کیا یورپ کی ترقی مذہب کو ترک کرنے کی مرہون منت ہے؟

آورکزئی

محفلین
جس خوبصورت تراشے ہوئے دیمک زدہ معاشرے کو اہل مغرب ترقی سمجھ رہے ہیں۔

مطلب یہی کہ دنیانوی ترقی کے لیے اب ہمیں مذہب کو ترک کرنا ہوگا۔۔۔ بھلے ہی قبر میں کچھ بھی ہو۔۔۔

الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا (46)

اسکا تو کچھ مطلب نہیں ہوگا پھر۔۔۔ نعوذباللہ ۔۔۔۔
کچھ لوگ یہاں وہاں بیٹھ کے یہاں وہاں کے ایسے ویسے لوگوں کے ایسے ویسے کتابیں پڑھ کر پتا نہیں ذہنوں کو کیا کیا ہوگا ہے۔۔۔
 

سید رافع

محفلین
مطلب یہی کہ دنیانوی ترقی کے لیے اب ہمیں مذہب کو ترک کرنا ہوگا۔

نہیں۔ دنیاوی امن و عدل کے لیے ہمیں میثاق مدینہ جیسے معاہدوں کی ضرورت ہے۔ مذہب پر خوب جم کر۔

کچھ لوگ یہاں وہاں بیٹھ کے یہاں وہاں کے ایسے ویسے لوگوں کے ایسے ویسے کتابیں پڑھ کر پتا نہیں ذہنوں کو کیا کیا ہوگا ہے۔۔۔

بعض اوقات مسائل بڑے ہوں تو قلم جواب دے ہی جاتا ہے۔ معذرت!
 

جاسم محمد

محفلین
یورپ میں 1980 تک ٪60 ٹیکس تھا۔ اب ٪50 فیصد سے کم ہوا ہے۔ ابھی میں پچھلے دنوں جرمنی میں تھا اور وہاں قریباًً ٪40 فیصد ٹیکس دے رہا تھا۔
یورپ کی زیادہ تر ریاستوں میں فلاحی پروگرامز چل رہے ہیں اس لئے جب تک وہاں کم از کم 50 فیصد تک ٹیکس اکٹھا نہ کیا جائے ، یہ فلاحی پروگرامز نہیں چل سکتے۔
 
سود:
قرض شدہ رقم پر اصل سے کچھ بھی زائد طلب کرنا سود ہے۔ جس طرح کا بھی سود ہے وہ جرم ہے۔

ٹیکس:
سال گزرنے پر حکومت کو رقم ادا کرنا، اگر سال گزرنے کے بعد بھی ایک مخصوص نصاب سے زائد رقم موجود ہے۔ رقم نہیں تو ٹیکس نہیں۔

برادر محترم، آپ نے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا۔ مبارکباد۔

آپ کا مؤقف دیکھ چکا ہوں، میرا مؤقف یہ ہے کہ "مغرب نے اپنا دھرم چھوڑ کر، قرآن کے اصولوں پر چلنا شروع کردیا۔ جس کی وجہ سے ترقی آئی۔"

سوال: آپ کو، آُ کی فراہم کردہ ، سود اور ٹیکس کی یہ تعریف کہاں سے ملتی ہے؟

سب سے پہلے سود کی تعریف کے بارے میں دیکھتے ہیں۔
ہم کو یہ تعریف ، سنی ازم (اسلام نہیں ) کے اصول سازوں سے ملتی ہے ، اس اصول کا قران حکیم میں کوئی ریفرنس نہیں ملتا۔ آپ نے فرمایا کہ "قرض شدہ رقم پر اصل سے کچھ بھی زائد طلب کرنا سود ہے۔"
تو بنیادی سوال یہ ہے یہ رقم آئی کہاں سے؟ اگر آپ مجھے 4 لاکھ ڈالر قرض دے رہے ہیں تو یا تو آپ نے خود کمائی ہے یا کمائی کی کمائی (جیسے کرایہ) ہے یا پھر آپ کی زمین کی پیداوار ہے۔ وراثت میں ملی ہوئی رقم ، پر یہی اصول لاگو ہوگا کہ یا تو یہ رقم جس نے ورثہ چھوڑا، اس کی کمائی، یا کمائی کی کمائی یا پھر اس کی زمین کی پیداوار۔ اس لئے کہ اصل دولت تو صرف یہی ہے۔ آپ چاہیں تو آمدنی کی بہت سی صورتیں بنا سکتے ہیں لیکن وہ بھی انہی بنیادی آمدنی کے ذرائع سے پیدا ہوتی ہیں۔ یعنی رقم یا تو مزدوری ہے یا پھر پیداوار کی شکل 'کرنسی' میں ہے۔

ہم فرض کرلیتے ہیں کہ یہ آپ کی مزدوری ہے، میں یہ چار لاکھ ڈالر آپ سے ادھار لیتا ہوں۔ اور اس سے ایک مکان خریدتا ہوں ، اور مرنے سے پہلے وصیت کرجاتا ہوں کہ یہ مکان ، سید رافع کے پیسے سے ، خریدا گیا تھا، میرے مرنے کے بعد سید رافع کو یہ مکان بیچ کر، جو رقم حاصل ہو، تمام کی تمام رقم ادا کردی جائے؟

کیا میں نے "قرض شدہ رقم پر اصل سے کچھ بھی زائد طلب کرنا سود ہے۔" کا اصول پامال کیا؟
جی نہیں؟

1۔ لیکن میں اس مکان میں 75 سال رہا، اس کا کرایہ آپ کے اصول کے مطابق آپ کا حق نہیں بنتا؟ اس طرح سارے کرائے دار حق بجانب بن جاتے ہیں کہ وہ کرایہ نا ادا کریں۔
2۔ اس کے علاوہ، جب ہم مزدور کی مزدوری کی کوئی قیمت نہیں رکھتے تو گویا میں نے آپ کی یا آپ کے آباء کی اپنی مزدوری یا ان کی زمین کی پیداوار کا فائیدہ اٹھایا لیکن ان کی مزدوری کو استعمال کرنے کی قیمت ادا نہیں کی ،

یہ بالکل ایسا ہے کہ میں آپ کے دو درجن مزدور اپنے پاس لے آؤں ، ان سے دس سال کام کرواؤں اور پھر واپس کردوں۔ ان کے کھانے اور پینے، ان کی صحت کا خرچہ ، ان کے بچوں کی تعلیم کا خرچا، سب آپ کے ذمے رہے :)

