محمد تابش صدیقی
منتظم
کچھ دنوں قبل برادرِ خورد کی شادی خانہ آبادی کے سلسلے میں بذریعہ گرین لائن ٹرین کراچی جانے اور آنے کا اتفاق ہوا.
اس سے پہلے اس ٹرین کا صرف تذکرہ سنا تھا جس میں زیادہ تر تعریفی اور کچھ تنقیدی تبصرے تھے۔
بہرحال اب جبکہ خود کراچی جانے کا مرحلہ درپیش تھا تو فیصلہ کیا گیا کہ اس نئی ٹرین کے سفر کا تجربہ کیا جائے۔
تجربہ یہاں پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی کو کبھی بذریعہ ٹرین سفر کرنا ہو تو شاید میرا تجربہ کام آ جائے۔
گرین لائن ٹرین کا اسلام آباد سے کراچی تک کا ٹکٹ ساڑھے پانچ ہزار روپے ہے۔ جبکہ اسی بزنس کلاس کوچ کا تیزگام ٹرین کا ٹکٹ غالباً چار ہزار کے لگ بھگ ہے۔ تین سے دس سال تک کے بچوں کا ٹکٹ چار ہزار ایک سو روپے کا تھا۔ جبکہ تین سال سے کم عمر بچوں کا ٹکٹ نہیں تھا۔
یہ اسلام آباد کے مارگلہ ریلوے سٹیشن سے روانہ ہوتی ہے۔ جو کہ بہت چھوٹا سا سٹیشن ہے، یہاں تک کہ ہمیں اپنا ڈھیروں سامان کیبن تک پہچانے کے لیے قلی کی ضرورت نہ پیش آئی۔
(جی یہ راقم ہی سامان سے مخاطب ہے)
یہاں سے ٹرین میں ملنے والی سہولیات کا آغاز ہو گیا۔
پینے کے پانی کے لیے ڈسپنسر لگا ہوا تھا اور ٹھنڈا، گرم دونوں طرح کا پانی میسر تھا، جس پر بچوں کی ماؤں نے سکون کا سانس لیا، ورنہ ٹرین کے لمبے سفر میں گرم پانی کا ملنا اتنا آسان نہ تھا۔
ہر کیبن میں ایک ٹی وی لگا ہوا تھا، جس پر چار چینل موجود تھے۔ کارٹون، کلاسیکی ڈرامے، اردو فلم، انگلش فلم۔
اس کا فائدہ یہ ہوا کہ تمام بچے سکون کے ساتھ ایک کیبن میں بیٹھ گئے، جس پر بچوں کی ماؤں نے مزید سکون کے سانس لئے۔
ہر برتھ کے ساتھ تکیہ اور کمبل پہلے سے موجود تھا۔ ورنہ عموماً گھر سے ایک بستر بند صرف راستے کے لیے ساتھ باندھ کر لانا پڑتا ہے۔
درجہ حرارت کو معتدل رکھنے کے لیے مرکزی ہیٹنگ سسٹم آن تھا۔ مگر اس کو کنٹرول کرنے والے سست تھے۔ بعض اوقات درجہ حرارت اتنا بڑھ جاتا کہ دم گھٹنا شروع ہو جاتا، پھر جا کر درخواست کرنی پڑتی کہ بھائی کراچی زندہ سلامت پہنچنا چاہتے ہیں۔
اور کبھی اتنا کم ہو جاتا کہ اتارے ہوئے کوٹ دوبارہ پہننے پڑتے۔ غالباً یہ واحد تکلیف تھی جو دورانِ سفر اٹھانی پڑی۔
تقریباً ساڑھے چار بجے کسی نے کیبن کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ کھولا تو ایک بندہ چائے اور سینڈوچ کے ساتھ موجود تھا۔ دو سینڈوچ اور چائے فی برتھ دی گئی۔
رات آٹھ بجے دوبارہ دستک ہوئی اور اس بار وہی بندہ رات کے کھانے کے ساتھ موجود تھا۔ کھانا بھی فی برتھ کے حساب سے دیا گیا۔ اور مقدار میں اتنا تھا کہ مجھ جیسے ایک فرد کی ضرورت سے زیادہ تھا۔
