کینیڈین پولیس کی جانب سے طاہرالقادری کے سمن جاری

یوسف-2

محفلین
news-24.gif
 

لالہ رخ

محفلین
روز نیا ڈرامہ! ایک فیصلہ نہیں کیا جاتا مولانا صاحب سے۔ اگر یہی کرنا تھا تو اس سادہ لوح عوام کا تماشا دنیا کو ضرور دکھانا تھا کیا؟
 

لالہ رخ

محفلین
کیا مارچ میں پھر دھرنا اور لانگ مارچ ہو گا؟ اگر معاملات قادری صاحب کے ساتھ طے ہونے ہیں تو اتنی عوام کو ساتھ لے جانے کا مقصد ؟ ایسا تو لاہور میں جلسے کے بعد بھی ممکن تھا؟
 

نایاب

لائبریرین
کل تک جنہیں 'قادری " صاحب کا پاکستان میں رہنا اذیت دے رہا تھا ۔
آج وہی " قادری " صاحب کے واپس جانے پر حیران و پریشان ہیں ۔
واہ رے زرد صحافت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا معلوم 27 کو جائیں اور کچھ دنوں بعد دوبارہ آ جائیں ۔
" قادری " صاحب جس نہج پر اپنے کارکنوں کی تربیت کر چکے ہیں ۔ اس کا کامیاب مظاہرہ دنیا نے دیکھ لیا ہے ۔
سو وہ کہیں بھی رہیں " صدائے قادری " تو اک " کال " کے فاصلے پر ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

لالہ رخ

محفلین
کل تک جنہیں 'قادری " صاحب کا پاکستان میں رہنا اذیت دے رہا تھا ۔
آج وہی " قادری " صاحب کے واپس جانے پر حیران و پریشان ہیں ۔
واہ رے زرد صحافت ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
کیا معلوم 27 کو جائیں اور کچھ دنوں بعد دوبارہ آ جائیں ۔
" قادری " صاحب جس نہج پر اپنے کارکنوں کی تربیت کر چکے ہیں ۔ اس کا کامیاب مظاہرہ دنیا نے دیکھ لیا ہے ۔
سو وہ کہیں بھی رہیں " صدائے قادری " تو اک " کال " کے فاصلے پر ہوگی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
ہاں جی بالکل! پنجاب کے الطاف بھائی ہوں گے اب تو یہ
 

الف نظامی

لائبریرین
بندہ ضرور جائے لیکن یہاں نیا سیاپا ڈالنے نہ آئے۔
پرامن جدوجہد جس کے نتیجے میں منصفانہ و عادلانہ انتخابی نظام کے لیے آئینِ پاکستان کے نفاذ کا آغاز ہوا وہ ہر گز سیاپا نہیں کہا جاسکتا۔ براہ کرم ملاحظہ کیجیے:
اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلریشن
 

لالہ رخ

محفلین
پرامن جدوجہد جس کے نتیجے میں منصفانہ و عادلانہ انتخابی نظام کے لیے آئینِ پاکستان کے نفاذ کا آغاز ہوا وہ ہر گز سیاپا نہیں کہا جاسکتا۔ براہ کرم ملاحظہ کیجیے:
اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلریشن
وقتی ابال ہے، میرا ذاتی خیال ہے کہ کچھ وقت تک لوگ بھول بھال جائیں گے اور کوئی پکا حل نہیں ہے اس ملک کی سیاست کا۔
 

حسینی

محفلین
یہ تو 27 تاریخ کو ہی پتہ چلے گا کہ قادری صاحب جاتے ہیں یا نہیں؟؟
باقی اس طرح کے جعلی ٹکٹس بنانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی مسئلہ نہیں۔
سفر ہر بندہ کا بنیادی حق ہے۔۔۔۔۔۔ وہ جب چاہے جہاں چاہے سفر کرے۔۔۔۔ کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ دھرنے کے دوران انہوں نے ٹکٹ کروایا ہو۔۔
سب ٰ افواہیں اور جھوٹی خبر ہے۔۔۔۔ امت کے علاوہ کسی اور اخبار سے خبر لائیں تو مان جائیں!
ویسے ظاہرا 27 کو ان کے ً حکومتی ٹیم کے ساتھ مذاکرات بھی ہیں۔۔
 

