جاسمن صاحبہ فرماتی ہیں۔۔۔
ایک گیدڑ دوسرے گیدڑ سے ہفتے بعد ملا۔ دیکھتے ہی بولا۔۔۔۔۔ بھئی ! کیا بات ہے؟ روز بروز دبلے ہوئے جا رہے ہیں۔ خربوزوں کا موسم ہے۔ تمہیں تو روز شہر کی طرف جاتے دیکھتے ہیں۔ خیال تھا کہ سردیوں کے لیے چربی جمع کرنے میں مصروف ہو۔ مگر یہاں عالم شباب میں تمہارا حال دبلا ہوا جاتا ہے۔
دوسرا گیدڑ۔۔۔ ارے کیا بتاؤ ں۔ کس قدر سخت حالات سے دوچار ہوں۔ روز خربوزوں کے کھیت کی طرف جانے لگتا ہوں۔ راستے میں ایک خدا ترس عورت کا گھر آتا ہے۔ وہ دو روٹیاں ڈال دیتی ہے۔ وہی کھا کر واپس پلٹ آتا ہوں۔ دل میں خود کو کوستا ہوں کہ یہی روٹی کھا کر آدمی جنت سے نکلا تھا۔ اور اب عین خربوزوں کے موسم میں میری جنت بھی یہی دو روٹیاں خراب کر رہی ہیں۔ لیکن پھر خیال آتا ہے کہ اگر روٹیاں نہ کھائیں تو ضائع ہوجائیں گی۔ میں کوئی انسان تھوڑی ہوں کہ کھاؤں کم اور خراب زیادہ کروں۔ اب اللہ ہی اس کے دل سے یہ خدا ترسی نکالے تو نکالے۔ میں تو بس دعا ہی کرتا رہ جاتا ہوں۔ آدھا موسم گزر گیا اور زبان اچھے کھانے کی آس میں ترس گئی ہے۔ لیکن سوکھی روٹی کھا کھا کر پلٹ رہا ہوں۔ یہ بھی نہیں ہوتا کہ اگر روٹی ہی رکھنی ہے تو ساتھ پانی کا پیالہ بھی رکھ دیں۔ یہ سوکھی روٹی تو حلق سے نیچے نہیں اترتی۔