کھانے میں چکن کڑاہی، آلو پالک، چاول، ایک نان اور نیسلے کا زیرہ رائتہ موجود تھا۔
عمومی طور پر سفر کے دوران کھانے کا الگ بیگ باندھنا پڑتا ہے اور پھر اس کے گرم ہونے کا مسئلہ اور برتنوں کو سنبھالنے کا جھنجھٹ ہوتا ہے، یہاں پر اس مسئلے سے بھی چھٹکارا مل گیا۔
دس بجے کے قریب دوبارہ دستک ہوئی۔ اس بار ایک بندہ صبح استعمال کے لیے مارننگ کٹ کے ساتھ موجود تھا۔ یہ بھی فی برتھ کے حساب سے دی گئی۔
اس کٹ میں ٹوتھ برش، ٹوتھ پیسٹ، فیس واش، چھوٹی کنگھی، ویٹ ٹشو، جوتے صاف کرنے کا کپڑا موجود تھا۔
صبح سات بجے ناشتہ پہنچ گیا۔ جس میں بریڈ کے تین سلائس، ایک بڑا اور پھیکا آملیٹ، مکھن کی ٹکیہ اور مارملیڈ کی ٹکیہ موجود تھی۔
ان سب سہولیات کے ساتھ ساتھ صفائی کا بھی معقول انتظام تھا، اور وقتاً فوقتاً صفائی والا بندہ آتا رہتا تھا، واش روم بھی صاف تھے۔
ٹرین میں انٹرنیٹ کی سہولت بھی موجود تھی، جو بذریعہ پی ٹی سی ایل ونگل دی جا رہی تھی، لہٰذا صرف شہروں میں ہی انٹرنیٹ کام کرتا تھا۔
بہرحال تمام سفر الحمدللہ خیریت اور سکون سے گزرا۔ سندھ میں جا کر ایک جگہ پٹری پر کام ہونے کی وجہ سے ٹرین بیس پچیس منٹ بہت کم رفتار سے چلی، جس کے باعث آدھا گھنٹہ لیٹ ہوئی، مگر واپسی کے سفر میں یہ شکایت دور ہو گئی۔
کم سٹیشنز پر رکنے کے باعث سفر کا دورانیہ دوسری ٹرینوں کی نسبت کافی کم ہے۔
مثلاً تیزگام کا دورانیہ پنڈی سے کراچی اٹھائیس گھنٹے ہے، اور لیٹ ہونے کے باعث بسا اوقات تیس گھنٹے سے تجاوز کر جاتا ہے۔
گرین لائن ٹرین کا دورانیہ اسلام آباد سے کراچی بائیس گھنٹے جبکہ پنڈی سے کراچی سوا اکیس گھنٹے ہے۔
واپسی پر روانگی کا وقت رات دس بجے تھا، اور پنڈی پہنچنے کا وقت سوا سات بجے رات کا تھا۔ اس دوران مارننگ کٹ، ناشتہ، دوپہر کا کھانا اور شام کی چائے دی گئی۔ شام کی چائے کے علاوہ بھی چائے میسر تھی مگر قیمتاً۔
مجموعی طور پر سفر میں سوائے درجہ حرارت کی پریشانی کے کوئی اور مسئلہ نہ ہوا۔ اور ساڑھے پانچ ہزار روپے دے کر سفر کرنے پر پشیمان نہ ہونا پڑا۔
اور اس سفر کے بعد دیگر تمام تحفظات کے باوجود خواجہ سعد رفیق کے میں دعا ہی نکلی۔
یہ مختصر سی سفر کی روداد تھی، جو صرف اسی مقصد سے لکھ دی کہ شاید کسی کا فائدہ ہو جائے۔ اور کچھ دعائیں ہی مل جائیں۔
اپ ڈیٹ: فاتح بھائی کے سوال سے ایک اور اہم نکتہ یاد آ گیا جو رہ گیا تھا۔ وہ یہ کہ ایک ڈبے میں صرف دو واش روم ہی ہیں، جس کے باعث بالخصوص صبح کے اوقات میں کافی تنگی کا سامنا کرنا پڑا۔
