گلِ مہر کی ماں کو کون سمجھاتا ؟

گلِ مہر کی ماں کو کون سمجھاتا ؟
( تحریر : اختر عباس )

اس کی نگا ہوں ميں گستاخی نہیں ، بے بسی تھی ، بے چارگی ، زہر کی طرح یہاں سے وہاں تک پھیلی ہوئی تھی ۔ وہ جو گل مہر تھی ، گل مہر کا سایہ تھی ۔ یوں مرجھائی پڑی تھی جیسے کبھی تازگی سے اس کا تعلق واسطہ ہی نہ رہا ہو ۔
میرے منہ سے تسلی کا ایک لفظ بھی نہ نکل پایا ۔ ہاں اس کے الجھے بالوں والے سر پہ ہاتھ رکھا اور صرف اتنا کہہ سکا : " اللہ جی خیر کریں "۔
مسٹر سعید ظفر نے مڑ کر میری طرف یوں دیکھا ، جیسے پھانسی پہ چڑھایا جانے والا قيدى ديكھتا ہو ۔
"عباس صاحب ! اب كہاں کی خیر ؟ اور كيسى خير؟ ڈاکٹرز کہتے ہیں ، اس كى واپسی کی نہ کوئی امید ہے نہ امکان ۔ اب جتنے لمحے اور دن یہ جیے گی ، ہم لمحہ لمحہ مریں گے اور تڑپیں گے ۔ یہی ہماری سزا ہے ۔ ہیرے جیسی بیٹی کی حفاظت نہ کر سکے ۔ حفاظت تو دور کی بات ، اسے کبھی ہیرا ہی نہ سمجھ سکے ۔ہیرا نہ سہی ، کاش کبھی کانچ سمجھ کر ہی خیال کیا ہوتا تو یوں آنکھوں سےآ نسوؤں کی فصل تو بار بار نہ کاٹنی پڑتی ۔"

کئی دن ہوئے باغ جناح میں سیر کرتے ہوئے جب بہت سے پودوں اور درختوں کے نئے نئے نام یاد ہو گئے ، گلِ داؤدی ، گلِ نیلم تو معروف نام تھے ۔ ایک روز ایک معصوم صورت پودے پہ گلِ مہر لکھا پایا تو بہت انوکھا سا لگا ۔ یہ بہت لمبا چوڑا اور سایہ دار تو نہ تھا ، مگر جانے اس میں کیا خاص تھا کہ وہ نام اپنی طرف کھینچتا چلا گیا ۔ وِہی لمحہ تھا جب مسٹر سعید سے ملاقات ہوئی ۔

بہت خوب صورت نام ہے گل مہر ! میرے ہونٹوں سے نکلا ۔

جی بیٹیوں کا ہو تو اور بھی خوب صورت ہو جاتا ہے ۔مگر بیٹیاں کب گلِ مہر ہوتی ہیں ؟

اُن کا جواب کسی سِسکی جیسا تھا ۔ باغِ جِناح میں واک کے پہلے راؤنڈ کی تکمیل سےپہلے ہی ان سے شناسائی کی کئی منزلیں طے ہو گئیں ۔ میں وہاں تازہ سانسوں کے لیے جاتا تھا اور وہ تازہ سِسکیوں کے لیے آئے تھے ۔عجیب سا فرق تھا دونوں کی سَیر میں ۔۔۔وہ غَم ، دُکھ اور دھوکے سے دوچار ہوئے تھے ۔صدمہ اتنا بڑا تھا کہ بال دِنوں میں سفید ہو گئے تھے ۔ ذہن چیخنا چاہتا تھا مگر صرف آنکھیں رو پاتیں ۔ سب چیخیں اندر ہی اندر کہیں گُھٹ کر رہ جاتیں تھیں ۔جِس سے گِلہ تھا جو غم کا باعث تھی ، وہ کوئی اور نہیں ، ان کی اپنی بیوی تھی ۔ان کی اپنی بیٹی گلِ مہر کی ماں !

جس نے دکھ اور دھوکا دیا ، وہ ان کے اپنے بھائی کا بیٹا تھا ۔ جس کا گھرروز آنا جانا تھا !


