لمبی بات نہیں کروں گا ۔ صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ جس قوم میں جتنا اسلام ہوگا ۔ اسی تناسب سے وہ اپنے لیئےحکمران بھی منتخب کرے گی ۔ اور اگر ایسا ہو جاتا ہے تو کس کو الزام دینا چاہیئے ۔ اس شخص کو جو حکومت کرنے کے لیئے آیا ۔ یا وہ ، جنہوں نے اسے حکمران بنایا ۔ ؟ ۔ لہذا جو بھی اب تک آیا ، وہ ایک مکمل مجسم قوم کے صحیح رحجان کی نمائندگی کرتا تھا اور جو مستقبل بعید میں آئے گا وہ بھی اس اسی رحجان کی نمائندگی کرے گا ۔یہ تو بے چارہ کچھ بھی نہیں ۔ ۔ ۔ ہم نے یخییٰ جیسے صدر بھی رکھے ہیں ، اور پنکی کا بیٹا تو وہ ہی کر رہا ہے جو اسکی تربیت تھی ۔۔ ۔ کاش کوئی ان لوگوں کو ادھر دبئی میں دیکھ پاتا تو پھر سمجھتا مگر زینب نے صحیح لکھا ہے ، کہ ہم بہت جلد بہت کچھ بھول جاتے ہیں ۔۔ ۔ اور اس بھولنے کی سزا تو مل ہی رہی ہے ہمیں ۔ ۔ ۔
لمبی بات نہیں کروں گا ۔ صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ جس قوم میں جتنا اسلام ہوگا ۔ اسی تناسب سے وہ اپنے لیئےحکمران بھی منتخب کرے گی ۔ اور اگر ایسا ہو جاتا ہے تو کس کو الزام دینا چاہیئے ۔ اس شخص کو جو حکومت کرنے کے لیئے آیا ۔ یا وہ ، جنہوں نے اسے حکمران بنایا ۔ ؟ ۔ لہذا جو بھی اب تک آیا ، وہ ایک مکمل مجسم قوم کے صحیح رحجان کی نمائندگی کرتا تھا اور جو مستقبل بعید میں آئے گا وہ بھی اس اسی رحجان کی نمائندگی کرے گا ۔
آج کے جنگ اخبار میں ڈاکٹر صفدر محمود ایک کالم چھپا ہے ۔ جس کے پہلے پیراگراف میں اسی حوالے سے بات کی گئی ہے ۔ عنوان ہے نام کے مسلمان ۔
حکمران آپ یا ہم منتخب ہی کہاں کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔جو سارا قصور اپنے سر لے لیا جائے ہمیں تو بس خبر ملتی ہے کون بنا وزیر اعظم۔۔۔عوام منتخب کرے کو نتیجہ مختلف ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قومی اسمبلی کے اراکین کیسے آتے ہیں ، ظاہر ہے ہم اور آپ ہی منتخب کرتے ہیں ۔ اور اس کے لیئے ہم کتنی جہدوجہد بھی کرتے ہیں ۔ جلسے جلوس کرتے ہیں ۔ ہنگامے کرتے ہیں ، سڑکوں پر توڑ پھوڑ کرتے ہیں ۔ دوکانوں اور املاک کو آگ لگاتے ہیں ۔ ایک دوسرے کو مارتے ہیں ، مناظرے اور مظاہرے کرتے ہیں ، دھرنا مارتے ہیں ، کیا کچھ نہیں کرتے ۔ پھر جا کر اراکینِ اسمبلی منتخب ہوتے ہیں ۔ اور پھر وہی وزیرِ اعظم بھی منتخب کرتے ہیں ۔ بینظیر کے آخری جلسے کی ہی مثال لے لیں ۔ کتنا ہجوم تھا ، کتنی خلقت تھی ۔ اگر بینظیر اسی ہجومِ غفیر کی حمایت سے منتخب ہوکر اسمبلی اور پھر وزیرِ اعظم بن کر منتخب ہوجاتی تو کیا پھر بھی ہم یہی کہتے کہ عوام کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں تھا اور یہ تو کسی غیبی مدد سے ایسا ہوا ہے ۔وزیر اعظم بنتا ہے قومی اسمبلی کے اراکین کے ووٹوں سے۔ اب یہ دیکھیں کہ قومی اسمبلی کے اراکین کیسے منتخب ہوتے ہیں۔
سیدھی سی بات ہے شمشاد بھائی ۔۔۔۔ اگر میرے علاقے سے کوئی Elected ہوکر نہیں Selected ہوکر آتا ہے تو مجھے اس بات کا ضرور علم ہوگا ۔ اور اسی طرح سارے علاقے کے دیگر افراد کو بھی اس بات کا علم ہوگا کہ ان کا ووٹ تلف کردیا گیا ہے ۔مگر ہم پھر بھی ان کو آنے دیتے ہیں ۔ یعنی ان کے آنے پر کسی قسم کا اعتراض کا حق بھی محفوظ نہیں رکھتے ۔ تو ایسی صورتحال سے تو کوئی بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔ یہ بھی ہماری نااہلی اور بے حسی کی ایک مثال ہے ۔ جسے ہم اپنی خامیوں میں نہیں گردانتے ۔ظفری بھائی میں آپ کی بات سے متفق ہوں لیکن آپ بھی مانیں گے کہ قومی اسمبلی کے اراکین کی زیادہ تعداد الیکشن میں Elect ہو کر نہیں بلکہ Select ہو کر آتی ہے۔ ان کو کون ووٹ دے جاتا ہے، یہ تو ارباب اقتدار ہی جانتے ہیں۔
۔مگر ہم پھر بھی ان کو آنے دیتے ہیں ۔ یعنی ان کے آنے پر کسی قسم کا اعتراض کا حق بھی محفوظ نہیں رکھتے ۔ تو ایسی صورتحال سے تو کوئی بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔ یہ بھی ہماری نااہلی اور بے حسی کی ایک مثال ہے ۔ جسے ہم اپنی خامیوں میں نہیں گردانتے ۔
یہاں اعتراض سے مراد اتجاج تھا ۔ کہ کسی حلقے میں کوئی واضع اکثریت حاصل ہونے کے باوجود منتخب کیوں نہیں ہوسکا ۔ کیا کسی حلقے میں آج تک کوئی عوامی ریلا باہر آیا ہے کہ ان کا نمائندہ واضع اکثریت ہونے کے باوجود منتخب کیوں نہیں ہوا ۔ ؟ ماسوائے سیاسی لیڈروں کے جو ہارے ہوئے جواریوں کی طرح اپنے کم سبقت پا جانے والے امیدار کے لیئے دوبارہ الیکشن کا واویلا مچاتے ہیں ۔
ایسی عوام جب ایسے لیڈرز کو منتخب کر لائے تو ہماری سنوائی کہاں ہو گی اور کیوں ہو گی
ِ
میرا خیال ہے میں بھی یہی کہنے کی کافی دیر سے کوشش کررہا ہوں کہ عوام کے منتخب نمائندے ہی حکمران بنتے ہیں تو حکمرانوں سے پھر بیر کیسا ۔ ؟
ہاں ۔۔۔ بائی دا وے ۔۔۔۔ ہماری سنوائی سے کیا مراد ۔۔۔ کیا آپ کا تعلق عوام الناس سے نہیں ہے ۔ ؟
میرا خیال ہے میں بھی یہی کہنے کی کافی دیر سے کوشش کررہا ہوں کہ عوام کے منتخب نمائندے ہی حکمران بنتے ہیں تو حکمرانوں سے پھر بیر کیسا ۔ ؟