ماسی تفصیل سے بتاؤں گا کہ ہوا کیا تھا۔ بے چارے پولیس والے بھی ڈر گئے تھے اور میں بھی۔
زونی یہ جو آپ پریشان ہونے پر چائے کا بڑا مگ بناتی ہیں، یہ بہت اچھی بات ہے لیکن صرف ایک بناتی ہیں یہ قابل مذمت ہے۔
ویسے بیان میں تضاد ہے۔ بناتی چائے کا مگ ہیں اور ختم کپ ہوتا ہے ایں چہ چکر است؟ کالا جادو بنگالی باوا والا چکر تو نہیں؟
ماسی تفصیل سے بتاؤں گا کہ ہوا کیا تھا۔ بے چارے پولیس والے بھی ڈر گئے تھے اور میں بھی۔
زونی یہ جو آپ پریشان ہونے پر چائے کا بڑا مگ بناتی ہیں، یہ بہت اچھی بات ہے لیکن صرف ایک بناتی ہیں یہ قابل مذمت ہے۔
ویسے بیان میں تضاد ہے۔ بناتی چائے کا مگ ہیں اور ختم کپ ہوتا ہے ایں چہ چکر است؟ کالا جادو بنگالی باوا والا چکر تو نہیں؟
کہ ۔۔۔۔۔ کہ۔۔۔۔۔ آگے کیا ہوا؟ لگتا ہے ریڈیو کی بیٹری ختم ہو گئی،
ہائے ماسی۔۔۔ کہاں اور کیسے سنائیں تفصیل۔۔۔ ہم تو وہ کاہل ہیں کہ داستان غم سنانے میں بھی تساہل برتتے ہیں۔
ہوا یوں کہ اسلام آباد ہائی وے پر کافی رش تھا بمپر ٹو بمپر ٹریفک۔ میں extreme right row میں تھا کہ پیچھے سے تیز ہوٹر بجا کہ میں ڈر گیا۔ میں نے اور ٹیک کے لیے جگہ دی تو پولیس کی موبائل میرے پاس سے گزری اور اس کے بعد ایک لینڈ روور۔ اب آکے جو موبائل نکل چکی تھی وہ مزید آگے نہ نکل سکی سو لینڈ روور بھی نہ نکل سکی اور میرے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ میں نے ایسے ہی اپنے بائیں طرف دیکھا تو مولانا صاحب! (for the astute reader, land rover was left hand drive) کھڑکی میں براجمان موبائل پر محو گفتگو!
میں پریشان۔ آگے سیکورٹی والے بھی ڈرے ہوئے کہ پتہ نہیں خوکش حملہ آور ہیں یا کیا ہے اور مجھے مسلسل کہہ رہے ہوں کہ ایک طرف ہو جاؤ۔ میں نے دل میں سوچا مولانا نے ساری عمر میں اتنا ٹیکس نہیں دیا ہوگا جتنا میں نے دوسالوں میں دیا ہے سڑک مولانا کے ابا حضور کی تھوڑی ہے جو ہم ایک طرف ہو جائیں؟ مولانا کو جان پیاری ہے تو خود سائیڈ پر ہوجائیں سو ڈٹے رہے! پھر ہم کو خیال آیا کہ ہم تو خود کش حملہ آور نہیں لیکن کوئی آگے پیچھے والا ہوا تو؟ یہ خوفناک خیال آتے ہی ہماری گھگھی بندھ گئی۔۔۔ ! ہم اپنے ٹیکس کو بھول بھال کر وہاں سے نکلنے کی فکر میں مبتلا ہو گئے کہ میاں پھوٹ لو اس سے پہلے کہ کوئی پھوٹ لے! زندہ رہیں گے تو ٹیکس بھی دیتے رہیں گے!
سو ہم نے اپنا گھوڑا مولانا کے پیچھے کیا تو ہمارے عین پیچھے ایک اور پولیس کی گاڑی تھی جس میں سپاہی سٹین گن لیے کھڑا تھا اس نے ہوٹر بجانا شروع کر دیا۔ مرتے کیا نہ کرتے ہم نے پیچھے لین میں دیکھتے ہوئے نکلنے کی سوچی یوں دھیان پیچھے تھا کہ مولانا کی لینڈ روور نے زور سے بریک لگائی۔ پھر کیا تھا؟ ہمارا گھوڑا مولانا کی بیک لائٹ پر زور سے لگا کوئی تیس کی رفتار پر۔ ہم نے حواس بحال رکھتے ہوئے بہت تیزی سے گھوڑے کو ایک ٹانگ پر رکھ کر گمایا، پہلا گئیر لگاتے ہوئے پہیہ ہوا میں اٹھایا اور زن سے یہ جا وہ جا! ویسے ایک بار تو مولانا کے بھی اندر پسینے چھوٹے ہوں گے کہ موٹر سائیکل پر سوار خود کش حملہ آور ٹکرا گیا ہے یا اللہ بچائیو! ویسے ہمارے گھوڑے کو خراش تک نہ آئی البتہ داہنی طرف کا انڈیکٹر چلنے سے انکاری ہو گیا۔ تاہم اگلے روز وہ بھی ملاقات کے صدمے سے نکل آیا۔
بس یہ تھی داستان۔ سنجیدہ بات یہ ہے کہ میں اگر اوسان بحال نہ رکھتا تو کافی نقصان ہو سکتا تھا۔
یہ داستان ہم نے ماسی کے کہنے پر بڑی مشکل سے ٹائپ کی ہے خبردار کسی نے جو املا یا صرف و نحو کی غلطی نکالی تو!