دکھ کسی کھنڈر کی طرح نہیں ہوتا کہ کبھی ادھر کا رخ نہ کیا جائے تو ذہن منظر ہی بھلا دے اور آنکھیں اس ویرانی کو فراموش کر دیں ۔ اپنی بیٹی کا دکھ ہو تو انسان خود کھنڈر بن جاتا ہے ۔اور گل مہر ایسی بیٹی جو ابھی سکول کی آخری کلاس میں بھی نہ پہنچی ہو ۔۔۔ وہ پہلے اندر سے جلتی رہی ، پھر سُلگتی اور اب پگھل کر موت کی وادی میں اُتر رہی تھی ۔۔۔ نہ کوئی سوال نہ کوئی جواب ، نہ وضاحت کی نوبت آئی نہ ندامت کی ۔
مسٹر سعید اپنی گل مہر کی باتوں اور یادوں کو آنکھوں سے لگائے بول رہے تھے ، اور میرے لیے سوچوں کے کئی دَر کھول رہے تھے ۔

" باپ لاپرواہ ہو تو بھی بگاڑ پیدا ہوتا ہے، مگر وہ چھوٹا ہوتا ہے اور اگر جو ماں لاپرواہی کرے تو صرف تباہی ہوتی ہے ۔ کاش گل مہر کی ماں نے کسی چڑیا ہی کو دیکھا ہوتا ، جو اپنے انڈوں بچوں کی حفاظت کے لیے کوے تک سے لڑ جاتی ہے اور اولاد کو اس کا نِوالہ نہیں بننے دیتی ۔

ایک روز گل مہر نے مجھ سے کہا تھا : "پاپا وہ جو انکل جنید کا بیٹا ہے ، کوئی اچھا لڑکا نہیں ہے ۔"
میں ابھی پوچھ بھی نہ پایا تھا کہ اس کی ماں نے فورا جھٹلا دیا :" اچھا کیوں نہیں ہے ؟ جب جب ضرورت پڑتی ہے ، ایک ٹیلی فون پہ بھاگا چلا آتا ہے۔ مجھے کہیں آنا جآنا ہو ، اپنی گاڑی پہ خوشی خوشی چھوڑ کے آتا ہے ۔ گھر میں حفاظت کے خیال سے تم لوگوں کو پاس چھوڑ جاؤں تو فکر نہیں ہوتی ۔۔۔۔"

گُل مہر خاموش ہو گئی تھی ۔اس کی وہ خاموشی ہی اب مجھے مارے دیتی ہے ۔ کاش میں نے ہی اپنی بیٹی کی پوری بات سنی ہوتی ۔۔۔ ہم بڑوں کو اپنے ہی بچوں کو سننے اور سمجھنے کی عادت کیوں نہیں ہوتی ؟؟؟

ماں کو اپنے وقتی آرام اور مفاد عزیز تھے تو کم از کم باپ کی آنکھیں تو کھلی ہوتیں ؟ مسٹر سعید کی حالت شمع کے شعلے کی سی تھی جو صدمے کی تیز ہوا میں پھڑ پھڑا رہا ہو ، نہ جلنا چاہتا ہو ، نہ بجھنے کا خواہاں ہو ۔


جس طرح کسی نے بازار نہ دیکھا ہو اور اپنے نا مکمل علم یا دوسروں سے سنی سنائی باتوں سے اس کا ایک تصور باندھ رکھا ہو ، جب کبھی خود وہاں جانا ہو تو اسے تب خبر ہوتی ہے کہ نام تو بے شک ویسا ہی ہے ، مگر سب کچھ ویسا نہیں ہے ۔ بازار میں بالعموم بد نگاہی ، بد معاملگی ، بد لحاظی ، بد دیانتی جیسی کتنی ہی بد چیزیں کاٹنے کو آتی ہیں ، ان کا ذکر کسی کتاب اور کسی گفتگو میں اس طرح سے نہیں ہوتا ، جبکہ وہاں سارا ماحول اسی سے بھرا ہوتا ہے ۔

زندگی سنے سنائے کتابی علم سے تھوڑی نہیں ، بہت زیادہ مختلف ہے ۔ یہ سب پہ منکشف ہوتی ہے ، اور سب کو الگ طرح کی روشنی اور الگ طرح کے اندھیرے دکھاتی ہے ۔ان کی طرف بلاتی ہے کبھی ان سے بچاتی ہے ۔


گل مہر پچھلے دسمبر میں فوت ہوئی تھی ۔ یہی کوئی چھ یا سات تاریخ رہی ہو گی ۔ اس کے باپ کے بہت سے آنسو ، میری آنکھوں سے بھی بہے تھے ، ۔۔۔۔

۔۔۔۔ اور مجھے اپنی بے جی یاد آئی تھیں ، جنہوں نے گھر میں کئی کئی نوکر ہونے کے باوجود اپنی کسی بیٹی یا بیٹے کو کبھی ان کے ساتھ ٹہلنے نہیں بھیجا تھا ۔ کبھی ہم بہت زور بھی دیتے تو کہتیں : " بیٹے جہاں مائیں لا پرواہ ہو جائیں ، وہاں کوے انڈے ضرور کھا جاتے ہیں ۔وہ ہمارے لیے آنے والے رسالے تک پہلے خود دیکھتیں ،۔۔۔۔ کارٹون تک ساتھ بیٹھ کر دیکھتیں ۔کیا دیکھنا ہے ؟ کیا نہیں دیکھنا ؟ کس سے ملنا ہے کس سے نہیں ملنا ؟ کس سے کتنا فاصلہ رکھنا ہے ؟