کیا کوئی بھی شخص ، اس غیر منطقی ، اصول پر عمل کرنے کے لئے تیار ہوگا؟

جی نہیں ؟

تو ایک مثال اور دیکھئے،
ایک ایکر زمین میں 75 سے 120 پاؤنڈ بیج ڈلتے ہیں۔ ہم آسانی کے لئے 100 پاؤنڈ رکھ لیتے ہیں۔ پچاس پاؤنڈ کا بیگ ساڑھے بارہ ڈالر کا ملتا ہے۔ گویا ایک ایکڑ زمین 25 ڈالر میں اور مزدوری ملا کر 50 ڈالر میں تیار ہوتی ہے۔ جس سے 25 بشل گیہوں پیدا ہوتا ہے۔ جس کی قیمت کا تخمینہ تقریباً 175 ڈالر بنتا ہے۔ میں آپ سے 100 ایکڑ زمین اور بیجوں کے لئے 5 ہزار ڈالر قرض لیتا ہوں اور 17500 ڈالر کی آمدنی سے آپ کو فصل بکنے کے بعد، آُ کے اصول اور تعریف کے مطابق، 5000 ڈالر واپس اور آپ کی زمین واپس دے دیتا ہوں۔ اور 12500 ڈالر کھا جاتا ہوں۔

کیا آپ کے اصول کے مطابق میں نے کچھ غلط کیا؟
جی نہیں؟

ایسی ہی درجنوں مثالیں میں آپ کو ہر انڈسٹری سے دے سکتا ہوں۔ آپ غریب سے غریب تر اور میں امیر سے امیر تر ہوتا جاؤں گا۔

تو یہ اصول بنیادی طور پر، غیر انصافی اور غیر منطقی ہے۔ اور سنی ازم کے پیروکار اس کو بغداد شریف سے امپورٹ کرکے سنی سنائی کے طور بناء سوچے سمجھے مانتے رہے ہیں۔ کچھ لوگ اسی اصول کو رسول اکرم سے منسوب روایات سے بھی ثابت کرتے ہیں۔ لیکن پھر یہ اصول "مزدور کی مزدوری، پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردو" کے اصول کو توڑ دیتا ہے۔

ممکن ہے کہ سابقہ ، سادہ جیسے معاشرے میں ، کسی درد مند یا صاحب عقل نے اپنی محدود معلومات کی بنیاد پر یہ اصول وضع کیا ہو لیکن یہ اصول قرآن حکیم کے فراہم کردہ اصولوں سے بہت ہی دور ہے۔

آئیے قرآن کے اصول دیکھتے ہیں، آُ خود ایک مغربی ملک میں قیام پزیر ہیں۔ ، خود دیکھئے کہ مالی معاملات میں ان اصولوں پر کتا عمل ہوتا ہے۔۔

سورہ البقرۃ، آیت 177
1۔ بیت المال کو اللہ کی محبت میں رقم ادا کر
2۔ قرابت داروں کے لئے، اور یتیموں کے لئے، اورملازموں کے لئے، اور مسافروں کے لئے، اور مانگنے والوں کے لئے، اور گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کیا جائے
3۔ زکوۃ ادا کرو

سورۃ التوبہ آیت نمبر 60 ،
1۔ بیت المال میں وصول شدہ ارقام ان ڈیپہارٹمنٹس کے لئے ہیں
2۔ غریبوں اور محتاجوں کی ویلفئیر کے لئے (پبلک ویلفئیر)
3۔ اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں کے لئے (آئی آر آیس جیسا ٹیکس کے وصولی کا سرکاری ادارہ)
4۔ اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو(یعنی علم پہنچانے کے لئے)
5۔ اور انسانی گردنوں کو آزاد کرانے میں (غلامی سے نجات، قید سے نجات، جرمانوں کی مد میں)
6۔ اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں (پبلک قرضے کی ریلیف)
7۔ اور اللہ کی راہ میں اور (ڈیفینس آف آئیڈیالوجیکل سٹیٹ)
8۔ مسافروں کے لئے (ذرائع آمد رفت کے انفرا سٹرکچر کی تعمیر)

سورۃ الانعام، آیت 141 ( اوپر نمبر 3 کے) سرکاری ادارے کو ٹیکس کب واجب الادا ہے؟ کسی بھی بڑھوتری کے ہوتے ہیں ، اللہ کا حق سب سے پہلے واجب الادا ہے۔ یہی رقم بیت المال کو ادا ہوگی، اور اس ٹیکس کو کھاجانے والے کو سزا ملے گی۔
1۔ اس (کھیتی اور پھل) کے کٹنے کے دن اس کا (اﷲ کی طرف سے مقرر کردہ) حق (بھی) ادا کر دیا کرو

سورۃ الانفال، آیت 41 (منافع یا سود کا کتنا حصہ ، اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے؟)
اور جان لو کہ کسی شے سے بھی بڑھوتری، منافع، اضافہ، ہو تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے

قرآن حکیم کے یہ وہ اصول ہیں ، جو منطقی بھی ہیں اور ثابت شدہ بھی ہیں، جن کو مغرب نے اپنایا اور پوپ کے دھرم سے سے جان بوجھ کر دور ہوتے چلے گئے۔ اس کی بڑی وجہ سلطنت عثمانیہ تھی کہ سارا یورپ ، اس سلطنت سے مرعوب تھا، اور جاننا چاہتا تھا کہ وہ کون سی وجوہات ہیں ، جن کی بنیاد پر یہ حکومت اتنی مظبوط ہے۔ ٹیکسٹ بکس میں ہم کو جا بجا یہ بحثیں ملتی ہیں جو اس وقت کے سمجھداروں نے کیں اور کس طرح ان مالیاتی اصول کو ایک بار پھر سے رائج کیا۔

