قیصرانی
لائبریرین
اونٹاریو
کینیڈا کا ایک صوبہ ہے جو اس کے مرکز میں واقع ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ سب سے بڑا ہے اور رقبے کے لحاظ سے کیوبیک کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے (نُنا وُت اور شمال مغربی ریاست سے اس کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا جو کہ ریاستیں ہیں، صوبہ جات نہیں)۔ اونٹاریو کی سرحدیں مغرب میں مینی ٹوبہ، مشرق میں کیوبیک کے صوبہ جات سے اور امریکی ریاستوں مشی گن، نیو یارک اور منی سوٹا سے ملتی ہیں۔ امریکہ سے ملنے والی اونٹاریو کی زیادہ تر سرحد قدرتی ہے اور یہ لیک آف وڈز سے شروع ہوتی ہے اور چار عظیم جھیلوں: سپیریئر لیک، ہُرون، ایری اور اونٹاریو (جس کے نام پر اس صوبے کا نام رکھا گیا ہے) سے ہوتی ہوئی گذرتی ہے اور پھر سینٹ لارنس کے دریا کے ساتھ چلتی ہے۔ اونٹاریو کینیڈا کا وہ واحد صوبہ ہے جو ان چاروں عظیم جھیلوں سے ملا ہوا ہے۔
اونٹاریو کا دارلخلافہ ٹورنٹو ہے۔ ٹورنٹو کینیڈا کا سب سے بڑا شہر ہے۔ کینیڈا کا دارلحکومت اوٹاوا بھی اونٹاریو میں ہی واقع ہے۔ 2006 کی مردم شماری سے ظاہر ہوا ہے کہ 12160282 یعنی ایک کروڑ اکیس لاکھ ساٹھ ہزار دو سو بیاسی افراد اس صوبے میں رہتے ہیں۔ یہ تعداد کل ملکی آبادی کا ساڑھے اڑتیس فیصد ہے۔
اس صوبے کا نام جھیل اونٹاریو سے نکلا ہے جو ایک مقامی زبان (ہُرون) کا لفظ سمجھا جاتا ہے اور جس کا مطلب عظیم جھیل ہے۔ ایک اور ممکنہ ماخذ سکاناڈاریو لفظ (ایروکویان زبان) کا بھی ہو سکتا ہے جس کا مطلب خوبصورت پانی ہے۔ نیو برنزوک، نووا سکوشیا اور کیوبیک کے ساتھ، اونٹاریو کینیڈا کے ان ابتدائی چار صوبوں میں سے ایک ہے جنہوں نے یکم جولائی 1867 کو برطانوی شمالی امریکہ کے ماہدے کے تحت ایک قوم کی شکل اختیار کی تھی۔
اونٹاریو کینیڈا کا سب سے اہم اور بڑا مینوفیکچرنگ والا صوبہ ہے اور کل قومی مصنوعات کا پچاس فیصد سے زائد حصہ یہاں تیار ہوتا ہے۔
جغرافیہ
یہ صوبہ چار بڑے جغرافیائی علاقوں پر مشتمل ہے:
• شمال مغربی اور درمیانی حصہ جو کم آباد ہے اور کینیڈین شیلڈ پر مشتمل ہے، اس کی زیادہ تر زمین بنجر ہے، اس میں نمکیات کی کثرت ہے اور جگہ جگہ جھیلیں اور دریا موجود ہیں، اس کے دو مزید حصے ہیں، شمال مغربی اونٹاریو اور شمال مشرقی اونٹاریو
• خلیج ہڈسن کا نچلا علاقہ جو تقریباً غیر آباد ہے، جو انتہائی شمال اور شمال مشرق میں ہے، دلدلی اور چند جنگلات پر مشتمل ہے
• معتدل اور سب سے زیادہ آباد علاقہ جو عظیم جھیلوں کے ساتھ واقع ہے اور انتہائی زرخیز ہے اور جنوب میں ہے جہاں کاشتکاری اور صنعتیں جوبن پر ہیں۔ جنوبی اونٹاریو کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: جنوب مغربی اونٹاریو (جس کے کچھ حصوں کو پہلے مغربی اونٹاریو کہا جاتا تھا)، گولڈن ہارس شو، مرکزی اونٹاریو (جو حقیقتاً اونٹاریو کا جغرافیائی مرکز تو نہیں) اور مشرقی اونٹاریو
صوبے میں کسی بھی قسم کے پہاڑوں کی عدم موجودگی کے باوجود یہاں بہت سے علاقے سطح مرتفع پر مشتمل ہیں، خصوصاً وہ علاقے جو کینیڈین پلیٹ پر واقع ہیں اور صوبے کے شمال مغرب سے جنوب مغرب تک پھیلے ہوئے ہیں اور نیاگرا کے اوپر کی طرف موجود ہیں۔ اس علاقے کا سب سے اونچا علاقہ اشپاٹینا کی چٹان ہے جو سطح سمندر سے 693 میٹر بلند ہے۔ یہ ٹیماگامی کے مقام پر اونٹاریو کے شمال مشرق میں ہے۔
کیرولائنین کے جنگلات کا علاقہ صوبے کے زیادہ تر جنوب مغربی حصے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کا شمالی حصہ گریٹر ٹورنٹو کے علاقے کا حصہ ہے جو اونٹاریو کی جھیل کا مغربی سرا ہے۔اس علاقے کا سب سے مشہور جغرافیائی مقام نیاگرا کی آبشار ہے۔ سینٹ لارنس کا سمندری راستہ بحر اوقیانوس سے آمد و رفت کا راستہ مہیا کرتا ہے۔ یہ کینیڈا کے اتنا اندر تک راستہ مہیا کرتا ہے جتنا کہ تھنڈر کی خلیج شمال مغربی اونٹاریو میں مہیا کرتی ہے۔ شمالی اونٹاریو کا پچاسی فیصد حصہ زمینی ہے اور جنوبی اونٹاریو میں صوبے کی چورانوے فیصد آبادی رہتی ہے۔
پوانٹ پیلی نیشنل پارک ایک جزیرہ نما ہے جو جنوب مغربی اونٹاریو میں ہے اور ایری جھیل تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ کینیڈا کا انتہائی جنوبی حصہ بھی ہے۔ پیلی کا جزیرہ اور مڈل جزیرہ جو کہ ایری جھیل میں ہیں، اس سے ذرا زیادہ نیچے ہیں۔ یہ سب حصے کیلیفورنیا کی سرحد سے ذرا سا نیچے ہیں۔
آبادی
1851 سے اب تک اونٹاریو کی آبادی
سال آبادی پانچ سال کا فیصد اضافہ دس سال کا فیصد اضافہ دیگر صوبوں میں درجہ بندی
1851 952,004 n/a 208.8 1
1861 1,396,091 n/a 46.6 1
1871 1,620,851 n/a 16.1 1
1881 1,926,922 n/a 18.9 1
1891 2,114,321 n/a 9.7 1
1901 2,182,947 n/a 3.2 1
1911 2,527,292 n/a 15.8 1
1921 2,933,662 n/a 16.1 1
1931 3,431,683 n/a 17.0 1
1941 3,787,655 n/a 10.3 1
1951 4,597,542 n/a 21.4 1
1956 5,404,933 17.6 n/a 1
1961 6,236,092 15.4 35.6 1
1966 6,960,870 11.6 28.8 1
1971 7,703,105 10.7 23.5 1
1976 8,264,465 7.3 18.7 1
1981 8,625,107 4.4 12.0 1
1986 9,101,695 5.5 10.1 1
1991 10,084,885 10.8 16.9 1
1996 10,753,573 6.6 18.1 1
2001 11,410,046 6.1 13.1 1
2006* 12,160,282 6.6 13.1 1'
لسانی گروہ
اونٹاریو کی 2001 میں اہم اقلیتیں
گروہ حصہ %
کل آبادی 11,285,545 100
کینیڈین
3,350,275 29.7
انگریز
2,711,485 24
سکاٹش
1,843,110 16.3
آئرش
1,761,280 15.6
فرانسیسی
1,235,765 10.9
جرمن
965,510 8.6
اطالوی
781,345 6.9
چینی
518,550 4.6
ڈچ (نیدر لینڈ)
436,035 3.9
ایسٹ انڈین
413,415 3.7
پولش
386,050 3.4
یوکرائینی
290,925 2.6
شمال امریکی انڈین
248,940 2.2
پرتگالی
248,265 2.2
یہودی
196,260 1.7
جمیکائی
180,810 1.6
فلپائنی
165,025 1.5
ویلش
ہنگری نژاد
128,575 1.1
یونانی
120,635 1.0
روسی
106,710 0.9
ہسپانوی (جنوبی امیرکی)
103,110 0.9
امریکی
86,855 0.8
وہ برطانوی جو اوپر نہیں شامل 76,415 0.7
ویت نامی
67,450 0.6
فننش
64,105 0.6
کروشین
62,325 0.6
میٹس
60,535 0.5
سربین
40,580 0.39
یوگو سلاوین
37,650 0.36
بوسنیائی
8,600 0.08
اوپر جدول میں دی گئی معلومات میں فیصدوں کو اگر جمع کیا جائے تو وہ سو فیصد سے زیادہ ہو جاتی ہیں۔ اس کی وجہ دہری گنتی ہے جیسا کہ فرانسیسی نژاد کینیڈین کو کینیڈین اور فرانسیسی دونوں جگہ شمار کیا گیا ہے۔ اس میں دو لاکھ سے زیادہ آبادی رکھنے والے گروہ شامل کئے گئے ہیں۔ یہ سروے 2001 میں کیا گیا تھا۔ اونٹاریو کی اکثریت
برطانوی (انگریز، سکاٹش اور ویلش) اور آئرش نژاد ہے۔
مذہبی بنیاد پر گروہوں کی درجہ بندی کچھ یوں ہے
اونٹاریو میں 2001 میں اہم مذہبی گروہ
مذہب افراد %
کل 11,285,535 100
پروٹسٹنٹ 3,935,745 34.9
کیتھولک 3,911,760 34.7
لادین 1,841,290 16.3
مسلم 352,530 3.1
دیگر عیسائی 301,935 2.7
عیسائی آرتھوڈکس 264,055 2.3
ہندو 217,555 1.9
یہودی 190,795 1.7
بدھ مت 128,320 1.1
سکھ 104,785 0.9
مشرقی مذاہب 17,780 0.2
دیگر مذاہب 18,985 0.2
اونٹاریو کے باشندوں کی اکثریت برطانوی یا دیگر یورپی آباؤ اجداد سے ہے۔ اونٹاریو کی پانچ فیصد سے ذرا کم آبادی فرانسیسی نژاد ہے، یعنی جن کی اصل زبان فرانسیسی ہے۔ ویسے فرانسیسی پس منظر رکھنے والے افراد کی تعداد کل آبادی کا 11 فیصد ہے۔
قدری شرح پیدائش اور دوسرے صوبوں سے لوگوں کی منتقلی کے علاوہ اونٹاریو کی آبادی میں بہت زیادہ اضافہ مہاجرین کی آمد سے ہے جو گذشتہ دو صدیوں سے جاری ہے۔ اونٹاریو میں آج کل زیادہ منتقل ہونے والے گروہوں میں کیریبین (جمیکا، ٹرینیڈاڈ اور گیانی)، جنوبی ایشیائی (پاکستانی، بھارتی، بنگلہ دیشی اور سری لنکن)، مشرقی ایشیائی (زیادہ تر چینی اور فلپائنی)، وسطی اور جنوبی امریکی (کولمبیا، میکسیکو، ارجنٹائن اور ایکواڈور)، مشرقی یورپی جیسا کہ روسی اور بوسنیائی، ایران، صومالیہ اور مغربی افریقہ سے آنے والے گروہ بھی شامل ہیں۔ زیادہ تر افراد ٹورنٹور اور اس کے گرد و نواح میں منتقل ہوتے ہیں۔ ان کا کچھ حصہ دیگر شہروں جیسا کہ لندن، کچنر، ہیملٹن، ونڈسر اور اوٹاوہ بھی جا بستا ہے۔
آبادی کے تناسب سے دس بڑے شہری علاقے یعنی میٹروپولیٹن علاقے
میونسپلٹی
2006
2001
1996
ٹورنٹو (صوبائی دارلخلافہ)
2,503,281
2,481,494
2,385,421
اوٹاوہ (ملکی دارلحکومت)
812,129
774,072
721,136
مسی ساگا
668,549
612,925
544,382
ہیملٹن
504,559
490,268
467,799
برامپٹن
433,806
325,428
268,251
لندن
352,395
336,539
325,669
مرخم
261,573
208,615
173,383
واغان
238,866
182,022
132,549
ونڈسر
216,473
209,218
197,694
کچنر
204,668
190,399
178,420
موسم
