تم نے پکی سڑک بنا کر کیسا رستہ کھول دیا چکر کھا کر لوٹ آتی تھی پگڈنڈی تو گاؤں کی تھی اطہر صدیقی
یاسر شاہ محفلین جون 3، 2023 #181 تم نے پکی سڑک بنا کر کیسا رستہ کھول دیا چکر کھا کر لوٹ آتی تھی پگڈنڈی تو گاؤں کی تھی اطہر صدیقی
جاسمن لائبریرین اکتوبر 31، 2023 #182 خول چہروں پہ چڑھانے نہیں آتے ہم کو گاؤں کے لوگ ہیں، دکھاوے نہیں آتے ہم کو ہم بہاروں میں کھلتے پھولوں کی طرح ہیں لمحے خوشیوں کے چھپانے نہیں آتے ہم کو
خول چہروں پہ چڑھانے نہیں آتے ہم کو گاؤں کے لوگ ہیں، دکھاوے نہیں آتے ہم کو ہم بہاروں میں کھلتے پھولوں کی طرح ہیں لمحے خوشیوں کے چھپانے نہیں آتے ہم کو
جاسمن لائبریرین نومبر 4، 2023 #183 یہ باہمی اغراض و مقاصد کےہیں بندھن گویاکئی شہروں سےمضافات بندھےہیں اعتبار ساجد
جاسمن لائبریرین جنوری 15، 2024 #184 غربت کی تیز آگ پہ اکثر پکائی بھوک خوش حالیوں کے شہر میں کیا کچھ نہیں کیا اقبال ساجد
جاسمن لائبریرین جنوری 28، 2024 #186 آدمی شہرمیں جا بستاہے اور آخرِ کار لاش آبائی علاقے میں پلٹ آتی ہے
جاسمن لائبریرین جنوری 30، 2024 #187 پانی گھروں میں آ گیا دل کو خوشی ہوئی اور دُکھ بھی ہے کہ گاؤں میں پنگھٹ نہیں رہا میثم علی آغا
جاسمن لائبریرین مارچ 6، 2024 #188 اب کبوتر فاختائیں جا چکی ہیں گاؤں سے اے خداوند پیڑ کی اور بستیوں کی خیر ہو احمد سجاد بابر
جاسمن لائبریرین جون 13، 2024 #189 اک دن سنو گے میرے عزیزو کہ شہر میں شامیں ادھار مانگنے والا نہیں رہا!!!!!! اعتبار ساجد
جاسمن لائبریرین جون 13، 2024 #190 دھوپ اتری ہے نہ راہوں میں گھنا سایہ ہے اب ترے بعد ترے شہر میں کیا رکھا ہے مقتل شہر میں سر ہیں کہ صلیبوں کے ہجوم خوں کا دریا ہے کہ تا حد نظر ٹھہرا ہے محمود خاور
دھوپ اتری ہے نہ راہوں میں گھنا سایہ ہے اب ترے بعد ترے شہر میں کیا رکھا ہے مقتل شہر میں سر ہیں کہ صلیبوں کے ہجوم خوں کا دریا ہے کہ تا حد نظر ٹھہرا ہے محمود خاور
جاسمن لائبریرین اگست 2، 2024 #191 یہ جو پھولوں سے بھرا شہر ہوا کرتا تھا اس کے منظر ہیں دل آزار کہیں اور چلیں اعتبار ساجد
جاسمن لائبریرین اگست 2، 2024 #192 شہر کہاں خالی رہتا ہے یہ دریا ہر دم بہتا ہے اور بہت سے مل جائیں گے ہم ایسے دیوانے لوگ اعتبار ساجد
جاسمن لائبریرین اگست 2، 2024 #193 ابھی تاریخ نامی ایک جادوگر کو آنا ہے جو زندہ شہر اور اجسام کو پتھر میں ڈھالے گا اعتبار ساجد
جاسمن لائبریرین اگست 2، 2024 #194 کوئی شہر آ رہا ہے تو یہ خوف آ رہا ہے کوئی جانے کب اتر لے کہ بھروسہ کیا کسی کا کوئی مختلف نہیں ہے یہ دھواں یہ رائیگانی کہ جو حال شہر کا ہے وہی اپنی شاعری کا اعتبار ساجد
کوئی شہر آ رہا ہے تو یہ خوف آ رہا ہے کوئی جانے کب اتر لے کہ بھروسہ کیا کسی کا کوئی مختلف نہیں ہے یہ دھواں یہ رائیگانی کہ جو حال شہر کا ہے وہی اپنی شاعری کا اعتبار ساجد