مذہبی عقائد اور نظریات

فہد مقصود

محفلین
اس لڑی میں اختلافی نوعیت کے مذہبی عقائد اور نظریات جیسے وحدت الوجود وغیرہ پر بات کی جائے گی۔
 
آخری تدوین:

فہد مقصود

محفلین
برادر عدنان عمر نے اشرف علی تھانوی کا وحدت الوجود پر یہ مضمون شریک کیا ہے۔ اس مضمون پر تبادلہ خیال کرنے کی خاطر اسے یہاں نقل کیا جائے گا۔

1.png


آئیے اشرف علی تھانوی کے اس مضمون کا سطر بہ سطر جائزہ لیتے ہیں۔

اشرف علی تھانوی کے اس مضمون کی شروعات ایک صحیح حدیث روایت کرنے سے ہوتی ہے۔

اشرف علی تھانوی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ خدا اور زمانہ متحد نہیں ہیں مگر باوجود عدم اتحاد کے ایک تاویل سےجس کی تقریر بضمنِ ترجمہ کی گئی ہے لفظ اتحاد کا حکم کیا ہے۔ اسی تاویل سے محققین کے نزدیک اوست کا حکم ہمہ پر کیا گیا ہے۔

ہمہ اوست کیا ہے وہ میں چاہوں گا کہ مراسلہ نگار عدنان عمر خود ہی بیان کردیں کیونکہ ان کی کتب سے حوالہ دئیے جانے کے باوجود ان کا اصرار ہوتا ہے کہ ان کے علماء کی تعلیمات کو غلط پیرائے میں لیا جارہا ہے۔ بہتر ہوگا کہ وہ خود ہی اس کی تعریف بیان کردیں۔

اب آتے ہیں اس حدیث کی شرح کی جانب۔ اس حدیث میں انا الدھر "میں زمانہ ہوں" کے الفاظ پر بہت سارے سوالات اٹھتے ہیں جن میں سے ایک بہت ہی عام سوال ہے کہ کیا خدا زمانہ ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو الدھر اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے ایک ہوتا۔ اصل معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی وقت اور زمانے کو پھیرتا ہے۔

امام خطابی کا کہنا ہے کہ اس کا معنی ہے میں ہی صاحب دھر ہوں۔
امام نووی کا کہنا ہے فان اللہ ھو الدھر کا معنی یہ ہے کہ : حادثات اورمصائب نازل کرنے والا اورخالق کائنات ، اللہ تعالی ہے ۔

اب ذرا ہمہ اوست کا نظریہ برادر عدنان عمر بیان کر دیں تو پھر ہی کچھ مزید کہا جاسکے گا لیکن فی الحال یہ بات ذہن میں رکھئے کہ روایت کی گئی حدیث کے الفاظ انا الدھر سے کیا مراد ہے۔

الیاس گھمن کی جو وحدات الشھود پر وضاحتی ویڈیو برادر عدنان عمر نے پیش کی تھی اس میں کہا گیا ہے صوفیاء کے نزدیک سب کچھ سراب ہو جاتا ہے اور صرف ان کو خدا ہی نظر آتا ہے۔ اس کی مثال انھوں نے یہ دی کہ اگر ٹارچ کی روشنی کو انسانی آنکھ کے بالکل سامنے کردیا جائے تو سوائے روشنی کے اور کچھ نظر نہیں آئے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ کے پہنچے ہوئے بندے جو کہ توحید کی اگلی منزل وحدت الشھود پر پہنچ چکے ہوتے ہیں ان کو یہ دنیا اور اس کی ہر چیز کیوں سراب نظر آنے لگتی ہے حالانکہ قرآن میں اللہ رب العزت واضح طور پر فرماتے ہیں-

اور وہی (اللہ) ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو حق (پر مبنی تدبیر) کے ساتھ پیدا فرمایا ہے ۔۔۔ سورۃ الانعام -73
جب خدائے بزرگ و برتر نے زمین اور آسمان حق کے ساتھ پیدا فرمائے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی کے نزدیک یہ سب کچھ کیسے سراب ہوسکتا ہے؟
 
آخری تدوین:

ابن جمال

محفلین
اُس فیکٹری سے اایک اور محفل پر آگئے، تاکہ جو کام دوسرے مذہبی گروپوں پر کرتے رہتے ہیں، وہ یہاں بھی انجام دیں۔
 

ایم اے

معطل
اس محفل کا یا آج کل کے اکثر مباحث کا سب سے بڑا مسئلہ بحث سے پہلے کسی اصول کا طے نہ ہونا ہے۔
جو بھی اس میں حصہ لینا چاہتے ہیں، وہ ضرور حصہ لیں، لیکن پہلے اپنے مسلک/عقائد کو کھل کر بیان کریں، تاکہ فریقِ ثانی کو بات سمجھنے اور سمجھانے میں آسانی ہو۔
ہمارے معاشرے میں صرف دوسروں کے عقائد کو چھیڑنے کا جو رجحان پایا جاتا ہے وہ اسی وجہ سے مفید ثابت نہیں ہوتا کہ جو اقلیت ہیں، ان میں اپنے عقائد کو ظاہر کرنے کی اخلاقی جرات نہیں ہوتی اور جو اکثریت ہے وہ مخالف کے عقائد ہی سے بےخبر ہوتی ہے۔
 

عدنان عمر

محفلین
اشرف علی تھانوی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ خدا اور زمانہ متحد نہیں ہیں مگر باوجود عدم اتحاد کے ایک تاویل سےجس کی تقریر بضمنِ ترجمہ کی گئی ہے لفظ اتحاد کا حکم کیا ہے۔ اسی تاویل سے محققین کے نزدیک اوست کا حکم ہمہ پر کیا گیا ہے۔

ہمہ اوست کیا ہے وہ میں چاہوں گا کہ مراسلہ نگار عدنان عمر خود ہی بیان کردیں کیونکہ ان کی کتب سے حوالہ دئیے جانے کے باوجود ان کا اصرار ہوتا ہے کہ ان کے علماء کی تعلیمات کو غلط پیرائے میں لیا جارہا ہے۔ بہتر ہوگا کہ وہ خود ہی اس کی تعریف بیان کردیں۔
لگتا ہے آپ نے پورا مضمون نہیں پڑھا۔ ویسے تو مضمون کے ابتدائی پیراگراف ’ہمہ اوست‘ کی تشریح کا ہی کام دے رہے ہیں، لیکن اگلے صفحے یعنی صفحہ 310 کے آغاز میں صاحبِ مضمون نے خود ہمہ اوست کی تعریف بیان کی ہے:
’’کل ممکنات تو موجود ظاہری ہیں اور حقیقت میں کوئی موجود حقیقی یعنی موصوف بکمالِ ہستی نہیں بجز ذاتِ حق کے۔ اسی مضمون کو ہمہ اوست سے تعبیر کردیتے ہیں۔‘‘​
اسی صفحے پر آگے حضرتِ تھانویؒ لکھتے ہیں:
’’ہمہ اوست کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہمہ اور او ایک ہیں [یعنی غیر خدا اور خدا ایک ہیں] بلکہ مقصود یہ ہے کہ ہمہ کی ہستی قابلِ اعتبار نہیں، صرف او کی ہستی لائقِ شمار ہے اور باقی جتنے موجودات ہیں، ہستی تو ان کی بھی واقع ہوئی ہے مگر ان کی ہستی، ہستی کامل کے سامنے محض ایک ظاہری ہستی ہے۔حقیقی یعنی کامل نہیں۔‘‘​
اگلی سطور میں صاحبِ مضمون نےاس مضمون کو مزید تفصیل اور امثلہ کے ساتھ بیان کیا ہے تاکہ پڑھنے والے کا کانسیپٹ کلیئر ہوجائے۔

اب آتے ہیں اس حدیث کی شرح کی جانب۔ اس حدیث میں انا الدھر "میں زمانہ ہوں" کے الفاظ پر بہت سارے سوالات اٹھتے ہیں جن میں سے ایک بہت ہی عام سوال ہے کہ کیا خدا زمانہ ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو الدھر اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے ایک ہوتا۔ اصل معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی وقت اور زمانے کو پھیرتا ہے۔

امام خطابی کا کہنا ہے کہ اس کا معنی ہے میں ہی صاحب دھر ہوں۔
امام نووی کا کہنا ہے فان اللہ ھو الدھر کا معنی یہ ہے کہ : حادثات اورمصائب نازل کرنے والا اورخالق کائنات ، اللہ تعالی ہے ۔

اب ذرا ہمہ اوست کا نظریہ برادر عدنان عمر بیان کر دیں تو پھر ہی کچھ مزید کہا جاسکے گا لیکن فی الحال یہ بات ذہن میں رکھئے کہ روایت کی گئی حدیث کے الفاظ انا الدھر سے کیا مراد ہے۔
مجھے حیرت ہے، کیا آپ نے مضمون کے ابتدائی پیراگراف بھی نہیں پڑھے؟ نہیں تو حدیثِ شریف کا ترجمہ و تشریح ہی پڑھ لیتے۔ آپ کی آسانی کے لیے میں یہاں نقل کردیتا ہوں:
’’حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ابنِ آدم مجھ کو آزردہ کرتا ہے کہ زمانہ کو برا کہتا ہے حالانکہ زمانہ میں ہوں (آگے اس کی تفسیر ہے کہ) میرے ہی قبضے میں سب کام ہیں (جو کہ زمانہ میں واقع ہوتے ہیں۔)
رات اور دن کو (کہ زمانے کے حصے ہیں) میں ہی ادل بدل کرتا ہوں (جس کی طرف آدمی واقعات کو منسوب کرتا ہے، سو زمانہ تو مع مافیہ کے خود میرے قبضے میں ہے۔ پس یہ سب تصرفات میرے ہی ہیں، تو اس کو بُرا کہنے سے درحقیقت مجھ کو بُرا کہنا لازم آتا ہے۔) روایت کیا اس کو بخاری و مسلم و مالک و ابوداؤد نے۔‘‘
کیا اب بھی آپ کہیں گے کہ صاحبِ مضمون کا موقف یہ ہے کہ خدا زمانہ ہے؟
آپ کی آسانی کے لیے اگلا پیراگراف بھی نقل کیے دیتا ہوں:
’’ظاہر ہے کو حق تعالیٰ اور زمانہ دونوں متحد نہیں ہیں مگر باوجود عدم اتحاد کے ایک تاویل سےجس کی تقریر بضمنِ ترجمہ کی گئی ہے، لفظ اتحاد کا حکم کیا ہے۔محققین کے نزدیک اسی تاویل سےاوست کا حکم ہمہ پر کیا گیا ہے جس کی تقریر یہ ہے کہ ہمہ کا جو مصداق ہے، وہ سب مع اپنے افعال و آثار قبضہ حق میں ہے۔ پس متصرفِ حقیقی و وجودِ مستقل صرف حق تعالیٰ ہے، ہمہ کوئی چیز نہیں۔پس حدیث سے اسی قولِ صوفیہ کی تائید ظاہر ہے۔‘‘​
امید ہے کہ اب آپ سمجھ جائیں گے۔
الیاس گھمن کی جو وحدات الشھود پر وضاحتی ویڈیو برادر عدنان عمر نے پیش کی تھی اس میں کہا گیا ہے صوفیاء کے نزدیک سب کچھ سراب ہو جاتا ہے اور صرف ان کو خدا ہی نظر آتا ہے۔ اس کی مثال انھوں نے یہ دی کہ اگر ٹارچ کی روشنی کو انسانی آنکھ کے بالکل سامنے کردیا جائے تو سوائے روشنی کے اور کچھ نظر نہیں آئے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ کے پہنچے ہوئے بندے جو کہ توحید کی اگلی منزل وحدت الشھود پر پہنچ چکے ہوتے ہیں ان کو یہ دنیا اور اس کی ہر چیز کیوں سراب نظر آنے لگتی ہے حالانکہ قرآن میں اللہ رب العزت واضح طور پر فرماتے ہیں-

اور وہی (اللہ) ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو حق (پر مبنی تدبیر) کے ساتھ پیدا فرمایا ہے ۔۔۔ سورۃ الانعام -73
جب خدائے بزرگ و برتر نے زمین اور آسمان حق کے ساتھ پیدا فرمائے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی کے نزدیک یہ سب کچھ کیسے سراب ہوسکتا ہے؟
آپ کے اس سوال کے جواب میں کہ ’’جب اللہ کے پہنچے ہوئے بندے جو کہ توحید کی اگلی منزل وحدت الشھود پر پہنچ چکے ہوتے ہیں ان کو یہ دنیا اور اس کی ہر چیز کیوں سراب نظر آنے لگتی ہے‘‘ میں پھر عرض کروں گا کہ آپ مذکورہ ویڈیو کو غور سے سنیں اور پھر مطلب اخذ کریں، ساتھ ساتھ مذکورہ مضمون بھی غور سے پڑھیں۔ امید ہے کہ آپ کی غلط فہمی دور ہوجا ئے گی۔
پھر بھی بات نہ بنے تو بس ایک چیز پر غور کیجیے گا کہ ’انسان‘ اور اس کی تخلیق ’روبوٹ‘ کا موازنہ کیا جائے تو ’انسان‘ کو آپ کس درجے پر رکھیں گے اور ’روبوٹ‘ کو کس درجے پر۔
والسلام
 
آخری تدوین:

فہد مقصود

محفلین
اُس فیکٹری سے اایک اور محفل پر آگئے، تاکہ جو کام دوسرے مذہبی گروپوں پر کرتے رہتے ہیں، وہ یہاں بھی انجام دیں۔

جی درست سمجھے آپ! الحمدللہ میری وجہ سے اگر کسی کا عقیدہ توحید خالص ہو جائے تو اس سے بڑا میرے لئے اور کوئی اعزاز نہیں ہوگا۔

اس محفل کا یا آج کل کے اکثر مباحث کا سب سے بڑا مسئلہ بحث سے پہلے کسی اصول کا طے نہ ہونا ہے۔
جو بھی اس میں حصہ لینا چاہتے ہیں، وہ ضرور حصہ لیں، لیکن پہلے اپنے مسلک/عقائد کو کھل کر بیان کریں، تاکہ فریقِ ثانی کو بات سمجھنے اور سمجھانے میں آسانی ہو۔
ہمارے معاشرے میں صرف دوسروں کے عقائد کو چھیڑنے کا جو رجحان پایا جاتا ہے وہ اسی وجہ سے مفید ثابت نہیں ہوتا کہ جو اقلیت ہیں، ان میں اپنے عقائد کو ظاہر کرنے کی اخلاقی جرات نہیں ہوتی اور جو اکثریت ہے وہ مخالف کے عقائد ہی سے بےخبر ہوتی ہے۔

کونسی اقلیت؟ اگر آپ نے میرا مراسلہ غور سے پڑھا ہوتا اور آپ کو مشہور علمائے دین کے بارے میں معلومات ہوتیں تو آپ یہ بیوقوفانہ بات ہرگز نہیں کرتے۔ امام نووی کا ذکر کرنے سے آپ کو سمجھ نہیں آیا کہ میری سورس آف نالج اہلحدیث اور سلفی مکتبہ فکر ہیں۔

آپ چاہتے ہیں کہ کھ؛ کر بتاؤں کہ میں یہ سب کچھ کیوں کر رہا ہوں۔ سوچا تھا کہ بعد میں اس بارے میں ذکر کیا جائے گا لیکن آپ سننا چاہتے ہیں تو چلئے آپ کو بتائے دیتا ہوں۔

میرا پورا خاندان پکا دیوبندی تھا۔ پھر ہوا یہ کہ میری رسائی حکیم اختر کے ایک خلیفہ تک ہوئی۔ ان کے پاس علم کی جستجو کی خاطر حاضر ہوتا تھا۔ ایک دن انھوں نے بیعت کرنے کو کہا اور بیعت کرنے کے یہ فوائد بیان فرمائے کہ جب انسان مرتا ہے تو روح ایسے ہی چلی جاتی ہے بیعت ہوگی تو شیخ کے پاس روح حاضر ہوتی ہے شیخ روح پہنچواتے ہیں۔ میں اسی وقت سلام کر کے اٹھ آیا اور پھر میں نے تحقیق کرنا شروع کی کہ آخر اندر سب کچھ چل کیا رہا ہے۔ جب عقائد کے ساتھ کی گئی بدعنوانی اچھی طرح سمجھ آگئی تو حق بات پھیلانا شروع کی تاکہ عوام کو بھی معلوم ہو کہ جن پر ہم اندھا اعتقاد کرتے ہیں وہ درِ حقیقت پیچھے کیا کر رہے ہیں۔ توحید بنیادی عقیدہ ہے اگر وہی درست نہ وہ تو پھر کیا باقی بچتا ہے؟

اگر ہماری عوام عقل سے کام لیتی اور تحقیق کی عادت ڈالتی تو کبھی ان علماء کی اندھی تقلید نہ کرتی۔ پاکستان کو اسلام کا قلعہ عوام سمجھتی ہے تو پہلے اسلام کا حق تو ادا کریں! بنیادی عقائد تو درست کرلیں!
 

ایم اے

معطل
میرا پورا خاندان پکا دیوبندی تھا۔ پھر ہوا یہ کہ میری رسائی حکیم اختر کے ایک خلیفہ تک ہوئی۔ ان کے پاس علم کی جستجو کی خاطر حاضر ہوتا تھا۔ ایک دن انھوں نے بیعت کرنے کو کہا اور بیعت کرنے کے یہ فوائد بیان فرمائے کہ جب انسان مرتا ہے تو روح ایسے ہی چلی جاتی ہے بیعت ہوگی تو شیخ کے پاس روح حاضر ہوتی ہے شیخ روح پہنچواتے ہیں۔ میں اسی وقت سلام کر کے اٹھ آیا اور پھر میں نے تحقیق کرنا شروع کی کہ آخر اندر سب کچھ چل کیا رہا ہے۔ جب عقائد کے ساتھ کی گئی بدعنوانی اچھی طرح سمجھ آگئی تو حق بات پھیلانا شروع کی تاکہ عوام کو بھی معلوم ہو کہ جن پر ہم اندھا اعتقاد کرتے ہیں وہ درِ حقیقت پیچھے کیا کر رہے ہیں۔ توحید بنیادی عقیدہ ہے اگر وہی درست نہ وہ تو پھر کیا باقی بچتا ہے؟
میں اسے جھوٹ ہی کہہ سکتا ہوں۔ کیوں کہ جہاں تک مجھے علم ہے، ان لوگوں سے جنہوں نے بیعت کی ہے، بیعت کے وقت ایسا کچھ نہیں ہوتا۔
 

ایم اے

معطل
کونسی اقلیت؟ اگر آپ نے میرا مراسلہ غور سے پڑھا ہوتا اور آپ کو مشہور علمائے دین کے بارے میں معلومات ہوتیں تو آپ یہ بات ہرگز نہیں کرتے۔ امام نووی کا ذکر کرنے سے آپ کو سمجھ نہیں آیا کہ میری سورس آف نالج اہلحدیث اور سلفی مکتبہ فکر ہیں۔
یہ بھی عین ممکن ہے کہ آپ کا مکتبہ فکر کوئی اور ہو، لیکن سورس آف اعتراضات سلفیوں اور اہلحدیث کی رکھ کر آپ خود کو چھپانا چاہتے ہیں۔
معذرت چاہوں گا، پہلے اپنا مباحثہ پورا کریں، پھر دوسروں پر انگلیاں اٹھانے کی باری بھی آجائے گی۔
 

فہد مقصود

محفلین
میں اسے جھوٹ ہی کہہ سکتا ہوں۔ کیوں کہ جہاں تک مجھے علم ہے، ان لوگوں سے جنہوں نے بیعت کی ہے، بیعت کے وقت ایسا کچھ نہیں ہوتا۔

آپ جھوٹا سمجھیں یا سچا آپ کی مرضی ہے۔ میں آپکو یقین کرنے کے لئے کہہ بھی نہیں رہا ہوں۔ مشورہ دوں گا کہ خود تحقیق کرلیں۔ دوسروں کی بیعت کرنے کے احوال کا حوالہ نہ دیں کیونکہ ظاہری بات ہے کہ میں آپ کی بات پر یقین نہیں کرنے والا۔
 

فہد مقصود

محفلین
یہ بھی عین ممکن ہے کہ آپ کا مکتبہ فکر کوئی اور ہو، لیکن سورس آف اعتراضات سلفیوں اور اہلحدیث کی رکھ کر آپ خود کو چھپانا چاہتے ہیں۔
معذرت چاہوں گا، پہلے اپنا مباحثہ پورا کریں، پھر دوسروں پر انگلیاں اٹھانے کی باری بھی آجائے گی۔

آپ کا جودل کرے سمجھیں! اور ضرور سمجھیں! آپ کی طرح کتنوں نے ہی ایسی باتیں کی ہیں لیکن مجھ جیسے افراد جن کا مقصد عقائد کی درستگی ہو ان پر یہ باتیں فرق نہیں ڈالتی ہیں۔ اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ آپ کی اس طرح کی باتوں کے رعب میں آؤں گا تو آپ کی بھول ہے!
میری باتوں پر یقین نہ کریں۔ میں آپ کی کتب سے ہی شواہد لاؤں گا۔ ویسے ایک مشورہ ہے کتاب و سنت سائیٹ پر مفت کتابیں ڈاؤنلوڈ کی جاسکتی ہیں۔ اگر آپ تحقیق کرنے کے لئے واقعی سنجیدہ ہوں تو وہاں دیوبندیت پر سیکڑوں کتب ہیں اور وہ بھی مستند علماء کی۔ ڈاؤنلوڈ کر کے پڑھ لیجئے۔ آپ کو سمجھ آجائے گا کہ میں یہاں کیوں آیا ہوں اور جو بول رہا ہوں وہ کر کے دکھاؤں گا۔
 