اونٹاریو میں تین بڑے موسمی خطے ہیں۔ اونٹاریو کا زیادہ تر جنوب مغربی حصہ اور گولڈن ہارس شو کے نچلے علاقے معتدل اور مرطوب موسم والے ہیں۔ اس علاقے میں گرم اور مرطوب گرمیاں اور سرد سردیاں ہوتی ہیں۔ کینیڈا کے دیگر حصوں کے موسم کا اگر اس سے مقابلہ کیا جائے تو یہ بہت معتدل ہے۔ گرمیوں میں جنوبی امریکہ سے اٹھے والی ہوائیں شمالی امریکہ کے براعظم میں داخل ہو کر اسے مزید گرم اور مزید مرطوب بنا دیتی ہیں۔ سارا سال خصوصاً خزاں اور سردیوں میں درجہ حرارت چار عظیم جھیلوں کی وجہ سے صوبے کے دیگر حصوں کی نسبت بہت مناسب رہتا ہے۔ اس وجہ سے یہاں فصلیں اُگانے کے لئے زیادہ وقت ہوتا ہے۔ خزاں اور بہار دونوں ہی معتدل ہوتی ہیں اور رات کو خنکی بڑھ جاتی ہے۔ اس علاقے میں سالانہ بارش کی اوسط 750 ملی میٹر سے 1000 ملی میٹر تک دیکھی جاتی ہے۔ بارشیں سارا سال ہی ہوتی ہیں اور گرمیوں میں ان کی تعداد خصوصاً بڑھ جاتی ہے۔اس علاقے کا زیادہ تر حصہ اونٹاریو کے دیگر حصوں کی نسبت بہت کم برف باری دیکھتا ہے۔
مزید شمالی اور جنوب کا وہ حصہ جو ہواؤں کی زد میں آتا ہے اور وسطی اور مشرقی اونٹاریو اور شمالی اونٹاریو کے جنوبی حصے میں موسم شدید مرطوب قسم کا رہتا ہے۔ ان علاقوں میں گرمیوں کا موسم گرم سے گرم تر رہتا ہے اور سردیوں میں نسبتاً سرد اور لمبا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے یہاں کاشتکاری کے لئے مناسب دورانیہ کم ہوتا ہے۔ اس علاقے کے جنوبی حصے عظیم جھیلوں سے آنے والی ہواؤں کی زد میں ہوتے ہیں۔ ان عظیم جھیلوں کے باعث موسم نسبتاً معتدل رہتا ہے۔ تاہم جھیلوں کی وجہ سے لیک ایفیکٹ سنو یعنی جھیل سے اٹھنے والے بخارات جب قطب شمالی سے آنے والی ٹھنڈی ہواؤں سے ملتے ہیں تو اس کے نتیجے میں برفباری ہوتی ہے۔ اس کا اثر ساحل سے سو کلومیٹر یا اس سے بھی زیادہ دور تک ہوتا ہے۔ اس حد میں بعض علاقوں میں سالانہ برفباری 300 سم یعنی 120 انچ سے زیادہ ہوتی ہے۔
اونٹاریو کے انتہائی شمالی علاقے جو کہ زیادہ تر 50 ڈگری شمال میں ہیں، کا موسم سب آرکٹک ہے۔ یہاں بہت لمبی سردیاں ہوتی ہیں اور مختصر اور نیم گرم گرمیاں ہوتی ہیں۔ یہاں درجہ حرارت اچانک تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ گرمیوں میں کبھی کبھار ہی گرم موسم اونٹاریو کے ان انتہائی شمالی علاقوں تک پہنچتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں نمی جنوب کی نسبت کم ہی ہوتی ہے۔ چونکہ آرکٹک سے آنے والی ہواؤں کو روکنے کے لئے یہاں کوئی اونچے پہاڑ نہیں موجود، یہاں سردیاں عموماً بہت سرد ہوتی ہیں۔ خصوصاً انتہائی شمال اور شمال مغرب میں درجہ حرارت منفی 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ ان علاقوں میں برف زیادہ دیر سے پگھلتی ہے۔ یہاں اکتوبر سے مئی تک برف دکھائی دینا عام سی بات ہے۔
جون اور جولائی میں صوبے کے زیادہ تر حصوں میں سخت آندھی اور طوفان آتے ہیں۔ جنوبی علاقوں میں یہ مارچ سے نومبر تک قطب شمالی سے آنے والی ٹھنڈی ہوا جب خلیج کی گرم ہواؤں کے ٹکراؤ سے یہ طوفان آتے ہیں۔ گرمیوں میں یہ اوپر اٹھنے والی گرم ہواؤں کی وجہ سے جنم لیتے ہیں۔ یہ طوفان عموماً الگ تھلگ ہوتے ہیں۔ ایک اور طرح کے طوفان عموماً رات کو پیدا ہوتے ہیں اور ہوا کی گذرگاہوں کی جگہوں پر شدید تیز ہوا پیدا کرتے ہیں۔ صرف ہڈسن اور جیمز بے کا نچلا علاقہ ان طوفانوں سے عموماً پاک رہتا ہے۔ شدید موسمی تبدیلیوں کا شکار ہونے والا علاقہ عموماً جنوب مغربی اور وسطی اونٹاریو ہوتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ جھیل سے آنے والی ہوائیں ہوتی ہیں۔ کینیڈا میں لندن کا شہر سب سے زیادہ آسمانی بجلی کا شکار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ طوفانوں کے حوالے سے یہ ملک کا ایسا حصہ جہاں زیادہ طوفان آنے کا امکان ہوتا ہے۔ ٹارنیڈو یعنی گردباد بھی یہاں عام ہیں۔ اکثر گردباد خطرناک نہیں ہوتے۔ شمالی اونٹاریو میں کم آبادی کی وجہ سے اکثر ٹارنیڈو بغیر معلوم ہوئے پیدا اور ختم ہو جاتے ہیں۔ ہوائی جہازوں کے پائلٹ ان کی گذرگاہ کے راستے میں آنے والے جنگلات کی تباہی سے ان کا اندازہ لگاتے ہیں۔
معیشت
اونٹاریو کے دریا بشمول نیاگرا کا دریا، اس صوبے میں پن بجلی پیدا کرنے کے لئے اہم ہیں۔ 1999 میں اونٹاریو ہائیڈرو کی نجکاری کے بعد اونٹاریو پاور جنریشن صوبے کی کل بجلی کا 85 فیصد حصہ پیدا کرتی ہے۔ اس میں 41 فیصد ایٹمی، 30 فیصد پن بجلی اور 29 فیصد قدرتی ایندھن کے جلانے سے پیدا ہوتا ہے۔ اونٹاریو پاور جنریشن اس بجلی کی ترسیل کی ذمہ دار نہیں، اس کا نظام ہائیڈور ون کے پاس ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ پرانے ہوتے ایٹمی بجلی گھروں، بجلی کی بڑھتی ضروریات وغیرہ کے باعث اونٹاریو اپنے ہمسائیوں کیوبیک اور مشی گن سے زیادہ ضروری اوقات میں بجلی حاصل کرتا ہے۔
قدرتی ذرائع سے مالا مال، امریکہ کے اندر تک رسائی کے حامل مواصلات کے نظام اور خشکی میں دور تک موجود عظیم جھیلوں کے باعث سمندری رسائی قابل عمل ہے جو مال بردار بحری جہازوں سے ہوتی ہے۔ اس کے باعث مینوفیکچرنگ کو بنیادی صنعت کا درجہ حاصل ہے۔ یہ زیادہ تر گولڈن ہارس شو کے علاقے میں قائم ہیں۔ یہ علاقہ کینیڈا کا سب سے زیادہ صنعتی علاقہ ہے۔ یہاں کی اہم پیداوار میں موٹر کاریں، لوہا، سٹیل، خوراک، بجلی کے آلات، مشینیں، کیمکل اور کاغذ ہیں۔ اونٹاریو مشی گن سے زیادہ کاریں بناتا ہے جو کہ چھبیس لاکھ چھیانوے ہزار کاریں سالانہ ہے۔
تاہم تیزی سے گرتی ہوئی فروخت کی وجہ سے جنرل موٹرز نے 21 نومبر 2005 کو اعلان کیا کہ وہ شمالی امریکہ میں واقع اپنے کارخانوں میں بھاری مقدار میں کانٹ چھانٹ کر رہا ہے۔ ان میں اوشاوا اور کیتھارین کے کارخانے بھی شامل ہیں۔ 2008 تک اونٹاریو ہی میں 8000 نوکریاں ختم کر دی جائیں گی۔ اسی طرح 23 جنوری 2006 میں فورڈ موٹرز کارپوریشن نے بھی اعلان کیا کہ وہ 2012 تک پچیس سے تیس ہزار تک نوکریاں ختم کرے گا۔ تاہم ان نقصانات میں کمی کی وجہ فورڈ کی طرف سے مخلوط ایندھن والی گاڑی کی تیاری ہے۔ ٹویوٹا نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ وڈز سٹاک میں 2008 میں اپنا نیا کارخانہ لگائے گی۔ اسی طرح ہونڈا نے بھی الیسٹون میں ایک نیا انجن پلانٹ بڑھائے گا۔
اونٹاریو کا دارلخلافہ ٹورنٹو کینیڈا کی معاشی سرگرمیوں اور بینکاری کا مرکز ہے۔ ٹورنٹو سے ملحقہ علاقے جیسا کہ برامپٹن، مسی ساگا اور واغان وغیرہ تقسیم کے لئے اہم ہیں۔ ان علاقوں میں اپنی صنعتیں بھی ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی بالخصوص مارخم، واٹر لو اور اوٹاوا میں اہم شعبہ ہے۔ ہیملٹن کینیڈا کا سٹیل بنانے کے لئے سب سے بڑا صنعتی علاقہ ہے۔ سارنیا میں پیٹروکیمیکل صنعت کا مرکز ہے۔ تعمیراتی کارکن کل ورک فورس کا سات فیصد حصہ ہیں۔ تاہم غیر رجسٹر شدہ کارکنوں کے باعث یہ تعداد دس فیصد بھی ہو سکتی ہے۔ گذشتہ دس سال سے یہ شعبہ مسلسل ترقی کی طرف گامزن ہے کیونکہ نئے گھر اور عمارات کی تعمیر میں اضافہ ہو رہا ہے اور کم قیمت رہن اور بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث ایسا ہو رہا ہے۔ کان کنی اور جنگل سے متعلق پیداوار جن میں گودا اور کاغذ شامل ہیں، شمالی اونٹاریو کی معیشت کا اہم حصہ ہیں۔ دوسرے علاقوں سے زیادہ یہاں سیاحت یہاں کی معیشت میں اپنا اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سیاحت کا زور زیادہ تر گرمیوں میں رہتا ہے۔ گرمیوں میں تازہ پانی میں کھیل کود آسان ہوتی ہے اور لوگ قدرت سے لطف اندوز ہونے آتے ہیں جو کہ ان شہروں کے بالکل نزدیک ہوتی ہے۔ سال کے دیگر اوقات میں شکار، سکیینگ اور سنو باؤلنگ کھیلی جاتی ہے۔ اس علاقے میں خزاں کے رنگ پورے براعظم میں سب سے زیادہ خوبصورت دکھائی دیتے ہیں اور ان کی وجہ سے بے شمار غیر ملکی سیاح اسے دیکھنے آتے ہیں۔ سیاحت کی وجہ سے سرحدی شہروں میں جوا خانے وغیرہ بہت کامیاب رہتے ہیں۔ ان شہروں میں ونڈسر، راما اور نیاگرافال شامل ہیں جہاں امریکی سیاحوں کا زور رہتا ہے۔
زراعت
زراعت جو کبھی معیشت کا اہم ستون تھی، آبادی کا بہت کم حصہ اب اس سے وابستہ ہے۔ 1991 میں فارموں کی تعداد 68633 تھی جو 2001 میں کم ہو کر 59728 رہ گئی ہے۔ تعداد کی کمی کے باوجود یہ فارم رقبے کے لحاظ سے بڑھے ہیں اور اکثریت اب مشینوں سے آبادی کی جاتی ہے۔ مویشی، غلہ اور ڈیری کی مصنوعات سے یہ فارم زیادہ تر وابستہ ہوتے ہیں۔ پھل، انگور اور سبزیاں زیادہ تر نیاگرا کے جزیرہ نما تک محدود ہیں۔ کچھ حصہ ایری جھیل کے ساتھ بھی ہے جہاں تمباکو کی کاشت کے لئے زمین اور موسم بہت مناسب ہوتا ہے۔ تمباکو کی پیداوار میں کمی ہو رہی ہے جس کی بڑی وجہ ہیزل نٹ اور جن سنگ کو زیادہ اگایا جانا ہے۔ اونٹاریو میسی فرگوسن لمیٹڈ کا مرکز ہے جو کبھی دنیا کے سب سے بڑے زرعی مصنوعات بنانے والے اداروں میں سے ایک تھا۔ اس سے کینیڈا کی معیشت میں زراعت کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اونٹاریو کے جنوبی حصہ میں محدود کاشتکاری ہوتی ہے۔ اس کا زیادہ تر حصہ اب بیکار ہوتا جا رہا ہے۔ شہروں کی توسیع اور فارموں کے بننے کی وجہ سے اونٹاریو کی ہزاروں ایکڑ قابل کاشت زمین ہر سال بیکار ہو جاتی ہے۔ 2000 فارم اور 150000 ایکڑ اراضی 1976 سے 1996 کے درمیان بیکار ہوئی۔ یہ محض بیس سال کا عرصہ تھا۔ یعنی اونٹاریو کی اول درجے کی قابل کاشت زمین کا اٹھارہ فیصد حصہ شہروں کا حصہ بن گیا۔ اس کے علاوہ دیہاتی تقسیموں سے بھی زرعی پیداوار روز بروز گھٹ رہی ہے۔
نقل و حمل
