ام نور العين
معطل
گلِ مہر کی ماں کو کون سمجھاتا ؟
( تحریر : اختر عباس )
( تحریر : اختر عباس )
اس کی نگا ہوں ميں گستاخی نہیں ، بے بسی تھی ، بے چارگی ، زہر کی طرح یہاں سے وہاں تک پھیلی ہوئی تھی ۔ وہ جو گل مہر تھی ، گل مہر کا سایہ تھی ۔ یوں مرجھائی پڑی تھی جیسے کبھی تازگی سے اس کا تعلق واسطہ ہی نہ رہا ہو ۔
میرے منہ سے تسلی کا ایک لفظ بھی نہ نکل پایا ۔ ہاں اس کے الجھے بالوں والے سر پہ ہاتھ رکھا اور صرف اتنا کہہ سکا : " اللہ جی خیر کریں "۔
مسٹر سعید ظفر نے مڑ کر میری طرف یوں دیکھا ، جیسے پھانسی پہ چڑھایا جانے والا قيدى ديكھتا ہو ۔
"عباس صاحب ! اب كہاں کی خیر ؟ اور كيسى خير؟ ڈاکٹرز کہتے ہیں ، اس كى واپسی کی نہ کوئی امید ہے نہ امکان ۔ اب جتنے لمحے اور دن یہ جیے گی ، ہم لمحہ لمحہ مریں گے اور تڑپیں گے ۔ یہی ہماری سزا ہے ۔ ہیرے جیسی بیٹی کی حفاظت نہ کر سکے ۔ حفاظت تو دور کی بات ، اسے کبھی ہیرا ہی نہ سمجھ سکے ۔ہیرا نہ سہی ، کاش کبھی کانچ سمجھ کر ہی خیال کیا ہوتا تو یوں آنکھوں سےآ نسوؤں کی فصل تو بار بار نہ کاٹنی پڑتی ۔"
کئی دن ہوئے باغ جناح میں سیر کرتے ہوئے جب بہت سے پودوں اور درختوں کے نئے نئے نام یاد ہو گئے ، گلِ داؤدی ، گلِ نیلم تو معروف نام تھے ۔ ایک روز ایک معصوم صورت پودے پہ گلِ مہر لکھا پایا تو بہت انوکھا سا لگا ۔ یہ بہت لمبا چوڑا اور سایہ دار تو نہ تھا ، مگر جانے اس میں کیا خاص تھا کہ وہ نام اپنی طرف کھینچتا چلا گیا ۔ وِہی لمحہ تھا جب مسٹر سعید سے ملاقات ہوئی ۔
بہت خوب صورت نام ہے گل مہر ! میرے ہونٹوں سے نکلا ۔
جی بیٹیوں کا ہو تو اور بھی خوب صورت ہو جاتا ہے ۔مگر بیٹیاں کب گلِ مہر ہوتی ہیں ؟
اُن کا جواب کسی سِسکی جیسا تھا ۔ باغِ جِناح میں واک کے پہلے راؤنڈ کی تکمیل سےپہلے ہی ان سے شناسائی کی کئی منزلیں طے ہو گئیں ۔ میں وہاں تازہ سانسوں کے لیے جاتا تھا اور وہ تازہ سِسکیوں کے لیے آئے تھے ۔عجیب سا فرق تھا دونوں کی سَیر میں ۔۔۔وہ غَم ، دُکھ اور دھوکے سے دوچار ہوئے تھے ۔صدمہ اتنا بڑا تھا کہ بال دِنوں میں سفید ہو گئے تھے ۔ ذہن چیخنا چاہتا تھا مگر صرف آنکھیں رو پاتیں ۔ سب چیخیں اندر ہی اندر کہیں گُھٹ کر رہ جاتیں تھیں ۔جِس سے گِلہ تھا جو غم کا باعث تھی ، وہ کوئی اور نہیں ، ان کی اپنی بیوی تھی ۔ان کی اپنی بیٹی گلِ مہر کی ماں !
جس نے دکھ اور دھوکا دیا ، وہ ان کے اپنے بھائی کا بیٹا تھا ۔ جس کا گھرروز آنا جانا تھا !