عسکری

معطل
یہ تو 27 تاریخ کو ہی پتہ چلے گا کہ قادری صاحب جاتے ہیں یا نہیں؟؟
باقی اس طرح کے جعلی ٹکٹس بنانا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ کوئی مسئلہ نہیں۔
سفر ہر بندہ کا بنیادی حق ہے۔۔۔ ۔۔۔ وہ جب چاہے جہاں چاہے سفر کرے۔۔۔ ۔ کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ دھرنے کے دوران انہوں نے ٹکٹ کروایا ہو۔۔
سب ٰ افواہیں اور جھوٹی خبر ہے۔۔۔ ۔ امت کے علاوہ کسی اور اخبار سے خبر لائیں تو مان جائیں!
ویسے ظاہرا 27 کو ان کے ً حکومتی ٹیم کے ساتھ مذاکرات بھی ہیں۔۔
اب کینسل ہوں گی یہ ٹکٹیں جناب
 

یوسف-2

محفلین
کالم از عبداللہ طارق سہیل ۔ نئی بات 18 جنوری 2013 ء
اسٹیبلشمنٹ کا دھرنا یوں بے مثال رہا کہ وفاقی دارالحکومت میں 35,30ہزار کے کسی مجمعے کی مسلسل اتنے دن موجودگی کی مثال نہیں ملتی۔ مجمعے کا نظم و نسق بھی مثالی رہا اور لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاء کی مسلسل فراہمی بھی کوئی بھرپور ’’ڈسپلنڈ اور آرگنائزڈ‘‘ فورس ہی کر سکتی تھی۔ سیاسی جماعتوں کے ہاں تو بدنظمی اور انتشار ہی ہے۔ لیکن دھرنا اس لحاظ سے ناکام رہا کہ مولانائے اسٹیبلشمنٹ عرف علامہ ناگہانی نے 40لاکھ افراد لانے کا اعلان کیا تھا اتنی بڑی تعداد کا بتا کر کم سے کم10لاکھ تو لانے یا پہنچانے چاہئیں تھے، چلئے10نہ سہی 5لاکھ ہی سہی، چلئے5نہ سہی3ہی سہی چلئے 3نہ سہی2ہی سہی، چلئے چھوڑئیے، ایک لاکھ بھی نہ سہی،70,60 ہزار ہی سہی لیکن یہاں تو گنتی 35 سے40ہزار کے درمیان ہی رہی،40سے آگے بڑھ کر ہی نہ ہی دی( بلکہ بدھ کی رات بھی سات ہزار رہ گئے)اور ان میں وہ بارہ ہزار معصوم بچیاں اور بچے بھی شامل ہیں جو منہاج سکولوں میں پڑھتے ہیں۔ انہیں آنا ہی پڑا نہ آتے تو سکول سے جاتے۔ بارہ ہزار کو نکال دیں تو پیچھے کتنے رہ گئے؟ اور مصدقہ اطلاع ہے کہ ان بچوں کے والدین اور اساتذہ کو بھی آنے کا ’’حکم ‘‘ تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کی ’’عوامی طاقت‘‘ کا ڈھول تو پھٹ گیا، پھٹے ڈھول نے اور کتنا بجنا تھااور مولانا اسٹیبلشمنٹ نے جہاں دوسرے ہزاروں الٹی میٹم دیئے ، وہیں لگے ہاتھوں عوام کو یہ الٹی میٹم بھی نہ کیوں نہ دے ڈالا:
15منٹ کی مہلت دیتا ہوں، ایک لاکھ کی گنتی پوری کردو ورنہ۔۔۔
شیخ الاسلام (خود بخود) بار بار کہتے رہے یہ جلسہ40لاکھ کا ہے،10لاکھ پیدل آرہے ہیں یعنی کل50لاکھ۔ اصل گنتی مولانا اسٹیبلشمنٹ اچھی طرح جانتے تھے پھر وہ چالیس ہزار کو بار بار40لاکھ کیوں کہتے رہے۔ ظاہر ہے ’’سچ ‘‘ بول رہے تھے اور یہ سچ انہوں نے بے شمار بار بولا: یہی نہیں اور بھی ان گنت ’’سچ ‘‘ بولے ۔محتاط اندازے کے مطابق عام گنہگار آدمی سال بھر میں جتنے ’’سچ‘‘ بولتا ہے، شیخ الاسلام (خود بخود) نے اتنے یا ان سے بھی زیادہ سچ ان تین چار دنوں میں بول ڈالے۔ گویا سال بھر کا کوٹہ چند دنوں میں ختم!شیخ الاسلام (خود بخود) کے نام کا انگریزی ترجمہ: پیور یفائر آف آل مائٹی بنتا ہے۔ ہندی میں نام یوں ہوگا مہاشکتی شالی کا شدھیہ کار ۔