اس کے برعکس، ہمیں "قرض شدہ رقم پر اصل سے کچھ بھی زائد طلب کرنا سود ہے۔" کی تعریف کی بنیاد نا تو قرآن حکیم میں ملتی ہے ، نا ہی سنت میں اور نا ہی دین حنیفہ (یہودی، نصرانی، سلیمانی، داؤدی، یعقوبی، ابراہیمی) فرقوں کی کتب یا باقایت میں میں بھی نہیں ملتی۔ آج بھی دین حنیفہ (ابراہیمی ناتوں ، رشتوں) کے پیروکار ، آج بھی "تزید کہ" یعنی تیرے پاس جو بھی اضافہ ہو، یا زیادہ ہو پر عمل کرتے ہیں، یہی صورت حال نصرانی، سلیمانی، داؤدی اور یعقوبی فرقوں کی ہے۔ کہ وہ کسی بھی اضافہ کا 10 فی صد ادا کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اور منافع کے اس حصے کو یہ تمام سابقہ ادیان - اللہ کا حق - سمجھتے ہیں۔ ان کی بنیاد کی تصحیح ، قرآن حکیم میں بہت ہی واضح ہے کہ

1۔ 20 فی صد ٹیکس اس دن ، مرکزی حکومت کے بیت المال کو ادا کرو جس دن کمایا ہو،
2۔ جس نے منافع کا یہ پانچواں حصہ (ٹیکس) کھایا ، اس نے منافع (سود) میں سے اللہ کا حق (رباء) کھایا

بنیادی فرق یہ ہے کہ آپ گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ کا ڈھائی فی صد حصہ ، لکوئیڈ کیش رکھ کر رفاہ عامہ اور ترقیاتی کاموں میں خرچ کیا جائے گا
یا
آپ جی ڈی پی ، 20 فی صد، لکوئیڈ کیش رکھ کر رفاہ عامہ اور ترقیاتی کاموں میں خرچ کریں گے؟

یہ ذہن میں رکھئے کہ ساری قوم ، ٹیکس دیتی نہیں ۔۔۔۔ ٹیکس لیتی ہے، ان ترقیاتی کاموں کے لئے، جی ڈی پی کا کم از کم 20 فی صد فراہم کرنا ضروری ہے۔ اس طرح اس 20 فی صد سے بننے والے دفاعی نظام، سماجی نظام، ثقافتی نظام، مالی نظام، ، تجارتی نظام، سڑکوں کا انفرا سٹرکچر سے سب کے سب افراد فائیدہ اٹھاتے ہیں۔ اگر کسیہ سے بھی پوچھا جائے کہ وہ اپنے لئے منافع کا ڈھائی فی صد چنے گا یا 20 فی صد تو جواب 20 فی صد ہی ہوگا۔

آپ نے امریکہ کا ٹیکس درست پیش نہیں کیا
Measured for fiscal years 2001–2008, Federal spending under President Bush averaged 19.0% of GDP, just below his predecessor President Bill Clinton at 19.2% GDP,

امریکہ میں اٹھارا ہزار ڈالر سے کم کمانے والے کچھ بھی ادا نہیں کرتے، جب کہ اوسط ٹیکس ، جی ڈی پی کا 19.2% ہے ، بے بی بش کے زمانے میں صرف اعشاریہ 2 فی صد ٹیکس کم کرنے سے ٹیکس ریوینیو، جی ڈی پی (گروتھ، بڑھوتری، اضافہ، منافع کا صرف ) 17.1% رہ گیا، جس کی وجہ سے امریکی معیشیت بہت بری طرح متاثر ہوئی۔

آج ہم دنیا کی منظم ترین معیشیت کو دیکھتے ہیں کہ جب یہ 20 فی صد کے لگ بھگ ٹیکس (زکواۃ، خیرات، صدقات، عشر) وصولتی ہے تو ہری بھری رہتی ہے، ورنہ مندی کا رحجان بڑھ جاتا ہے۔ کم ٹیکس وصولنے کی وجہ سے 2008 کا معاشی بحران کس کے سامنے نہیں؟

میں جان بوجھ کر مصنوعی پیداوار کے بارے میں نہیں لکھ رہا، امریکہ نے یہ ایک جرم کیا کہ پیسے چھاپ چھاپ کر مصنوعی پیداوار یا مصنوعی مزدوری کا دنیا سے فائیدہ اٹھایا۔ میں کے بارے میں بعد میں لکھوں گا، فی الحال موضوع پر رہتا ہوں۔

آپ یہ سب کچھ مانیں یا نا مانیں، سوال آپ سے یہ ہے کہ وہ کونسے جدید کمپیوٹر ماڈلز ، رسول اکرم محترم ، کے پاس تھے ، جن کی بنیاد پر 20 فی کا آپٹیمم (بہترین تر) ٹیکس کا حکم رب کریم نے دیا؟
 
آخری تدوین:
مطلب یہی کہ دنیانوی ترقی کے لیے اب ہمیں مذہب کو ترک کرنا ہوگا۔۔۔ بھلے ہی قبر میں کچھ بھی ہو۔۔۔

الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا (46)

اسکا تو کچھ مطلب نہیں ہوگا پھر۔۔۔ نعوذباللہ ۔۔۔۔
کچھ لوگ یہاں وہاں بیٹھ کے یہاں وہاں کے ایسے ویسے لوگوں کے ایسے ویسے کتابیں پڑھ کر پتا نہیں ذہنوں کو کیا کیا ہوگا ہے۔۔۔

پرادر محترم، اس آیت کا مفہوم، یہ ہے کہ بندہ، مال کے لئے، اپنی ذاتی خواہشات کی پیروی کرے، اس آیت کا اطلاق مالی معاملات پر کس طرح ہوگا،
قرآنی احکامات کے قریب ہونا اگر کسی دھرم کو ترک کرنے کے مترادف ہے تو ضرور کرنا ہوگا۔ چاہے وہ 'ہندو مت' ہو، چاہے وہ 'سنی مت' ہو یا چاہے وہ 'شیعہ مت' ہو، میرا سابقہ مراسلہ پڑھئے ، آپ کو قرآنی احکامات منطق اور عقل سے بھرپور نظر آئیں گے، نا صرف یہ بلکہ ترقی یافتہ قومیں ، انہیں اصولوں پر چل کر ترقی کی راہ پر چل نکلی ہیں۔ انکو اپنا دھرم، "پوپ مت " ترک کرنا پڑا۔

