یوسف-2
محفلین
نصراللہ ملک کا کالم۔ نئی بات 18 جنوری 2013 ء
سب کچھ سکرپٹ کے مطابق ہورہا ہے بس فرق صرف اتنا ہے کہ جیسے ڈرامے میں کام کرنے والے فنکار کو سکرپٹ میں لکھے لکھائے ڈائیلاگ اور کردار کے مطابق اپنارول ادا کرنا ہوتا ہے مگرکبھی کبھار اداکار خود ڈائریکٹر بن کر اپنے رول کو تبدیل کرلیتا ہے اور کچھ نئے خیالات کو اپنے کردار کا حصہ بنادیتاہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی حکومتی شخصیت کو عوامی جلسے کے لیے لکھی ہوئی تقریر دی جائے اور وہ بڑا عوامی اجتماع دیکھ کر لکھی تقریر کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے خیالات کو تقریر کی صورت میں بیان کردے اور عوامی جذبات سے کھیلنا شروع کردے۔
لاہور سے اسلام آباد کا لانگ مارچ اور چار روز سے جاری دھرنا بھی سکرپٹ کے مطابق تھا مگر ماضی کی طرح طے شدہ سکرپٹ میں تبدیلیاں کردی گئیں اور اپنے طے شدہ رول کی بجائے انقلاب انگیز کردار اداکرنے کی کوشش کی جانے لگی
ساری دنیا جانتی ہے کہ ماضی میں جب بھی حکومتیں گرانے کے لیے لانگ مارچ ہوئے حکومت اور حکومتی اداروں نے ان جلوسوں اور ان کے شرکاء سے کیا سلوک کیا ۔ بے نظیر بھٹو کو پولیس نے اس طرح تشدد کا نشانہ بنایا کہ کئی سال تک اس تشدد میں ملوث افسران کے خلاف وہ شدید غم و غصہ کا اظہار کرتی رہیں ۔ قاضی حسین احمد کے لانگ مارچ پر ہونے والے ڈنڈوں کی برسات سب کے سامنے ہے جس میں خود قاضی حسین احمد بھی لہولہان ہوگئے ۔ اسی تاریخی تناظر میں طاہر القادری کا لانگ مارچ سب سے نرالا ہے جس میں لاہور سے صوبائی حکومت کے سکیورٹی حصارمیں وہ بڑی شان سے نکلتے ہیں اور اسلام آباد میں رینجر ز اور پولیس کے حفاظتی اقدامات ان کے منتظر ہوتے ہیں اور لانگ مارچ کو کسی بھی جگہ کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ عقیدت مند، ملازمین، منہاج القرآن یونیورسٹی کے طلبہ ، اساتذہ، مریدین اور علامہ صاحب سے محبت کرنے والے پہلے سے طے شدہ مقام پر پہنچتے ہیں لیکن یہاں اچانک علامہ طاہر القادری اپنے کرداراور سکرپٹ میں تبدیلی کرلیتے ہیں اور معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈی چوک تک جانے کااعلان کردیتے ہیں ۔ چار روز سے جاری دھرنے میں علامہ طاہر القادری کے بدلتے ہوئے مطالبات اور ملک بھر میں جاری چہ میگوئیاں مباحثوں کا روپ دھار چکی ہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی حکومت کی چھٹی کرواکر نئے انتخابات کا اعلان چاہتے ہیں مگر وہ بھی طاہر القادری کی دبی دبی حمایت کرکے عملی طور پر فی الوقت ان پر اعتبار کرتے نظر نہیں آتے ہیں۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو طاہر القادری کے چار مطالبات اور عمران خان کے سات مطالبات میں خاصی مماثلت پائی جاتی ہے ۔ ، مسلم لیگ ن اور دیگر سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ سالوں بعد طاہر القادری کی اچانک آمد اور اربوں روپے کے اخراجات سے جاری لانگ مارچ اور دھرنا کسی خاص مقصد کے لیے کیا جارہا ہے لہٰذا ان مذموم مقاصد کی راہ میں دیوار کھڑی کرنے کے لیے ہر جانب سے پیش بندیاں کی جارہی ہیں ۔
سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ طاہر القادری کو تھمائے گئے سکرپٹ کی تیاری میں انتہاپسندی کے خلاف مہم چلانے والے اور پاکستان میں مسلکی اختلافات کو مزید ہوا دینے والی بہت سی بیرونی قوتیں بھی پس پردہ شامل تھیں اور ان کی حمایت بھی حاصل تھی مگر بغیر کسی رکاوٹ کے اسلام آبادپہنچنے اور کارکنوں کے جوش و جذنے کو دیکھ کر انہوں نے سکرپٹ میں تبدیلی کرنا شروع کردی اوروہ انقلاب فرانس، انقلاب ایران اور انقلاب مصر کی طرز پر انقلاب برپا کرنے کے خواب دیکھنا شروع ہوگئے۔ ڈی چوک کو تحریر سکوائر بنانے کی باتیں بھی وہ اسی خوش فہمی میں کررہے ہیں کہ مصر کی طرح یہاں بھی حکومت کا دھڑن تختہ ہوجائے گا اور عوام صدر مرسی کی طرح اقتدار ان کے ہاتھ میں رکھ دیں گے ۔اس خوش فہمی میں مبتلا لوگ مصر کی پوری تاریخ اور ماضی قریب کی سیاسی جدوجہد کو یکسر بھول جاتے ہیں کیونکہ مصر کی تاریخ کا پاکستان کے موجودہ حالات سے مقابلہ کرنا کسی ذی شعور کا کام نہیں ۔ آئندہ کسی کالم میں مصر کے حالات اور تبدیلی کی تحریک کے حوالے سے ضرور بات ہوگی تاکہ اس غلط فہمی کا ازالہ ہوجائے کہ تحریر سکوائر میں دھرنا دینے والے کون اور کس کردار کے لوگ تھے جس کے باعث مصر کی تاریخ کا عظیم الشان انقلاب برپا ہوا،
طاہر القادری کی اسلام آباد چڑھائی سے مقاصد حاصل کرنے والے اپنی اپنی منصوبہ بندی کیے بیٹھے ہیں اور اگر مطلوبہ اہداف حاصل نہ ہوپائے تو علامہ طاہر القادری عوام کے ذہنوں سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح سندھ کے سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے جذباتی ہوکر ملک میں تبدیلی کی نوید سنائی تھی۔ ذوالفقار مرزا کراچی کے حالات پر برسے تو ان کے کئی دوستوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ وہ اپنی نئی جماعت بنائیں گے لیکن مصلحت پسندی کے باعث وہ چپ ہوگئے تاہم ان کے الزامات اور بیانات پر کسی نے تحقیق کروانے کی بھی زحمت نہیں کی اور یوں ذوالفقار مرزا کی گھن گرج مصلحت کی چادر اوڑھے اپنی بے بسی پر ماتم کررہی ہے۔۔ طاہر القادری کی کال پر ان کے مداح ، عقیدت مند او ر مرید بڑی محبت سے اسلام آباد آئے ہیں لیکن وہ بھی اس حقیقت سے واقف نہیں کہ سکرپٹ کس نے لکھا، کہاں لکھا گیا اور اس سکرپٹ میں کس کو کیا کردار ملا ۔ وہ بیچارے تو عقیدت کے مارے اتنا بھی کہنے کی جرأت نہیں کرسکتے کہ انقلاب کی باتیں کرنے والے طاہر القادری دنیا کی تمام آسائشوں سے مزین بلٹ پروف کنٹینرمیں آرام کرنے کی بجائے چند منٹ کے لیے ان کے ساتھ اسلام آباد کے یخ بستہ موسم میں سڑک پر بیٹھ جائیں۔ لیکن یہ پاکستان کی سیاست کی بڑی بدقسمتی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے رہنما اور قائدین کا سیاسی اور مذہبی قد اتنا بڑا ہوجاتا ہے کہ عوام بیچارے اپنے رہنما سے کچھ پوچھنے یا اختلاف کرنے کی جرأت بھی نہیں رکھتے۔