۔۔۔۔۔ کہ میاں پھوٹ لو اس سے پہلے کہ کوئی پھوٹ لے! زندہ رہیں گے تو ٹیکس بھی دیتے رہیں گے!۔۔۔۔۔
ہائے ماسی۔۔۔ کہاں اور کیسے سنائیں تفصیل۔۔۔ ہم تو وہ کاہل ہیں کہ داستان غم سنانے میں بھی تساہل برتتے ہیں۔
ہوا یوں کہ اسلام آباد ہائی وے پر کافی رش تھا بمپر ٹو بمپر ٹریفک۔ میں extreme right row میں تھا کہ پیچھے سے تیز ہوٹر بجا کہ میں ڈر گیا۔ میں نے اور ٹیک کے لیے جگہ دی تو پولیس کی موبائل میرے پاس سے گزری اور اس کے بعد ایک لینڈ روور۔ اب آکے جو موبائل نکل چکی تھی وہ مزید آگے نہ نکل سکی سو لینڈ روور بھی نہ نکل سکی اور میرے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ میں نے ایسے ہی اپنے بائیں طرف دیکھا تو مولانا صاحب! (for the astute reader, land rover was left hand drive) کھڑکی میں براجمان موبائل پر محو گفتگو!
میں پریشان۔ آگے سیکورٹی والے بھی ڈرے ہوئے کہ پتہ نہیں خوکش حملہ آور ہیں یا کیا ہے اور مجھے مسلسل کہہ رہے ہوں کہ ایک طرف ہو جاؤ۔ میں نے دل میں سوچا مولانا نے ساری عمر میں اتنا ٹیکس نہیں دیا ہوگا جتنا میں نے دوسالوں میں دیا ہے سڑک مولانا کے ابا حضور کی تھوڑی ہے جو ہم ایک طرف ہو جائیں؟ مولانا کو جان پیاری ہے تو خود سائیڈ پر ہوجائیں سو ڈٹے رہے! پھر ہم کو خیال آیا کہ ہم تو خود کش حملہ آور نہیں لیکن کوئی آگے پیچھے والا ہوا تو؟ یہ خوفناک خیال آتے ہی ہماری گھگھی بندھ گئی۔۔۔ ! ہم اپنے ٹیکس کو بھول بھال کر وہاں سے نکلنے کی فکر میں مبتلا ہو گئے کہ میاں پھوٹ لو اس سے پہلے کہ کوئی پھوٹ لے! زندہ رہیں گے تو ٹیکس بھی دیتے رہیں گے!
سو ہم نے اپنا گھوڑا مولانا کے پیچھے کیا تو ہمارے عین پیچھے ایک اور پولیس کی گاڑی تھی جس میں سپاہی سٹین گن لیے کھڑا تھا اس نے ہوٹر بجانا شروع کر دیا۔ مرتے کیا نہ کرتے ہم نے پیچھے لین میں دیکھتے ہوئے نکلنے کی سوچی یوں دھیان پیچھے تھا کہ مولانا کی لینڈ روور نے زور سے بریک لگائی۔ پھر کیا تھا؟ ہمارا گھوڑا مولانا کی بیک لائٹ پر زور سے لگا کوئی تیس کی رفتار پر۔ ہم نے حواس بحال رکھتے ہوئے بہت تیزی سے گھوڑے کو ایک ٹانگ پر رکھ کر گمایا، پہلا گئیر لگاتے ہوئے پہیہ ہوا میں اٹھایا اور زن سے یہ جا وہ جا! ویسے ایک بار تو مولانا کے بھی اندر پسینے چھوٹے ہوں گے کہ موٹر سائیکل پر سوار خود کش حملہ آور ٹکرا گیا ہے یا اللہ بچائیو! ویسے ہمارے گھوڑے کو خراش تک نہ آئی البتہ داہنی طرف کا انڈیکٹر چلنے سے انکاری ہو گیا۔ تاہم اگلے روز وہ بھی ملاقات کے صدمے سے نکل آیا۔
بس یہ تھی داستان۔ سنجیدہ بات یہ ہے کہ میں اگر اوسان بحال نہ رکھتا تو کافی نقصان ہو سکتا تھا۔
یہ داستان ہم نے ماسی کے کہنے پر بڑی مشکل سے ٹائپ کی ہے خبردار کسی نے جو املا یا صرف و نحو کی غلطی نکالی تو!