تاریخی اعتبار سے صوبے میں دو شرقاً غرباً راستے استعمال ہوتے تھے۔ دونوں پڑوسی کیوبیک صوبے کے شہر مونٹریال سے شروع ہوتے تھے۔ شمالی راستہ جو کہ فرانسیسی بولنے والے کھالوں کے تاجر نے بنایا تھا، شمال مغرب کو اوٹاوہ دریا کے ساتھ ساتھ چلتا ہے اور پھر مینی ٹوبہ کی طرف مغرب کی سمت چلتا رہتا ہے۔ اس راستے پر یا اس کے نزدیک موجود بڑے شہروں میں اوٹاوہ، نارتھ بے، سنڈبری، سالٹ سینٹ میری اور تھنڈر بے شامل ہیں۔ بہت زیادہ مستعمل جنوبی راستہ، جو انگریزی بولنے والے افراد کے استعمال میں تھا، مونٹریال سے سینٹ لارنس کے دریا، اونٹاریو جھیل اور ایری جھیل کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ اس راستے پر بڑے شہروں میں کنگسٹن، اوشاوا، ٹورنٹو، مسی ساگا، کچنر یعنی واٹر لو، لندن، سارنیا اور ونڈسر شامل ہیں۔ اونٹاریو کی زیادہ تر سڑکیں اور ریلوے وغیرہ شمالاً جنوباً ہیں اور ان دونوں راستوں کو ہی استعمال کرتے ہیں۔
سڑک کا رابطہ
400 سیریز کی شاہراہیں صوبے کے جنوب میں اہم سڑکوں کا رابطہ ممکن بناتی ہیں۔ یہ امریکی سرحد کے ساتھ کئی رابطے مہیا کرتی ہیں۔ جنوبی سڑکوں میں شاہراہ نمبر 401 سب سے اہم ہے۔ یہ شمالی امریکہ کی سب سے مصروف شاہراہ ہے۔ اسے اونٹاریو کے سڑکوں، سیاحت اور معشیت میں ریڑھ کی ہڈی کی اہمیت حاصل ہے۔ شمالی راستے پر سب سے بینادی شاہراہ شاہراہ نمبر 417 بٹا شاہراہ 17 ہے۔ یہ ٹرانس کینیڈا والی شاہراہ کا حصہ ہے۔ شاہ راہ نمبر 400 بٹا شاہراہ نمبر 69 ٹورنٹو کو شمالی اونٹاریو سے ملاتی ہے۔ دیگر صوبائی شاہراہیں اور علاقائی سڑکیں صوبے کے دیگر حصوں کو آپس میں ملاتی ہیں۔
پانی کا رابطہ
سینٹ لارنس کا بحری راستہ جو کہ صوبے کے جنوبی حصے تک پھیلا ہوا ہے اور بحر اوقیانوس سے ملتا ہے، مال برداری کا سب سے اہم بحری راستہ ہے۔ یہ بالخصوص لوہے اور غلے کے لئے مشہور ہے۔ ماضی میں عظیم جھیلوں اور سینٹ لارنس کے دریا مسافروں کی اہم گذرگاہ تھے لیکن نصف صدی سے یہ اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔
ریل کا رابطہ
'
وی آہ ریل کیوبیک کے شہر سے ونڈسر تک مسافر ٹرینیں چلاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایم ٹریک اونٹاریو کو نیویارک کے اہم شہروں جیسا کہ بفیلو، البانی اور نیویارک سے ملاتی ہے۔ اونٹاریو نارتھ لینڈ ریل کی سہولیات کو خلیج جیمس کے نزدیک مُوسونی تک پہنچاتی ہے اور انہیں جنوب سے ملاتی ہے۔
فضائی رابطہ
لیسٹر بی پیئرسن کا بین الاقوامی ہوائی اڈہ ملک کا مصروف ترین اور دنیا کا 29واں مصروف ترین ہوائی اڈہ ہے۔ یہ سالانہ تین کروڑ مسافروں کو سنبھالتا ہے۔ دوسرے اہم ہوائی اڈوں میں اوٹاوہ بین الاقوامی ہوائی اڈہ اور ہیملٹن کا جان سی منرو کا بین الاقوامی ہوائی اڈہ شامل ہے جو کہ سامان کی فضائی ترسیل کا مرکز ہے۔ ٹورنٹو/ پیئرسن اور اوٹاوہ/ میکڈونلنڈ کارٹئیر کے ہوائی اڈے مصروف ترین تکون کے دو سرے ہیں۔ تیسرا سرا مانٹریال کا پیری ایلیٹ ٹروڈیاؤ بین الاقوامی ہوائی اڈہ ہے۔ ویسٹ جیٹ بھی اس تکون میں کام کرتی ہے۔ یہ تکون ائیر کینیڈا کا مصروف ترین ہوائی راستہ ہے۔ تیسری ائیر لائن پورٹر ائیرلائنز بھی اس علاقے میں کام شروع کر چکی ہے۔
اونٹاریو کے اکثر شہروں کے اپنے ہوائی اڈے ہیں جہاں سے چھوٹی ائیرلائنوں کی مدد سے مسافر بڑے ہوائی اڈوں تک لے جائے جاتے ہیں۔ بڑے شہر جیسا کہ تھنڈر بے، سالٹ سینٹ میری، سڈبری، نارتھ بے، ٹیمینز، ونڈسر، لندن اور کنگسٹن براہ راست ٹورنٹو پیئرسن سے جا ملتے ہیں۔ بیئرسکن ایئر لائن شمالی شرقاً غرباً فضائی راستے پر چلتی ہے اور ان تمام شہروں کو اوٹاوہ سے براہ راست ملاتی ہے اور مسافروں کو ٹورنٹو پیئرسن ائیرپورٹ نہیں جانا پڑتا۔
انتہائی شمالی علاقوں میں موجود الگ تھلگ شہروں کا جزوی یا کلی دارومدار فضائی سروس پر ہوتا ہے جو سفر، اشیا کی منتقلی حتٰی کہ ایمبولینس کا کام بھی سرانجام دیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دور دراز کا شمالی علاقہ سڑک یا ٹرین کی رسائی سے باہر ہے۔
تاریخ
1867 سے قبل
یورپیوں کی آمد سے قبل اس علاقے میں الگونکویان (اویبوا، کری اور الگونکوین) اور ایروکویان (ایروکویس اور ہُرون) قبائل آباد تھے۔ فرانسیسی مہم جو ایٹینے برولے نے اس علاقے کا کچھ حصہ 1610 سے 1612 میں دریافت کیا۔ انگریز مہم جو ہنری ہڈسن خلیج ہڈسن سے ہوتا ہوا 1611 میں آیا اور اس نے اس علاقے پر برطانوی قبضے کا دعویٰ کیا۔ سیموئل ڈی چیمپلین 1615 میں جھیل ہُرون تک پہنچا اور فرانسیسی مشنریوں نے ان عظیم جھیلوں کے کنارے اپنی چوکیاں بنانا شروع کر دیں۔ فرانسیسی آبادکاروں نے مقامی لوگوں پر مظالم ڈھائے جن کی وجہ سے یہ لوگ انگریزوں سے جا ملے۔
برطانویوں نے اپنی چوکیاں خلیج ہڈسن کے ساتھ سترہویں صدی میں قائم کیں اور اونٹاریو پر قبضہ جمانے کے لئے سرگرم ہو گئے۔ 1763 کے پیرس معاہدے کے تحت سات سالہ جنگ کا خاتمہ ہوا اور تمام شمالی امریکہ کے فرانسیسی مقبوضات کو برطانیہ کے حوالے کر دیا گیا۔ یہ علاقہ 1774 تک کیوبیک تک پھیلا ہوا تھا۔ 1783 سے 1796 تک برطانیہ نے اپنے ان تمام وفاداروں کو 200ایکڑ زمین دینے کا اعلان کیا جو امریکہ کے انقلاب کے بعد ادھر سے نکل آئے تھے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ اپنی نئی زندگی شروع کر سکیں۔ اس اقدام سے کینیڈا کی آبادی میں کافی اضاف ہوا اور یہ اضافہ دریائے سینٹ لارنس اور دریائے اونٹاریو سے مغرب کی طرف ہوا
1812 کی جنگ میں امریکی فوجیوں نے بالائی کینیڈا میں دریائے نیاگرا اور دریائے ڈیٹرائٹ تک پیش قدمی کی لیکن برطانویوں فوجیوں، کینیڈا کے فوجیوں اور مقامی آبائی قبائل نے کامیابی سے انہیں واپس پیچھے دھکیل دیا۔ تاہم امریکیوں نے جھیل ایری اور جھیل اونٹاریو پر قبضہ کر لیا اور جنگ یارک کے دران یارک کے شہر پر قبضہ کر لیا۔ یہ قبضہ 1813 میں ہوا۔ اس یار ک کے شہر کا موجودہ نام ٹورنٹو ہے۔ امریکیوں نے شہر میں لوٹ مار کی اور پارلیمان کی عمارتوں کو جلا دیا۔ تاہم انہیں جلد ہی واپس جانا پڑا۔
1812 کی جنگ کے بعد نسبتاً امن کے دور میں برطانیہ اور آئرلینڈ سے آنے والے مہاجرین نے امریکہ کی بجائے کینیڈا کا رخ کرنا شروع کر دیا۔ جیسا کہ پچھلی دہائیوں میں ہوتا رہا، ہجرت کا رخ ان کے لیڈروں کے قبضے میں ہوتا تھا۔ وہ جہاں چاہتے موڑ دیتے۔ سستی زمینوں بلکہ اکثر اوقات مفت زمینوں کے باوجود لوگوں کو سخت موسم وغیرہ کے باعث یہاں رہنے میں کافی مشکلات دکھائی دیں۔ بہت سارے لوگ واپس بھی لوٹ گئے۔ تاہم آنے والی دہائیوں میں ہجرت کی وجہ سے آبادی میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا رہا۔ ابھی تک یہ معاشرہ زراعت سے منسلک تھا اور نہروں اور سڑکوں کے ذریعے دیگر علاقوں اور امریکہ سے جڑا ہوا تھا، جس کی وجہ سے تعلقات وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہوتے چلے گئے۔
اسی دوران اونٹاریو کے ان گنت آبی راستوں نے اندرونی تجارت اور نقل و حمل کو آسان بنایا اور پانی سے ترقی حاصل کی۔ آبادی کے اضافے کے ساتھ ساتھ صنعتیں، نقل و حمل کے ذرائع بھی بڑھے اور انہوں نے ترقی کی رفتار بڑھائی۔ صدی کے اختتام تک اونٹاریو کا درجہ آبادی میں اضافے کی شرح، صنعتوں، فنون لطیفہ اور مواصلات کی حد تک ملک کے اندر کیوبیک سے بڑھ گیا۔
تاہم لوگوں میں امراء کے طبقے کے خلاف جذبات بیدار ہونے لگے جو کہ علاقے میں پائے جانے والے قدرتی ذرائع کا ناجائز فائدہ اٹھاتے تھے اور لوگوں کو منتخب تنظیمیں بنانے کا اختیار نہ دینا چاہتے تھے۔ اس سے قومیت کا ابتدائی جذبہ بیدار ہوا۔ نچلے اور بالائی کینیڈا میں ذمہ دار حکومت کے حق میں بغاوت ہوئی۔
تاہم دونوں بغاوتوں کو جلد ہی فرو کر دیا گیا اور برطانوی حکومت نے لارڈ ڈرہم کو بھیجا تاکہ وہ بے چینی کی وجہ جان سکیں۔ لارڈ ڈرہم نے تجویز پیش کی کہ انہیں اپنی حکومت بنانے کا اختیار دیا جائے اور بالائی اور نچلے کینیڈا کو ملا دیا جائے تاکہ فرانسیسی نژاد کینیڈین اکٹھے ہو سکیں۔ اس لئے 1840 کے یونین ایکٹ کے تحت دونوں کالونیوں کو ملا کر کینیڈا کا صوبہ بنا دیا گیا۔ اس کا دارلخلافہ کنگسٹن کو بنایا گیا اور بالائی کینیڈا کو مغربی کینیڈا کہا گیا۔ پارلیمانی طرز کی خود حکومت بنانے کا اختیار 1848 میں دیا گیا۔ 1840 کی دہائی میں مہاجرین کی بھاری تعداد نے مغربی کینیڈا کی آبادی کو دس سال میں دُگنا کر دیا۔ اس طرح پہلی بار انگریزی بولنے والوں کی تعداد فرانسیسی بولنے والوں سے بڑھ گئی۔ اس طرح حکومت میں ان کی نمائندگی اور اسی طرح طاقت کا توازن بگڑ گیا۔
1850 کے معاشی بڑھوتری کے بعد صوبے میں ٹرین کی توسیعی پٹڑی بچھانے کا کام شروع ہوا تاکہ مرکزی کینیڈا کی معاشی طاقت کو بڑھایا جا سکے۔