دکھ کسی کھنڈر کی طرح نہیں ہوتا کہ کبھی ادھر کا رخ نہ کیا جائے تو ذہن منظر ہی بھلا دے اور آنکھیں اس ویرانی کو فراموش کر دیں ۔ اپنی بیٹی کا دکھ ہو تو انسان خود کھنڈر بن جاتا ہے ۔اور گل مہر ایسی بیٹی جو ابھی سکول کی آخری کلاس میں بھی نہ پہنچی ہو ۔۔۔ وہ پہلے اندر سے جلتی رہی ، پھر سُلگتی اور اب پگھل کر موت کی وادی میں اُتر رہی تھی ۔۔۔ نہ کوئی سوال نہ کوئی جواب ، نہ وضاحت کی نوبت آئی نہ ندامت کی ۔
مسٹر سعید اپنی گل مہر کی باتوں اور یادوں کو آنکھوں سے لگائے بول رہے تھے ، اور میرے لیے سوچوں کے کئی دَر کھول رہے تھے ۔
" باپ لاپرواہ ہو تو بھی بگاڑ پیدا ہوتا ہے، مگر وہ چھوٹا ہوتا ہے اور اگر جو ماں لاپرواہی کرے تو صرف تباہی ہوتی ہے ۔ کاش گل مہر کی ماں نے کسی چڑیا ہی کو دیکھا ہوتا ، جو اپنے انڈوں بچوں کی حفاظت کے لیے کوے تک سے لڑ جاتی ہے اور اولاد کو اس کا نِوالہ نہیں بننے دیتی ۔
ایک روز گل مہر نے مجھ سے کہا تھا : "پاپا وہ جو انکل جنید کا بیٹا ہے ، کوئی اچھا لڑکا نہیں ہے ۔"
میں ابھی پوچھ بھی نہ پایا تھا کہ اس کی ماں نے فورا جھٹلا دیا :" اچھا کیوں نہیں ہے ؟ جب جب ضرورت پڑتی ہے ، ایک ٹیلی فون پہ بھاگا چلا آتا ہے۔ مجھے کہیں آنا جآنا ہو ، اپنی گاڑی پہ خوشی خوشی چھوڑ کے آتا ہے ۔ گھر میں حفاظت کے خیال سے تم لوگوں کو پاس چھوڑ جاؤں تو فکر نہیں ہوتی ۔۔۔۔"
گُل مہر خاموش ہو گئی تھی ۔اس کی وہ خاموشی ہی اب مجھے مارے دیتی ہے ۔ کاش میں نے ہی اپنی بیٹی کی پوری بات سنی ہوتی ۔۔۔ ہم بڑوں کو اپنے ہی بچوں کو سننے اور سمجھنے کی عادت کیوں نہیں ہوتی ؟؟؟
ماں کو اپنے وقتی آرام اور مفاد عزیز تھے تو کم از کم باپ کی آنکھیں تو کھلی ہوتیں ؟ مسٹر سعید کی حالت شمع کے شعلے کی سی تھی جو صدمے کی تیز ہوا میں پھڑ پھڑا رہا ہو ، نہ جلنا چاہتا ہو ، نہ بجھنے کا خواہاں ہو ۔
جس طرح کسی نے بازار نہ دیکھا ہو اور اپنے نا مکمل علم یا دوسروں سے سنی سنائی باتوں سے اس کا ایک تصور باندھ رکھا ہو ، جب کبھی خود وہاں جانا ہو تو اسے تب خبر ہوتی ہے کہ نام تو بے شک ویسا ہی ہے ، مگر سب کچھ ویسا نہیں ہے ۔ بازار میں بالعموم بد نگاہی ، بد معاملگی ، بد لحاظی ، بد دیانتی جیسی کتنی ہی بد چیزیں کاٹنے کو آتی ہیں ، ان کا ذکر کسی کتاب اور کسی گفتگو میں اس طرح سے نہیں ہوتا ، جبکہ وہاں سارا ماحول اسی سے بھرا ہوتا ہے ۔
زندگی سنے سنائے کتابی علم سے تھوڑی نہیں ، بہت زیادہ مختلف ہے ۔ یہ سب پہ منکشف ہوتی ہے ، اور سب کو الگ طرح کی روشنی اور الگ طرح کے اندھیرے دکھاتی ہے ۔ان کی طرف بلاتی ہے کبھی ان سے بچاتی ہے ۔
گل مہر پچھلے دسمبر میں فوت ہوئی تھی ۔ یہی کوئی چھ یا سات تاریخ رہی ہو گی ۔ اس کے باپ کے بہت سے آنسو ، میری آنکھوں سے بھی بہے تھے ، ۔۔۔۔