اس سے پہلے اس ٹرین کا صرف تذکرہ سنا تھا جس میں زیادہ تر تعریفی اور کچھ تنقیدی تبصرے تھے۔
بہرحال اب جبکہ خود کراچی جانے کا مرحلہ درپیش تھا تو فیصلہ کیا گیا کہ اس نئی ٹرین کے سفر کا تجربہ کیا جائے۔
تجربہ یہاں پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی کو کبھی بذریعہ ٹرین سفر کرنا ہو تو شاید میرا تجربہ کام آ جائے۔
گرین لائن ٹرین کا اسلام آباد سے کراچی تک کا ٹکٹ ساڑھے پانچ ہزار روپے ہے۔ جبکہ اسی بزنس کلاس کوچ کا تیزگام ٹرین کا ٹکٹ غالباً چار ہزار کے لگ بھگ ہے۔ تین سے دس سال تک کے بچوں کا ٹکٹ چار ہزار ایک سو روپے کا تھا۔ جبکہ تین سال سے کم عمر بچوں کا ٹکٹ نہیں تھا۔
یہ اسلام آباد کے مارگلہ ریلوے سٹیشن سے روانہ ہوتی ہے۔ جو کہ بہت چھوٹا سا سٹیشن ہے، یہاں تک کہ ہمیں اپنا ڈھیروں سامان کیبن تک پہچانے کے لیے قلی کی ضرورت نہ پیش آئی۔
(جی یہ راقم ہی سامان سے مخاطب ہے)
یہاں سے ٹرین میں ملنے والی سہولیات کا آغاز ہو گیا۔
پینے کے پانی کے لیے ڈسپنسر لگا ہوا تھا اور ٹھنڈا، گرم دونوں طرح کا پانی میسر تھا، جس پر بچوں کی ماؤں نے سکون کا سانس لیا، ورنہ ٹرین کے لمبے سفر میں گرم پانی کا ملنا اتنا آسان نہ تھا۔
ہر کیبن میں ایک ٹی وی لگا ہوا تھا، جس پر چار چینل موجود تھے۔ کارٹون، کلاسیکی ڈرامے، اردو فلم، انگلش فلم۔
اس کا فائدہ یہ ہوا کہ تمام بچے سکون کے ساتھ ایک کیبن میں بیٹھ گئے، جس پر بچوں کی ماؤں نے مزید سکون کے سانس لئے۔
ہر برتھ کے ساتھ تکیہ اور کمبل پہلے سے موجود تھا۔ ورنہ عموماً گھر سے ایک بستر بند صرف راستے کے لیے ساتھ باندھ کر لانا پڑتا ہے۔
درجہ حرارت کو معتدل رکھنے کے لیے مرکزی ہیٹنگ سسٹم آن تھا۔ مگر اس کو کنٹرول کرنے والے سست تھے۔ بعض اوقات درجہ حرارت اتنا بڑھ جاتا کہ دم گھٹنا شروع ہو جاتا، پھر جا کر درخواست کرنی پڑتی کہ بھائی کراچی زندہ سلامت پہنچنا چاہتے ہیں۔
اور کبھی اتنا کم ہو جاتا کہ اتارے ہوئے کوٹ دوبارہ پہننے پڑتے۔ غالباً یہ واحد تکلیف تھی جو دورانِ سفر اٹھانی پڑی۔
تقریباً ساڑھے چار بجے کسی نے کیبن کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ کھولا تو ایک بندہ چائے اور سینڈوچ کے ساتھ موجود تھا۔ دو سینڈوچ اور چائے فی برتھ دی گئی۔
رات آٹھ بجے دوبارہ دستک ہوئی اور اس بار وہی بندہ رات کے کھانے کے ساتھ موجود تھا۔ کھانا بھی فی برتھ کے حساب سے دیا گیا۔ اور مقدار میں اتنا تھا کہ مجھ جیسے ایک فرد کی ضرورت سے زیادہ تھا۔