بتایا گیا ہے کہ علامہ طاہر القادری کی رہائش والے کنٹینرز میں آرام دہ بستر ، فریج اور ماحول کو گرم رکھنے کی تمام سہولیات موجود ہیں، اب انہیں اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے چند دن مزید ان کنٹینرز میں قیام کرنا پڑے تو ان کے لیے کیا مشکل ہوسکتی ہے ۔
جس کسی نے بھی ڈاکٹرطاہر القادری کی دھرنے کی پہلی تقریر سنی ہو اسے ذرا غور کرنا چاہیے کہ انہوں نے برملا اعلان کیا کہ جس نے دھرنا چھوڑ کر جانا ہے وہ چلا جائے مگر چند لمحوں بعد جب انہیں احساس ہوا کہ کہیں تعداد کم نہ ہوجائے تو انہوں نے اپنے عقیدت مندوں سے بار بارقرآن پر حلف لیا کہ وہ انہیں چھوڑ کرنہیں جائیں گے۔ جس قائد کو عوامی حمایت حاصل ہو اور جنہیں لوگوں کے جانے کا ڈر نہ ہو وہ کبھی بھی بار بار قرآن پر حلف نہیں لیا کرتے ۔
رہی بات ڈاکٹر طاہر القادری کے مطالبات کی کہ کتنے آئینی او ر غیر آئینی ہیں تو اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب پی پی پی کی حکومت ناقص کارکردگی کے باعث عوامی احتساب کے کٹہرے میں کھڑی ہے تو ایسے میں ان کے خلاف دھرنا قوم کی کیا خدمت کرئے گا بلکہ اس سے ڈولتے اقتدار والی جماعت پیپلز پارٹی کو آئندہ عام انتخابات میں ہمدردیاں حاصل ہوسکتی ہیں ۔ طاہر القادری کے ماضی یاان کی شخصیت پر اٹھنے والے اعتراضات کو اگر ایک طرف رکھ دیا جائے تو کیا یہ قابل قبول ہوگا کہ کوئی شخص اٹھے اور اپنے عقیدت مندوں کے ہمراہ آئین اور قانون سے ماوراء مطالبات منوانے کا اعلان کردے اور اٹھارہ کروڑ عوام اسے تسلیم کرلیں ۔ موجودہ لانگ مارچ اور دھرنے کے نتیجے میں ہوسکتا ہے کہ سکرپٹ کے مطابق طاہر القادری کے کچھ مطالبات مان لیے جائیں اور ا س حوالے سے حکومت بار بار بات بھی کررہی ہے لیکن اس سارے سیاسی بحران سے نکلنے کے لیے حکومت پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس سیاسی کشمکش سے نکلنے کے لیے عام انتخابات کی تاریخ اور نگران حکومت کے قیام کا فوری اعلان کر دے تاکہ سکرپٹ لکھنے والے اور اس سکرپٹ کے مطابق کردار اداکرنے والے ملک کو کسی بحران کی طرف نہ لے جائیں۔ رہی بات الیکشن کمیشن اور آزاد خودمختار حکومت کے قیام کی تو اس کے لیے حکومت کو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کرنا ہوگا تاکہ عام انتخابات اور اس کے نتائج سب کے لیے قابل قبول ہوں کیونکہ شفاف انتخابات ہی ملک کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے بچا سکتے ہیں ۔جن لوگوں کے نزدیک طاہر القادری کا رویہ درست قرارپایا ہے کیا وہ اس سوال کا جواب دے پائیں گے کہ اگر ملک کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں اسی طرح اپنے اپنے عقیدت مندوں اور کارکنوں کے ہمراہ پاکستان کے بڑے شہروں میں دھرنے دے کر حکومتیں
چھیننے اور بنانے کا اعلان کردیں تو پاکستان میں کیا بچے گا یہی سوچنے کا مقام ہے۔
