کالم از عبداللہ طارق سہیل ۔ نئی بات 18 جنوری 2013 ء
اسٹیبلشمنٹ کا دھرنا یوں بے مثال رہا کہ وفاقی دارالحکومت میں 35,30ہزار کے کسی مجمعے کی مسلسل اتنے دن موجودگی کی مثال نہیں ملتی۔ مجمعے کا نظم و نسق بھی مثالی رہا اور لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاء کی مسلسل فراہمی بھی کوئی بھرپور ’’ڈسپلنڈ اور آرگنائزڈ‘‘ فورس ہی کر سکتی تھی۔ سیاسی جماعتوں کے ہاں تو بدنظمی اور انتشار ہی ہے۔ لیکن دھرنا اس لحاظ سے ناکام رہا کہ مولانائے اسٹیبلشمنٹ عرف علامہ ناگہانی نے 40لاکھ افراد لانے کا اعلان کیا تھا اتنی بڑی تعداد کا بتا کر کم سے کم10لاکھ تو لانے یا پہنچانے چاہئیں تھے، چلئے10نہ سہی 5لاکھ ہی سہی، چلئے5نہ سہی3ہی سہی چلئے 3نہ سہی2ہی سہی، چلئے چھوڑئیے، ایک لاکھ بھی نہ سہی،70,60 ہزار ہی سہی لیکن یہاں تو گنتی 35 سے40ہزار کے درمیان ہی رہی،40سے آگے بڑھ کر ہی نہ ہی دی( بلکہ بدھ کی رات بھی سات ہزار رہ گئے)اور ان میں وہ بارہ ہزار معصوم بچیاں اور بچے بھی شامل ہیں جو منہاج سکولوں میں پڑھتے ہیں۔ انہیں آنا ہی پڑا نہ آتے تو سکول سے جاتے۔ بارہ ہزار کو نکال دیں تو پیچھے کتنے رہ گئے؟ اور مصدقہ اطلاع ہے کہ ان بچوں کے والدین اور اساتذہ کو بھی آنے کا ’’حکم ‘‘ تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کی ’’عوامی طاقت‘‘ کا ڈھول تو پھٹ گیا، پھٹے ڈھول نے اور کتنا بجنا تھااور مولانا اسٹیبلشمنٹ نے جہاں دوسرے ہزاروں الٹی میٹم دیئے ، وہیں لگے ہاتھوں عوام کو یہ الٹی میٹم بھی نہ کیوں نہ دے ڈالا:
15منٹ کی مہلت دیتا ہوں، ایک لاکھ کی گنتی پوری کردو ورنہ۔۔۔
شیخ الاسلام (خود بخود) بار بار کہتے رہے یہ جلسہ40لاکھ کا ہے،10لاکھ پیدل آرہے ہیں یعنی کل50لاکھ۔ اصل گنتی مولانا اسٹیبلشمنٹ اچھی طرح جانتے تھے پھر وہ چالیس ہزار کو بار بار40لاکھ کیوں کہتے رہے۔ ظاہر ہے ’’سچ ‘‘ بول رہے تھے اور یہ سچ انہوں نے بے شمار بار بولا: یہی نہیں اور بھی ان گنت ’’سچ ‘‘ بولے ۔محتاط اندازے کے مطابق عام گنہگار آدمی سال بھر میں جتنے ’’سچ‘‘ بولتا ہے، شیخ الاسلام (خود بخود) نے اتنے یا ان سے بھی زیادہ سچ ان تین چار دنوں میں بول ڈالے۔ گویا سال بھر کا کوٹہ چند دنوں میں ختم!شیخ الاسلام (خود بخود) کے نام کا انگریزی ترجمہ: پیور یفائر آف آل مائٹی بنتا ہے۔ ہندی میں نام یوں ہوگا مہاشکتی شالی کا شدھیہ کار ۔
شیخ الاسلام (خود بخود) نے اپنے معرکۃ السماعات اور طویل الساعات (Hour’s Long)ارشادات و خطابات میں لگاتار قسمیں اٹھانے کی نئی طرح ڈالی۔ انہوں نے کوئی ایسی ہستی، ایسی چیز نہیں چھوڑی جس کی قسم نہ اٹھائی ہو۔ چنانچہ محتاط اندازے کے مطابق عام گنہگار آدمی اپنے پورے دورأنیہ عمر میں جتنی قسمیں اٹھاتا ہے یا اٹھا سکتا ہے، مولانا اسٹیبلشمنٹ نے اتنی اپنے اس مختصر دور انیۂ دھرنا میں اٹھا ڈالیں۔ اور اس ہستی کی قسم تو انہوں نے ان گنت بار اٹھائی جس کا فرمان ہے کہ زیادہ قسمیں کھانے والا جھوٹا ہوتا ہے۔ ممکن ہے اس کا حوالہ مولانا اسٹیبلشمنٹ کو دیا جائے تو وہ قسم اٹھا کر کہہ دیں، کہ مجھے قسم ہے اس ذات کی، میں نے سب روایتیں پڑھیں، خدا کی قسم بس یہی پڑھنا بھول گیا، قسم کھاتا ہوں آئندہ قسمیں کم اٹھاؤں گا۔ مولانا ناگہانی نے لاہور سے روانگی کے موقع پر نماز ظہر کے بارے میں چھ بار مؤقف بدلا۔ پتہ نہیں ہر مؤقف بدلی پر انہوں نے کون سی قسم کھائی۔ کچھ اس قسم کے فقرات ارشاد فرمائے ہوں گے:
خدا کی قسم میں نے ظہر کی نماز پڑھ لی، اب خدا کی قسم وضو کرنے جا رہا ہوں پھر اس کے بعد نماز ظہر پڑھوں گا۔ قسم ہے مجھے، میں نے وضو کر لیا ہے، اور خدا کی قسم نمازظہر تو میں پہلے ہی پڑھ چکا ہوں۔ خدا کی قسم ابھی اندر جا کر وضو کروں گا، پھر خدا کی قسم ظہر کی نماز پڑھوں گا۔ قسم ہے، نمازظہر تو پہلے ہی پڑھ چکا ہوں، اب وضو کرنے جا رہا ہوں خدا کی قسم!