امریکی خانہ جنگی کے باعث مداخلت کے خدشے کے پیش نظر انگریزی اور فرانسیسی بولنے والے قانون سازوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ 1860 کی دہائی میں کانفرنسیں بلائی جائیں تاکہ تمام برطانوی کالونیوں کو ملانے کا ایک بہتر نظام تیار ہو سکے۔ یکم جولائی 1867 میں برطانوی شمالی امریکہ کا ایکٹ وجود میں آیا جس نے کینیڈا کی ڈومینن بنائی۔ ابتداً اس میں چار صوبے تھےَ نووا سکوشیا، نیو برنزوک، کیوبیک اور اونٹاریو۔ کینیڈا کے صوبے کو کیوبیک اور اونٹاریو میں تقسیم کر دیا گیا تاکہ ہر زبان کے بولنے والوں کی اکثریت کو ان کا اپنا صوبہ مل جائے۔ کیوبیک اور اونٹاریو کو پابند کیا گیا کہ وہ معاہدے کے تحت اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کریں گے۔ اس طرح اونٹاریو میں کیتھولک سکول کھولنے کی اجازت دے دی گئی۔ تاہم آئینی طور پر دونوں صوبے اپنے اندر موجود انگریز یا فرانسیسی اقلیت کے تحفظ کے ذمہ دار نہ تھے۔ اس وقت ٹورنٹو کو عارضی صوبائی دارلخلافہ بنا دیا گیا۔
1867 سے 1896 تک
صوبے کا درجہ ملنے کے بعد اونٹاریو نے اپنی معیشت اور مقننہ طاقت کو بڑھانے کے لئے تگ و دو جاری رکھی۔ 1872 میں وکیل اولیور موات وزیر اعظم بنا اور 1896 تک اس عہدے پر رہا۔ اس نے صوبائی حقوق اور صوبائی امور پر مرکز کے کنٹرول کو کم کرنے کے لئے بہت جدوجہد کی۔ اس نے زیادہ تر یہ کام عدلیہ کی کمیٹی جو کہ پریوی کونسل کا حصہ تھی، کو اپیلیں کر کر کے منوایا۔ اس کی ان کاوشوں نے کینیڈا کی مرکزیت کو بہت کمزور کیا اور جان اے میکڈونلڈ کی خواہشات سے زیادہ صوبوں کو خودمختاری دلوائی۔ اس نے اونٹاریو کے تعلیمی اور صوبائی اداروں کو مضبوط بنایا اور ان کی تعداد بڑھائی۔ شمالی اونٹاریو میں نئے اضلاع بنائے اور کسی قدر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر کے اس بات کو یقینی بنایا کہ اونٹاریو کے شمال مغربی حصے جو کہ بالائی کینیڈا کا حصہ نہیں تھے، اونٹاریو کا حصہ بنیں۔ یہ حصے سپیرئیر جھیل، خلیج ہڈسن کے شمال اور مغرب میں تھے۔ انہیں کیواٹین کا ضلع کہا جاتا تھا۔ اس کی یہ کاوش بارآور ثابت ہوئی اور 1889 کے کینیڈا کے ایکٹ کے تحت یہ تمام حصے اونٹاریو کو مل گئے۔ اس نے صوبے کو کینیڈا کا معاشی پاور ہاؤس بھی بنایا۔ موات اونٹاریو کی سلطنت (جیسا کہ اکثر کہا جاتا ہے) کا بانی تھا۔
سر جان اے میکڈونلڈ کی قومی پالیسی سے شروع ہو کر اور کینیڈین پیسیفک ریلوے (1885-1875) جو کہ اونٹاریو کے شمال سے ہوتی ہوئی پریریز اور پھر برٹش کولمبا تک جاتی ہے، نے اونٹاریو کی صنعت اور مینوفیکچرنگ کو نئی جلاء بخشی۔ تاہم صوبے کی آبادی میں اضافہ چند سال کے لئے متائثر ہوا جب یہاں عظیم مندی پہنچی۔ نئے مہاجرین اور دیگر لوگوں نے ریل کی پٹڑی کی تعمیر کے ساتھ ہی مغرب کی طرف منتقلی جاری رکھی۔
1896 تا حال
19ویں صدی کے اختتام تک کان کنی اور معدنیات کا اخراج اپنے عروج پر تھا جس کی وجہ سے شمال مشرقی علاقوں جیسا کہ سنڈبری، کوبالٹ اور ٹیمنز میں کان کنی کے مراکز قائم ہوئے۔ صوبے نے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا اور یہ تمام پن بجلی ہائیڈور الیکٹرک پاور کمیشن آف اونٹاریو کے تحت تھا۔ بعد ازاں اسے اونٹاریو ہائیڈور کو دے دیا گیا۔ سستی بجلی سے صنتعی ترقی میں اضاف ہوا۔ فورڈ موٹر کمپنی نے 1904 میں کینیڈا میں اپنا کارخانہ کھولا۔ جنرل موٹرز نے 1918 میں کینیڈا میں کام شروع کیا۔ آنے والے وقتوں میں موٹروں کی صنعت اونٹاریو کی آمدنی کا اہم ذریعہ بنی۔
جولائی 1912 میں سر جیمز پی وائٹنی کی قدامت پرست حکومت نے ریگولیشن نمبر 17 جاری کیا جس کے تحت صوبے کی فرانسیسی بولنے والی اقلیت کے لئے سکولوں کی تعداد انتہائی کم کر دی گئی۔ فرانسیسی نژاد باشندوں نے اس کی شدت سے مخالفت کی۔ 1927 میں یہ پابندی ختم کر دی گئی۔
امریکی واقعات سے متائثر ہو کر سر ولیم ہیرسٹ کی حکومت نے اونٹاریو امتناہی ایکٹ منظور کرتے ہوئے شراب پر پابندی عائد کر دی۔ تاہم شہریوں کو اپنی ذاتی ضروریات کے لئے شراب کشید کرنے اور اسے ذخیرہ کرنے کی اجازت تھی۔ اسی طرح تاجروں کو اجازت تھی کہ وہ شراب کو برآمد کر سکتے تھے۔ اس طرح اونٹاریو امریکہ جہاں شراب ممنوع ہو چکی تھی، کو شراب کی سمگلنگ کا اہم گڑھ بن گیا۔ 1927 میں اس پابندی کا خاتمہ ہوا جب جارج ہوورڈ فرگوسن نے اونٹاریو کے شراب کے کنٹرول کا بورڈ بنایا۔ تاہم شراب کی فروخت اور کھپت پر اب بھی سخت کنٹرول تھا تاکہ اس سے پوری رقم وصول کی جا سکے۔ اپریل 2007 میں اونٹاریو کی صوبائی پارلیمان کے ایک رکن کم کریٹر نے تجویز دی کہ مقامی شراب کشید کرنے والوں کو اجازت دی جائے کہ وہ اپنی شراب اپنے مقامی سٹوروں میں سکیں، تاہم اس کو وزیر اعظم ڈالٹن میگوئیٹی نے سختی سے رد کر دیا۔
جنگ عظیم دوم کے بعد کے عرصے میں بے انتہا خوشحالی اور ترقی آئی۔ اونٹاریو اور اس کے آس پاس کا علاقہ بالخصوص اب نئے آنے والے مہاجرین کا گڑھ بن گیا۔ ان کی اکثریت جنگ سے متائثرین یورپیوں کی تھی جو 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں آئے۔ 1970 کے وفاقی امیگریشن کے قانون کے بعد مہاجرین کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔ اونٹاریو جو کہ پہلے برطانوی اکثریت کا صوبہ تھا، اب کثیر القوامی بنتا جا رہا ہے۔
کیوبیک کی قوم پرست تحریک کی وجہ سے انگریزی بولنے والے تاجروں اور لوگوں کو کیوبیک سے باہر اونٹاریو میں دھکیل دیا گیا۔ اس کی وجہ سے ٹورنٹو کی آبادی اور معاشی سرگرمیاں مونٹریال سے بڑھ گئیں۔ اب ٹورنٹو کینیڈا کا سب سے بڑا شہر اور تجارتی مرکز بن گیا۔ شمالی ساحلی صوبوں میں معاشی بحران سے بھی لوگ کثرت سے اونٹاریو منتقل ہوئے۔
اونٹاریو کی سرکاری زبان کوئی نہیں ہے لیکن انگریزی کو سرکاری زبان سمجھا جاتا ہے۔ 1990 کے فرانسیسی زبان کے سروسز ایکٹ کے تحت جہاں مناسب مقدار میں فرانسیسی بولنے والے رہتے ہوں، سرکاری خدمات فرانسیسی میں بھی مہیا کی جاتی ہیں۔
حکومت
برٹش نارتھ امریکہ ایکٹ 1867 کے سیکشن 69 میں واضح کیا گیا کہ "اونٹاریو کی مقننہ لیفٹینٹ گورنر اور ایک ایوان پر مشتمل ہوگی"۔ اس اسمبلی میں کل 107 نشستیں تھیں اور وہ صوبے میں فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ یعنی جو انتخاب جیتے گا، اسے تمام ووٹ دے دیئے جائیں گے۔ ٹورنٹو کے کوئینز پارک کی قانون سازی کی عمارت میں یہ ایوان واقع ہے۔ ویسٹ منسٹر نظام پر عمل کرتے ہوئے ایوان میں سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی جماعت کا سربراہ وزیر اعظم اور کونسل کا صدر کہلاتا ہے۔ وزیر اعظم کابینہ کا انتخاب کرتا ہے۔ کابینہ کے اراکین کو تاج کے وزراء کا نام دیا جاتا ہے۔ اونٹاریو کے وزیر اعظم کو وزیر اعظم کی بجائے پریمئر کہا جاتا ہے تاکہ کینیڈا کے وزیر اعظم اور اونٹاریو کے وزیر اعظم کے درمیان کوئی الجھن نہ پیدا ہو۔
سیاست
روایتی طور پر اونٹاریو میں تین جماعتوں کا نظام ہے۔ گذشتہ چند دہائیوں میں اونٹاریو لبرل پارٹی، اونٹاریو پروگریسیو کنزرویٹو پارٹی اور اونٹاریو نیو ڈیموکریٹک پارٹی ایسی جماعتیں ہیں جو مختلف اوقات میں صوبے کی حکمرانی کر چکی ہیں۔
اس وقت اونٹاریو پر لبرل کی حکومت ہے اور پریمئر ڈالٹن میک گوئینٹی ہیں۔ موجودہ حکومت 2003 میں پہلی بار اور دوسری بار 10 اکتوبر 2007 کو منتخب ہوئی۔
وفاقی سطح پر اونٹاریو کو ایسے صوبے کے طور پر جانا جاتا ہے جو کینیڈا کی لبرل پارٹی کے سخت حمایتی ہیں۔ کینیڈا کے ہاؤس آف کامن میں اونٹاریو کی 106 نشستیں ہیں۔ جو پارٹی اونٹاریو میں جیتے، وہ ہاؤس آف کامن میں 106 نشستیں پاتی ہے۔ اونٹاریو کی نشستیں کینیڈا میں دیگر صوبوں سے زیادہ ہیں۔ اونٹاریو سے جیتنے کا مطلب عموماً کینیڈا کے وفاقی انتخابات کی جیت ہوتا ہے۔
1788 تا 1899 تک ہونے والا ریاستوں کا ارتقاء
مقامی لوگوں سے معاہدے سے قبل زمین کو قانونی طور پر مختلف صوبوں کے مابین تقسیم نہیں کیا گیا تھا۔ 1788 میں جب اونٹاریو کیوبیک کا حصہ تھا، جنوبی اونٹاریو کو چار ضلعوں یعنی ہییسے، لونن برگ، میکلین برگ اور ناساؤ میں تقسیم کیا گیا تھا۔
1792 میں ان چار ضلعوں کا نام بدل دیا گیا۔ ہیسے کو ایسٹرن، لونن برگ کو ناردرن، میکلین برگ کو مڈلینڈ اور ناساؤ کو ہوم ضلع بنایا گیا۔ ان اضلاع کے درمیان کاؤنٹیوں کو بنایا گیا۔
1798 میں اضلاع کی تعداد بڑھ کر آٹھ ہو گئی، یعنی ایسٹرن، ہوم، جونز ٹاؤن، لندن، مڈلینڈ، نیو کیسل، نیاگرا اور ویسٹرن۔
1826 میں اضلاع بڑھ کر گیار ہو گئے، یعنی باتھرسٹ، ایسٹرن، گور، ہوم، جونز ٹاؤن، لندن، مڈلینڈ، نیو کیسل، نیاگرا، اوٹاوا اور ویسٹرن۔
1838 میں اضلاع کی تعداد بیس کر دی گئی، یعنی باتھرسٹ، بروک، کولبورن، ڈلہوزی، ایسٹرن، گور، ہوم، ہرون، جونز ٹاؤن، لندن، مڈلینڈ، نیو کیسل، نیاگرا، اوٹاوا، پرنس ایڈورڈ، سمکوئی، ٹالبوٹ، وکٹوریا، ولنگٹن اور ویسٹرن۔
1849 میں جنوبی اونٹاریو کے اضلاع کو پراونس آف کینیڈا کی طرف سے ختم کر کے اکثر جگہوں پر کاؤنٹی حکومتیں بنا دی گئیں۔ پراونس آف کینیڈا نے شمالی اونٹاریو میں دور دراز اور الگ تھلگ کم آباد علاقوں میں اضلاع بنانے شروع کر دیئے۔
اونٹاریو کی شمالی اور مغربی سرحدوں کا تنازعہ الحاق کے بعد کھڑا ہو گیا۔ اونٹاریو کے شمال مشرقی حصے کی حدود جانچنے کے لئے 1884 میں پریوی کونسل کی جوڈیشل کمیٹی بنائی گئی۔ اس کی توثیق کینیڈا ایکٹ 1889 میں برطانوی پارلیمنٹ میں کی گئی۔ 1899 تک سات شمالی اضلاع الگوما، مینی ٹولن، مسکوکا، نپیسینگ، پاری ساؤنڈ، رینی ریور اور تھنڈر بے بن گئے۔ 1907 سے 1912 کے درمیان چار اور شمالی ضلعے بنے جو کہ کوچرانے، کینورا، سڈبری اور ٹیمیس کیمنگ تھے۔