سب کچھ سکرپٹ کے مطابق ہورہا ہے بس فرق صرف اتنا ہے کہ جیسے ڈرامے میں کام کرنے والے فنکار کو سکرپٹ میں لکھے لکھائے ڈائیلاگ اور کردار کے مطابق اپنارول ادا کرنا ہوتا ہے مگرکبھی کبھار اداکار خود ڈائریکٹر بن کر اپنے رول کو تبدیل کرلیتا ہے اور کچھ نئے خیالات کو اپنے کردار کا حصہ بنادیتاہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی حکومتی شخصیت کو عوامی جلسے کے لیے لکھی ہوئی تقریر دی جائے اور وہ بڑا عوامی اجتماع دیکھ کر لکھی تقریر کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے خیالات کو تقریر کی صورت میں بیان کردے اور عوامی جذبات سے کھیلنا شروع کردے۔
لاہور سے اسلام آباد کا لانگ مارچ اور چار روز سے جاری دھرنا بھی سکرپٹ کے مطابق تھا مگر ماضی کی طرح طے شدہ سکرپٹ میں تبدیلیاں کردی گئیں اور اپنے طے شدہ رول کی بجائے انقلاب انگیز کردار اداکرنے کی کوشش کی جانے لگی
ساری دنیا جانتی ہے کہ ماضی میں جب بھی حکومتیں گرانے کے لیے لانگ مارچ ہوئے حکومت اور حکومتی اداروں نے ان جلوسوں اور ان کے شرکاء سے کیا سلوک کیا ۔ بے نظیر بھٹو کو پولیس نے اس طرح تشدد کا نشانہ بنایا کہ کئی سال تک اس تشدد میں ملوث افسران کے خلاف وہ شدید غم و غصہ کا اظہار کرتی رہیں ۔ قاضی حسین احمد کے لانگ مارچ پر ہونے والے ڈنڈوں کی برسات سب کے سامنے ہے جس میں خود قاضی حسین احمد بھی لہولہان ہوگئے ۔ اسی تاریخی تناظر میں طاہر القادری کا لانگ مارچ سب سے نرالا ہے جس میں لاہور سے صوبائی حکومت کے سکیورٹی حصارمیں وہ بڑی شان سے نکلتے ہیں اور اسلام آباد میں رینجر ز اور پولیس کے حفاظتی اقدامات ان کے منتظر ہوتے ہیں اور لانگ مارچ کو کسی بھی جگہ کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ عقیدت مند، ملازمین، منہاج القرآن یونیورسٹی کے طلبہ ، اساتذہ، مریدین اور علامہ صاحب سے محبت کرنے والے پہلے سے طے شدہ مقام پر پہنچتے ہیں لیکن یہاں اچانک علامہ طاہر القادری اپنے کرداراور سکرپٹ میں تبدیلی کرلیتے ہیں اور معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈی چوک تک جانے کااعلان کردیتے ہیں ۔ چار روز سے جاری دھرنے میں علامہ طاہر القادری کے بدلتے ہوئے مطالبات اور ملک بھر میں جاری چہ میگوئیاں مباحثوں کا روپ دھار چکی ہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی حکومت کی چھٹی کرواکر نئے انتخابات کا اعلان چاہتے ہیں مگر وہ بھی طاہر القادری کی دبی دبی حمایت کرکے عملی طور پر فی الوقت ان پر اعتبار کرتے نظر نہیں آتے ہیں۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو طاہر القادری کے چار مطالبات اور عمران خان کے سات مطالبات میں خاصی مماثلت پائی جاتی ہے ۔ ، مسلم لیگ ن اور دیگر سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ سالوں بعد طاہر القادری کی اچانک آمد اور اربوں روپے کے اخراجات سے جاری لانگ مارچ اور دھرنا کسی خاص مقصد کے لیے کیا جارہا ہے لہٰذا ان مذموم مقاصد کی راہ میں دیوار کھڑی کرنے کے لیے ہر جانب سے پیش بندیاں کی جارہی ہیں ۔
سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ طاہر القادری کو تھمائے گئے سکرپٹ کی تیاری میں انتہاپسندی کے خلاف مہم چلانے والے اور پاکستان میں مسلکی اختلافات کو مزید ہوا دینے والی بہت سی بیرونی قوتیں بھی پس پردہ شامل تھیں اور ان کی حمایت بھی حاصل تھی مگر بغیر کسی رکاوٹ کے اسلام آبادپہنچنے اور کارکنوں کے جوش و جذنے کو دیکھ کر انہوں نے سکرپٹ میں تبدیلی کرنا شروع کردی اوروہ انقلاب فرانس، انقلاب ایران اور انقلاب مصر کی طرز پر انقلاب برپا کرنے کے خواب دیکھنا شروع ہوگئے۔ ڈی چوک کو تحریر سکوائر بنانے کی باتیں بھی وہ اسی خوش فہمی میں کررہے ہیں کہ مصر کی طرح یہاں بھی حکومت کا دھڑن تختہ ہوجائے گا اور عوام صدر مرسی کی طرح اقتدار ان کے ہاتھ میں رکھ دیں گے ۔اس خوش فہمی میں مبتلا لوگ مصر کی پوری تاریخ اور ماضی قریب کی سیاسی جدوجہد کو یکسر بھول جاتے ہیں کیونکہ مصر کی تاریخ کا پاکستان کے موجودہ حالات سے مقابلہ کرنا کسی ذی شعور کا کام نہیں ۔ آئندہ کسی کالم میں مصر کے حالات اور تبدیلی کی تحریک کے حوالے سے ضرور بات ہوگی تاکہ اس غلط فہمی کا ازالہ ہوجائے کہ تحریر سکوائر میں دھرنا دینے والے کون اور کس کردار کے لوگ تھے جس کے باعث مصر کی تاریخ کا عظیم الشان انقلاب برپا ہوا،
طاہر القادری کی اسلام آباد چڑھائی سے مقاصد حاصل کرنے والے اپنی اپنی منصوبہ بندی کیے بیٹھے ہیں اور اگر مطلوبہ اہداف حاصل نہ ہوپائے تو علامہ طاہر القادری عوام کے ذہنوں سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح سندھ کے سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے جذباتی ہوکر ملک میں تبدیلی کی نوید سنائی تھی۔ ذوالفقار مرزا کراچی کے حالات پر برسے تو ان کے کئی دوستوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ وہ اپنی نئی جماعت بنائیں گے لیکن مصلحت پسندی کے باعث وہ چپ ہوگئے تاہم ان کے الزامات اور بیانات پر کسی نے تحقیق کروانے کی بھی زحمت نہیں کی اور یوں ذوالفقار مرزا کی گھن گرج مصلحت کی چادر اوڑھے اپنی بے بسی پر ماتم کررہی ہے۔۔ طاہر القادری کی کال پر ان کے مداح ، عقیدت مند او ر مرید بڑی محبت سے اسلام آباد آئے ہیں لیکن وہ بھی اس حقیقت سے واقف نہیں کہ سکرپٹ کس نے لکھا، کہاں لکھا گیا اور اس سکرپٹ میں کس کو کیا کردار ملا ۔ وہ بیچارے تو عقیدت کے مارے اتنا بھی کہنے کی جرأت نہیں کرسکتے کہ انقلاب کی باتیں کرنے والے طاہر القادری دنیا کی تمام آسائشوں سے مزین بلٹ پروف کنٹینرمیں آرام کرنے کی بجائے چند منٹ کے لیے ان کے ساتھ اسلام آباد کے یخ بستہ موسم میں سڑک پر بیٹھ جائیں۔ لیکن یہ پاکستان کی سیاست کی بڑی بدقسمتی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے رہنما اور قائدین کا سیاسی اور مذہبی قد اتنا بڑا ہوجاتا ہے کہ عوام بیچارے اپنے رہنما سے کچھ پوچھنے یا اختلاف کرنے کی جرأت بھی نہیں رکھتے۔
