گانوں کے بول

علی وقار

محفلین
آواز دے کہاں ہے ، دنیا مری جواں ہے
آباد میرے دل میں ، امید کا جہاں ہے
آ ، رات جا رہی ہے
یوں ، جیسے چاندنی کی بارات جا رہی ہے
چلنے کو اب فلک سے تاروں کا کارواں ہے
ایسے میں تو کہاں ہے ، دنیا مری جواں ہے

قسمت پہ چھا رہی ہےکیوں ، رات کی سیاہی
ویراں ہیں میری نیندیں ، تاروں سے لے گواہی
برباد میں یہاں ہوں ، آباد تو کہاں ہے
بےدرد آسماں ہے ، دنیا مری جواں ہے
آواز دے کہاں ہے!

آواز : نور جہاں ، سریندر
نغمہ نگار : تنویر نقوی
 

سیما علی

لائبریرین
تم مجھے یوں‌ بھُلا نہ پاؤ گے
تم مجھے یوں‌ بھُلا نہ پاؤ گے
جب کبھی بھی سنو گے گیت مِرے
سنگ سنگ تم بھی گنگناؤ گے
وہ بہاریں‌ وہ چاندنی راتیں
ہم نے کی تھیں جو پیار کی باتیں
ان نظاروں‌ کی یاد آئے گی
جب خیالوں میں مجھ کو لاؤ گے

میرے ہاتھوں‌ میں تیرا چہرہ تھا
جیسے کوئی گلاب ہوتا ہے
اور سہارا لیا تھا بانہوں‌ کا
وہ سماں‌ کس طرح بھُلاؤ گے

مجھ کو دیکھے بنا قرار نہ تھا
ایک ایسا بھی دور گزرا ہے
جھوٹ‌ مانو تو پوچھ لو دل سے
میں‌ کہوں‌ گا تو رُوٹھ جاؤ گے

حسرت جے پوری
 

علی وقار

محفلین
مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو
مجھے تم کبھی بھی بھلا نہ سکو گے
نہ جانے مجھے کیوں یقیں ہو چلا ہے
میرے پیار کو تم مٹا نہ سکو گے

مری یاد ہوگی جدھر جاؤ گے تم
کبھی نغمہ بن کے کبھی بن کے آنسو
تڑپتا مجھے ہر طرف پاؤ گے تم
شمع جو جلائی ہے میری وفا نے
بجھانا بھی چاہو بجھا نہ سکو گے

کبھی نام باتوں میں آیا جو میرا
تو بےچین ہو ہو کے دل تھام لو گے
نگاہوں میں چھائے گا غم کا اندھیرا
کسی نے جو پوچھا سبب آنسوؤں کا
بتانا بھی چاہو بتا نہ سکو گے

نغمہ نگار: مسرور انور
 

علی وقار

محفلین
زندگی کے سفر میں گزر جاتے ہیں جو مقام
وہ پھر نہیں آتے، وہ پھر نہیں آتے

پھول کھلتے ہیں لوگ ملتے ہیں مگر !
پت جھڑ میں جو پھول مرجھا جاتے ہیں
وہ بہاروں کے آنے سے کھلتے نہیں
کچھ لوگ اک روز جو بچھڑ جاتے ہیں
وہ ہزاروں کے آنے سے ملتے نہیں
عمر بھر چاہے کوئی پکارا کرے ان کا نام
وہ پھر نہیں آتے وہ پھر نہیں آتے!

آنکھ دھوکا ہے، کیا بھروسہ ہے،
سنو!
دوستو
شک دوستی کا دشمن ہے
اپنے دل میں اسے گھر بنانے نہ دو
کل تڑپنا پڑے یاد میں جن کی
روک لو انہیں روٹھ کر جانے نہ دو
بعد میں پیار کے بھیجو چاہے لاکھوں سلام
وہ پھر نہیں آتے، وہ پھر نہیں آتے

صبح آتی ہے رات جاتی ہے یونہی!
وقت چلتا ہی رہتا ہے، رکتا نہیں
ایک پل میں یہ آگے نکل جاتا ہے
آدمی ٹھیک سے دیکھ پاتا نہیں
اور پردے کا منظر بدل جاتا ہے
ایک بار چلے جاتے ہیں جو دن رات صبح شام
وہ پھر نہیں آتے وہ پھر نہیں آتے

نغمہ نگار : آنند بخشی
 

علی وقار

محفلین
نغمہ نگار: شکیل بدایونی

پیار کیا تو ڈرنا کیا جب پیار کیا تو ڈرنا کیا
پیار کیا کوئی چوری نہیں کی چھپ چھپ آہیں بھرنا کیا

آج کہیں گے دل کا فسانہ جان بھی لے لے چاہے زمانہ
موت وہی جو دنیا دیکھے گھٹ گھٹ کر یوں مرنا کیا

ان کی تمنا دل میں رہے گی شمع اسی محفل میں رہے گی
عشق میں جینا عشق میں مرنا اور ہمیں اب کرنا کیا