کینیڈا کا ایک صوبہ ہے جو اس کے مرکز میں واقع ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ سب سے بڑا ہے اور رقبے کے لحاظ سے کیوبیک کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے (نُنا وُت اور شمال مغربی ریاست سے اس کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا جو کہ ریاستیں ہیں، صوبہ جات نہیں)۔ اونٹاریو کی سرحدیں مغرب میں مینی ٹوبہ، مشرق میں کیوبیک کے صوبہ جات سے اور امریکی ریاستوں مشی گن، نیو یارک اور منی سوٹا سے ملتی ہیں۔ امریکہ سے ملنے والی اونٹاریو کی زیادہ تر سرحد قدرتی ہے اور یہ لیک آف وڈز سے شروع ہوتی ہے اور چار عظیم جھیلوں: سپیریئر لیک، ہُرون، ایری اور اونٹاریو (جس کے نام پر اس صوبے کا نام رکھا گیا ہے) سے ہوتی ہوئی گذرتی ہے اور پھر سینٹ لارنس کے دریا کے ساتھ چلتی ہے۔ اونٹاریو کینیڈا کا وہ واحد صوبہ ہے جو ان چاروں عظیم جھیلوں سے ملا ہوا ہے۔
اونٹاریو کا دارلخلافہ ٹورنٹو ہے۔ ٹورنٹو کینیڈا کا سب سے بڑا شہر ہے۔ کینیڈا کا دارلحکومت اوٹاوا بھی اونٹاریو میں ہی واقع ہے۔ 2006 کی مردم شماری سے ظاہر ہوا ہے کہ 12160282 یعنی ایک کروڑ اکیس لاکھ ساٹھ ہزار دو سو بیاسی افراد اس صوبے میں رہتے ہیں۔ یہ تعداد کل ملکی آبادی کا ساڑھے اڑتیس فیصد ہے۔
اس صوبے کا نام جھیل اونٹاریو سے نکلا ہے جو ایک مقامی زبان (ہُرون) کا لفظ سمجھا جاتا ہے اور جس کا مطلب عظیم جھیل ہے۔ ایک اور ممکنہ ماخذ سکاناڈاریو لفظ (ایروکویان زبان) کا بھی ہو سکتا ہے جس کا مطلب خوبصورت پانی ہے۔ نیو برنزوک، نووا سکوشیا اور کیوبیک کے ساتھ، اونٹاریو کینیڈا کے ان ابتدائی چار صوبوں میں سے ایک ہے جنہوں نے یکم جولائی 1867 کو برطانوی شمالی امریکہ کے ماہدے کے تحت ایک قوم کی شکل اختیار کی تھی۔
اونٹاریو کینیڈا کا سب سے اہم اور بڑا مینوفیکچرنگ والا صوبہ ہے اور کل قومی مصنوعات کا پچاس فیصد سے زائد حصہ یہاں تیار ہوتا ہے۔
جغرافیہ
یہ صوبہ چار بڑے جغرافیائی علاقوں پر مشتمل ہے:
• شمال مغربی اور درمیانی حصہ جو کم آباد ہے اور کینیڈین شیلڈ پر مشتمل ہے، اس کی زیادہ تر زمین بنجر ہے، اس میں نمکیات کی کثرت ہے اور جگہ جگہ جھیلیں اور دریا موجود ہیں، اس کے دو مزید حصے ہیں، شمال مغربی اونٹاریو اور شمال مشرقی اونٹاریو
• خلیج ہڈسن کا نچلا علاقہ جو تقریباً غیر آباد ہے، جو انتہائی شمال اور شمال مشرق میں ہے، دلدلی اور چند جنگلات پر مشتمل ہے
• معتدل اور سب سے زیادہ آباد علاقہ جو عظیم جھیلوں کے ساتھ واقع ہے اور انتہائی زرخیز ہے اور جنوب میں ہے جہاں کاشتکاری اور صنعتیں جوبن پر ہیں۔ جنوبی اونٹاریو کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: جنوب مغربی اونٹاریو (جس کے کچھ حصوں کو پہلے مغربی اونٹاریو کہا جاتا تھا)، گولڈن ہارس شو، مرکزی اونٹاریو (جو حقیقتاً اونٹاریو کا جغرافیائی مرکز تو نہیں) اور مشرقی اونٹاریو
صوبے میں کسی بھی قسم کے پہاڑوں کی عدم موجودگی کے باوجود یہاں بہت سے علاقے سطح مرتفع پر مشتمل ہیں، خصوصاً وہ علاقے جو کینیڈین پلیٹ پر واقع ہیں اور صوبے کے شمال مغرب سے جنوب مغرب تک پھیلے ہوئے ہیں اور نیاگرا کے اوپر کی طرف موجود ہیں۔ اس علاقے کا سب سے اونچا علاقہ اشپاٹینا کی چٹان ہے جو سطح سمندر سے 693 میٹر بلند ہے۔ یہ ٹیماگامی کے مقام پر اونٹاریو کے شمال مشرق میں ہے۔
کیرولائنین کے جنگلات کا علاقہ صوبے کے زیادہ تر جنوب مغربی حصے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کا شمالی حصہ گریٹر ٹورنٹو کے علاقے کا حصہ ہے جو اونٹاریو کی جھیل کا مغربی سرا ہے۔اس علاقے کا سب سے مشہور جغرافیائی مقام نیاگرا کی آبشار ہے۔ سینٹ لارنس کا سمندری راستہ بحر اوقیانوس سے آمد و رفت کا راستہ مہیا کرتا ہے۔ یہ کینیڈا کے اتنا اندر تک راستہ مہیا کرتا ہے جتنا کہ تھنڈر کی خلیج شمال مغربی اونٹاریو میں مہیا کرتی ہے۔ شمالی اونٹاریو کا پچاسی فیصد حصہ زمینی ہے اور جنوبی اونٹاریو میں صوبے کی چورانوے فیصد آبادی رہتی ہے۔
پوانٹ پیلی نیشنل پارک ایک جزیرہ نما ہے جو جنوب مغربی اونٹاریو میں ہے اور ایری جھیل تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ کینیڈا کا انتہائی جنوبی حصہ بھی ہے۔ پیلی کا جزیرہ اور مڈل جزیرہ جو کہ ایری جھیل میں ہیں، اس سے ذرا زیادہ نیچے ہیں۔ یہ سب حصے کیلیفورنیا کی سرحد سے ذرا سا نیچے ہیں۔
آبادی
1851 سے اب تک اونٹاریو کی آبادی
سال آبادی پانچ سال کا فیصد اضافہ دس سال کا فیصد اضافہ دیگر صوبوں میں درجہ بندی
1851 952,004 n/a 208.8 1
1861 1,396,091 n/a 46.6 1
1871 1,620,851 n/a 16.1 1
1881 1,926,922 n/a 18.9 1
1891 2,114,321 n/a 9.7 1
1901 2,182,947 n/a 3.2 1
1911 2,527,292 n/a 15.8 1
1921 2,933,662 n/a 16.1 1
1931 3,431,683 n/a 17.0 1
1941 3,787,655 n/a 10.3 1
1951 4,597,542 n/a 21.4 1
1956 5,404,933 17.6 n/a 1
1961 6,236,092 15.4 35.6 1
1966 6,960,870 11.6 28.8 1
1971 7,703,105 10.7 23.5 1
1976 8,264,465 7.3 18.7 1
1981 8,625,107 4.4 12.0 1
1986 9,101,695 5.5 10.1 1
1991 10,084,885 10.8 16.9 1
1996 10,753,573 6.6 18.1 1
2001 11,410,046 6.1 13.1 1
2006* 12,160,282 6.6 13.1 1'
لسانی گروہ
اونٹاریو کی 2001 میں اہم اقلیتیں
گروہ حصہ %
کل آبادی 11,285,545 100
کینیڈین
3,350,275 29.7
انگریز
2,711,485 24
سکاٹش
1,843,110 16.3
آئرش
1,761,280 15.6
فرانسیسی
1,235,765 10.9
جرمن
965,510 8.6
اطالوی
781,345 6.9
چینی
518,550 4.6
ڈچ (نیدر لینڈ)
436,035 3.9
ایسٹ انڈین
413,415 3.7
پولش
386,050 3.4
یوکرائینی
290,925 2.6
شمال امریکی انڈین
248,940 2.2
پرتگالی
248,265 2.2
یہودی
196,260 1.7
جمیکائی
180,810 1.6
فلپائنی
165,025 1.5
ویلش
ہنگری نژاد
128,575 1.1
یونانی
120,635 1.0
روسی
106,710 0.9
ہسپانوی (جنوبی امیرکی)
103,110 0.9
امریکی
86,855 0.8
وہ برطانوی جو اوپر نہیں شامل 76,415 0.7
ویت نامی
67,450 0.6
فننش
64,105 0.6
کروشین
62,325 0.6
میٹس
60,535 0.5
سربین
40,580 0.39
یوگو سلاوین
37,650 0.36
بوسنیائی
8,600 0.08
اوپر جدول میں دی گئی معلومات میں فیصدوں کو اگر جمع کیا جائے تو وہ سو فیصد سے زیادہ ہو جاتی ہیں۔ اس کی وجہ دہری گنتی ہے جیسا کہ فرانسیسی نژاد کینیڈین کو کینیڈین اور فرانسیسی دونوں جگہ شمار کیا گیا ہے۔ اس میں دو لاکھ سے زیادہ آبادی رکھنے والے گروہ شامل کئے گئے ہیں۔ یہ سروے 2001 میں کیا گیا تھا۔ اونٹاریو کی اکثریت
برطانوی (انگریز، سکاٹش اور ویلش) اور آئرش نژاد ہے۔
مذہبی بنیاد پر گروہوں کی درجہ بندی کچھ یوں ہے
اونٹاریو میں 2001 میں اہم مذہبی گروہ
مذہب افراد %
کل 11,285,535 100
پروٹسٹنٹ 3,935,745 34.9
کیتھولک 3,911,760 34.7
لادین 1,841,290 16.3
مسلم 352,530 3.1
دیگر عیسائی 301,935 2.7
عیسائی آرتھوڈکس 264,055 2.3
ہندو 217,555 1.9
یہودی 190,795 1.7
بدھ مت 128,320 1.1
سکھ 104,785 0.9
مشرقی مذاہب 17,780 0.2
دیگر مذاہب 18,985 0.2
اونٹاریو کے باشندوں کی اکثریت برطانوی یا دیگر یورپی آباؤ اجداد سے ہے۔ اونٹاریو کی پانچ فیصد سے ذرا کم آبادی فرانسیسی نژاد ہے، یعنی جن کی اصل زبان فرانسیسی ہے۔ ویسے فرانسیسی پس منظر رکھنے والے افراد کی تعداد کل آبادی کا 11 فیصد ہے۔
قدری شرح پیدائش اور دوسرے صوبوں سے لوگوں کی منتقلی کے علاوہ اونٹاریو کی آبادی میں بہت زیادہ اضافہ مہاجرین کی آمد سے ہے جو گذشتہ دو صدیوں سے جاری ہے۔ اونٹاریو میں آج کل زیادہ منتقل ہونے والے گروہوں میں کیریبین (جمیکا، ٹرینیڈاڈ اور گیانی)، جنوبی ایشیائی (پاکستانی، بھارتی، بنگلہ دیشی اور سری لنکن)، مشرقی ایشیائی (زیادہ تر چینی اور فلپائنی)، وسطی اور جنوبی امریکی (کولمبیا، میکسیکو، ارجنٹائن اور ایکواڈور)، مشرقی یورپی جیسا کہ روسی اور بوسنیائی، ایران، صومالیہ اور مغربی افریقہ سے آنے والے گروہ بھی شامل ہیں۔ زیادہ تر افراد ٹورنٹور اور اس کے گرد و نواح میں منتقل ہوتے ہیں۔ ان کا کچھ حصہ دیگر شہروں جیسا کہ لندن، کچنر، ہیملٹن، ونڈسر اور اوٹاوہ بھی جا بستا ہے۔
آبادی کے تناسب سے دس بڑے شہری علاقے یعنی میٹروپولیٹن علاقے
میونسپلٹی
2006
2001
1996
ٹورنٹو (صوبائی دارلخلافہ)
2,503,281
2,481,494
2,385,421
اوٹاوہ (ملکی دارلحکومت)
812,129
774,072
721,136
مسی ساگا
668,549
612,925
544,382
ہیملٹن
504,559
490,268
467,799
برامپٹن
433,806
325,428
268,251
لندن
352,395
336,539
325,669
مرخم
261,573
208,615
173,383
واغان
238,866
182,022
132,549
ونڈسر
216,473
209,218
197,694
کچنر
204,668
190,399
178,420
موسم
