مہ جبین
محفلین
گردِ رہِ مدینہ کے قابل نہیں رہا
"جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا"
عجزِ سخن ، کمال ہے مدحت کے باب میں
اس فن میں کوئی میرا مقابل نہیں رہا
اُن کے کرم سے کھل گئے سب عقدہ ہائے شوق
اب کوئی مرحلہ مجھے مشکل نہیں رہا
اب میں ہوں اور عشقِ شہنشاہِ بحر و بر
اب کوئی رنج مدِّ مقابل نہیں رہا
ہونٹوں پہ ہر نفس ہے وظیفہ حضور کا
میں اک نفس بھی آپ سے غافل نہیں رہا
ہاں آپ کے خیال کی دولت ہے میرے پاس
ہاں میں نشاطِ دہر کا سائل نہیں رہا
گُم ہوگئے ایاز مدینے کی راہ میں
احساسِ نارسائیِ منزل نہیں رہا
ایاز صدیقی