ابن توقیر
محفلین
ہم سے دکاندار تو اس لاک ڈاون میں گھر سے بھی کام نہیں کرسکتے اس لیے سوچا فراغت کا فائدہ اٹھا کر پرانی گیلری میں موجود اس گلگت بلتستان کے سفر کا قرض ہی کیوں نہ اتار دوں۔اپنے پاس محفوظ تصویروں اور بے چاری یاداشت کے سہارے اس لڑی کو آباد کرنے کی کوشش کروں گا۔
کچھ دن قبل کشمیر سے ہو کر آئے تھے جب اچانک گلگت بلتستان کا پروگرام فائنل ہوگیا۔گلگت جانے کا ارادہ تو ایک عرصے سے دل میں تھا مگر کچھ سبب نہ بن پارہا تھا۔ستمبر کے پہلے ہفتے میں "عمر قید" لکھی جارہی تھی اور ہم ایسے غیرذمہ دار کہ پندرہ دن قبل ایک لمبے سفر پر نکل رہے تھے۔ویسے یہ بھولنے والی چیز تو نہ تھی مگر اب ٹھیک سے یاد نہیں کہ واپسی پر اماں حضور کی طرف سے چھترول ہوئی تھی کہ نہیں،کیا کریں اب یاد رکھنے کے لیے اور بھی بہت غم ہیں۔اگست 2018ء کا یہ سفر ہمارے لیے ایک ایسی بیچلر پارٹی تھا جس میں پارٹی کے کوئی لوازمات نہ تھے۔
پرانے تجربات کی وجہ سے عید کے دنوں میں سفر سے توبہ کی ہوئی تھی مگر گلگت جانے کی خوشی میں ساری احتیاط بالائے طاق رکھ کر نکل کھڑے ہوئے کہ کیا پتا پھر موقع ملے نہ ملے۔جاتے ہوئے ایک فائدہ یہ ہوا کہ ہم چونکہ عید کی پہلی رات نکلے تھے، جب زیادہ تر مسافر گھروں میں سورہے تھے، اس لیے سکون سے رات کے تقریباً تین بجے ناران پہنچ گئے۔
سیاح نہ ہونے کے برابر تھے اور زیادہ تر ہوٹلز مالکان اگلے دن ٹوٹ پڑنے والے سیاحوں کے لیے چریاں تیز کررہے تھے اس لیے ہمیں مناسب ریٹ میں تین گھنٹے کے لیے ایک کمرہ مل گیا۔صبح چھ بجے اٹھ کر ناشتہ ڈھونڈنا بڑا ناخوشگوار تجربہ رہا مگر پاپی پیٹ کے لیے صبر کیے رہے۔سات بجے کے بعد ناشتہ ملا تو جلدی جلدی میں بھگتا کربابوسر ٹاپ کی طرف ہولیے۔
اس سے آگے تصویری سفر کا آغاز ہوتا ہے۔تمام تصویریں موبائل سے ایک اناڑی نے لی ہیں اس لیےسابقہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے گزر گزارے کی خصوصی درخواست ہے۔
سفر کے آغاز میں ہی پہاڑ،پانی اور کہیں کہیں بادل مسحور کرنے لگے تھے۔
کچھ دن قبل کشمیر سے ہو کر آئے تھے جب اچانک گلگت بلتستان کا پروگرام فائنل ہوگیا۔گلگت جانے کا ارادہ تو ایک عرصے سے دل میں تھا مگر کچھ سبب نہ بن پارہا تھا۔ستمبر کے پہلے ہفتے میں "عمر قید" لکھی جارہی تھی اور ہم ایسے غیرذمہ دار کہ پندرہ دن قبل ایک لمبے سفر پر نکل رہے تھے۔ویسے یہ بھولنے والی چیز تو نہ تھی مگر اب ٹھیک سے یاد نہیں کہ واپسی پر اماں حضور کی طرف سے چھترول ہوئی تھی کہ نہیں،کیا کریں اب یاد رکھنے کے لیے اور بھی بہت غم ہیں۔اگست 2018ء کا یہ سفر ہمارے لیے ایک ایسی بیچلر پارٹی تھا جس میں پارٹی کے کوئی لوازمات نہ تھے۔
پرانے تجربات کی وجہ سے عید کے دنوں میں سفر سے توبہ کی ہوئی تھی مگر گلگت جانے کی خوشی میں ساری احتیاط بالائے طاق رکھ کر نکل کھڑے ہوئے کہ کیا پتا پھر موقع ملے نہ ملے۔جاتے ہوئے ایک فائدہ یہ ہوا کہ ہم چونکہ عید کی پہلی رات نکلے تھے، جب زیادہ تر مسافر گھروں میں سورہے تھے، اس لیے سکون سے رات کے تقریباً تین بجے ناران پہنچ گئے۔
سیاح نہ ہونے کے برابر تھے اور زیادہ تر ہوٹلز مالکان اگلے دن ٹوٹ پڑنے والے سیاحوں کے لیے چریاں تیز کررہے تھے اس لیے ہمیں مناسب ریٹ میں تین گھنٹے کے لیے ایک کمرہ مل گیا۔صبح چھ بجے اٹھ کر ناشتہ ڈھونڈنا بڑا ناخوشگوار تجربہ رہا مگر پاپی پیٹ کے لیے صبر کیے رہے۔سات بجے کے بعد ناشتہ ملا تو جلدی جلدی میں بھگتا کربابوسر ٹاپ کی طرف ہولیے۔
اس سے آگے تصویری سفر کا آغاز ہوتا ہے۔تمام تصویریں موبائل سے ایک اناڑی نے لی ہیں اس لیےسابقہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے گزر گزارے کی خصوصی درخواست ہے۔
سفر کے آغاز میں ہی پہاڑ،پانی اور کہیں کہیں بادل مسحور کرنے لگے تھے۔