اونٹاریو میں تین بڑے موسمی خطے ہیں۔ اونٹاریو کا زیادہ تر جنوب مغربی حصہ اور گولڈن ہارس شو کے نچلے علاقے معتدل اور مرطوب موسم والے ہیں۔ اس علاقے میں گرم اور مرطوب گرمیاں اور سرد سردیاں ہوتی ہیں۔ کینیڈا کے دیگر حصوں کے موسم کا اگر اس سے مقابلہ کیا جائے تو یہ بہت معتدل ہے۔ گرمیوں میں جنوبی امریکہ سے اٹھے والی ہوائیں شمالی امریکہ کے براعظم میں داخل ہو کر اسے مزید گرم اور مزید مرطوب بنا دیتی ہیں۔ سارا سال خصوصاً خزاں اور سردیوں میں درجہ حرارت چار عظیم جھیلوں کی وجہ سے صوبے کے دیگر حصوں کی نسبت بہت مناسب رہتا ہے۔ اس وجہ سے یہاں فصلیں اُگانے کے لئے زیادہ وقت ہوتا ہے۔ خزاں اور بہار دونوں ہی معتدل ہوتی ہیں اور رات کو خنکی بڑھ جاتی ہے۔ اس علاقے میں سالانہ بارش کی اوسط 750 ملی میٹر سے 1000 ملی میٹر تک دیکھی جاتی ہے۔ بارشیں سارا سال ہی ہوتی ہیں اور گرمیوں میں ان کی تعداد خصوصاً بڑھ جاتی ہے۔اس علاقے کا زیادہ تر حصہ اونٹاریو کے دیگر حصوں کی نسبت بہت کم برف باری دیکھتا ہے۔
مزید شمالی اور جنوب کا وہ حصہ جو ہواؤں کی زد میں آتا ہے اور وسطی اور مشرقی اونٹاریو اور شمالی اونٹاریو کے جنوبی حصے میں موسم شدید مرطوب قسم کا رہتا ہے۔ ان علاقوں میں گرمیوں کا موسم گرم سے گرم تر رہتا ہے اور سردیوں میں نسبتاً سرد اور لمبا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے یہاں کاشتکاری کے لئے مناسب دورانیہ کم ہوتا ہے۔ اس علاقے کے جنوبی حصے عظیم جھیلوں سے آنے والی ہواؤں کی زد میں ہوتے ہیں۔ ان عظیم جھیلوں کے باعث موسم نسبتاً معتدل رہتا ہے۔ تاہم جھیلوں کی وجہ سے لیک ایفیکٹ سنو یعنی جھیل سے اٹھنے والے بخارات جب قطب شمالی سے آنے والی ٹھنڈی ہواؤں سے ملتے ہیں تو اس کے نتیجے میں برفباری ہوتی ہے۔ اس کا اثر ساحل سے سو کلومیٹر یا اس سے بھی زیادہ دور تک ہوتا ہے۔ اس حد میں بعض علاقوں میں سالانہ برفباری 300 سم یعنی 120 انچ سے زیادہ ہوتی ہے۔
اونٹاریو کے انتہائی شمالی علاقے جو کہ زیادہ تر 50 ڈگری شمال میں ہیں، کا موسم سب آرکٹک ہے۔ یہاں بہت لمبی سردیاں ہوتی ہیں اور مختصر اور نیم گرم گرمیاں ہوتی ہیں۔ یہاں درجہ حرارت اچانک تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ گرمیوں میں کبھی کبھار ہی گرم موسم اونٹاریو کے ان انتہائی شمالی علاقوں تک پہنچتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں نمی جنوب کی نسبت کم ہی ہوتی ہے۔ چونکہ آرکٹک سے آنے والی ہواؤں کو روکنے کے لئے یہاں کوئی اونچے پہاڑ نہیں موجود، یہاں سردیاں عموماً بہت سرد ہوتی ہیں۔ خصوصاً انتہائی شمال اور شمال مغرب میں درجہ حرارت منفی 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ ان علاقوں میں برف زیادہ دیر سے پگھلتی ہے۔ یہاں اکتوبر سے مئی تک برف دکھائی دینا عام سی بات ہے۔
جون اور جولائی میں صوبے کے زیادہ تر حصوں میں سخت آندھی اور طوفان آتے ہیں۔ جنوبی علاقوں میں یہ مارچ سے نومبر تک قطب شمالی سے آنے والی ٹھنڈی ہوا جب خلیج کی گرم ہواؤں کے ٹکراؤ سے یہ طوفان آتے ہیں۔ گرمیوں میں یہ اوپر اٹھنے والی گرم ہواؤں کی وجہ سے جنم لیتے ہیں۔ یہ طوفان عموماً الگ تھلگ ہوتے ہیں۔ ایک اور طرح کے طوفان عموماً رات کو پیدا ہوتے ہیں اور ہوا کی گذرگاہوں کی جگہوں پر شدید تیز ہوا پیدا کرتے ہیں۔ صرف ہڈسن اور جیمز بے کا نچلا علاقہ ان طوفانوں سے عموماً پاک رہتا ہے۔ شدید موسمی تبدیلیوں کا شکار ہونے والا علاقہ عموماً جنوب مغربی اور وسطی اونٹاریو ہوتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ جھیل سے آنے والی ہوائیں ہوتی ہیں۔ کینیڈا میں لندن کا شہر سب سے زیادہ آسمانی بجلی کا شکار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ طوفانوں کے حوالے سے یہ ملک کا ایسا حصہ جہاں زیادہ طوفان آنے کا امکان ہوتا ہے۔ ٹارنیڈو یعنی گردباد بھی یہاں عام ہیں۔ اکثر گردباد خطرناک نہیں ہوتے۔ شمالی اونٹاریو میں کم آبادی کی وجہ سے اکثر ٹارنیڈو بغیر معلوم ہوئے پیدا اور ختم ہو جاتے ہیں۔ ہوائی جہازوں کے پائلٹ ان کی گذرگاہ کے راستے میں آنے والے جنگلات کی تباہی سے ان کا اندازہ لگاتے ہیں۔
معیشت
اونٹاریو کے دریا بشمول نیاگرا کا دریا، اس صوبے میں پن بجلی پیدا کرنے کے لئے اہم ہیں۔ 1999 میں اونٹاریو ہائیڈرو کی نجکاری کے بعد اونٹاریو پاور جنریشن صوبے کی کل بجلی کا 85 فیصد حصہ پیدا کرتی ہے۔ اس میں 41 فیصد ایٹمی، 30 فیصد پن بجلی اور 29 فیصد قدرتی ایندھن کے جلانے سے پیدا ہوتا ہے۔ اونٹاریو پاور جنریشن اس بجلی کی ترسیل کی ذمہ دار نہیں، اس کا نظام ہائیڈور ون کے پاس ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ پرانے ہوتے ایٹمی بجلی گھروں، بجلی کی بڑھتی ضروریات وغیرہ کے باعث اونٹاریو اپنے ہمسائیوں کیوبیک اور مشی گن سے زیادہ ضروری اوقات میں بجلی حاصل کرتا ہے۔
قدرتی ذرائع سے مالا مال، امریکہ کے اندر تک رسائی کے حامل مواصلات کے نظام اور خشکی میں دور تک موجود عظیم جھیلوں کے باعث سمندری رسائی قابل عمل ہے جو مال بردار بحری جہازوں سے ہوتی ہے۔ اس کے باعث مینوفیکچرنگ کو بنیادی صنعت کا درجہ حاصل ہے۔ یہ زیادہ تر گولڈن ہارس شو کے علاقے میں قائم ہیں۔ یہ علاقہ کینیڈا کا سب سے زیادہ صنعتی علاقہ ہے۔ یہاں کی اہم پیداوار میں موٹر کاریں، لوہا، سٹیل، خوراک، بجلی کے آلات، مشینیں، کیمکل اور کاغذ ہیں۔ اونٹاریو مشی گن سے زیادہ کاریں بناتا ہے جو کہ چھبیس لاکھ چھیانوے ہزار کاریں سالانہ ہے۔
تاہم تیزی سے گرتی ہوئی فروخت کی وجہ سے جنرل موٹرز نے 21 نومبر 2005 کو اعلان کیا کہ وہ شمالی امریکہ میں واقع اپنے کارخانوں میں بھاری مقدار میں کانٹ چھانٹ کر رہا ہے۔ ان میں اوشاوا اور کیتھارین کے کارخانے بھی شامل ہیں۔ 2008 تک اونٹاریو ہی میں 8000 نوکریاں ختم کر دی جائیں گی۔ اسی طرح 23 جنوری 2006 میں فورڈ موٹرز کارپوریشن نے بھی اعلان کیا کہ وہ 2012 تک پچیس سے تیس ہزار تک نوکریاں ختم کرے گا۔ تاہم ان نقصانات میں کمی کی وجہ فورڈ کی طرف سے مخلوط ایندھن والی گاڑی کی تیاری ہے۔ ٹویوٹا نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ وڈز سٹاک میں 2008 میں اپنا نیا کارخانہ لگائے گی۔ اسی طرح ہونڈا نے بھی الیسٹون میں ایک نیا انجن پلانٹ بڑھائے گا۔
اونٹاریو کا دارلخلافہ ٹورنٹو کینیڈا کی معاشی سرگرمیوں اور بینکاری کا مرکز ہے۔ ٹورنٹو سے ملحقہ علاقے جیسا کہ برامپٹن، مسی ساگا اور واغان وغیرہ تقسیم کے لئے اہم ہیں۔ ان علاقوں میں اپنی صنعتیں بھی ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی بالخصوص مارخم، واٹر لو اور اوٹاوا میں اہم شعبہ ہے۔ ہیملٹن کینیڈا کا سٹیل بنانے کے لئے سب سے بڑا صنعتی علاقہ ہے۔ سارنیا میں پیٹروکیمیکل صنعت کا مرکز ہے۔ تعمیراتی کارکن کل ورک فورس کا سات فیصد حصہ ہیں۔ تاہم غیر رجسٹر شدہ کارکنوں کے باعث یہ تعداد دس فیصد بھی ہو سکتی ہے۔ گذشتہ دس سال سے یہ شعبہ مسلسل ترقی کی طرف گامزن ہے کیونکہ نئے گھر اور عمارات کی تعمیر میں اضافہ ہو رہا ہے اور کم قیمت رہن اور بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث ایسا ہو رہا ہے۔ کان کنی اور جنگل سے متعلق پیداوار جن میں گودا اور کاغذ شامل ہیں، شمالی اونٹاریو کی معیشت کا اہم حصہ ہیں۔ دوسرے علاقوں سے زیادہ یہاں سیاحت یہاں کی معیشت میں اپنا اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سیاحت کا زور زیادہ تر گرمیوں میں رہتا ہے۔ گرمیوں میں تازہ پانی میں کھیل کود آسان ہوتی ہے اور لوگ قدرت سے لطف اندوز ہونے آتے ہیں جو کہ ان شہروں کے بالکل نزدیک ہوتی ہے۔ سال کے دیگر اوقات میں شکار، سکیینگ اور سنو باؤلنگ کھیلی جاتی ہے۔ اس علاقے میں خزاں کے رنگ پورے براعظم میں سب سے زیادہ خوبصورت دکھائی دیتے ہیں اور ان کی وجہ سے بے شمار غیر ملکی سیاح اسے دیکھنے آتے ہیں۔ سیاحت کی وجہ سے سرحدی شہروں میں جوا خانے وغیرہ بہت کامیاب رہتے ہیں۔ ان شہروں میں ونڈسر، راما اور نیاگرافال شامل ہیں جہاں امریکی سیاحوں کا زور رہتا ہے۔
زراعت
زراعت جو کبھی معیشت کا اہم ستون تھی، آبادی کا بہت کم حصہ اب اس سے وابستہ ہے۔ 1991 میں فارموں کی تعداد 68633 تھی جو 2001 میں کم ہو کر 59728 رہ گئی ہے۔ تعداد کی کمی کے باوجود یہ فارم رقبے کے لحاظ سے بڑھے ہیں اور اکثریت اب مشینوں سے آبادی کی جاتی ہے۔ مویشی، غلہ اور ڈیری کی مصنوعات سے یہ فارم زیادہ تر وابستہ ہوتے ہیں۔ پھل، انگور اور سبزیاں زیادہ تر نیاگرا کے جزیرہ نما تک محدود ہیں۔ کچھ حصہ ایری جھیل کے ساتھ بھی ہے جہاں تمباکو کی کاشت کے لئے زمین اور موسم بہت مناسب ہوتا ہے۔ تمباکو کی پیداوار میں کمی ہو رہی ہے جس کی بڑی وجہ ہیزل نٹ اور جن سنگ کو زیادہ اگایا جانا ہے۔ اونٹاریو میسی فرگوسن لمیٹڈ کا مرکز ہے جو کبھی دنیا کے سب سے بڑے زرعی مصنوعات بنانے والے اداروں میں سے ایک تھا۔ اس سے کینیڈا کی معیشت میں زراعت کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اونٹاریو کے جنوبی حصہ میں محدود کاشتکاری ہوتی ہے۔ اس کا زیادہ تر حصہ اب بیکار ہوتا جا رہا ہے۔ شہروں کی توسیع اور فارموں کے بننے کی وجہ سے اونٹاریو کی ہزاروں ایکڑ قابل کاشت زمین ہر سال بیکار ہو جاتی ہے۔ 2000 فارم اور 150000 ایکڑ اراضی 1976 سے 1996 کے درمیان بیکار ہوئی۔ یہ محض بیس سال کا عرصہ تھا۔ یعنی اونٹاریو کی اول درجے کی قابل کاشت زمین کا اٹھارہ فیصد حصہ شہروں کا حصہ بن گیا۔ اس کے علاوہ دیہاتی تقسیموں سے بھی زرعی پیداوار روز بروز گھٹ رہی ہے۔
نقل و حمل