۔۔۔۔ اور مجھے اپنی بے جی یاد آئی تھیں ، جنہوں نے گھر میں کئی کئی نوکر ہونے کے باوجود اپنی کسی بیٹی یا بیٹے کو کبھی ان کے ساتھ ٹہلنے نہیں بھیجا تھا ۔ کبھی ہم بہت زور بھی دیتے تو کہتیں : " بیٹے جہاں مائیں لا پرواہ ہو جائیں ، وہاں کوے انڈے ضرور کھا جاتے ہیں ۔وہ ہمارے لیے آنے والے رسالے تک پہلے خود دیکھتیں ،۔۔۔۔ کارٹون تک ساتھ بیٹھ کر دیکھتیں ۔کیا دیکھنا ہے ؟ کیا نہیں دیکھنا ؟ کس سے ملنا ہے کس سے نہیں ملنا ؟ کس سے کتنا فاصلہ رکھنا ہے ؟
کیسی آواز میں بات کرنی ہے ؟ ایک روز جب وہ باجی کی بیٹی حرا سے کہہ رہی تھیں : "بیٹی سوائے باپ اور بھائی کے سبھی مرد اور طرح کے ہوتے ہیں ۔ اعتبار اپنی جگہ ، فاصلہ اور احتیاط اپنی جگہ ۔۔۔ اکثر پرایوں سے زیادہ ، سگے رشتہ دار گھر کو سیندھ لگاتے ہیں ۔گھر والے محتاط نہ ہوں تو پھر ڈاکے چوری کا دُکھ سہنا پڑتا ہے ۔"
کبھی وہ ہمیں سخت لگتیں ، اور کبھی اس کرہء ارض پہ سب سے محتاط ماں ۔ جو اپنے بچوں کو دوسروں کی بدنگاہی سے ہی نہیں ، بد لحاظی سے بھی بچا کر رکھنا چاہتیں ۔نہ انہوں نے آزادی کے نام پہ بچیوں کو عزیزوں، رشتہ داروں کے لڑکوں سے آزادانہ میل جول کی عادت ڈالی ، نہ اجازت دی ۔ وہ جانتی تھیں کہ آگ اور تیل کا کھیل ، بے احتیاطی سے ہی شروع ہوتا ہے اور اپنے ہی بچوں کو جلا کر بھسم کر دیتا ہے ۔
مگر گل مہر کی ماں کو یہ سب کون سمجھاتا ؟ انہیں کون بتاتا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سات سال کے بعد اپنے سگے بچوں تک کے بستر الگ کرنے کا فرمایا تھا ؟ انہیں الگ سلانے کی تعلیم دی تھی ۔احتیاط نہ ہو تو قیمتی لکڑی کو گھِن دنوں میں کھا جاتا ہے ۔ایسے میں اپنی اولاد کے معاملے میں بے احتیاطی کیسے زخم نہ دے گی ؟ یہ وہ کھڑکی ہے جو ایک بار کھل جائے تو بار بار بند نہیں ہوتی ۔
ماؤں كا سخت ہونا برا نہیں۔لاپرواہ اور بے دھیان ہونا بہت برا ہے ۔
آزادی يہ تو نہیں كہ بچوں بچیوں کو آزادانہ الٹی سيدھی فلميں ديکھنے اور ہر طرح كے رشتے داروں سے ملنے ،یا جاننے نہ جاننے والوں کے گھروں پہ جانے اور اپنی دوستوں كے بھائیوں كے ساتھ آنے جانے، وقت گزارنے كى سہولت كا تحفہ ملتا رہے ۔
آزادى يہ ہے کہ ان میں خوش فکری ،خود اعتمادى كے ساتھ رشتوں كى پہچان اور فاصلوں كا ادراک اور احساس خود سے گہرا کروا دیا جائے ۔
میں مسٹر سعید سے کبھی پوچھ نہیں پایا کہ گل ِ مہر نے زہر کھایا کہ صدمے سے اُسے برین ہیمبرج ہوا اور اعصاب نے کام کرنا چھوڑ دیا ؟؟؟؟؟
گھر کے بڑے ہی اپنا کام کرنا بھول جائیں ، ان کی چشمِ نگراں سو جائے تو بچوں کے چھوٹے چھوٹے اعصاب کو سونے اور کام نہ کرنے سے کوئی کیسے روک سکتا ہے ؟؟؟؟؟
(گزشتہ برس یہ تحریر اردو مجلس فورم پر ارسال كى تھی۔ اب محفل كے قارئين کے لیے پيش خدمت ہے۔)