ارے یہ کیا پتا ہی نہیں چلا اور رائے کوٹ پل پہنچ گئے۔خیر پتا تو ہمیں ٹھیک ٹھاک چلا تھا مگر پھر بھی اپنی پہلی منزل کے نزدیک ہوئے تو جیسے ایک بار پھر سب کچھ بھول ہی گئے۔
رائے کوٹ سے فیری میڈوز کے لیے یہاں سے جیپ لی تھی۔جیپ نے ہمیں تاتو ویلج چھوڑ دینا تھا جہاں سے آگے فیری میڈوز تک کی دشوار گزار چڑھائی پیدل عبور کرنا تھی۔دلبر نامی ڈرائیور سے اس وقت سات یا ساڑھے سات ہزار میں بات ہوئی تھی جس میں اگلے دن اس نے مقررہ وقت پر ہمیں واپس لے کر بھی آنا تھا۔
اپنی گاڑی وہیں پارک کرکے ہم دلبر کے ساتھ تاتو ویلج کی طرف رواں دواں تھے۔اس سے پہلے تاوبٹ تک یا پھر رتی گلی جھیل تک کا ادھورا سفر ہمیں اپنی زندگی کا سب سے بہترین ایڈونچر لگتا تھا مگر تاتو ویلج پہنچنے تک ہم ایک نئے تجربے سے دوچار ہوئے تھے۔کہہ سکتے ہیں کہ ایڈونچر کےاصل معنی بھی یہاں ہی سمجھ آنے لگے تھے۔
جیب کا سفر ختم ہونے والا تھا، دلبر نے یہاں ہمیں اتار کر واپس روانہ ہونا تھا۔صبح ناران سے شروع ہوا گاڑی کا سفر عصر کے نزدیک تاتو ویلج میں اختتام پذیر ہورہا تھا۔دلبر کے بقول یہاں سے ہم سکون سے مغرب تک فیری میڈوز پہنچ سکتے تھے۔خیر یہ سکون ہمیں کہیں عشاء کے وقت ملا کہ دلبر کو ہمارے بلند حوصلے اور فٹنس کا انداز نہیں تھا۔
ٹک شاپ پر چپس اور بسکٹ وغیرہ کی کچھ ورائٹی دستیاب تھی۔مقامی لڑکے سامان اٹھانے کے لیے اپنی خدمات پیش کررہے تھے مگر ہم جیسے "باہمت" لوگ کہاں کسی کی خدمت لینا مناسب سمجھتے۔خچر تو ہمیں بھی لے جانے کے لیے تیار تھے مگر بے چاروں خچروں پر ظلم کرنا بھی ہم نے گوارا نہ کیا۔
تصویر میں بوتل کے ڈھکن یہ بتانے کے لیے کافی تھے کہ "ہمیں" بورڈ پر لکھی ہدایت کی کوئی پرواہ نہیں۔اسی لیے تصویر بھی ذرا دور سے لی تاکہ کہیں ہدایت پڑھ کر عمل کرنے کا خیال نہ آجائے۔
بیٹھنے کے لیے ہمیں کسی خاص جگہ کی ضرورت قطعاً نہ تھی کیونکہ ہر تھوڑی دیر بعد ہمیں جہاں جگہ ملتی ہم آلتی پالتی مارے بیٹھ جاتے۔سمجھنے والے شاید یہ سمجھیں کہ ہم تھک کر بیٹھتے تھے حالانکہ ہم تو صرف آس پاس کے منظروں کو تسلی سے محسوس کرنے کے لیے بیٹھتے تھے۔
جب ہم یہاں پہنچے تو کسی قسم کی سروس دستیاب نہیں تھی اور نہ موبائل میں نیٹ ورک تھا کہ دیے گئے نمبر پر رابطہ کرکے "تتے پانی" کی پیالی سے لطف اندوز ہوپاتے۔اس ٹریک میں البتہ کچھ کچھ جگہوں پر زونگ کے سگنلز مل جاتے تھے۔