بتایا گیا ہے کہ علامہ طاہر القادری کی رہائش والے کنٹینرز میں آرام دہ بستر ، فریج اور ماحول کو گرم رکھنے کی تمام سہولیات موجود ہیں، اب انہیں اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے چند دن مزید ان کنٹینرز میں قیام کرنا پڑے تو ان کے لیے کیا مشکل ہوسکتی ہے ۔
جس کسی نے بھی ڈاکٹرطاہر القادری کی دھرنے کی پہلی تقریر سنی ہو اسے ذرا غور کرنا چاہیے کہ انہوں نے برملا اعلان کیا کہ جس نے دھرنا چھوڑ کر جانا ہے وہ چلا جائے مگر چند لمحوں بعد جب انہیں احساس ہوا کہ کہیں تعداد کم نہ ہوجائے تو انہوں نے اپنے عقیدت مندوں سے بار بارقرآن پر حلف لیا کہ وہ انہیں چھوڑ کرنہیں جائیں گے۔ جس قائد کو عوامی حمایت حاصل ہو اور جنہیں لوگوں کے جانے کا ڈر نہ ہو وہ کبھی بھی بار بار قرآن پر حلف نہیں لیا کرتے ۔
رہی بات ڈاکٹر طاہر القادری کے مطالبات کی کہ کتنے آئینی او ر غیر آئینی ہیں تو اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب پی پی پی کی حکومت ناقص کارکردگی کے باعث عوامی احتساب کے کٹہرے میں کھڑی ہے تو ایسے میں ان کے خلاف دھرنا قوم کی کیا خدمت کرئے گا بلکہ اس سے ڈولتے اقتدار والی جماعت پیپلز پارٹی کو آئندہ عام انتخابات میں ہمدردیاں حاصل ہوسکتی ہیں ۔ طاہر القادری کے ماضی یاان کی شخصیت پر اٹھنے والے اعتراضات کو اگر ایک طرف رکھ دیا جائے تو کیا یہ قابل قبول ہوگا کہ کوئی شخص اٹھے اور اپنے عقیدت مندوں کے ہمراہ آئین اور قانون سے ماوراء مطالبات منوانے کا اعلان کردے اور اٹھارہ کروڑ عوام اسے تسلیم کرلیں ۔ موجودہ لانگ مارچ اور دھرنے کے نتیجے میں ہوسکتا ہے کہ سکرپٹ کے مطابق طاہر القادری کے کچھ مطالبات مان لیے جائیں اور ا س حوالے سے حکومت بار بار بات بھی کررہی ہے لیکن اس سارے سیاسی بحران سے نکلنے کے لیے حکومت پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس سیاسی کشمکش سے نکلنے کے لیے عام انتخابات کی تاریخ اور نگران حکومت کے قیام کا فوری اعلان کر دے تاکہ سکرپٹ لکھنے والے اور اس سکرپٹ کے مطابق کردار اداکرنے والے ملک کو کسی بحران کی طرف نہ لے جائیں۔ رہی بات الیکشن کمیشن اور آزاد خودمختار حکومت کے قیام کی تو اس کے لیے حکومت کو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کرنا ہوگا تاکہ عام انتخابات اور اس کے نتائج سب کے لیے قابل قبول ہوں کیونکہ شفاف انتخابات ہی ملک کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے بچا سکتے ہیں ۔جن لوگوں کے نزدیک طاہر القادری کا رویہ درست قرارپایا ہے کیا وہ اس سوال کا جواب دے پائیں گے کہ اگر ملک کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں اسی طرح اپنے اپنے عقیدت مندوں اور کارکنوں کے ہمراہ پاکستان کے بڑے شہروں میں دھرنے دے کر حکومتیں
چھیننے اور بنانے کا اعلان کردیں تو پاکستان میں کیا بچے گا یہی سوچنے کا مقام ہے۔