شیخ الاسلام (خود بخود) نے اپنے معرکۃ السماعات اور طویل الساعات (Hour’s Long)ارشادات و خطابات میں لگاتار قسمیں اٹھانے کی نئی طرح ڈالی۔ انہوں نے کوئی ایسی ہستی، ایسی چیز نہیں چھوڑی جس کی قسم نہ اٹھائی ہو۔ چنانچہ محتاط اندازے کے مطابق عام گنہگار آدمی اپنے پورے دورأنیہ عمر میں جتنی قسمیں اٹھاتا ہے یا اٹھا سکتا ہے، مولانا اسٹیبلشمنٹ نے اتنی اپنے اس مختصر دور انیۂ دھرنا میں اٹھا ڈالیں۔ اور اس ہستی کی قسم تو انہوں نے ان گنت بار اٹھائی جس کا فرمان ہے کہ زیادہ قسمیں کھانے والا جھوٹا ہوتا ہے۔ ممکن ہے اس کا حوالہ مولانا اسٹیبلشمنٹ کو دیا جائے تو وہ قسم اٹھا کر کہہ دیں، کہ مجھے قسم ہے اس ذات کی، میں نے سب روایتیں پڑھیں، خدا کی قسم بس یہی پڑھنا بھول گیا، قسم کھاتا ہوں آئندہ قسمیں کم اٹھاؤں گا۔ مولانا ناگہانی نے لاہور سے روانگی کے موقع پر نماز ظہر کے بارے میں چھ بار مؤقف بدلا۔ پتہ نہیں ہر مؤقف بدلی پر انہوں نے کون سی قسم کھائی۔ کچھ اس قسم کے فقرات ارشاد فرمائے ہوں گے:
خدا کی قسم میں نے ظہر کی نماز پڑھ لی، اب خدا کی قسم وضو کرنے جا رہا ہوں پھر اس کے بعد نماز ظہر پڑھوں گا۔ قسم ہے مجھے، میں نے وضو کر لیا ہے، اور خدا کی قسم نمازظہر تو میں پہلے ہی پڑھ چکا ہوں۔ خدا کی قسم ابھی اندر جا کر وضو کروں گا، پھر خدا کی قسم ظہر کی نماز پڑھوں گا۔ قسم ہے، نمازظہر تو پہلے ہی پڑھ چکا ہوں، اب وضو کرنے جا رہا ہوں خدا کی قسم!
شیخ الاسلام (خود بخود) نے بے شمار احادیثِ مبارکہ پڑھی ہوں گی لیکن دو حدیثیں پڑھنا بھول گئے ۔ ایک تو یہی قسموں والی اور دوسری وہ جس میں آپ ؐ نے انتباہ فرمایا ’’جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا، اس نے جہنم میں ٹھکانہ بنا لیا۔
________________________
بلوچستان کے رہنما محمود خاں اچکزئی نے اسٹیبلشمنٹ کو انتباہ کیا ہے کہ وہ غیر آئینی مہم جوئی سے باز رہے۔ اس بار مارشل لاء لگا تو وفاق نہیں رہے گا۔
یہ ایسی سچائی ہے جو سب پر آشکارا ہے، سورج کی طرح سوائے اسٹیبلشمنٹ کے جس نے دن کو بھی رات کے وقت لگائی جانے والی انفراریڈ عینک جما رکھی ہے۔ ایسی ہی غیر مرئی عینک اس ممالی پرندے کے بھی لگی ہوتی ہے جو رات کو اڑتا، اور دن کو الٹا لٹکا رہتا ہے۔ بے چارہ، دن کو دیکھ ہی نہیں سکتا۔
امریکہ اور بھارت کی اور ساتھ ہی ایک ہمارے قریبی پڑوسی ملک (جو کبھی دوست ہوا کرتا تھا) کی مرضی تو یہی ہے کہ وفاق نہ رہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی کیا مرضی ہے؟