تاریخی اعتبار سے صوبے میں دو شرقاً غرباً راستے استعمال ہوتے تھے۔ دونوں پڑوسی کیوبیک صوبے کے شہر مونٹریال سے شروع ہوتے تھے۔ شمالی راستہ جو کہ فرانسیسی بولنے والے کھالوں کے تاجر نے بنایا تھا، شمال مغرب کو اوٹاوہ دریا کے ساتھ ساتھ چلتا ہے اور پھر مینی ٹوبہ کی طرف مغرب کی سمت چلتا رہتا ہے۔ اس راستے پر یا اس کے نزدیک موجود بڑے شہروں میں اوٹاوہ، نارتھ بے، سنڈبری، سالٹ سینٹ میری اور تھنڈر بے شامل ہیں۔ بہت زیادہ مستعمل جنوبی راستہ، جو انگریزی بولنے والے افراد کے استعمال میں تھا، مونٹریال سے سینٹ لارنس کے دریا، اونٹاریو جھیل اور ایری جھیل کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ اس راستے پر بڑے شہروں میں کنگسٹن، اوشاوا، ٹورنٹو، مسی ساگا، کچنر یعنی واٹر لو، لندن، سارنیا اور ونڈسر شامل ہیں۔ اونٹاریو کی زیادہ تر سڑکیں اور ریلوے وغیرہ شمالاً جنوباً ہیں اور ان دونوں راستوں کو ہی استعمال کرتے ہیں۔
سڑک کا رابطہ
400 سیریز کی شاہراہیں صوبے کے جنوب میں اہم سڑکوں کا رابطہ ممکن بناتی ہیں۔ یہ امریکی سرحد کے ساتھ کئی رابطے مہیا کرتی ہیں۔ جنوبی سڑکوں میں شاہراہ نمبر 401 سب سے اہم ہے۔ یہ شمالی امریکہ کی سب سے مصروف شاہراہ ہے۔ اسے اونٹاریو کے سڑکوں، سیاحت اور معشیت میں ریڑھ کی ہڈی کی اہمیت حاصل ہے۔ شمالی راستے پر سب سے بینادی شاہراہ شاہراہ نمبر 417 بٹا شاہراہ 17 ہے۔ یہ ٹرانس کینیڈا والی شاہراہ کا حصہ ہے۔ شاہ راہ نمبر 400 بٹا شاہراہ نمبر 69 ٹورنٹو کو شمالی اونٹاریو سے ملاتی ہے۔ دیگر صوبائی شاہراہیں اور علاقائی سڑکیں صوبے کے دیگر حصوں کو آپس میں ملاتی ہیں۔
پانی کا رابطہ
سینٹ لارنس کا بحری راستہ جو کہ صوبے کے جنوبی حصے تک پھیلا ہوا ہے اور بحر اوقیانوس سے ملتا ہے، مال برداری کا سب سے اہم بحری راستہ ہے۔ یہ بالخصوص لوہے اور غلے کے لئے مشہور ہے۔ ماضی میں عظیم جھیلوں اور سینٹ لارنس کے دریا مسافروں کی اہم گذرگاہ تھے لیکن نصف صدی سے یہ اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔
ریل کا رابطہ
'
وی آہ ریل کیوبیک کے شہر سے ونڈسر تک مسافر ٹرینیں چلاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایم ٹریک اونٹاریو کو نیویارک کے اہم شہروں جیسا کہ بفیلو، البانی اور نیویارک سے ملاتی ہے۔ اونٹاریو نارتھ لینڈ ریل کی سہولیات کو خلیج جیمس کے نزدیک مُوسونی تک پہنچاتی ہے اور انہیں جنوب سے ملاتی ہے۔
فضائی رابطہ
لیسٹر بی پیئرسن کا بین الاقوامی ہوائی اڈہ ملک کا مصروف ترین اور دنیا کا 29واں مصروف ترین ہوائی اڈہ ہے۔ یہ سالانہ تین کروڑ مسافروں کو سنبھالتا ہے۔ دوسرے اہم ہوائی اڈوں میں اوٹاوہ بین الاقوامی ہوائی اڈہ اور ہیملٹن کا جان سی منرو کا بین الاقوامی ہوائی اڈہ شامل ہے جو کہ سامان کی فضائی ترسیل کا مرکز ہے۔ ٹورنٹو/ پیئرسن اور اوٹاوہ/ میکڈونلنڈ کارٹئیر کے ہوائی اڈے مصروف ترین تکون کے دو سرے ہیں۔ تیسرا سرا مانٹریال کا پیری ایلیٹ ٹروڈیاؤ بین الاقوامی ہوائی اڈہ ہے۔ ویسٹ جیٹ بھی اس تکون میں کام کرتی ہے۔ یہ تکون ائیر کینیڈا کا مصروف ترین ہوائی راستہ ہے۔ تیسری ائیر لائن پورٹر ائیرلائنز بھی اس علاقے میں کام شروع کر چکی ہے۔
اونٹاریو کے اکثر شہروں کے اپنے ہوائی اڈے ہیں جہاں سے چھوٹی ائیرلائنوں کی مدد سے مسافر بڑے ہوائی اڈوں تک لے جائے جاتے ہیں۔ بڑے شہر جیسا کہ تھنڈر بے، سالٹ سینٹ میری، سڈبری، نارتھ بے، ٹیمینز، ونڈسر، لندن اور کنگسٹن براہ راست ٹورنٹو پیئرسن سے جا ملتے ہیں۔ بیئرسکن ایئر لائن شمالی شرقاً غرباً فضائی راستے پر چلتی ہے اور ان تمام شہروں کو اوٹاوہ سے براہ راست ملاتی ہے اور مسافروں کو ٹورنٹو پیئرسن ائیرپورٹ نہیں جانا پڑتا۔
انتہائی شمالی علاقوں میں موجود الگ تھلگ شہروں کا جزوی یا کلی دارومدار فضائی سروس پر ہوتا ہے جو سفر، اشیا کی منتقلی حتٰی کہ ایمبولینس کا کام بھی سرانجام دیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دور دراز کا شمالی علاقہ سڑک یا ٹرین کی رسائی سے باہر ہے۔
تاریخ
1867 سے قبل
یورپیوں کی آمد سے قبل اس علاقے میں الگونکویان (اویبوا، کری اور الگونکوین) اور ایروکویان (ایروکویس اور ہُرون) قبائل آباد تھے۔ فرانسیسی مہم جو ایٹینے برولے نے اس علاقے کا کچھ حصہ 1610 سے 1612 میں دریافت کیا۔ انگریز مہم جو ہنری ہڈسن خلیج ہڈسن سے ہوتا ہوا 1611 میں آیا اور اس نے اس علاقے پر برطانوی قبضے کا دعویٰ کیا۔ سیموئل ڈی چیمپلین 1615 میں جھیل ہُرون تک پہنچا اور فرانسیسی مشنریوں نے ان عظیم جھیلوں کے کنارے اپنی چوکیاں بنانا شروع کر دیں۔ فرانسیسی آبادکاروں نے مقامی لوگوں پر مظالم ڈھائے جن کی وجہ سے یہ لوگ انگریزوں سے جا ملے۔
برطانویوں نے اپنی چوکیاں خلیج ہڈسن کے ساتھ سترہویں صدی میں قائم کیں اور اونٹاریو پر قبضہ جمانے کے لئے سرگرم ہو گئے۔ 1763 کے پیرس معاہدے کے تحت سات سالہ جنگ کا خاتمہ ہوا اور تمام شمالی امریکہ کے فرانسیسی مقبوضات کو برطانیہ کے حوالے کر دیا گیا۔ یہ علاقہ 1774 تک کیوبیک تک پھیلا ہوا تھا۔ 1783 سے 1796 تک برطانیہ نے اپنے ان تمام وفاداروں کو 200ایکڑ زمین دینے کا اعلان کیا جو امریکہ کے انقلاب کے بعد ادھر سے نکل آئے تھے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ اپنی نئی زندگی شروع کر سکیں۔ اس اقدام سے کینیڈا کی آبادی میں کافی اضاف ہوا اور یہ اضافہ دریائے سینٹ لارنس اور دریائے اونٹاریو سے مغرب کی طرف ہوا
1812 کی جنگ میں امریکی فوجیوں نے بالائی کینیڈا میں دریائے نیاگرا اور دریائے ڈیٹرائٹ تک پیش قدمی کی لیکن برطانویوں فوجیوں، کینیڈا کے فوجیوں اور مقامی آبائی قبائل نے کامیابی سے انہیں واپس پیچھے دھکیل دیا۔ تاہم امریکیوں نے جھیل ایری اور جھیل اونٹاریو پر قبضہ کر لیا اور جنگ یارک کے دران یارک کے شہر پر قبضہ کر لیا۔ یہ قبضہ 1813 میں ہوا۔ اس یار ک کے شہر کا موجودہ نام ٹورنٹو ہے۔ امریکیوں نے شہر میں لوٹ مار کی اور پارلیمان کی عمارتوں کو جلا دیا۔ تاہم انہیں جلد ہی واپس جانا پڑا۔
1812 کی جنگ کے بعد نسبتاً امن کے دور میں برطانیہ اور آئرلینڈ سے آنے والے مہاجرین نے امریکہ کی بجائے کینیڈا کا رخ کرنا شروع کر دیا۔ جیسا کہ پچھلی دہائیوں میں ہوتا رہا، ہجرت کا رخ ان کے لیڈروں کے قبضے میں ہوتا تھا۔ وہ جہاں چاہتے موڑ دیتے۔ سستی زمینوں بلکہ اکثر اوقات مفت زمینوں کے باوجود لوگوں کو سخت موسم وغیرہ کے باعث یہاں رہنے میں کافی مشکلات دکھائی دیں۔ بہت سارے لوگ واپس بھی لوٹ گئے۔ تاہم آنے والی دہائیوں میں ہجرت کی وجہ سے آبادی میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا رہا۔ ابھی تک یہ معاشرہ زراعت سے منسلک تھا اور نہروں اور سڑکوں کے ذریعے دیگر علاقوں اور امریکہ سے جڑا ہوا تھا، جس کی وجہ سے تعلقات وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہوتے چلے گئے۔
اسی دوران اونٹاریو کے ان گنت آبی راستوں نے اندرونی تجارت اور نقل و حمل کو آسان بنایا اور پانی سے ترقی حاصل کی۔ آبادی کے اضافے کے ساتھ ساتھ صنعتیں، نقل و حمل کے ذرائع بھی بڑھے اور انہوں نے ترقی کی رفتار بڑھائی۔ صدی کے اختتام تک اونٹاریو کا درجہ آبادی میں اضافے کی شرح، صنعتوں، فنون لطیفہ اور مواصلات کی حد تک ملک کے اندر کیوبیک سے بڑھ گیا۔
تاہم لوگوں میں امراء کے طبقے کے خلاف جذبات بیدار ہونے لگے جو کہ علاقے میں پائے جانے والے قدرتی ذرائع کا ناجائز فائدہ اٹھاتے تھے اور لوگوں کو منتخب تنظیمیں بنانے کا اختیار نہ دینا چاہتے تھے۔ اس سے قومیت کا ابتدائی جذبہ بیدار ہوا۔ نچلے اور بالائی کینیڈا میں ذمہ دار حکومت کے حق میں بغاوت ہوئی۔
تاہم دونوں بغاوتوں کو جلد ہی فرو کر دیا گیا اور برطانوی حکومت نے لارڈ ڈرہم کو بھیجا تاکہ وہ بے چینی کی وجہ جان سکیں۔ لارڈ ڈرہم نے تجویز پیش کی کہ انہیں اپنی حکومت بنانے کا اختیار دیا جائے اور بالائی اور نچلے کینیڈا کو ملا دیا جائے تاکہ فرانسیسی نژاد کینیڈین اکٹھے ہو سکیں۔ اس لئے 1840 کے یونین ایکٹ کے تحت دونوں کالونیوں کو ملا کر کینیڈا کا صوبہ بنا دیا گیا۔ اس کا دارلخلافہ کنگسٹن کو بنایا گیا اور بالائی کینیڈا کو مغربی کینیڈا کہا گیا۔ پارلیمانی طرز کی خود حکومت بنانے کا اختیار 1848 میں دیا گیا۔ 1840 کی دہائی میں مہاجرین کی بھاری تعداد نے مغربی کینیڈا کی آبادی کو دس سال میں دُگنا کر دیا۔ اس طرح پہلی بار انگریزی بولنے والوں کی تعداد فرانسیسی بولنے والوں سے بڑھ گئی۔ اس طرح حکومت میں ان کی نمائندگی اور اسی طرح طاقت کا توازن بگڑ گیا۔
1850 کے معاشی بڑھوتری کے بعد صوبے میں ٹرین کی توسیعی پٹڑی بچھانے کا کام شروع ہوا تاکہ مرکزی کینیڈا کی معاشی طاقت کو بڑھایا جا سکے۔