کیسی آواز میں بات کرنی ہے ؟ ایک روز جب وہ باجی کی بیٹی حرا سے کہہ رہی تھیں : "بیٹی سوائے باپ اور بھائی کے سبھی مرد اور طرح کے ہوتے ہیں ۔ اعتبار اپنی جگہ ، فاصلہ اور احتیاط اپنی جگہ ۔۔۔ اکثر پرایوں سے زیادہ ، سگے رشتہ دار گھر کو سیندھ لگاتے ہیں ۔گھر والے محتاط نہ ہوں تو پھر ڈاکے چوری کا دُکھ سہنا پڑتا ہے ۔"

کبھی وہ ہمیں سخت لگتیں ، اور کبھی اس کرہء ارض پہ سب سے محتاط ماں ۔ جو اپنے بچوں کو دوسروں کی بدنگاہی سے ہی نہیں ، بد لحاظی سے بھی بچا کر رکھنا چاہتیں ۔نہ انہوں نے آزادی کے نام پہ بچیوں کو عزیزوں، رشتہ داروں کے لڑکوں سے آزادانہ میل جول کی عادت ڈالی ، نہ اجازت دی ۔ وہ جانتی تھیں کہ آگ اور تیل کا کھیل ، بے احتیاطی سے ہی شروع ہوتا ہے اور اپنے ہی بچوں کو جلا کر بھسم کر دیتا ہے ۔


مگر گل مہر کی ماں کو یہ سب کون سمجھاتا ؟ انہیں کون بتاتا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سات سال کے بعد اپنے سگے بچوں تک کے بستر الگ کرنے کا فرمایا تھا ؟ انہیں الگ سلانے کی تعلیم دی تھی ۔احتیاط نہ ہو تو قیمتی لکڑی کو گھِن دنوں میں کھا جاتا ہے ۔ایسے میں اپنی اولاد کے معاملے میں بے احتیاطی کیسے زخم نہ دے گی ؟ یہ وہ کھڑکی ہے جو ایک بار کھل جائے تو بار بار بند نہیں ہوتی ۔

ماؤں كا سخت ہونا برا نہیں۔لاپرواہ اور بے دھیان ہونا بہت برا ہے ۔

آزادی يہ تو نہیں كہ بچوں بچیوں کو آزادانہ الٹی سيدھی فلميں ديکھنے اور ہر طرح كے رشتے داروں سے ملنے ،یا جاننے نہ جاننے والوں کے گھروں پہ جانے اور اپنی دوستوں كے بھائیوں كے ساتھ آنے جانے، وقت گزارنے كى سہولت كا تحفہ ملتا رہے ۔

آزادى يہ ہے کہ ان میں خوش فکری ،خود اعتمادى كے ساتھ رشتوں كى پہچان اور فاصلوں كا ادراک اور احساس خود سے گہرا کروا دیا جائے ۔

میں مسٹر سعید سے کبھی پوچھ نہیں پایا کہ گل ِ مہر نے زہر کھایا کہ صدمے سے اُسے برین ہیمبرج ہوا اور اعصاب نے کام کرنا چھوڑ دیا ؟؟؟؟؟

گھر کے بڑے ہی اپنا کام کرنا بھول جائیں ، ان کی چشمِ نگراں سو جائے تو بچوں کے چھوٹے چھوٹے اعصاب کو سونے اور کام نہ کرنے سے کوئی کیسے روک سکتا ہے ؟؟؟؟؟

(گزشتہ برس یہ تحریر اردو مجلس فورم پر ارسال كى تھی۔ اب محفل كے قارئين کے لیے پيش خدمت ہے۔)​
 

مقدس

لائبریرین
السلام علیکم

نور سس

میں نے آپ کی یہ تحریر پڑھی تھی اور اس پر مجھے لکھنا بھی تھا لیکن یو نو حالات ۔۔
میری اردو اتنی اچھی نہیں ہے لیکن میں نے ٹرائی کی ہے کہ گوگل کی ہیلپ سے زیادہ سے زیادہ اردو یوز کر سکوں۔۔
جیسا کہ اس ٹاپک سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس کے مین موضوع کیا ہے۔

"نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے بچوں کا استعمال"
میرے خیال سے اس ٹاپک پر بات کرنے کی عام سوشل ٹاپکس سے بڑھ کر ضرورت ہے۔ ہم کب تک اس رئیلٹی سے آنکھیں چراتے رہیں گے۔ جبکہ نقصان بھی ہمارا اپنا ہو رہا ہو کسی غیر کا نہیں۔
ہماری خوبصورت دنیا ہمارے گھر کے باہر ایک جنگل ہے جس میں اچھے انسانوں کے ساتھ ان کے روپ میں اینیملز بھی گھومتے ہیں۔ اس کا پروف ہم کو اخبارات میں ملتے ہیں
ان اینیملز کا شکار نہ صرفاینوسینٹ بچیاں بلکہ بچے بھی ہوتے ہیں۔
کچھ خبریں تو ہم تک اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ذریعے ہم تک پہنچ جاتی ہیں لیکن موسٹلی خبریں رپورٹ نہیں ہوتیں۔ کس طرح ہمارے بچوں کو باہر ڈرایا کیا جاتا ہےہمیں تو معلوم بھی نہیں ہوتا۔
ہمارا بچہ باہر کھیل رہا ہے، ہم نے اسے سبزی لینے یا پھر پھوپھو کے گھر چھوڑا ہوا ہے۔ وہ سیف ہے بھی یا نہیں؟؟ لیکن ہم سیٹیفئی ہوتے ہیں۔
جب آپ کسی چار سال کی بچی کو راستے پہ اپنے چھ یا سات سال کے بھائی کے ساتھ ہاتھ پکڑ کر جاتے ہوئے دیکھتے ہیں تو آپ کو کیسا لگتا ہے۔ کیا آپ کو ڈر نہیں لگتا کہ
کہیں کوئی اس بچی کو اس کےبھائی سے چھین کر لے جائے تو۔ ۔ ۔ قصور کس کا؟؟
لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم اپنے بچوں پرزیادہ پابندیاں عائد کر کہ ان کی سیلف کانفیڈنس ہی چھین لیں لیکن کہنے کا مقصد یہ کہ ہم بحیثیت والدین، بحیثیت اچھا انسان اور بحیثیت اچھا معاشرہ اپنی آنکھیں کھلی رکھیں۔

1۔ قصوروار کون؟؟
2۔ والدین اور معاشرے کو کیا اقدامات لینے چاہئیں؟؟
3۔ بچوں کی کس طرح رہنمائی کرنی چاہیے؟


بہت سے کیسز میں دونوں میں سے ایک والدین کو اس کا علم ہوتا ہے مگر گھریلو مسائل یا خوف کی وجہ سے خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔۔۔۔۔ کبھی کبھی کوئی ایک بہن بھائی اسقدر منہ زور ہو جاتا ہے کہ ماں باپ سمیت دوسرے بہن بھائی بھی اس سے دبنے لگ جاتے ہیں۔۔۔۔

یہ معمولی چھیڑ چھاڑ اور دھکم پیل سے زیادہ سیریس مسئلہ ہے۔۔۔۔اس میں ناصرف دوسرے کو ذہنی طور پر دباؤ کا شکار رکھا جاتا ہے بلکہ اسے ہی اس کا قصور وار بتایا جاتا ہے۔۔۔۔

سوتیلے رشتوں میں بھی یہ دیکھنے میں آتا ہے جہاں بچیاں ایسے مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں۔۔۔۔۔

کچھ والدین دوسرے ریلیٹیوز پر بہت ٹرسٹ کرتے ہیں اور بچوں کو دوسرے کے گھر چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔۔کئی دفعہ اپنے ہی گھر میں بڑے کزن یا دوسرے رشتے دار بھی ہو سکتے ہیں۔۔۔۔۔

اسی طرح پورٹی کے ساتھ ساتھ یا مسئلہ بھی بڑھا جاتا ہے۔۔۔۔۔جب ماں باپ بچوں کو معاشی حالات کے سامنے بے بس ہو کر کام کیلئے جھوڑتے ہیں تو وہ اپنے بچوں کو خود مسائل کے منہ میں ڈال دیتے ہیں۔۔۔۔

کچھ والدین اپنی لاپرواہی سے اپنے بچوں کو اس راہ پر لگا دیتے ہیں اور یہ بچے خود نئی راہیں تلاش کرتے ہیں اور دوسرے بچوں کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔۔۔۔۔

بچوں کو ٹی وی یا کمپیوٹر کا لیٹ نائٹ تک یوز بغیر کسی پابندی اور گائیڈنس کے بہت خطرناک ہے۔۔۔۔۔۔ایسے ہی جب آپ بہت سے بچوں کو اکیلا چھوڑ دیں تو ان کے دماغوں میں نئے نئے خیالات پیدا ہوتے ہیں۔۔۔۔

ہاسٹلز میں بھی کبھی کبھی ماحول ایسا ہوتا ہے جو بچوں کو وقت سے پہلے بہت کچھ دیکھا دیتا ہے اور بہت کچھ سیکھا دیتا ہے۔۔۔۔