اسٹیبلشمنٹ نے شیخ الاسلام (خود بخود) کے ذریعے جو ہدف حاصل کرنا چاہا تھا، وہ تو ہٹ نہیں ہو سکا۔ اس چالیس ہزاری دھرنے نے سارے ملک کی توجہ اپنی طرف مبذول تو ضرور کرائے رکھی لیکن اور کچھ نتیجہ نہیں نکلا، سوائے اس کے پہلے سے ’’روشن‘‘ چہرا اور بھی روشنائی آلود ہوگیا۔
اچکزئی نے یہ بات نواز شریف کی بلائی ہوئی آل اپوزیشن کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس کانفرنس میں مسلم لیگ کے علاوہ جماعت اسلامی ، جے یو آئی اورکئی دیگر جماعتیں بھی تھیں۔ اتفاق سے یہ ساری جماعتیں امریکی ڈکٹیشن کے سخت خلاف ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کا پارہ برداشت نقطہ کھولاؤ کے آس پاس پہنچ گیا ہوگا۔یہ ایک طرح سے صف بندی بھی ہے۔ انجمن محبان پاکستان اور انجمن غلامان امریکہ کے درمیان ہونے والے ’’آرمیگڈن‘‘ کیلئے ۔
اسٹیبلشمنٹ نے شیخ الاسلام (خودبخود) کی مہم جوئی کے نتائج دیکھ لئے۔ اب مزید کوئی ایڈونچر نہ کرے اورقائداعظم کے پاکستان پر تھوڑا سا رحم کرے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ایک اور شکتی شالی شیخ نے پچھلے دنوں قائداعظم پر کیچڑ بازی کرکے عوام کا دل دکھایا۔ اسٹیبلشمنٹ اپنے اس شیخ کو آئندہ اس قسم کی کیچڑ فشانی سے باز رکھے، اس کی بہت مہربانی ہوگی۔
تحریک انصاف کی سمجھداری اور حب الوطنی کو سلام کہ جو ہر طرح کے دباؤ کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کے پھندے میں نہ آئی اور دھرنے میں شرکت سے انکار کر دیا۔ تحریک انصاف کے جمہوری ہونے میں کوئی شک ہے نہ اس بات میں کہ وہ امریکی ڈکٹیشن قبول نہ کرنے والی جماعت ہے۔
_____________________
مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے، شیخ الاسلام(خودبخود) مسلمانوں کے جے سالک ہیں۔
شاید یہ تشبیہ انہوں نے اس لئے دی کہ جے سالک بھی اپنے مطالبات منوانے کے لئے پنجرہ بنوا کر اس میں کئی کئی روز کے لئے بند ہو جاتے تھے۔
ایسا ہے تو موازنہ ٹھیک ہے لیکن بہت جزوی حد تک۔ اس لئے کہ جے سالک کا پنجرہ دو تین ہزار روپے سے زیادہ کا نہیں ہوتا تھا۔ حضرت مولانا علامہ شیخ الاسلام (خود بخود) کا ڈی چوک والا پنجرہ کئی کروڑ روپے مالیت کا ہے۔ کہاں دو تین ہزار اور کہاں کئی کروڑ۔
چہ نسبت آں قفس را بہ ایں ’’کنٹینر‘‘
مصرعے کا وزن نشٹ ہوگیا ہے تو اس کی ذمہ داری کنٹینر پر ہے جس کے بوجھ تلے دب کریہ پچک گیا۔
یہ شہادت پروف ٹریلر وہی ہے جس کے اندر بند ہو کر حضرت دن رات اپنے شہید ہونے کی دعا کرتے ہیں۔ اس کی دیوار سے گولی نہیں گزر سکتی، نرم و نازک دعا کیا گزرے گی، ٹکرا ٹکرا کر پنجرے کے اندر ہی دم دے دیتی ہوگی۔
 