بنیادی سوال آج بھی یہی ہے کہ "بغداد شریف" یا "قرآن شریف" ؟؟
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
تو یہ اصول بنیادی طور پر، غیر انصافی اور غیر منطقی ہے۔ اور سنی ازم کے پیروکار اس کو بغداد شریف سے امپورٹ کرکے سنی سنائی کے طور بناء سوچے سمجھے مانتے رہے ہیں۔ کچھ لوگ اسی اصول کو رسول اکرم سے منسوب روایات سے بھی ثابت کرتے ہیں۔ لیکن پھر یہ اصول "مزدور کی مزدوری، پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردو" کے اصول کو توڑ دیتا ہے۔
یہی تو مسئلہ ہے۔ یہ اسلام اسی کو سمجھتے ہیں جو ان کا اپنا فرقہ یا مسلک کہتا ہے۔ اور یہی سارے فساد کی جڑ ہے۔
 

سید رافع

محفلین
برادر محترم، آپ نے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا۔ مبارکباد۔

آپ کا مؤقف دیکھ چکا ہوں، میرا مؤقف یہ ہے کہ "مغرب نے اپنا دھرم چھوڑ کر، قرآن کے اصولوں پر چلنا شروع کردیا۔ جس کی وجہ سے ترقی آئی۔"

سوال: آپ کو، آُ کی فراہم کردہ ، سود اور ٹیکس کی یہ تعریف کہاں سے ملتی ہے؟

سب سے پہلے سود کی تعریف کے بارے میں دیکھتے ہیں۔
ہم کو یہ تعریف ، سنی ازم (اسلام نہیں ) کے اصول سازوں سے ملتی ہے ، اس اصول کا قران حکیم میں کوئی ریفرنس نہیں ملتا۔ آپ نے فرمایا کہ "قرض شدہ رقم پر اصل سے کچھ بھی زائد طلب کرنا سود ہے۔"
تو بنیادی سوال یہ ہے یہ رقم آئی کہاں سے؟ اگر آپ مجھے 4 لاکھ ڈالر قرض دے رہے ہیں تو یا تو آپ نے خود کمائی ہے یا کمائی کی کمائی (جیسے کرایہ) ہے یا پھر آپ کی زمین کی پیداوار ہے۔ وراثت میں ملی ہوئی رقم ، پر یہی اصول لاگو ہوگا کہ یا تو یہ رقم جس نے ورثہ چھوڑا، اس کی کمائی، یا کمائی کی کمائی یا پھر اس کی زمین کی پیداوار۔ اس لئے کہ اصل دولت تو صرف یہی ہے۔ آپ چاہیں تو آمدنی کی بہت سی صورتیں بنا سکتے ہیں لیکن وہ بھی انہی بنیادی آمدنی کے ذرائع سے پیدا ہوتی ہیں۔ یعنی رقم یا تو مزدوری ہے یا پھر پیداوار کی شکل 'کرنسی' میں ہے۔

ہم فرض کرلیتے ہیں کہ یہ آپ کی مزدوری ہے، میں یہ چار لاکھ ڈالر آپ سے ادھار لیتا ہوں۔ اور اس سے ایک مکان خریدتا ہوں ، اور مرنے سے پہلے وصیت کرجاتا ہوں کہ یہ مکان ، سید رافع کے پیسے سے ، خریدا گیا تھا، میرے مرنے کے بعد سید رافع کو یہ مکان بیچ کر، جو رقم حاصل ہو، تمام کی تمام رقم ادا کردی جائے؟

کیا میں نے "قرض شدہ رقم پر اصل سے کچھ بھی زائد طلب کرنا سود ہے۔" کا اصول پامال کیا؟
جی نہیں؟

1۔ لیکن میں اس مکان میں 75 سال رہا، اس کا کرایہ آپ کے اصول کے مطابق آپ کا حق نہیں بنتا؟ اس طرح سارے کرائے دار حق بجانب بن جاتے ہیں کہ وہ کرایہ نا ادا کریں۔
2۔ اس کے علاوہ، جب ہم مزدور کی مزدوری کی کوئی قیمت نہیں رکھتے تو گویا میں نے آپ کی یا آپ کے آباء کی اپنی مزدوری یا ان کی زمین کی پیداوار کا فائیدہ اٹھایا لیکن ان کی مزدوری کو استعمال کرنے کی قیمت ادا نہیں کی ،

یہ بالکل ایسا ہے کہ میں آپ کے دو درجن مزدور اپنے پاس لے آؤں ، ان سے دس سال کام کرواؤں اور پھر واپس کردوں۔ ان کے کھانے اور پینے، ان کی صحت کا خرچہ ، ان کے بچوں کی تعلیم کا خرچا، سب آپ کے ذمے رہے :)

کیا کوئی بھی شخص ، اس غیر منطقی ، اصول پر عمل کرنے کے لئے تیار ہوگا؟

جی نہیں ؟

تو ایک مثال اور دیکھئے،
ایک ایکر زمین میں 75 سے 120 پاؤنڈ بیج ڈلتے ہیں۔ ہم آسانی کے لئے 100 پاؤنڈ رکھ لیتے ہیں۔ پچاس پاؤنڈ کا بیگ ساڑھے بارہ ڈالر کا ملتا ہے۔ گویا ایک ایکڑ زمین 25 ڈالر میں اور مزدوری ملا کر 50 ڈالر میں تیار ہوتی ہے۔ جس سے 25 بشل گیہوں پیدا ہوتا ہے۔ جس کی قیمت کا تخمینہ تقریباً 175 ڈالر بنتا ہے۔ میں آپ سے 100 ایکڑ زمین اور بیجوں کے لئے 5 ہزار ڈالر قرض لیتا ہوں اور 17500 ڈالر کی آمدنی سے آپ کو فصل بکنے کے بعد، آُ کے اصول اور تعریف کے مطابق، 5000 ڈالر واپس اور آپ کی زمین واپس دے دیتا ہوں۔ اور 12500 ڈالر کھا جاتا ہوں۔

کیا آپ کے اصول کے مطابق میں نے کچھ غلط کیا؟
جی نہیں؟

ایسی ہی درجنوں مثالیں میں آپ کو ہر انڈسٹری سے دے سکتا ہوں۔ آپ غریب سے غریب تر اور میں امیر سے امیر تر ہوتا جاؤں گا۔

تو یہ اصول بنیادی طور پر، غیر انصافی اور غیر منطقی ہے۔ اور سنی ازم کے پیروکار اس کو بغداد شریف سے امپورٹ کرکے سنی سنائی کے طور بناء سوچے سمجھے مانتے رہے ہیں۔ کچھ لوگ اسی اصول کو رسول اکرم سے منسوب روایات سے بھی ثابت کرتے ہیں۔ لیکن پھر یہ اصول "مزدور کی مزدوری، پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردو" کے اصول کو توڑ دیتا ہے۔