چھپ نہ سکے گا عشق ہمارا چاروں طرف ہیں ان کا نظارہ
پردہ نہیں جب کوئی خدا سے بندوں سے پردہ کرنا کیا
 

علی وقار

محفلین
دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے
مل جائے تو مٹی ہے کھو جائے تو سونا ہے

اچھا سا کوئی موسم تنہا سا کوئی عالم
ہر وقت کا رونا تو بے کار کا رونا ہے

برسات کا بادل تو دیوانہ ہے کیا جانے
کس راہ سے بچنا ہے کس چھت کو بھگونا ہے

یہ وقت جو تیرا ہے یہ وقت جو میرا ہے
ہر گام پہ پہرا ہے پھر بھی اسے کھونا ہے

غم ہو کہ خوشی دونوں کچھ دور کے ساتھی ہیں
پھر رستہ ہی رستہ ہے ہنسنا ہے نہ رونا ہے

آوارہ مزاجی نے پھیلا دیا آنگن کو
آکاش کی چادر ہے دھرتی کا بچھونا ہے

شاعر: ندا فاضلی
 

علی وقار

محفلین
ہاں اسی موڑ پر
اس جگہ بیٹھ کر
تم نے وعدہ کیا تھا
ساتھ دو گے
زندگی بھر
چھوڑ کر تم نہ جاؤ گے
ہاں اسی موڑ پر
اس جگہ بیٹھ کر

یاد ہے آج بھی مجھ کو
اس حسیں شام کا منظر
دل جہاں میں نے ہارا تھا
میں نے تم کو پکارا تھا
پیار سے اجنبی کہہ کر

ہاں اسی موڑ پر
اس جگہ بیٹھ کر
تم نے وعدہ کیا تھا
ساتھ دو گے
زندگی بھر
چھوڑ کر تم نہ جاؤ گے
ہاں اسی موڑ پر
اس جگہ بیٹھ کر

میری دیوانگی مجھ کو
پھر اسی موڑ پر لائی
ڈھونڈتا پھر رہا ہوں میں
اپنی ویران تنہائی
رہ گئی آرزو جل کر

ہاں اسی موڑ پر
اس جگہ بیٹھ کر
تم نے وعدہ کیا تھا
ساتھ دو گے
زندگی بھر
چھوڑ کر تم نہ جاؤ گے
ہاں اسی موڑ پر
اس جگہ بیٹھ کر

نغمہ نگار: مسرور انور
 

سیما علی

لائبریرین
آدمی جو کہتا ہے آدمی جو سنتا ہے۔۔۔ یہ نغمہ مجھے ہر ایک زندگی سے بہت قریب معلوم ہوتا ہے۔شاید اسی لئے بہت پسند ہے۔ اس میں معنویت ،حقیقت اور شاعری کاحسن ہے۔ ۔۔۔۔۔
کبھی سوچتا ہوں
کہ میں چپ رہوں
کبھی سوچتا ہوں
کہ میں کچھ کہوں
آدمی جو کہتا ہے
آدمی جو سنتا ہے
زندگی بھر وہ صدائیں پیچھا کرتی ہیں
آدمی جو دیتا ہے
آدمی جو لیتا ہے
زندگی بھر وہ دعائیں پیچھا کرتی ہیں
کوئی بھی ہو ہر خواب تو سچا نہیں ہوتا
بہت زیادہ پیار بھی اچھا نہیں ہوتا

کبھی دامن چھڑانا ہو تو مشکل ہو
پیار کے رشتے ٹوٹے تو
پیار کے رستے چھوٹے تو
راستے میں پھر وفائیں پیچھا کرتی ہیں
( یہ ہر رشتہ سے جڑا ہے )

کبھی کبھی من دھوپ کے کارن ترستا ہے
کبھی کبھی پھر جھوم کے ساون برستا ہے

پلک جھپکے یہاں موسم بدل جائے
پیاس کبھی مٹتی نہیں ایک بوند بھی ملتی نہیں
اور کبھی رم جھم گھٹائیں پیچھا کرتی ہے
✅✅✅✅✅✅✅✅
اور انسان حسب فطرت
ناشکرا۔ناصبرا۔۔۔ناقدرا🥲🥲🥲🥲🥲🥲
ہر پا جانے والی نعمت پر ۔۔۔۔

اے تمنا تجھ کو رو لوں شام وصل
آج تو دل سے نکالی جائے گی
اپنی گہری سہیلی کا شادی کے تحفے
والے کار ڈ پہ لکھا شعر اس ایک لمحے میں پڑھتے ہی یاد رہ جانے والا آجتک من وعن یاد ہے ۔۔۔ کسقدر تلخ حقیقت ہے ۔۔
 
غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم
اے جان وفا یہ ظلم نہ کر

ساحر لدھیانوی

مجروح سلطان پوری کی غزل ہے کہ
ہم ہیں متاع کوچہ و بازار کی طرح
اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح

مجروح لکھ رہے ہیں وہ اہل وفا کا نام
ہم بھی کھڑے ہوئے ہیں گنہ گار کی طرح
 
Top