یوسف-2

محفلین
مجاہد بریلوی کا کالم۔ 18 جنوری 2013 ء
لانگ مارچ کے ساتھ اب پانچواں دن ہے۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ لاہور سے ہفتہ 12جنوری کی ڈھلتی شب میں۔۔۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ پر پہنچا تو ایک بڑا دلچسپ لائیو ڈرامہ جاری تھا۔۔۔ چوہدری برادران کے ساتھ بدنامِ زمانہ ملک ریاض کی آمد سے علامہ صاحب شدید مشتعل تھے۔جس Liveرسوائی سے ملک صاحب رخصت ہوئے اور جن کے بارے میں کہا جارہاتھا کہ صدر مملکت آصف علی زرداری کے نمائندہ کے طور پر چوہدریوں کے ساتھ آئے ہیں۔۔۔ اسکے بعد تو مذاکرات کو بغیر کسی پیش رفت کے ختم ہونا ہی تھا۔ڈاکٹر طاہرالقادری نے۔۔۔نہ صرف بڑے پُر عزم انداز میں اپنے لانگ مارچ کو جاری رکھنے کا دعویٰ کیا بلکہ اگلے دن بڑی دھوم دھام سے لانگ مارچ کا آغاز بھی ماڈل ٹاؤن سے ہوا۔گزشتہ کالم میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں کہ اتوار 13جنوری کی دوپہر چھ سو سے سات سو گاڑیوں پر مشتمل 15سے 20ہزار پُر جوش کمٹِڈ علامہ صاحب کے حامیوں کا جب یہ قافلہ روانہ ہوا۔۔۔تو کم از کم اپنی حد تک اعتراف کرتا چلوں کہ مجھے تو قطعی توقع نہیں تھی کہ 32کلو میٹر کا 38گھنٹے کا سفر کرتے ہوئے جب پیر کی رات2بجے یہ لانگ مارچ پہنچے گا تو یہ وطن عزیز کی سیاسی تاریخ کے سب سے بڑے اور سنگین بحران کا پیش خیمہ بن جائے گا۔پیر کی رات علامہ صاحب نے پہلے تو حکومت کو 5منٹ دئیے کہ وہ اُن کنٹینروں کو جو معاہدے کے مطابق سعودی پاک ٹاورکے سامنے رکھے تھے ۔۔۔اٹھا کر Dچوک کے سامنے رکھ دیں۔۔۔پھر بڑے ڈرامائی انداز میں اپنے سات نکاتی پروگرام کے برخلاف اعلان کیا کہ ۔۔۔اب صدر۔۔۔صدر نہیں رہے۔۔۔وزیر اعظم بھی سابقہ ہوگئے۔۔۔وزیر اعلیٰ ۔۔۔گورنر اور اسمبلیاں بھی تحلیل کردی گئی ہیں۔۔۔ ان انتہائی سنسنی خیز ،غیر متوقع دھمکی دینے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے کہا۔۔۔اب آپ آرام سے سو جائیں اور فجر کی نماز کے بعد ناشتہ کرنے کے بعد اگلے پروگرام کا انتظار کریں۔۔۔شدید سردی کے باوجود کھلے آسمان کے نیچے ہزاروں کی تعداد میں خواتین جن میں معصوم بچے، بچّیاں بھی شامل تھیں بڑے جوش و خروش سے پُر عزم تھیں کہ جب تک تبدیلی یعنی اُن کے مطابق انقلاب نہیں آئے گا وہ واپس اپنے گھروں کو نہیں جائیں گی۔ بدھ 16جنوری کو ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب ایک بار پھر شام کو اپنے کنٹینر سے مخاطب ہوتے ہیں اور جن کا دعویٰ تھا کہ یہ لانگ مارچ اب لاکھوں کی تعداد میں پہنچ گیا ہے۔۔۔ اور مزید دس لاکھ عوام اس مارچ میں شامل ہونے کے لیے سارے ملک سے چل پڑے ہیں۔علامہ صاحب بڑے مدلّل انداز میں حکومت سے چار مطالبے کرتے ہیں۔۔۔انتخابی اصلاحات ، الیکشن کمیشن کی تحلیل۔۔۔نگراں حکومت کا قیام اور اسمبلیوں کی تحلیل۔۔۔ علامہ صاحب کے خطاب کے بعد خبر آتی ہے کہ حکومتی ترجمان وزیر اطلاعات و نشریات قمرالزمان کائرہ پارلیمنٹ ہاؤس میں بریفنگ دیں گے ۔ بجا طور پر کائرہ صاحب کی آدھ گھنٹے کی پریس بریفنگ بڑی مدلل اور موثر تھی۔خاص طور پر آئینی اور قانونی طور پر وہ علامہ صاحب کے چاروں مطالبوں کو غیر آئینی اور غیر منطقی ٹھہراتے ہیں۔۔۔ابھی کائرہ صاحب کی بریفنگ ختم ہی ہوتی ہے کہ لاہور سے مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف اپوزیشن کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ علامہ صاحب کے تمام مطالبوں کو ردّ کرتے ہوئے بالواسطہ طور پر حکومتی موقف کی تائید کرتے ہیں۔کم و بیش چار دن بعد پہلی بار۔۔۔حکومت اور اپوزیشن مل کر علّامہ صاحب کی چیختی ۔۔۔ چنگھاڑتی ۔۔۔دھمکیوں اور مطالبوں کا جواب دیتی ہے۔۔۔جس سے ایک حد تک میڈیا پر سحر انگیز ی کی حد تک چھایا ہوا یکطرفہ تاثر کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔۔۔رات ڈھلتے ہی ایک ممکنہ آپریشن کی خبریں آنے لگتی ہیں۔۔۔ساتھ ہی یہ خبر بھی آتی ہے کہ علامہ صاحب حکومت کو جواب دینے کے لیے رات کے آخری پہر میں خطاب کریں گے۔۔۔ٹھٹرتی سردی میں بدھ اور جمعرات کی شب تقریباً رات دو بجے چوک پر پہنچتا ہوں تو ممکنہ آپریشن سے بے خبر تقریباً اتنی ہی تعداد میں علامہ صاحب کے کارکن اور حامی اُسی جو ش و خروش سے ’انقلاب ۔۔۔ انقلاب‘ کے نعرے لگانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔۔۔اسلام آباد میں میرے ذرائع بتاتے ہیں کہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب جب علامہ صاحب ، صدر، وزیر اعظم اور اسمبلیوں کی رخصتی کا اعلان کرتے ہوئے عَلَمِ بغاوت بلند کرتے ہیں۔۔۔تو مقتدر حلقوں میں یہ منصوبہ بندی کرلی گئی تھی کہ علّامہ صاحب کے لانگ مارچ کو آہنی ہاتھوں سے لپیٹ دیا جائے ۔۔۔مگر صدر آصف علی زرداری کی حتمی اجازت نہیں ملتی۔۔۔جمعرات کی دوپہر جب میں یہ سطور لکھ رہاہوں تو شدید بارش میں ایک بار پھر عّلامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا خطاب جاری ہے۔۔۔بدھ کو علامہ صاحب اعلان کرچکے تھے کہ اگلے دو دن فیصلہ کن ہیں۔۔۔ اپنے سخت گیر موقف ،بلکتی زبان میں اپنے ہزاروں حامیوں بلکہ پوجنے کی حد تک عقیدت رکھنے والوں کے درمیان شدید بارش اور سردی کا مقابلہ کرتے ہوئے اب ایسا لگتا ہے کہ یہ لانگ مارچ آخری مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔۔۔
اپنی کھڑکی سے ۔۔۔ Dبلاک کے سامنے اپنے ہزاروں جاں نثاروں سے خطاب کرتے ہوئے۔چوتھے دن علامہ صاحب جس زبان و لہجے میں حکومت سے مخاطب ہورہے ہیں۔۔۔اُس میں شعلے نکلتے محسوس ہورہے ہیں۔یہ لیجیے اس وقت جب دوپہر ڈیڑھ بجا ہے۔علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری حکومت کو مذاکرات کے لیے صرف ڈیڑھ گھنٹے کی ڈیڈ لائن دے رہے ہیں۔۔۔واقعہ کربلا کا ذکر کررہے ہیں۔
 