جہاں اس میں اپنے گھر کے ماحول کا عمل دخل ہے، وہیں والدین کو احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔۔۔۔۔

ایک خاص عمر کے بعد تو والدین کو بھی بچوں کے معاملے میں احتیاط کرنی چاہئے۔۔۔۔۔ایسے ہی بہن بھائی کے معاملے میں بھی محتاط ہونا بہت ضروری ہے۔۔۔۔

ایک اور بات جو بہت اہم ہے کہ ہمارے اساتذہ کو اس بات ٹریننگ دی جانی چاہئے کہ وہ بچوں کے رویوں کو پہچان سکیں۔۔۔۔ اساتذہ کو بچوں کی حرکات سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ بچہ کسی مسئلے سے دوچار ہے۔۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں بچوں کو بھی بتانا چاہئے کہ اگر آپ کو کسی کی نظر یا انداز اچھا نہیں لگتا تو فوراً اس سے دور ہو جائیں اور کسی بڑے کو بتائیں۔۔۔۔۔

میری جو جاب ہے وہ بھی کچھ اس طرح کی ہی ہے جس میں ان بچوں کو ایسس بھی کرنا ہوتا ہے جو کسی قسم کی ابیوزنگ کا شکار ہو سکتے ہیں
چاہے یہ ابیوزنگ اسکول میں ہو یا اسکول سے باہر۔
میں اس حوالے سے کچھ کہوں گی کہ یہاں کیسے ڈیل کیا جاتا ہے ان سچوئیشنز سے
یہاں پر ہمیں فلی ٹرین کیا جاتا ہے کہ ہم مکمل طور پر الرٹ رہیں اور مختلف قسم کے ایسے سائنز کی نشان دہی کر سکیں جو ہمیں کسی طرح کی ابیوزنگ کا پتا دیتی ہو
ہر اسکول میں ایک اسٹریک پالیسی ہوتی ہے جس کے تحت اس طرح کی سچوئیشنز کو ہینڈل کیا جاتا ہے
اگر اسکول کا کوئی ممبر کسی ایسی بات سے آگاہ ہوتا ہے یا اس کو کوئی شک ہوتا ہے کہ فلاں بچہ اسکول میں یا اسکول سے باہر کسی قسم کی ابیوزنگ کا شکار ہے تو بائے لاء اس کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے اسکول میں ڈیزیگنیٹڈ ممبر سے بات کرے۔ اور اس تک اپنے خدشات پہنچائے۔
اس کے بعد سی پی مینجر (چائیلڈ پروٹیکشن مینجر) اس بچے سے بات کرے گا اور ساتھ ہی ہر صورت ایک عدد ریفیریل فارم سوشل سروس والوں کو فیکس کر دیا جائے گا۔۔۔ تاکہ وہ اس مسئلے کو انوسٹیگیٹ کریں۔۔۔اور ساتھ میں پولیس کو بھی آگاہ کیا جائے گا۔

ایک بات اور یہ کہ اکثر اسکولز میں ، میں نے دیکھا ہے کہ بچے اکثر اس سیکورٹی کو ابیوز بھی کرتے ہیں۔۔ جب وہ چاہتے ہیں کہ والدین ان سے کوئی پوچھ گچھ نہ کریں اور وہ اپنی مرضی سے اپنی زندگی گزاریں ، تب وہ اپنے والدین کو جھوٹا آکیوز بھی کرتے ہین کہ ہمارے والدین ہمارے ساتھ مس ٹریٹ کر رہے ہیں جبکہ اصل میں ایسا کچھ ہوتا نہیں ہے۔۔۔
ابھی دو ماہ قبل ایک پاکستانی لڑکی جس کی عمر ۱۴ سال ہے، مجھے آکر بتایا کہ اس کی ماں نے اس کو تھپڑ مارا ہے اور اس کو کمرے میں لاک کر دیا ایک دن کے لیے۔۔ اب وہ اپنی ماں کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔۔ میں نے وہی کیا۔۔ جو مجھے کرنا چاہیے تھا۔۔ سوشل سروس والوں کو کانٹیکٹ کیا
اور ان کو صورت حال سے آگاہ کیا۔۔ ہاسپٹل فون کیا۔۔کیونکہ لڑکی نے مجھے کہا تھا کہ اس نے 8 عدد پین کلرز بھی لی ہیں۔۔ سو اوور ڈوز کا کیس بھی تھا۔۔ اس لڑکی کے ساتھ مجھے ہاسپٹل جانا پڑا۔۔۔ 5 گھنٹے اس کے ساتھ ہاسپٹل میں رہی۔۔ وہاں اس کے ماں باپ بھی آگئے۔۔ اب یہ مجھ پر تھا کہ میں ان کو بتاوں کہ ان کی بیٹی نے ان کو کس چیز کا اکیوز کیا ہے اور ان کو اس سے ملنے بھی نہ دوں۔۔۔ جب پتا چلا کہ لڑکی نے کوئی اوور ڈوز نہیں لی ہوئی۔۔ بہت غصہ بھی آیا لیکں کام تو کام ہے اور پھر اس کو سوشل سروس والوں کے حوالے کر کے میں رات کو گھر آئی۔۔ پانچ دن وہ ان کے پاس رہی اور بعد میں اس نے کنفیس کر لیا کہ وہ جھوٹ بول رہی تھی۔۔ لیکن اس کا فیصلہ سوشل سروس والے کرتے ہیں یا پولیس۔۔۔ ہمیں ہر حال میں وہی کرنا ہوتا ہے جس کے لیے ہمیں ٹرین کیا جاتا ہے۔۔
میں یہ نہیں کہہ رہی کہ ویسٹرن معاشرہ زیادہ اچھا ہے یا یہاں کوئی غم نہیں لیکن یہ بات تو ماننا پڑے گی کہ یہاں پر مشکل آنے پر قانونی مدد لینا آسان ہے۔
اور یہ الگ بات ہے کہ خواتین یا بچے بعض اوقات اس قانون کا غلط استعمال بھی کرتے ہیں۔