کھانے میں چکن کڑاہی، آلو پالک، چاول، ایک نان اور نیسلے کا زیرہ رائتہ موجود تھا۔
عمومی طور پر سفر کے دوران کھانے کا الگ بیگ باندھنا پڑتا ہے اور پھر اس کے گرم ہونے کا مسئلہ اور برتنوں کو سنبھالنے کا جھنجھٹ ہوتا ہے، یہاں پر اس مسئلے سے بھی چھٹکارا مل گیا۔
دس بجے کے قریب دوبارہ دستک ہوئی۔ اس بار ایک بندہ صبح استعمال کے لیے مارننگ کٹ کے ساتھ موجود تھا۔ یہ بھی فی برتھ کے حساب سے دی گئی۔
اس کٹ میں ٹوتھ برش، ٹوتھ پیسٹ، فیس واش، چھوٹی کنگھی، ویٹ ٹشو، جوتے صاف کرنے کا کپڑا موجود تھا۔
صبح سات بجے ناشتہ پہنچ گیا۔ جس میں بریڈ کے تین سلائس، ایک بڑا اور پھیکا آملیٹ، مکھن کی ٹکیہ اور مارملیڈ کی ٹکیہ موجود تھی۔
ان سب سہولیات کے ساتھ ساتھ صفائی کا بھی معقول انتظام تھا، اور وقتاً فوقتاً صفائی والا بندہ آتا رہتا تھا، واش روم بھی صاف تھے۔
ٹرین میں انٹرنیٹ کی سہولت بھی موجود تھی، جو بذریعہ پی ٹی سی ایل ونگل دی جا رہی تھی، لہٰذا صرف شہروں میں ہی انٹرنیٹ کام کرتا تھا۔
بہرحال تمام سفر الحمدللہ خیریت اور سکون سے گزرا۔ سندھ میں جا کر ایک جگہ پٹری پر کام ہونے کی وجہ سے ٹرین بیس پچیس منٹ بہت کم رفتار سے چلی، جس کے باعث آدھا گھنٹہ لیٹ ہوئی، مگر واپسی کے سفر میں یہ شکایت دور ہو گئی۔
کم سٹیشنز پر رکنے کے باعث سفر کا دورانیہ دوسری ٹرینوں کی نسبت کافی کم ہے۔
مثلاً تیزگام کا دورانیہ پنڈی سے کراچی اٹھائیس گھنٹے ہے، اور لیٹ ہونے کے باعث بسا اوقات تیس گھنٹے سے تجاوز کر جاتا ہے۔
گرین لائن ٹرین کا دورانیہ اسلام آباد سے کراچی بائیس گھنٹے جبکہ پنڈی سے کراچی سوا اکیس گھنٹے ہے۔
واپسی پر روانگی کا وقت رات دس بجے تھا، اور پنڈی پہنچنے کا وقت سوا سات بجے رات کا تھا۔ اس دوران مارننگ کٹ، ناشتہ، دوپہر کا کھانا اور شام کی چائے دی گئی۔ شام کی چائے کے علاوہ بھی چائے میسر تھی مگر قیمتاً۔
مجموعی طور پر سفر میں سوائے درجہ حرارت کی پریشانی کے کوئی اور مسئلہ نہ ہوا۔ اور ساڑھے پانچ ہزار روپے دے کر سفر کرنے پر پشیمان نہ ہونا پڑا۔
اور اس سفر کے بعد دیگر تمام تحفظات کے باوجود خواجہ سعد رفیق کے میں دعا ہی نکلی۔
یہ مختصر سی سفر کی روداد تھی، جو صرف اسی مقصد سے لکھ دی کہ شاید کسی کا فائدہ ہو جائے۔ اور کچھ دعائیں ہی مل جائیں۔
اپ ڈیٹ: فاتح بھائی کے سوال سے ایک اور اہم نکتہ یاد آ گیا جو رہ گیا تھا۔ وہ یہ کہ ایک ڈبے میں صرف دو واش روم ہی ہیں، جس کے باعث بالخصوص صبح کے اوقات میں کافی تنگی کا سامنا کرنا پڑا۔
آخری تدوین: