فیصل عظیم فیصل
محفلین
کمر پر وہ نشاں ایسے کبھی سوچے نہ ہونگے یار نےہے کیا جو کس کے باندھئے میری بلا ڈرے
کیا جانتا نہیں ہوں تمہاری کمر کو میں 😜
جنہیں چھی تر بھی کہتے ہیں ہمارے کو توالی میں
کمر پر وہ نشاں ایسے کبھی سوچے نہ ہونگے یار نےہے کیا جو کس کے باندھئے میری بلا ڈرے
کیا جانتا نہیں ہوں تمہاری کمر کو میں 😜
پلس بذات خود ایک ادارہ ہے ۔ اس کے اہلکار بھی اتنے ہی انسان ہیں جتنے کسی بھی اور ادارے،تنظیم،ہا وابستہ غیر وابستہ انسان ، البتہ ہمارے اپنے اذہان میں کچھ فریم بنے ہوئے ہیں جن میں فٹ نہ ہونے والا ہمیں اجنبی اجنبی سا لگتا ہےلیکن بندہ پلس کو مائی باپ بھی تو کہتا ہے۔ تو کیا وہ پلس بس فلموں ڈراموں والی ہوتی ہے
دم کس طرح کا ہےاکساہٹ میں کتنا دم ہے
میرا دم کتنا کم ہے
دنیا کی اکساہٹ دیکھی تو
میں اپنا دم بھول گیا
اطلاع دے رہے ہیں یا دعوت؟؟
یہ لوڈڈ ٹرالی ہے۔۔۔۔ راستہ نہیں مل سکتااب ہارن پہ ہاتھ رکھ دیا۔۔۔ رستہ دینا ہی پڑے گا
ہوہوہوہوہو۔۔۔۔ اکساہٹ کا موبل آئیلاسی لیے تو اکساہٹ کا موبل آئل ڈال رہے ہیں نا
مخبریاطلاع دے رہے ہیں یا دعوت؟؟
اوور لوڈڈ ہوتی تو مسئلہ ہوتا نین بھائی۔یہ لوڈڈ ٹرالی ہے۔۔۔۔ راستہ نہیں مل سکتا
یوں تو ملزم اندرو اندری مُک مُکا کر لیں گے
سستا خون مہنگا پانی ہو جانا اب۔ گاڑیوں کا پٹرول تو پہلے ہی مہنگا ہے۔ انسانی اکساہٹ کے موبل آئیل کے دام آسمان سے باتیں کرنے لگیں گےہوہوہوہوہو۔۔۔۔ اکساہٹ کا موبل آئیل
یوں دیکھیں تو سب ہی اجنبی ٹہریں گے کہ کوئی ایک کسی دوسرے کے فریم میں کم ہی فٹ آتا ہے۔پلس بذات خود ایک ادارہ ہے ۔ اس کے اہلکار بھی اتنے ہی انسان ہیں جتنے کسی بھی اور ادارے،تنظیم،ہا وابستہ غیر وابستہ انسان ، البتہ ہمارے اپنے اذہان میں کچھ فریم بنے ہوئے ہیں جن میں فٹ نہ ہونے والا ہمیں اجنبی اجنبی سا لگتا ہے
دوسروں کی انفرادیت کا احترام اور اس کی اسی حالت میں قبولیت کا ظرف ہو تو کوئی اجنبی نہیں ہوتا۔ اب اس کے درجات ہر شخص میں مختلف ہو سکتے ہیں۔ جیسے ملنگ کا تصور کیا ہے اور اگر کوئی شخص خوش لباس، خوش گفتار ، مالی آسودہ ، سمجھ کی گفتگو کرنے والا ہو تو ہمارے اذہان میں موجود فریم اسے ملنگ سمجھنے سے انکار کرنے میں دیر نہیں لگاتا۔ اسے ظاہر پر محمول کرنا بھی کہا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح خوش اخلاق ، خوش طبع ، گھل مل جانے والا، منکسر مزاج، سادہ طبیعت، تکبر سے دور، حلال خور ، کوئی نظر آجائے تو ہمارا شعور اسے پولیس والا ہی نہیں سمجھتا ما سوائے اس کے کہ کبھی ایسے پولیس والے سے واسطہ پڑ چکا ہو۔ ہم لوگوں کو اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر چھانتے ہیںیوں دیکھیں تو سب ہی اجنبی ٹہریں گے کہ کوئی ایک کسی دوسرے کے فریم میں کم ہی فٹ آتا ہے۔
اِدھر لوڈڈ ہمیشہ اوور لوڈڈ ہی ہوتی ہے۔اوور لوڈڈ ہوتی تو مسئلہ ہوتا نین بھائی۔
اب خود سے بنا کر پی لسی تو افاقہ ہے۔
بس وہی بات نا کہ ہر کسی نے اپنے آزمودہ ٹوٹکے ہی آزمانے ہوتے ہیں۔واہ!
دھڑکنوں کی بے ترتیبی اور لسی نوشی کی یہ دائمی زنجیر بہت خوب ہے۔
یہاں تو کلیجہ منہ کو آجائے تب بھی ہم پانی پی پی کر نیچے اُتارتے ہیں۔
بس وہی بات نا کہ ہر کسی نے اپنے آزمودہ ٹوٹکے ہی آزمانے ہوتے ہیں۔
دھڑکنیں بھلے بے ترتیب ہوتی رہیں مگر کلیجے کو مضبوطی سے جکڑا ہوا ہے۔ نہ کسی کو مونگ دلنے دیتے ہیں نہ منہ کو آنے دیتے ہیں۔
سینے پہ ثابت مونگ دلے جاتے ہیں ۔مونگ تو سینے پر دلی جاتی ہے۔
اور ہاتھ آئے اور منہ کو نہ لگے اسے بھی لوگ اچھا نہیں سمجھتے۔
سینے پہ ثابت مونگ دلے جاتے ہیں ۔
نہیں آنے دیتے ہاتھ۔ تبھی تو منہ کو بھی نہئں آتا کلیجہ۔
بس اپنی اپنی تکنیک ہے کہ کس بات کو کتنا دل پہ لینا ہے ، کتبا دماغ پہ اور کتنا کلیجہ جلانا ہے اپنا۔ ورنہ دنیا کی دو دھاری تلوار جینے دے گی نہ مرنے دے گی۔
بہت اعلیٰہاہاہاہاہا!
ہمارے ایک دُکھی کولیگ اکثر یہ شعر سنایا کرتے ہیں۔
مار ہی ڈالے جو بے موت، یہ دنیا وہ ہے
ہم تو جیتے ہیں کہ پتھر کا جگر رکھتے ہیں
بعض اوقات لوگ جگر کو پتھر کرتے کرتے دل کو بھی پتھر کر بیٹھتے ہیں۔بہت اعلیٰ
پتھر کا جگر رکھ کے ہی جینا پڑتا ہے ۔۔