شیخ الاسلام (خود بخود) نے بے شمار احادیثِ مبارکہ پڑھی ہوں گی لیکن دو حدیثیں پڑھنا بھول گئے ۔ ایک تو یہی قسموں والی اور دوسری وہ جس میں آپ ؐ نے انتباہ فرمایا ’’جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا، اس نے جہنم میں ٹھکانہ بنا لیا۔
________________________
بلوچستان کے رہنما محمود خاں اچکزئی نے اسٹیبلشمنٹ کو انتباہ کیا ہے کہ وہ غیر آئینی مہم جوئی سے باز رہے۔ اس بار مارشل لاء لگا تو وفاق نہیں رہے گا۔
یہ ایسی سچائی ہے جو سب پر آشکارا ہے، سورج کی طرح سوائے اسٹیبلشمنٹ کے جس نے دن کو بھی رات کے وقت لگائی جانے والی انفراریڈ عینک جما رکھی ہے۔ ایسی ہی غیر مرئی عینک اس ممالی پرندے کے بھی لگی ہوتی ہے جو رات کو اڑتا، اور دن کو الٹا لٹکا رہتا ہے۔ بے چارہ، دن کو دیکھ ہی نہیں سکتا۔
امریکہ اور بھارت کی اور ساتھ ہی ایک ہمارے قریبی پڑوسی ملک (جو کبھی دوست ہوا کرتا تھا) کی مرضی تو یہی ہے کہ وفاق نہ رہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی کیا مرضی ہے؟
اسٹیبلشمنٹ نے شیخ الاسلام (خود بخود) کے ذریعے جو ہدف حاصل کرنا چاہا تھا، وہ تو ہٹ نہیں ہو سکا۔ اس چالیس ہزاری دھرنے نے سارے ملک کی توجہ اپنی طرف مبذول تو ضرور کرائے رکھی لیکن اور کچھ نتیجہ نہیں نکلا، سوائے اس کے پہلے سے ’’روشن‘‘ چہرا اور بھی روشنائی آلود ہوگیا۔
اچکزئی نے یہ بات نواز شریف کی بلائی ہوئی آل اپوزیشن کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس کانفرنس میں مسلم لیگ کے علاوہ جماعت اسلامی ، جے یو آئی اورکئی دیگر جماعتیں بھی تھیں۔ اتفاق سے یہ ساری جماعتیں امریکی ڈکٹیشن کے سخت خلاف ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کا پارہ برداشت نقطہ کھولاؤ کے آس پاس پہنچ گیا ہوگا۔یہ ایک طرح سے صف بندی بھی ہے۔ انجمن محبان پاکستان اور انجمن غلامان امریکہ کے درمیان ہونے والے ’’آرمیگڈن‘‘ کیلئے ۔
اسٹیبلشمنٹ نے شیخ الاسلام (خودبخود) کی مہم جوئی کے نتائج دیکھ لئے۔ اب مزید کوئی ایڈونچر نہ کرے اورقائداعظم کے پاکستان پر تھوڑا سا رحم کرے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ایک اور شکتی شالی شیخ نے پچھلے دنوں قائداعظم پر کیچڑ بازی کرکے عوام کا دل دکھایا۔ اسٹیبلشمنٹ اپنے اس شیخ کو آئندہ اس قسم کی کیچڑ فشانی سے باز رکھے، اس کی بہت مہربانی ہوگی۔
تحریک انصاف کی سمجھداری اور حب الوطنی کو سلام کہ جو ہر طرح کے دباؤ کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کے پھندے میں نہ آئی اور دھرنے میں شرکت سے انکار کر دیا۔ تحریک انصاف کے جمہوری ہونے میں کوئی شک ہے نہ اس بات میں کہ وہ امریکی ڈکٹیشن قبول نہ کرنے والی جماعت ہے۔
_____________________
مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے، شیخ الاسلام(خودبخود) مسلمانوں کے جے سالک ہیں۔
شاید یہ تشبیہ انہوں نے اس لئے دی کہ جے سالک بھی اپنے مطالبات منوانے کے لئے پنجرہ بنوا کر اس میں کئی کئی روز کے لئے بند ہو جاتے تھے۔
ایسا ہے تو موازنہ ٹھیک ہے لیکن بہت جزوی حد تک۔ اس لئے کہ جے سالک کا پنجرہ دو تین ہزار روپے سے زیادہ کا نہیں ہوتا تھا۔ حضرت مولانا علامہ شیخ الاسلام (خود بخود) کا ڈی چوک والا پنجرہ کئی کروڑ روپے مالیت کا ہے۔ کہاں دو تین ہزار اور کہاں کئی کروڑ۔
چہ نسبت آں قفس را بہ ایں ’’کنٹینر‘‘
مصرعے کا وزن نشٹ ہوگیا ہے تو اس کی ذمہ داری کنٹینر پر ہے جس کے بوجھ تلے دب کریہ پچک گیا۔
یہ شہادت پروف ٹریلر وہی ہے جس کے اندر بند ہو کر حضرت دن رات اپنے شہید ہونے کی دعا کرتے ہیں۔ اس کی دیوار سے گولی نہیں گزر سکتی، نرم و نازک دعا کیا گزرے گی، ٹکرا ٹکرا کر پنجرے کے اندر ہی دم دے دیتی ہوگی۔