ممکن ہے کہ سابقہ ، سادہ جیسے معاشرے میں ، کسی درد مند یا صاحب عقل نے اپنی محدود معلومات کی بنیاد پر یہ اصول وضع کیا ہو لیکن یہ اصول قرآن حکیم کے فراہم کردہ اصولوں سے بہت ہی دور ہے۔

آئیے قرآن کے اصول دیکھتے ہیں، آُ خود ایک مغربی ملک میں قیام پزیر ہیں۔ ، خود دیکھئے کہ مالی معاملات میں ان اصولوں پر کتا عمل ہوتا ہے۔۔

سورہ البقرۃ، آیت 177
1۔ بیت المال کو اللہ کی محبت میں رقم ادا کر
2۔ قرابت داروں کے لئے، اور یتیموں کے لئے، اورملازموں کے لئے، اور مسافروں کے لئے، اور مانگنے والوں کے لئے، اور گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کیا جائے
3۔ زکوۃ ادا کرو

سورۃ التوبہ آیت نمبر 60 ،
1۔ بیت المال میں وصول شدہ ارقام ان ڈیپہارٹمنٹس کے لئے ہیں
2۔ غریبوں اور محتاجوں کی ویلفئیر کے لئے (پبلک ویلفئیر)
3۔ اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں کے لئے (آئی آر آیس جیسا ٹیکس کے وصولی کا سرکاری ادارہ)
4۔ اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو(یعنی علم پہنچانے کے لئے)
5۔ اور انسانی گردنوں کو آزاد کرانے میں (غلامی سے نجات، قید سے نجات، جرمانوں کی مد میں)
6۔ اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں (پبلک قرضے کی ریلیف)
7۔ اور اللہ کی راہ میں اور (ڈیفینس آف آئیڈیالوجیکل سٹیٹ)
8۔ مسافروں کے لئے (ذرائع آمد رفت کے انفرا سٹرکچر کی تعمیر)

سورۃ الانعام، آیت 141 ( اوپر نمبر 3 کے) سرکاری ادارے کو ٹیکس کب واجب الادا ہے؟ کسی بھی بڑھوتری کے ہوتے ہیں ، اللہ کا حق سب سے پہلے واجب الادا ہے۔ یہی رقم بیت المال کو ادا ہوگی، اور اس ٹیکس کو کھاجانے والے کو سزا ملے گی۔
1۔ اس (کھیتی اور پھل) کے کٹنے کے دن اس کا (اﷲ کی طرف سے مقرر کردہ) حق (بھی) ادا کر دیا کرو

سورۃ الانفال، آیت 41 (منافع یا سود کا کتنا حصہ ، اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے؟)
اور جان لو کہ کسی شے سے بھی بڑھوتری، منافع، اضافہ، ہو تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے

قرآن حکیم کے یہ وہ اصول ہیں ، جو منطقی بھی ہیں اور ثابت شدہ بھی ہیں، جن کو مغرب نے اپنایا اور پوپ کے دھرم سے سے جان بوجھ کر دور ہوتے چلے گئے۔ اس کی بڑی وجہ سلطنت عثمانیہ تھی کہ سارا یورپ ، اس سلطنت سے مرعوب تھا، اور جاننا چاہتا تھا کہ وہ کون سی وجوہات ہیں ، جن کی بنیاد پر یہ حکومت اتنی مظبوط ہے۔ ٹیکسٹ بکس میں ہم کو جا بجا یہ بحثیں ملتی ہیں جو اس وقت کے سمجھداروں نے کیں اور کس طرح ان مالیاتی اصول کو ایک بار پھر سے رائج کیا۔

اس کے برعکس، ہمیں "قرض شدہ رقم پر اصل سے کچھ بھی زائد طلب کرنا سود ہے۔" کی تعریف کی بنیاد نا تو قرآن حکیم میں ملتی ہے ، نا ہی سنت میں اور نا ہی دین حنیفہ (یہودی، نصرانی، سلیمانی، داؤدی، یعقوبی، ابراہیمی) فرقوں کی کتب یا باقایت میں میں بھی نہیں ملتی۔ آج بھی دین حنیفہ (ابراہیمی ناتوں ، رشتوں) کے پیروکار ، آج بھی "تزید کہ" یعنی تیرے پاس جو بھی اضافہ ہو، یا زیادہ ہو پر عمل کرتے ہیں، یہی صورت حال نصرانی، سلیمانی، داؤدی اور یعقوبی فرقوں کی ہے۔ کہ وہ کسی بھی اضافہ کا 10 فی صد ادا کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اور منافع کے اس حصے کو یہ تمام سابقہ ادیان - اللہ کا حق - سمجھتے ہیں۔ ان کی بنیاد کی تصحیح ، قرآن حکیم میں بہت ہی واضح ہے کہ

1۔ 20 فی صد ٹیکس اس دن ، مرکزی حکومت کے بیت المال کو ادا کرو جس دن کمایا ہو،
2۔ جس نے منافع کا یہ پانچواں حصہ (ٹیکس) کھایا ، اس نے منافع (سود) میں سے اللہ کا حق (رباء) کھایا

بنیادی فرق یہ ہے کہ آپ گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ کا ڈھائی فی صد حصہ ، لکوئیڈ کیش رکھ کر رفاہ عامہ اور ترقیاتی کاموں میں خرچ کیا جائے گا
یا
آپ جی ڈی پی ، 20 فی صد، لکوئیڈ کیش رکھ کر رفاہ عامہ اور ترقیاتی کاموں میں خرچ کریں گے؟

یہ ذہن میں رکھئے کہ ساری قوم ، ٹیکس دیتی نہیں ۔۔۔۔ ٹیکس لیتی ہے، ان ترقیاتی کاموں کے لئے، جی ڈی پی کا کم از کم 20 فی صد فراہم کرنا ضروری ہے۔ اس طرح اس 20 فی صد سے بننے والے دفاعی نظام، سماجی نظام، ثقافتی نظام، مالی نظام، ، تجارتی نظام، سڑکوں کا انفرا سٹرکچر سے سب کے سب افراد فائیدہ اٹھاتے ہیں۔ اگر کسیہ سے بھی پوچھا جائے کہ وہ اپنے لئے منافع کا ڈھائی فی صد چنے گا یا 20 فی صد تو جواب 20 فی صد ہی ہوگا۔