عسکری

معطل
کیوں جی۔۔۔ ۔۔۔ ان کی مرضی ہے۔۔۔ ۔۔۔ جس طرح چاہے کر لے۔۔
ہمیں ان کی ذاتی زندگی سے کیا لینا؟؟
جب ایک آدمی ملک کو اس نہج پر لے آتا ہے کہ پاکستان کا کیپیٹل 4 دن تک ہزاروں مظاہرین سے اٹا پڑا ہو اور زندگی معطل ہو جائے تو کچھ پرسنل نہیں رہتا ۔ اگر وہ میری آپکی طرح ایک عام پاکستانی ہوتا تو اور بات تھی ۔
 

حسینی

محفلین
کالم از عبداللہ طارق سہیل ۔ نئی بات 18 جنوری 2013 ء
اسٹیبلشمنٹ کا دھرنا یوں بے مثال رہا کہ وفاقی دارالحکومت میں 35,30ہزار کے کسی مجمعے کی مسلسل اتنے دن موجودگی کی مثال نہیں ملتی۔ مجمعے کا نظم و نسق بھی مثالی رہا اور لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاء کی مسلسل فراہمی بھی کوئی بھرپور ’’ڈسپلنڈ اور آرگنائزڈ‘‘ فورس ہی کر سکتی تھی۔ سیاسی جماعتوں کے ہاں تو بدنظمی اور انتشار ہی ہے۔ لیکن دھرنا اس لحاظ سے ناکام رہا کہ مولانائے اسٹیبلشمنٹ عرف علامہ ناگہانی نے 40لاکھ افراد لانے کا اعلان کیا تھا اتنی بڑی تعداد کا بتا کر کم سے کم10لاکھ تو لانے یا پہنچانے چاہئیں تھے، چلئے10نہ سہی 5لاکھ ہی سہی، چلئے5نہ سہی3ہی سہی چلئے 3نہ سہی2ہی سہی، چلئے چھوڑئیے، ایک لاکھ بھی نہ سہی،70,60 ہزار ہی سہی لیکن یہاں تو گنتی 35 سے40ہزار کے درمیان ہی رہی،40سے آگے بڑھ کر ہی نہ ہی دی( بلکہ بدھ کی رات بھی سات ہزار رہ گئے)۔

میں نے اپنی زندگی میں اس سے بڑا جھوٹ نہیں سنا۔۔۔ واہ جی واہ۔۔۔۔
نہیں معلوم محترم کالم نگار کو ڈاکٹر صاحب سے کیا دشمنی ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن حقیقت حقیقت ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ کیمرے کی آنکھ نے سب کچھ دکھایا۔۔۔۔
اور بہت سوں نے اعتراف بھی کیا۔۔
اب محترم کے اس جھوٹ پر تبصرہ سے بہتر ہے تصویر ملاحظہ ہو۔۔۔ اور کالم نگار کے جھوٹا ہونے کی داد دیں۔
یہ تصوری 17 جنوری کے ایکسپریس اخبار میں چھپی ہے۔:



Uploaded with ImageShack.us
 

حسینی

محفلین
جب ایک آدمی ملک کو اس نہج پر لے آتا ہے کہ پاکستان کا کیپیٹل 4 دن تک ہزاروں مظاہرین سے اٹا پڑا ہو اور زندگی معطل ہو جائے تو کچھ پرسنل نہیں رہتا ۔ اگر وہ میری آپکی طرح ایک عام پاکستانی ہوتا تو اور بات تھی ۔

بھائی جی۔۔ اب تو معاملات طے پا گئے نا۔۔۔ ہاں اگر وہ اس وقت لوگوں کو چھوڑ کے بھاگ جاتا تو آپ کا اعتراض برحق ہوتا۔۔
 
Top