بارش تو سب کو ہی اچھی لگتی ہے، سو ہمیں بھی۔
کسی زمانے میں ہم نے اپنے
بلاگ پر بارش کے حوالے سے
ایک تحریر لکھی تھی، اسے یہاں نقل کیے دیتے ہیں۔
بارشوں کے موسم میں
کئی دنوں کے حبس کے بعد آج کراچی بھی جل تھل ہو ہی گیا، صبح صبح بارش ہوگئی ۔ موسم اچھا ہو جائے تو سب کچھ اچھا لگتا ہے ۔ پھر خاص طور پر بارش تو اپنا الگ ہی رنگ رکھتی ہے۔ قطعِ نظر اس بات کے کہ بارش سے کیا کیا مسائل اور پریشانیاں جنم لیتی ہیں یہ بات بھی بالکل بجا ہے بارش دلوں کے اندر تک سرائیت کرنا جانتی ہے ۔ دل میں پہنچنے کے بعد اس کا پہلا حدف دل میں موجود یادوں کی لائیبریری ہوتا ہے ۔بہت کچھ یاد آنے لگتا ہے اپنے قریبی لوگوں کے ساتھ گزارا ہوا خوبصورت وقت ، بہت اچھی اچھی باتیں اور یادیں ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ نہ جانے کون کون سے دکھ بھی خود رو پودوں کی طرح نکل آتے ہیں اور ہر طرف ہریالی ہی ہریالی پھیلا دیتے ہیں ۔ یہ ہریالی اور نیلا دُھلا دُھلایا آسمان جو منظر پیش کرتا ہے وہ اُداس تو ضرور کرتا ہے لیکن اُس کا بھی اپنا ہی لطف ہوتا ہے۔
بارشوں میں کھانے پینے کا بھی الگ ہی مزہ ہے ۔ لوگ طرح طرح کے اہتمام کرتے ہیں، مجھے آج تک یاد ہے آج سے ایک آدھ سال اُدھر میں ایک مقامی پارک میں دوستوں کے ساتھ موجود تھا اور چائے سے شغل میں مصروف تھا کہ اچانک بارش ہو گئی اور بارش بھی ٹھیک ٹھاک، اس بارش کے طفیل اُس چائے میں اچھی خاصی برکت ہوگئی لیکن پھر بھی میں نے اُ س چائے کو چھوڑا نہیں اور اُس چائے نے اتنا لطف دیا کہ آج بھی یاد آتی ہے۔
خوبصورت موسم اور برکھا برسات شعر و سخن کے لئے بھی بہت ہی ساز گار ہوتے ہیں اور کبھی کبھی تو خیالات بارش کی بوندوں سے بھی تیز تر ہو جاتے ہیں ، اور ان میں سے بھی اکثر خیالات شاعرانہ قالب میں ڈھلے ڈھلائے ہی ہوتے ہیں۔ لیکن ایسا بھی شاذ ہی ہوتا ہے کہ اگر یہ سارے لوازمات میسّر آبھی جائیں تو بھی فرصت کی کمی ضرور رہتی ہے۔
بہر کیف، اس طرح کا موسم جب بھی ہوتا ہے ، مجھے پروین شاکر کی یہ خوبصورت نظم ضرور یاد آتی ہے۔
پیشکش
اتنے اچھے موسم میں
روٹھنا نہیں اچھا
ہار جیت کی باتیں
کل پہ ہم اُٹھا رکھیں
آج دوستی کرلیں
پروین شاکر۔
اور ایک یہ قطعہ بھی ۔
موسم تھا بے قرار، تمھیں سوچتے رہے
کل رات بار بار، تمھیں سوچتے رہے
بارش ہوئی تو گھر کے دریچے سے لگ کے ہم
چُپ چاپ ، سوگوار تمھیں سوچتے رہے
شاعرنامعلوم
اگر آپ بھی کراچی میں ہیں تو بارش کے لطف کو شکائتوں میں مت گنوائیے گا۔