آپ نے امریکہ کا ٹیکس درست پیش نہیں کیا
Measured for fiscal years 2001–2008, Federal spending under President Bush averaged 19.0% of GDP, just below his predecessor President Bill Clinton at 19.2% GDP,

امریکہ میں اٹھارا ہزار ڈالر سے کم کمانے والے کچھ بھی ادا نہیں کرتے، جب کہ اوسط ٹیکس ، جی ڈی پی کا 19.2% ہے ، بے بی بش کے زمانے میں صرف اعشاریہ 2 فی صد ٹیکس کم کرنے سے ٹیکس ریوینیو، جی ڈی پی (گروتھ، بڑھوتری، اضافہ، منافع کا صرف ) 17.1% رہ گیا، جس کی وجہ سے امریکی معیشیت بہت بری طرح متاثر ہوئی۔

آج ہم دنیا کی منظم ترین معیشیت کو دیکھتے ہیں کہ جب یہ 20 فی صد کے لگ بھگ ٹیکس (زکواۃ، خیرات، صدقات، عشر) وصولتی ہے تو ہری بھری رہتی ہے، ورنہ مندی کا رحجان بڑھ جاتا ہے۔ کم ٹیکس وصولنے کی وجہ سے 2008 کا معاشی بحران کس کے سامنے نہیں؟

میں جان بوجھ کر مصنوعی پیداوار کے بارے میں نہیں لکھ رہا، امریکہ نے یہ ایک جرم کیا کہ پیسے چھاپ چھاپ کر مصنوعی پیداوار یا مصنوعی مزدوری کا دنیا سے فائیدہ اٹھایا۔ میں کے بارے میں بعد میں لکھوں گا، فی الحال موضوع پر رہتا ہوں۔

آپ یہ سب کچھ مانیں یا نا مانیں، سوال آپ سے یہ ہے کہ وہ کونسے جدید کمپیوٹر ماڈلز ، رسول اکرم محترم ، کے پاس تھے ، جن کی بنیاد پر 20 فی کا آپٹیمم (بہترین تر) ٹیکس کا حکم رب کریم نے دیا؟


کیونکہ آپ نے سورہ بقرہ (گائے والی سورہ) کا حوالہ دیا، اس لیے ہمیں چاہیے کہ گائے والوں کی طرح نہ ہوجائیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ چاہوں گا کہ ہمیں چاہیے کہ بحث کے معاملے میں ہم بنی اسرائیل کی طرح مین میخ نکالنے کے بجائے اصل بات پر توجہ دیں۔ اصل مسئلہ دولت کا ارتکاز ہے۔ جو کہ اظہر من الشمس ہے۔ اسکو حل کرنا ہے۔

ہدیۃ آیات 67 تا 77 سورہ بقرہ حاضر خدمت ہیں۔

"اس قسم کی گائے تو بہت ہیں پتہ نہیں چلتا، اگر اللہ نے چاہا تو ہم ہدایت والے ہوجائیں گے" 2-70
 

سید رافع

محفلین
اسکو کہتے ہیں غور سے نہ پڑھنا۔

نیو ورلڈ آرڈر آف پیس کے تحت تو یہ تعریف بنتی ہے:

برادر محترم، آپ نے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا۔ مبارکباد۔

یہ تمام تعریفیں نہ ہی اسلامی ہیں، نہ ہی کسی فلاحی ریاست کے ماڈل پر مبنی ہیں۔ یہ ایک عقلی دستاویز "نیو ورلڈ آرڈر آف پیس" کے لیے ورکنگ ڈیفینشین ہیں۔ جو مسلم اور غیر مسلم کے لیے یکساں مفید ہیں۔ موجودہ دور کے اعتبار سے جلد سمجھ میں آنے والی ہیں۔ اصل مقصد دولت کی صحیح تقسیم اور اسکو ارتکاز سے روکنا جو موجودہ دور میں عدل کرنے کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
 

سید رافع

محفلین
مغرب نے اپنا دھرم چھوڑ کر، قرآن کے اصولوں پر چلنا شروع کردیا۔ جس کی وجہ سے ترقی آئی۔

قرآن کی علم دوستی انہوں نے لے لی ہے اور مادے کی طرح طرح کی شکلیں دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں جس سے لوگ دنگ ہیں۔ قرآن کے روحانی نظام سے انکا کوئی تعلق نہیں۔
 

سید رافع

محفلین

سید رافع

محفلین
آپ نے فرمایا کہ "قرض شدہ رقم پر اصل سے کچھ بھی زائد طلب کرنا سود ہے۔"
تو بنیادی سوال یہ ہے یہ رقم آئی کہاں سے؟ اگر آپ مجھے 4 لاکھ ڈالر قرض دے رہے ہیں تو یا تو آپ نے خود کمائی ہے یا کمائی کی کمائی (جیسے کرایہ) ہے یا پھر آپ کی زمین کی پیداوار ہے۔ وراثت میں ملی ہوئی رقم ، پر یہی اصول لاگو ہوگا کہ یا تو یہ رقم جس نے ورثہ چھوڑا، اس کی کمائی، یا کمائی کی کمائی یا پھر اس کی زمین کی پیداوار۔ اس لئے کہ اصل دولت تو صرف یہی ہے۔ آپ چاہیں تو آمدنی کی بہت سی صورتیں بنا سکتے ہیں لیکن وہ بھی انہی بنیادی آمدنی کے ذرائع سے پیدا ہوتی ہیں۔ یعنی رقم یا تو مزدوری ہے یا پھر پیداوار کی شکل 'کرنسی' میں ہے۔

ہم فرض کرلیتے ہیں کہ یہ آپ کی مزدوری ہے، میں یہ چار لاکھ ڈالر آپ سے ادھار لیتا ہوں۔ اور اس سے ایک مکان خریدتا ہوں ، اور مرنے سے پہلے وصیت کرجاتا ہوں کہ یہ مکان ، سید رافع کے پیسے سے ، خریدا گیا تھا، میرے مرنے کے بعد سید رافع کو یہ مکان بیچ کر، جو رقم حاصل ہو، تمام کی تمام رقم ادا کردی جائے؟

کیا میں نے "قرض شدہ رقم پر اصل سے کچھ بھی زائد طلب کرنا سود ہے۔" کا اصول پامال کیا؟
جی نہیں؟