ضروری نہیں ہوتا کہ ہر بار بچہ سچ بتائے یا ہر بار جھوٹ ہی بولا جائے۔۔۔
احتیاط لازمی چیز ہے

بچوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا نوٹس لینا چاہیے۔۔
ان کی باتوں کا۔ ان کی کیسے دوستوں کے ساتھ کمپنی ہے ایز اے پیرنٹ اس پر نظر رکھنی چاہیے۔۔۔
 

مقدس

لائبریرین
جی بھیا۔۔ آئی واز تھنکنگ آباؤٹ دس فار ڈیز
تیمور آلسو ہیلپڈ می ود مائی اردو۔ اس لیے ۔۔ انہوں نے بتایا جو مجھے سمجھ نہیں آتا تھا
 
لیکن آپ کو ایک علیحدہ دھاگہ شروع کرنا چاہئے تھا۔ خیر شمشاد بھائی اس کو نئے ھاگے میں منتقل کر دیں گے۔ :)
 
وعليكم السلام ورحمة اللہ وبركاتہ
ماشاء اللہ مقدس سسٹر ، آپ نے موضوع كا حق ادا كر ديا ، بہت خوشى ہوئی آپ کی پوسٹ دیکھ کر۔
میں نے آپ کی یہ تحریر پڑھی تھی اور اس پر مجھے لکھنا بھی تھا لیکن یو نو حالات ۔۔
جى مجھے معلوم ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی آپ کے لیے آسانی فرمائے۔
میرے خیال سے اس ٹاپک پر بات کرنے کی عام سوشل ٹاپکس سے بڑھ کر ضرورت ہے۔ ہم کب تک اس رئیلٹی سے آنکھیں چراتے رہیں گے۔ جبکہ نقصان بھی ہمارا اپنا ہو رہا ہو کسی غیر کا نہیں۔
بالكل درست،کپڑوں جوتوں کے فيشن اور فلموں ناولوں سے بڑھ كر جيتے جاگتے انسان اہم ہوتے ہيں مگر واقعى ہم سب اس سے آنکھيں چراتے ہيں۔ اور يہ نہيں سوچتے کہ جو بچہ يا بچی زندگی کے ابتدائى سالوں ميں ان تكليف دہ حالات سے گزرے گا وہ معاشرے كو كيا دے گا؟
ایسے بچے خواہ كتنى اچھی كاؤنسلنگ كى جائے کبھی بھی دوبارہ پہلے جیسی پر سکون زندگی نہيں گزار سكتے۔ يہ ایک دہلا دينے والى حقيقت ہے۔
بہت سے کیسز میں دونوں میں سے ایک والدین کو اس کا علم ہوتا ہے مگر گھریلو مسائل یا خوف کی وجہ سے خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔۔۔۔۔ کبھی کبھی کوئی ایک بہن بھائی اسقدر منہ زور ہو جاتا ہے کہ ماں باپ سمیت دوسرے بہن بھائی بھی اس سے دبنے لگ جاتے ہیں۔۔۔۔
يہی تو رونا ہے ۔ يہی تو رونا ہے اس تحرير ميں بھی ...گل مہر كى ماں جانتى تھی ۔ اور يہ حقيقت ہے ... ايسی مائيں ہيں ايگزسٹ كرتى ہيں ہمارے معاشرے ميں۔ اور روكتى ہيں بچيوں کو کہ باپ بھائى كو مت بتانا وہ غصے اور غيرت ميں کچھ كر ديں گے۔ بس زبان بند ركھو۔ بھلا يہ کوئی حل ہے؟خدارا خواتين جاگ جائیں ۔
ميرا عرصے سے تدريس سے تعلق ہے۔ بچوں خاص طور پر لڑکپن (teenage) کے مسائل سے واسطہ رہتا ہے۔ خراب حالات ہيں ۔اگر واقعات لكھنا شروع كروں تو شايد ... كتنے چہرے ميرے تصور ميں جھلملا رہے ہيں۔ وڈ يو بليو مى سسٹر ايك ماسٹرز لڑکی نے مجھ سے اپنا مسئلہ ڈسكس كيا تھا کہ وہ سكون كے ليے كيا كرے۔ جب كہ ميں ان سے كافى چھوٹی تھی۔ دينى لحاظ سے ميں نے ان كو حل بتا ديا تھا ، ليكن آپ تصور كريں ان بيچارى كا خيال تھا كہ وہ گنہگار ہیں اور اس احساس کے ساتھ فيملى سپورٹ کے بغير وہ ذہنی طور پر تباہ ہو چکی تھیں ۔ لوگ اتنى تعليم حاصل كر كے بھی اپنے مذہبی اور قانونى حقوق نہيں جانتے۔ اللہ اور بندے کے تعلق كو نہيں سمجھتے ۔ افسوس ۔صد افسوس۔
بچوں کو ٹی وی یا کمپیوٹر کا لیٹ نائٹ تک یوز بغیر کسی پابندی اور گائیڈنس کے بہت خطرناک ہے۔۔۔۔۔۔ایسے ہی جب آپ بہت سے بچوں کو اکیلا چھوڑ دیں تو ان کے دماغوں میں نئے نئے خیالات پیدا ہوتے ہیں۔۔۔۔
رائٹ۔ مقدس ميرے خيال ميں تو "بڑوں" كو بھی اس بے حيا ميڈيا سے ذرا زہد اختيار كرنا چاہیے:) كيا ہے اس ميں سوائے شيطان كى راہ كى طرف بلانے کے۔ مفيد چيزوں كا تناسب آٹے ميں نمك والا ہے۔ٹائم ویسٹ الگ۔

ہاسٹلز میں بھی کبھی کبھی ماحول ایسا ہوتا ہے جو بچوں کو وقت سے پہلے بہت کچھ دیکھا دیتا ہے اور بہت کچھ سیکھا دیتا ہے۔۔۔۔جہاں اس میں اپنے گھر کے ماحول کا عمل دخل ہے، وہیں والدین کو احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔۔۔۔۔ایک خاص عمر کے بعد تو والدین کو بھی بچوں کے معاملے میں احتیاط کرنی چاہئے۔۔۔۔۔ایسے ہی بہن بھائی کے معاملے میں بھی محتاط ہونا بہت ضروری ہے۔۔۔۔
بالكل درست ، يہ بات سن كر تو لوگ غصہ كر جاتے ہيں ليكن يہ بھی ايك تلخ حقيقت ہے!
سسٹر یہاں مجھے بہترين حل اسلامى تعليمات ميں نظر آتا ہے۔ ہميں واضح ہدايات ہيں : صبح اور شام كے آرام كے اوقات ميں والدين كے پاس جاتے ہوئے بھی اجازت لے كر جانا ، دس سال كى عمر ميں بچوں کے بستر الگ كر دينا ۔ اور ايك خاص عمر كے بعد ساتر لباس كى پابندی۔
بچوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا نوٹس لینا چاہیے۔۔
ان کی باتوں کا۔ ان کی کیسے دوستوں کے ساتھ کمپنی ہے ایز اے پیرنٹ اس پر نظر رکھنی چاہیے۔۔۔
جی۔يہ بات درست ہے۔ ہمارے معاشرے ميں میرے خيال ميں (بدقسمتى سے) مائيں بہت غافل ہيں، تعليم يافتہ ماؤں ميں نسبتا شعور زيادہ ہے ۔دوستی کے معاملات پر کچھ سجیشنز ضرور دیجیے گا۔
 

