اپنے مشاہدے اور تجربے کی ایک بات، احباب کی دل چسپی کے لئے:
میر کا ایک شعر (بقول انٹرنیٹ) نظر نواز ہوا:
وہ آئے بزم میں اتنا تو ہم نے دیکھا میر
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
کوئی چیز بے چین کر رہی تھی کہ "پھر اس کے بعد" میر تقی میر کا اسلوب نہیں لگتا۔ کئیوں سے پوچھا، یہی جواب ملا کہ یہ میر تقی میر کا شعر ہے۔ یا وحشت! مجھے کیا ہو گیا ہے؟ یا پھر میر کو کچھ ہو گیا تھا؟ میر کا دیوان ردیف ی متعدد بار دیکھا، شعر اس میں ہوتا تو ملتا! یہاں کسی صاحبِ علم دوست نے بتایا کہ یہ شعر میر کا ہے ہی نہیں، بلکہ پہلے مصرعے میں تصرف کیا گیا ہے۔ ایک ہندو شاعر تھے (نام اب ذہن میں نہیں)، "برق" تخلص کرتے تھے، یہ ان کا ہے:
وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
۔۔۔۔۔
تقریباً ہر مشہور شاعر کے ساتھ یہی ہوا ہے اور میر بھی کم مشہور نہیں سو اس کے نام سے بھی ڈھیروں ڈھیر اشعار منسوب کیے گئے اور یہ غلطی عوام کالانعام نے ہی نہیں کی بلکہ معروف اساتذہ و علما بھی (یقیناً غلطی سے) ایسا کرتے رہے مثلاً میر کے نام سے ایک مشہور زمانہ غزل منسوب ہے جو چند سال قبل تک نصابی کتب میں بھی میر تقی میر ہی کے نام سے چھاپی جاتی رہی ہے:
آ کے سجّادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد
نہ رہی دشت میں خالی کوئی جا میرے بعد
چاک کرتا ہوں اسی غم سے گریبانِ کفن
کون کھولے گا ترے بندِ قبا میرے بعد
وہ ہوا خواہِ چمن ہوں کہ چمن میں ہر صبح
پہلے میں جاتا تھا اور بادِ صبا میرے بعد
منہ پہ رکھ دامنِ گل روئیں گے مُرغانِ چمن
ہر روِش خاک اڑائے گی صبا میرے بعد
تیز رکھنا سرِ ہر خار کو اے دشتِ جنوں
شاید آ جائے کوئی آبلہ پا میرے بعد
تہِ شمشیر یہی سوچ ہے مقتل میں مجھے
دیکھیے اب کسے لاتی ہے قضا میرے بعد
بعد مرنے کے مری قبر پہ آیا وہ میر
یاد آئی مرے عیسٰی کو دوا میرے بعد
بعد ازاں عقیل عباس جعفری صاحب کی وساطت سے ماہِ نو کراچی کے 1952 کے شمارے میں شائع ہونے والا مظفر علی سید کا تحقیقی مضمون پڑھا جس کے مطابق میر سے غلط طور پر منسوب اس غزل میں اکثر اشعار منور خان غافل کے ہیں اور کچھ اشعار مرزا تقی ہوس کے۔
پھر یہ شعر بھی میر سے منسوب سنا تھا کہ:
یوں پکارے ہیں مجھے کوچۂ جاناں والے
اِدھر آ بے، ابے او چاک گریباں والے
لیکن کلیات میر کھنگال مارنے کے باوجود یہ شعر نہ ملا اور اب ایک ریختہ نامی ویب سائٹ پر یہ شعر کسی منشی انور حسین تسلیم کے نام سے منسوب ہے۔
پھر یہ اشعار ہیں جو محمد حسین آزاد نے آب حیات میں میر کا قصہ سناتے ہوئے میر سے منسوب کیے ہیں لیکن کلیات میر میں ان کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا:
کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اُسی اجڑے دیار کے