اپنی تحریر کے اس حصے میں جہاں تک میں سمجھا ایک مثال دی ہے کہ کمائی کی مندرجہ ذیل 3 اقسام ہیں:
  1. خود محنت کر کے کمائی
  2. کمائی کی کمائی (جیسے سرمایہ کاری مثلاً کرایہ)
  3. زمین کی پیداوار
اگر کسی کو وراثت میں بھی کوئی مال ملے تو وہ بھی انہی ذریعوں سے کمایا ہوا ہو گا۔

آپ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص 4 لاکھ ڈالر کسی کو قرضہ دے۔ اب وہ قرضدار شخص ان 4 لاکھ ڈالر کا ایک مکان خرید لے۔ اب وہ قرضدار شخص مرنے سے قبل وصیت کرے کے یہ گھر اب جتنے کا بکے وہ سب کی سب رقم قرض دینے والے کو دے دینا۔ وہ گھر 3 لاکھ ڈالر کا بھی بک سکتا ہے۔ 4 لاکھ ڈالر کا بھی اور 5 لاکھ ڈالر کا بھی بک سکتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر قرض دینے والے کو اگر 3، 4 یا 5 لاکھ ڈالر دیے گئے تو کیا یہ سود ہے؟ کیا 'قرض شدہ رقم پر اصل سے کچھ بھی زائد طلب کرنا سود ہے' کا اصول پامال نہیں ہو رہا۔

بات سادی سے ہے۔
  1. اگر 3 لاکھ واپس کیے تو قرض ہی ادا نہ ہوا۔ کیونکہ قرض 4 لاکھ تھا۔
  2. اگر 4 لاکھ دیے تو قرض ادا ہو گیا۔
  3. اگر 5 لاکھ دیے تو قرض بھی ادا ہوگیا اور مرنے والے کی وصیت پوری ہو گئی۔ زائد 1 لاکھ تحفہ ہوا کیونکہ قرض دینے والے نے 1 لاکھ طلب نہیں کیے تھے۔ وہ 4 لاکھ واپسی کا ہی طلبگار تھا۔ مرنے والے نے 1 لاکھ اسے اضافی دینے کی کوشش کی ہے۔ وہ آزاد ہے کہ اس رقم کو نہ لے۔ یہاں ' زائد طلب کرنا' سود ہو گا نہ کہ 'زائد دینا'۔ رسول اللہ ﷺ نے غصہ کرنے والے کو کم قرض پر زیادہ عنایت فرمایا تاکہ قرض دینے والے سے اپنی محبت کا اظہار کریں اور راضی کر لیں۔ ہاں اچھی کھجور کے بدلے میں زائد کھجور دینے کے معمولی سودے کو بھی سود کی وجہ سےمنع فرما دیا۔
 

سید رافع

محفلین
1۔ لیکن میں اس مکان میں 75 سال رہا، اس کا کرایہ آپ کے اصول کے مطابق آپ کا حق نہیں بنتا؟ اس طرح سارے کرائے دار حق بجانب بن جاتے ہیں کہ وہ کرایہ نا ادا کریں۔

آپ ملکیت کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں۔ اس میں بھی بات سادی سی ہے۔ اگر آپ نے کسی بچے کو عیدی دی تو اب وہ رقم بچے کی ملکیت ہے۔ آپ عیدی دینے پر راضی تھے وہ عیدی لینے پر راضی تھا۔ اب بچہ عیدی سے چاہے تو ایک سائیکل خریدے یا ایک بیگ وہ آپ کی نہیں اسکی ملکیت ہے۔

یہی حال 4 لاکھ ڈالر قرض کا ہے۔ آپ نے جب 4 لاکھ ڈالر مجھے دے دیے تو وہ میری ملکیت ہیں۔ آپ 4 لاکھ ڈالر قرض دینے پر راضی تھے اور میں 4 لاکھ ڈالر قرض لینے پر راضی تھا۔ میری مرضی ہے اب کہ میں 4 لاکھ ڈالر سے ایک مکان لوں یا 2 فلیٹ۔ اور اس مکان میں میں خود رہوں یا کسی دوسرے کو کرایہ پر دوں اور اس سے نفع حاصل کروں۔ آپ کو میں 4 لاکھ ڈالر دینے کا ہی مکلف ہوں۔ اگر آپ مجھ سے 5 لاکھ ڈالر ' زائد طلب' کرتے ہیں تو سود اور اگر 4 لاکھ ڈالر 'طلب' کرتے ہیں تو بلا سود۔
 

سید رافع

محفلین
2۔ اس کے علاوہ، جب ہم مزدور کی مزدوری کی کوئی قیمت نہیں رکھتے تو گویا میں نے آپ کی یا آپ کے آباء کی اپنی مزدوری یا ان کی زمین کی پیداوار کا فائیدہ اٹھایا لیکن ان کی مزدوری کو استعمال کرنے کی قیمت ادا نہیں کی ،

یہ بالکل ایسا ہے کہ میں آپ کے دو درجن مزدور اپنے پاس لے آؤں ، ان سے دس سال کام کرواؤں اور پھر واپس کردوں۔ ان کے کھانے اور پینے، ان کی صحت کا خرچہ ، ان کے بچوں کی تعلیم کا خرچا، سب آپ کے ذمے رہے :)

کیا کوئی بھی شخص ، اس غیر منطقی ، اصول پر عمل کرنے کے لئے تیار ہوگا؟

جی نہیں ؟

یہاں بھی بات سادی سی ہے۔ مزدور کی مزدوری طے ہوتی ہے۔ اگر سن 2010 میں کسی مزدور نے میرے لیے کوئی مزدوری کی اور اسکا معاوضہ 500 ڈالر ہے۔ اب اگر میں اسکی مزدوری 2010 میں دے دیتا ہوں تب بھی 500 ڈالر دینے ہوں گے اور اگر 2020 میں دیتا ہوں تب بھی 500 ڈالر واجب ادا ہوں گے۔ یہ 2020 میں دس سال بعد مزدوری ادا کرنا اخلاقی طور پر معیوب ہے۔