مقدس

لائبریرین
السلام علیکم نور سس
آپ نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ آج کل اور اسپیشلی ہمارے کلچر میں مائیں بہت لاپرواہ ہوتی ہیں۔ آئی آل ویز بلیوڈ کے والدین کو اپنے بچوں کا دوست ہونا چاہیے۔۔ تاکہ بچے کسی بھی مشکل وقت میں ان پر انحصار کر سکیں۔۔ ان کو باہر یا کسی ہیلپ لائن کی ضرورت محسوس نہ ہو۔۔
آپ نے کہا کہ دوستی کے معاملات پر کچھ کہوں ۔۔ تو میں آپ کو بتاؤں کہ پرسنلی ہم سب بہن بھائیوں کے جتنے بھی فرینڈز ہیں یا تھے۔۔ وہ ایسے تھے جن کو امی اور بابا جانتے تھے۔۔ ہمیں شروع ہی سے کسی کے گھر جانے کی اجازت نہیں تھی۔۔ ایون یہاں اس ماحول میں رہتے ہوئے بھی۔۔ لیکن ہم نے کبھی اس کو پریزن تصور نہیں کیا کیونکہ اگر ہم کو فرینڈز کے گھر جانے کی اجازت نہیں تھی تو ہمیں گھر میں ایسا ماحول دیا جاتا تھا کہ ہمیں کبھی اس کی کمی محسوس نہیں ہوئی۔۔

آلویز ریممبر کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کی بنیاد ہمیشہ گھر سے ہوتی ہے۔۔ آپ اپے بچوں کو ایک خوشگوار ماحول مہیا کرو گے تو ان کو باہر دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہو گی
بچوں کے معاملے میں کوئی کمپرومائز نہیں کرنا۔۔۔۔سمپل سا اصول۔۔۔کسی کے گھر اکیلے نہ بھیجیں۔۔۔ایسے افراد جو بچوں سے غیر ضروری لگاو اور محبت کا اظہار کریں۔۔۔ان سے چوکنا رہیں۔۔۔۔۔بچوں کو اپنے ہم عمر لوگوں سے ہی دوستی کرنے کی اجازت ہو لیکن ان کی کمپنی پر اپنی نظر رکھیں۔۔ بچوں میں کوئی چینج محسوس کریں تو ان کو محسوس کرائے بغیر اس کی تحقیق کریں۔۔ نیور اگنور یور چلڈرن۔۔
 
السلام علیکم نور سس
وعليكم السلام ورحمت اللہ وبركاتہ
آپ نے کہا کہ دوستی کے معاملات پر کچھ کہوں ۔۔ تو میں آپ کو بتاؤں کہ پرسنلی ہم سب بہن بھائیوں کے جتنے بھی فرینڈز ہیں یا تھے۔۔ وہ ایسے تھے جن کو امی اور بابا جانتے تھے۔۔ ہمیں شروع ہی سے کسی کے گھر جانے کی اجازت نہیں تھی۔۔ لیکن ہم نے کبھی اس کو پریزن تصور نہیں کیا کیونکہ اگر ہم کو فرینڈز کے گھر جانے کی اجازت نہیں تھی تو ہمیں گھر میں ایسا ماحول دیا جاتا تھا کہ ہمیں کبھی اس کی کمی محسوس نہیں ہوئی۔۔
الحمدللہ ۔ ايسے والدين نعمت ہيں ۔ ہميں بھی الحمدللہ ايسا ماحول ملا ، بس فيملى فرينڈز کے گھروں تك والدين كى اجازت سے جا سكتے تھے۔ احتياط علاج سے بہتر ہے۔ اسے قيد سمجھنا غلط ہے۔
مقدس آپ نے دوستى كے متعلق بہت اچھے مشورے دیے ہيں‌ البتہ ايك بات رہ گئی۔ كزن فرينڈشپ ۔ اس تحرير ميں بھی كزن كا ذكر ہے ۔اجنبى لوگوں سے احتياط بہت حد تك ممكن ہے ليكن جوائنٹ فيمليز ميں جہاں كزنز ، اور رشتے کے ماموں چاچو وغيرہ بے روك ٹوک آتے جاتے ہيں؟ جو بعض اوقات آپ کے گھر ميں ہی رہتے ہيں؟
 

مقدس

لائبریرین
میرا کبھی اس سچوئیشن سے پالا نہیں پڑا نور۔
لیکن میری پھوپھو جوائنٹ فیملی میں رہتی ہیں۔۔ یہاں یوکے میں
اور ان کی بہو پردہ کرتی ہیں۔۔
ان کی شادی کو 6 سال ہو گئے ہیں ۔۔ لیکن ان چھ سالوں میں ہم نے ان کو ود آؤٹ حجاب کے نہیں دیکھا۔۔
میرے بھائیوں نے آج تک ان کو نہیں دیکھا۔۔ کیونکہ وہ گھر میں بھی اپنے برادر ان لوز کے سامنے نہیں آتی۔۔ اگر آنا پڑ جائے تو نقاب میں ہوتی ہیں۔۔
آئی ایم سو شیور کہ ہم ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی کزنز کے درمیان ایک حد رکھ سکتے ہیں۔۔ اٹ از فور آؤر اون بینیفیٹس۔۔
 
Top