائیدہ اٹھاتے ہیں۔ اگر کسیہ سے بھی پوچھا جائے کہ وہ اپنے لئے منافع کا ڈھائی فی صد چنے گا یا 20 فی صد تو جواب 20 فی صد ہی ہوگا۔
آپ نے امریکہ کا ٹیکس درست پیش نہیں کیا
Measured for fiscal years 2001–2008, Federal spending under President Bush averaged 19.0% of GDP, just below his predecessor President Bill Clinton at 19.2% GDP,
امریکہ میں اٹھارا ہزار ڈالر سے کم کمانے والے کچھ بھی ادا نہیں کرتے، جب کہ اوسط ٹیکس ، جی ڈی پی کا 19.2% ہے ، بے بی بش کے زمانے میں صرف اعشاریہ 2 فی صد ٹیکس کم کرنے سے ٹیکس ریوینیو، جی ڈی پی (گروتھ، بڑھوتری، اضافہ، منافع کا صرف ) 17.1%
رہ گیا، جس کی وجہ سے امریکی معیشیت بہت بری طرح متاثر ہوئی۔
آج ہم دنیا کی منظم ترین معیشیت کو دیکھتے ہیں کہ جب یہ 20 فی صد کے لگ بھگ ٹیکس (زکواۃ، خیرات، صدقات، عشر) وصولتی ہے تو ہری بھری رہتی ہے، ورنہ مندی کا رحجان بڑھ جاتا ہے۔ کم ٹیکس وصولنے کی وجہ سے 2008 کا معاشی بحران کس کے سامنے نہیں؟
میں جان بوجھ کر مصنوعی پیداوار کے بارے میں نہیں لکھ رہا، امریکہ نے یہ ایک جرم کیا کہ پیسے چھاپ چھاپ کر مصنوعی پیداوار یا مصنوعی مزدوری کا دنیا سے فائیدہ اٹھایا۔ میں کے بارے میں بعد میں لکھوں گا، فی الحال موضوع پر رہتا ہوں۔
آپ یہ سب کچھ مانیں یا نا مانیں، سوال آپ سے یہ ہے کہ وہ کونسے جدید کمپیوٹر ماڈلز ، رسول اکرم محترم ، کے پاس تھے ، جن کی بنیاد پر 20 فی کا آپٹیمم (بہترین تر) ٹیکس کا حکم رب کریم نے دیا؟