اسی طرح میرے کھیت پر کام کرنے والے کسانوں سے اگر میں طے کر لیتا ہوں کہ جب 6 مہینے بعد فصل کٹے گی تو میں ہر مزدور کو 9000 ڈالر دوں گا۔ اس سے معاہدہ کرتا ہوں کہ ان 6 مہینوں میں ان کے کھانے اور پینے، ان کی صحت کا خرچہ ، ان کے بچوں کی تعلیم کا خرچا میرے ذمہ ہے۔ اب اس میں زائد طلب نہ آپ کر رہیں ہیں نہ مزدور۔ اگر فصل تباہ ہو گئی تو آپ کو کچھ نہ ملے گا لیکن ان مزدوروں کو 9000 ڈالر ملیں گے الا یہ کہ فصل تباہ ہونے پر کوئی ادائیگی نہ ہو گی کوئی شرط معاہدے میں ہو۔ اس میں بھی کوئی دقت نہیں۔

سیدھا سادا زرعی کاروبار ہے۔ معلوم نہیں اس میں آپ کو سود کی بو کیوں آ گئی؟
 

سید رافع

محفلین
تو ایک مثال اور دیکھئے،
ایک ایکر زمین میں 75 سے 120 پاؤنڈ بیج ڈلتے ہیں۔ ہم آسانی کے لئے 100 پاؤنڈ رکھ لیتے ہیں۔ پچاس پاؤنڈ کا بیگ ساڑھے بارہ ڈالر کا ملتا ہے۔ گویا ایک ایکڑ زمین 25 ڈالر میں اور مزدوری ملا کر 50 ڈالر میں تیار ہوتی ہے۔ جس سے 25 بشل گیہوں پیدا ہوتا ہے۔ جس کی قیمت کا تخمینہ تقریباً 175 ڈالر بنتا ہے۔ میں آپ سے 100 ایکڑ زمین اور بیجوں کے لئے 5 ہزار ڈالر قرض لیتا ہوں اور 17500 ڈالر کی آمدنی سے آپ کو فصل بکنے کے بعد، آُ کے اصول اور تعریف کے مطابق، 5000 ڈالر واپس اور آپ کی زمین واپس دے دیتا ہوں۔ اور 12500 ڈالر کھا جاتا ہوں۔

کیا آپ کے اصول کے مطابق میں نے کچھ غلط کیا؟
جی نہیں؟

ایسی ہی درجنوں مثالیں میں آپ کو ہر انڈسٹری سے دے سکتا ہوں۔ آپ غریب سے غریب تر اور میں امیر سے امیر تر ہوتا جاؤں گا۔

آپ کو بھی وہی شبہ لاحق ہے جس کا تذکرہ قرآن میں ہے۔ لوگوں کو سمجھ میں ہی نہیں آتا تھا کہ سود اور منافع میں کیا فرق ہے؟ سود لینے اور کاروبار کرنے میں کیا فرق ہے؟ سو اللہ فرماتا ہے:

"سود خور لوگ نہ کھڑے ہوں گے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھو کر خبطی بنا دے یہ اس لئے کہ یہ کہا کرتے تھے کہ تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام" 2-285

5000 ہزار قرض لینا ہے۔ سو 5000 ہی واپس ہوں گے۔

100 ایکڑ زمین لینا، اس میں بیج بونا، اس پر فصل لانے کی محنت کرنا اور 125000 ڈالر منافع حاصل کرنا آپکے محنت کی کمائی اور کاروبار ہے۔

آپ اگر امیر ہوں گے تو اپنی محنت سے ہوں گے نہ کہ رقم کو ایک مدت تک دے کر زیادہ رقم وصول کرنے سے۔ تعریف کے تحت رقم سے زائد قرض دینے والے کو دیا نہیں گیا۔ سو سود نہیں۔ ہاں قرض والے نے اپنے ہنر و مہارت سے اس رقم سے منافع کما لیا تو یہ سود نہیں منافع ہے۔

خالص اسلامی لحاظ سے بھی سود کے لیے جنس ایک ہوتی ہے۔ سود نہ ہونے کے لیے جنس تبدیل ہو جاتی ہے۔

مثلاً سو 100 کلو کھجور کے بدلے 75 کلو چاول لینا سود نہیں۔ لیکن 100 کلو ادنی کھجور کے بدلے 75 کلو اعلی کھجور لینا سود ہے۔

100 ڈالر رقم کے عوض 125 ڈالر لینا سود ہے۔ کیونکہ جنس تبدیل نہیں ہوئی۔

اگر عقل سلیم ہے تو انسان سمجھ سکتا ہے کہ سونا و چاندی ایک مدت کے لیے دوسرے کو دے کر اس پر مذید سونا و چاندی نہیں حاصل کی جا سکتی۔ کیونکہ سونے و چاندی کا اصل مقصد ضرورت کا مال خریدنا ہے نہ سونا و چاندی کو مدت کی شرط پر فروخت کرنا۔ ایک انتہائی مثال پیش کرتا ہوں۔ مثال کے طور پر دنیا میں دو افراد ہیں اور کل ایک کلو سونا ہے۔ پہلا شخص ایک کلو سونا دوسرے شخص کو قرضے پر دے دیتا ہے اور کہتا ہے کہ جب واپس دینا تو 2 کلو دینا! آپ نے دیکھا کہ قرض لینے والا وہ سونا واپس ہی نہیں کر سکتا کیونکہ اس دنیا میں سونا ہے ہی 1 کلو! یوں تجارت رک جائے گی فساد پھیل جائے گا۔

1970 میں فریکشنل ریزرو سسٹم اسی لیے لایا گیا کہ سونے کے بجائے اب ڈالر سونے کی مقدار سے لاکھوں گنا زیادہ چھاپا جا سکتا ہے۔ اگر پیپر کرنسی کے بجائے ہم سونے کے سہارے پر قائم ڈالر پر رہتے تو دنیا میں تجارت کا ڈیڈ لاک 50 سال پہلے ہی آگیا ہوتا۔

 
لوگوں کو سمجھ میں ہی نہیں آتا تھا کہ سود اور منافع میں کیا فرق ہے؟ سود لینے اور کاروبار کرنے میں کیا فرق ہے
نامناسب ریفرنس اور ںآمناسب جواب
کاروبار کے منافع میں سے مرکزی حکومت کا حق ہے رباء یہ رباء کھانے والے ایسے اٹھیں گے

بھائی اپنے اصولوں کی بنیاد اور ثبوت میں اپنی کوئی مثال پیش کیجئے

اپ کا خیال ، قران سے پیش کردہ آیت سے ثابت نہیں
 
Top