تیلے شاہ
محفلین
حکومتِ پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اقتصادی سروے کے مطابق ملک میں گدھوں کی تعداد بڑھی ہے جبکہ اونٹوں،گھوڑوں اور خچروں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔
حال ہی میں جاری کیے گئے اقتصادی جائزے میں مال مویشیوں کے شعبے کا ذکر کرتے ہوئے سرکاری اعداد وشمار میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ مالی سال میں ملک بھر میں گدھوں کی تعداد بیالیس لاکھ تھی جو رواں مالی سال میں بڑھ کر تنتالیس لاکھ ہو چکی ہے۔
وزارت خوراک و زراعت کے مرتب کردہ اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ سال ملک بھر میں سات لاکھ اونٹ، تین لاکھ گھوڑے اور تین لاکھ خچر تھے اور ان کی تعداد رواں مالی سال میں بھی وہی ہے۔
اقتصادی جائزے میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر میں مال مویشی پالنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور بھینس، بکریوں، بھیڑوں کی تعداد میں بھی رواں سال میں گزشتہ سال کی نسبت اضافہ دیکھا گیا ہے۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ملک میں بھینسوں کی تعداد دو کروڑ تریسٹھ لاکھ سے بڑھ کر دو کروڑ چوراسی لاکھ ہوگئی ہے اور بکریوں کی تعداد پانچ کروڑ چھپن لاکھ سے بڑھ کر چھ کروڑ انیس لاکھ جبکہ بھیڑوں کی تعداد دو کروڑ انچاس لاکھ کے مقابلے میں دو کروڑ پچپن لاکھ ریکارڈ کی گئی ہے۔
تین سے ساڑھے تین کروڑ پاکستانیوں کا ذریعہ معاش مال مویشی پالنا ہے
حکومت کا کہنا ہے کہ مال مویشیوں کے شعبے کو پاکستان کی معیشت میں خاصی اہمیت حاصل ہے اور مجموعی پیداوار یعنی ’جی ڈی پی‘ میں گیارہ فیصد حصہ اس شعبے کا ہے۔
اقتصادی جائزے میں فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق ساڑھے پندرہ کروڑ سے زائد آبادی والے ملک میں تین سے ساڑھے تین کروڑ دیہی افراد کا ذریعہ معاش مال مویشی پالنا ہے۔
حکومت کے مطابق کئی دہائیوں سے نظر انداز کیئے جانے کے باوجود بھی پاکستان دودھ پیدا کرنے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے اور دودھ کی پیداوار سے ہونے والی آمدن کپاس اور گندم کی پیداوار سے ہونے والی آمدن سے زیادہ ہے۔
پاکستان میں تیس جون کو ختم ہونے والے مالی سال میں دودھ کی سالانہ پیداوار اکتیس ارب انتیس کروڑ چھیالیس لاکھ ٹن ریکارڈ کی گئی جبکہ ایک ارب سترہ کروڑ چوالیس لاکھ ٹن گائے کا گوشت، اٹھہتر کروڑ اکیس لاکھ ٹن بکری کا گوشت اور برڈ فلو وائرس کے باوجود بھی چھیالیس کروڑ پچیس لاکھ ٹن مرغی کے گوشت کی پیداوار ریکارڈ کی گئی ہے۔
حال ہی میں جاری کیے گئے اقتصادی جائزے میں مال مویشیوں کے شعبے کا ذکر کرتے ہوئے سرکاری اعداد وشمار میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ مالی سال میں ملک بھر میں گدھوں کی تعداد بیالیس لاکھ تھی جو رواں مالی سال میں بڑھ کر تنتالیس لاکھ ہو چکی ہے۔
وزارت خوراک و زراعت کے مرتب کردہ اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ سال ملک بھر میں سات لاکھ اونٹ، تین لاکھ گھوڑے اور تین لاکھ خچر تھے اور ان کی تعداد رواں مالی سال میں بھی وہی ہے۔
اقتصادی جائزے میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر میں مال مویشی پالنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور بھینس، بکریوں، بھیڑوں کی تعداد میں بھی رواں سال میں گزشتہ سال کی نسبت اضافہ دیکھا گیا ہے۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ملک میں بھینسوں کی تعداد دو کروڑ تریسٹھ لاکھ سے بڑھ کر دو کروڑ چوراسی لاکھ ہوگئی ہے اور بکریوں کی تعداد پانچ کروڑ چھپن لاکھ سے بڑھ کر چھ کروڑ انیس لاکھ جبکہ بھیڑوں کی تعداد دو کروڑ انچاس لاکھ کے مقابلے میں دو کروڑ پچپن لاکھ ریکارڈ کی گئی ہے۔
تین سے ساڑھے تین کروڑ پاکستانیوں کا ذریعہ معاش مال مویشی پالنا ہے
حکومت کا کہنا ہے کہ مال مویشیوں کے شعبے کو پاکستان کی معیشت میں خاصی اہمیت حاصل ہے اور مجموعی پیداوار یعنی ’جی ڈی پی‘ میں گیارہ فیصد حصہ اس شعبے کا ہے۔
اقتصادی جائزے میں فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق ساڑھے پندرہ کروڑ سے زائد آبادی والے ملک میں تین سے ساڑھے تین کروڑ دیہی افراد کا ذریعہ معاش مال مویشی پالنا ہے۔
حکومت کے مطابق کئی دہائیوں سے نظر انداز کیئے جانے کے باوجود بھی پاکستان دودھ پیدا کرنے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے اور دودھ کی پیداوار سے ہونے والی آمدن کپاس اور گندم کی پیداوار سے ہونے والی آمدن سے زیادہ ہے۔
پاکستان میں تیس جون کو ختم ہونے والے مالی سال میں دودھ کی سالانہ پیداوار اکتیس ارب انتیس کروڑ چھیالیس لاکھ ٹن ریکارڈ کی گئی جبکہ ایک ارب سترہ کروڑ چوالیس لاکھ ٹن گائے کا گوشت، اٹھہتر کروڑ اکیس لاکھ ٹن بکری کا گوشت اور برڈ فلو وائرس کے باوجود بھی چھیالیس کروڑ پچیس لاکھ ٹن مرغی کے گوشت کی پیداوار ریکارڈ کی گئی ہے۔