امریکی خانہ جنگی کے باعث مداخلت کے خدشے کے پیش نظر انگریزی اور فرانسیسی بولنے والے قانون سازوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ 1860 کی دہائی میں کانفرنسیں بلائی جائیں تاکہ تمام برطانوی کالونیوں کو ملانے کا ایک بہتر نظام تیار ہو سکے۔ یکم جولائی 1867 میں برطانوی شمالی امریکہ کا ایکٹ وجود میں آیا جس نے کینیڈا کی ڈومینن بنائی۔ ابتداً اس میں چار صوبے تھےَ نووا سکوشیا، نیو برنزوک، کیوبیک اور اونٹاریو۔ کینیڈا کے صوبے کو کیوبیک اور اونٹاریو میں تقسیم کر دیا گیا تاکہ ہر زبان کے بولنے والوں کی اکثریت کو ان کا اپنا صوبہ مل جائے۔ کیوبیک اور اونٹاریو کو پابند کیا گیا کہ وہ معاہدے کے تحت اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کریں گے۔ اس طرح اونٹاریو میں کیتھولک سکول کھولنے کی اجازت دے دی گئی۔ تاہم آئینی طور پر دونوں صوبے اپنے اندر موجود انگریز یا فرانسیسی اقلیت کے تحفظ کے ذمہ دار نہ تھے۔ اس وقت ٹورنٹو کو عارضی صوبائی دارلخلافہ بنا دیا گیا۔
1867 سے 1896 تک
صوبے کا درجہ ملنے کے بعد اونٹاریو نے اپنی معیشت اور مقننہ طاقت کو بڑھانے کے لئے تگ و دو جاری رکھی۔ 1872 میں وکیل اولیور موات وزیر اعظم بنا اور 1896 تک اس عہدے پر رہا۔ اس نے صوبائی حقوق اور صوبائی امور پر مرکز کے کنٹرول کو کم کرنے کے لئے بہت جدوجہد کی۔ اس نے زیادہ تر یہ کام عدلیہ کی کمیٹی جو کہ پریوی کونسل کا حصہ تھی، کو اپیلیں کر کر کے منوایا۔ اس کی ان کاوشوں نے کینیڈا کی مرکزیت کو بہت کمزور کیا اور جان اے میکڈونلڈ کی خواہشات سے زیادہ صوبوں کو خودمختاری دلوائی۔ اس نے اونٹاریو کے تعلیمی اور صوبائی اداروں کو مضبوط بنایا اور ان کی تعداد بڑھائی۔ شمالی اونٹاریو میں نئے اضلاع بنائے اور کسی قدر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر کے اس بات کو یقینی بنایا کہ اونٹاریو کے شمال مغربی حصے جو کہ بالائی کینیڈا کا حصہ نہیں تھے، اونٹاریو کا حصہ بنیں۔ یہ حصے سپیرئیر جھیل، خلیج ہڈسن کے شمال اور مغرب میں تھے۔ انہیں کیواٹین کا ضلع کہا جاتا تھا۔ اس کی یہ کاوش بارآور ثابت ہوئی اور 1889 کے کینیڈا کے ایکٹ کے تحت یہ تمام حصے اونٹاریو کو مل گئے۔ اس نے صوبے کو کینیڈا کا معاشی پاور ہاؤس بھی بنایا۔ موات اونٹاریو کی سلطنت (جیسا کہ اکثر کہا جاتا ہے) کا بانی تھا۔
سر جان اے میکڈونلڈ کی قومی پالیسی سے شروع ہو کر اور کینیڈین پیسیفک ریلوے (1885-1875) جو کہ اونٹاریو کے شمال سے ہوتی ہوئی پریریز اور پھر برٹش کولمبا تک جاتی ہے، نے اونٹاریو کی صنعت اور مینوفیکچرنگ کو نئی جلاء بخشی۔ تاہم صوبے کی آبادی میں اضافہ چند سال کے لئے متائثر ہوا جب یہاں عظیم مندی پہنچی۔ نئے مہاجرین اور دیگر لوگوں نے ریل کی پٹڑی کی تعمیر کے ساتھ ہی مغرب کی طرف منتقلی جاری رکھی۔
1896 تا حال
19ویں صدی کے اختتام تک کان کنی اور معدنیات کا اخراج اپنے عروج پر تھا جس کی وجہ سے شمال مشرقی علاقوں جیسا کہ سنڈبری، کوبالٹ اور ٹیمنز میں کان کنی کے مراکز قائم ہوئے۔ صوبے نے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا اور یہ تمام پن بجلی ہائیڈور الیکٹرک پاور کمیشن آف اونٹاریو کے تحت تھا۔ بعد ازاں اسے اونٹاریو ہائیڈور کو دے دیا گیا۔ سستی بجلی سے صنتعی ترقی میں اضاف ہوا۔ فورڈ موٹر کمپنی نے 1904 میں کینیڈا میں اپنا کارخانہ کھولا۔ جنرل موٹرز نے 1918 میں کینیڈا میں کام شروع کیا۔ آنے والے وقتوں میں موٹروں کی صنعت اونٹاریو کی آمدنی کا اہم ذریعہ بنی۔
جولائی 1912 میں سر جیمز پی وائٹنی کی قدامت پرست حکومت نے ریگولیشن نمبر 17 جاری کیا جس کے تحت صوبے کی فرانسیسی بولنے والی اقلیت کے لئے سکولوں کی تعداد انتہائی کم کر دی گئی۔ فرانسیسی نژاد باشندوں نے اس کی شدت سے مخالفت کی۔ 1927 میں یہ پابندی ختم کر دی گئی۔
امریکی واقعات سے متائثر ہو کر سر ولیم ہیرسٹ کی حکومت نے اونٹاریو امتناہی ایکٹ منظور کرتے ہوئے شراب پر پابندی عائد کر دی۔ تاہم شہریوں کو اپنی ذاتی ضروریات کے لئے شراب کشید کرنے اور اسے ذخیرہ کرنے کی اجازت تھی۔ اسی طرح تاجروں کو اجازت تھی کہ وہ شراب کو برآمد کر سکتے تھے۔ اس طرح اونٹاریو امریکہ جہاں شراب ممنوع ہو چکی تھی، کو شراب کی سمگلنگ کا اہم گڑھ بن گیا۔ 1927 میں اس پابندی کا خاتمہ ہوا جب جارج ہوورڈ فرگوسن نے اونٹاریو کے شراب کے کنٹرول کا بورڈ بنایا۔ تاہم شراب کی فروخت اور کھپت پر اب بھی سخت کنٹرول تھا تاکہ اس سے پوری رقم وصول کی جا سکے۔ اپریل 2007 میں اونٹاریو کی صوبائی پارلیمان کے ایک رکن کم کریٹر نے تجویز دی کہ مقامی شراب کشید کرنے والوں کو اجازت دی جائے کہ وہ اپنی شراب اپنے مقامی سٹوروں میں سکیں، تاہم اس کو وزیر اعظم ڈالٹن میگوئیٹی نے سختی سے رد کر دیا۔
جنگ عظیم دوم کے بعد کے عرصے میں بے انتہا خوشحالی اور ترقی آئی۔ اونٹاریو اور اس کے آس پاس کا علاقہ بالخصوص اب نئے آنے والے مہاجرین کا گڑھ بن گیا۔ ان کی اکثریت جنگ سے متائثرین یورپیوں کی تھی جو 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں آئے۔ 1970 کے وفاقی امیگریشن کے قانون کے بعد مہاجرین کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔ اونٹاریو جو کہ پہلے برطانوی اکثریت کا صوبہ تھا، اب کثیر القوامی بنتا جا رہا ہے۔
کیوبیک کی قوم پرست تحریک کی وجہ سے انگریزی بولنے والے تاجروں اور لوگوں کو کیوبیک سے باہر اونٹاریو میں دھکیل دیا گیا۔ اس کی وجہ سے ٹورنٹو کی آبادی اور معاشی سرگرمیاں مونٹریال سے بڑھ گئیں۔ اب ٹورنٹو کینیڈا کا سب سے بڑا شہر اور تجارتی مرکز بن گیا۔ شمالی ساحلی صوبوں میں معاشی بحران سے بھی لوگ کثرت سے اونٹاریو منتقل ہوئے۔
اونٹاریو کی سرکاری زبان کوئی نہیں ہے لیکن انگریزی کو سرکاری زبان سمجھا جاتا ہے۔ 1990 کے فرانسیسی زبان کے سروسز ایکٹ کے تحت جہاں مناسب مقدار میں فرانسیسی بولنے والے رہتے ہوں، سرکاری خدمات فرانسیسی میں بھی مہیا کی جاتی ہیں۔
حکومت
برٹش نارتھ امریکہ ایکٹ 1867 کے سیکشن 69 میں واضح کیا گیا کہ "اونٹاریو کی مقننہ لیفٹینٹ گورنر اور ایک ایوان پر مشتمل ہوگی"۔ اس اسمبلی میں کل 107 نشستیں تھیں اور وہ صوبے میں فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ یعنی جو انتخاب جیتے گا، اسے تمام ووٹ دے دیئے جائیں گے۔ ٹورنٹو کے کوئینز پارک کی قانون سازی کی عمارت میں یہ ایوان واقع ہے۔ ویسٹ منسٹر نظام پر عمل کرتے ہوئے ایوان میں سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی جماعت کا سربراہ وزیر اعظم اور کونسل کا صدر کہلاتا ہے۔ وزیر اعظم کابینہ کا انتخاب کرتا ہے۔ کابینہ کے اراکین کو تاج کے وزراء کا نام دیا جاتا ہے۔ اونٹاریو کے وزیر اعظم کو وزیر اعظم کی بجائے پریمئر کہا جاتا ہے تاکہ کینیڈا کے وزیر اعظم اور اونٹاریو کے وزیر اعظم کے درمیان کوئی الجھن نہ پیدا ہو۔
سیاست
روایتی طور پر اونٹاریو میں تین جماعتوں کا نظام ہے۔ گذشتہ چند دہائیوں میں اونٹاریو لبرل پارٹی، اونٹاریو پروگریسیو کنزرویٹو پارٹی اور اونٹاریو نیو ڈیموکریٹک پارٹی ایسی جماعتیں ہیں جو مختلف اوقات میں صوبے کی حکمرانی کر چکی ہیں۔
اس وقت اونٹاریو پر لبرل کی حکومت ہے اور پریمئر ڈالٹن میک گوئینٹی ہیں۔ موجودہ حکومت 2003 میں پہلی بار اور دوسری بار 10 اکتوبر 2007 کو منتخب ہوئی۔
وفاقی سطح پر اونٹاریو کو ایسے صوبے کے طور پر جانا جاتا ہے جو کینیڈا کی لبرل پارٹی کے سخت حمایتی ہیں۔ کینیڈا کے ہاؤس آف کامن میں اونٹاریو کی 106 نشستیں ہیں۔ جو پارٹی اونٹاریو میں جیتے، وہ ہاؤس آف کامن میں 106 نشستیں پاتی ہے۔ اونٹاریو کی نشستیں کینیڈا میں دیگر صوبوں سے زیادہ ہیں۔ اونٹاریو سے جیتنے کا مطلب عموماً کینیڈا کے وفاقی انتخابات کی جیت ہوتا ہے۔
1788 تا 1899 تک ہونے والا ریاستوں کا ارتقاء
مقامی لوگوں سے معاہدے سے قبل زمین کو قانونی طور پر مختلف صوبوں کے مابین تقسیم نہیں کیا گیا تھا۔ 1788 میں جب اونٹاریو کیوبیک کا حصہ تھا، جنوبی اونٹاریو کو چار ضلعوں یعنی ہییسے، لونن برگ، میکلین برگ اور ناساؤ میں تقسیم کیا گیا تھا۔
1792 میں ان چار ضلعوں کا نام بدل دیا گیا۔ ہیسے کو ایسٹرن، لونن برگ کو ناردرن، میکلین برگ کو مڈلینڈ اور ناساؤ کو ہوم ضلع بنایا گیا۔ ان اضلاع کے درمیان کاؤنٹیوں کو بنایا گیا۔
1798 میں اضلاع کی تعداد بڑھ کر آٹھ ہو گئی، یعنی ایسٹرن، ہوم، جونز ٹاؤن، لندن، مڈلینڈ، نیو کیسل، نیاگرا اور ویسٹرن۔
1826 میں اضلاع بڑھ کر گیار ہو گئے، یعنی باتھرسٹ، ایسٹرن، گور، ہوم، جونز ٹاؤن، لندن، مڈلینڈ، نیو کیسل، نیاگرا، اوٹاوا اور ویسٹرن۔
1838 میں اضلاع کی تعداد بیس کر دی گئی، یعنی باتھرسٹ، بروک، کولبورن، ڈلہوزی، ایسٹرن، گور، ہوم، ہرون، جونز ٹاؤن، لندن، مڈلینڈ، نیو کیسل، نیاگرا، اوٹاوا، پرنس ایڈورڈ، سمکوئی، ٹالبوٹ، وکٹوریا، ولنگٹن اور ویسٹرن۔
1849 میں جنوبی اونٹاریو کے اضلاع کو پراونس آف کینیڈا کی طرف سے ختم کر کے اکثر جگہوں پر کاؤنٹی حکومتیں بنا دی گئیں۔ پراونس آف کینیڈا نے شمالی اونٹاریو میں دور دراز اور الگ تھلگ کم آباد علاقوں میں اضلاع بنانے شروع کر دیئے۔
اونٹاریو کی شمالی اور مغربی سرحدوں کا تنازعہ الحاق کے بعد کھڑا ہو گیا۔ اونٹاریو کے شمال مشرقی حصے کی حدود جانچنے کے لئے 1884 میں پریوی کونسل کی جوڈیشل کمیٹی بنائی گئی۔ اس کی توثیق کینیڈا ایکٹ 1889 میں برطانوی پارلیمنٹ میں کی گئی۔ 1899 تک سات شمالی اضلاع الگوما، مینی ٹولن، مسکوکا، نپیسینگ، پاری ساؤنڈ، رینی ریور اور تھنڈر بے بن گئے۔ 1907 سے 1912 کے درمیان چار اور شمالی ضلعے بنے جو کہ کوچرانے، کینورا، سڈبری اور ٹیمیس کیمنگ تھے۔