ایم اے

معطل
آپ کا جودل کرے سمجھیں! اور ضرور سمجھیں! آپ کی طرح کتنوں نے ہی ایسی باتیں کی ہیں لیکن مجھ جیسے افراد جن کا مقصد عقائد کی درستگی ہو ان پر یہ باتیں فرق نہیں ڈالتی ہیں۔ اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ آپ کی اس طرح کی باتوں کے رعب میں آؤں گا تو آپ کی بھول ہے!
میری باتوں پر یقین نہ کریں۔ میں آپ کی کتب سے ہی شواہد لاؤں گا۔ ویسے ایک مشورہ ہے کتاب و سنت سائیٹ پر مفت کتابیں ڈاؤنلوڈ کی جاسکتی ہیں۔ اگر آپ تحقیق کرنے کے لئے واقعی سنجیدہ ہوں تو وہاں دیوبندیت پر سیکڑوں کتب ہیں اور وہ بھی مستند علماء کی۔ ڈاؤنلوڈ کر کے پڑھ لیجئے۔ آپ کو سمجھ آجائے گا کہ میں یہاں کیوں آیا ہوں اور جو بول رہا ہوں وہ کر کے دکھاؤں گا۔
پہلے والے اعتراض کا کیا ہوا؟
باقی دیوبند کو چھوڑیں اپنی اصلاح کریں، یہ زیادہ بہتر ہے۔
 

فہد مقصود

محفلین
پہلے والے اعتراض کا کیا ہوا؟
باقی دیوبند کو چھوڑیں اپنی اصلاح کریں، یہ زیادہ بہتر ہے۔

کونسا پہلا اعتراض؟
الحمدللہ میں اپنی اصلاح کی مسلسل کوشش کرتا ہوں گناہگار ہوں لیکن ہدایت کے لئے جستجو جاری ہے۔
آپ بتائیے کیا آپ نے کوئی کتاب پڑھی؟ میں آپ کو اشارہ دے چکا ہوں۔ اگر آپ نے کوئی کتاب نہیں پڑھی ہے تو حیرت ہے! کیا واقعی آپ کو بالکل بھی فکر نہیں ہوئی کہ کہیں غلطی نہ ہو رہی ہو؟
 

فہد مقصود

محفلین
اہلِ اسلام میں فلسفہ وحدت الوجود کا تصور کب آیا، آئیے اس بارے میں کچھ تفصیل جانتے ہیں۔
WAHDATULWUJOOD-HISTORY.jpg


http://ibcurdu.com/news/91323/

اس تاریخی پسِ منظر کے مطابق ابنِ عربی ہی تصورِ وحدت الوجود کے اصل موجد ہیں۔
امام تیمیہ نے وحدت الوجود پر بہت تحقیق کی ہے اور اس عقیدہ کا سختی سے رد کیا ہے۔ آئیے امام تیمیہ کی اس بارے میں رائے جانتے ہیں۔

ابن تیمیہ مجموع فتاویٰ میں لکھتے ہیں:
"وَأَمَّا " الِاتِّحَادُ الْمُطْلَقُ " الَّذِي هُوَ قَوْلُ أَهْلِ وَحْدَةِ الْوُجُودِ الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّ وُجُودَ الْمَخْلُوقِ : هُوَ عَيْنُ وُجُودِ الْخَالِقِ ".
اور اتحاد مطلق اسے کہتے ہیں جو وحدت الوجود والوں کا قول ہے:جو سمجھتے ہیں کہ مخلوق کاوجود عین خالق کا وجود ہے۔(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ج10 ص59)

ابن تیمیہ دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
"قال وصاحب هذا الكتاب الذي هو فصوص الحكم وامثاله مثل صاحبه الغرنوي والتلمساني وابن سبعين والسنكري واتباعهم مذهبهم الذي هم عليه ان الوجود واحد ويسمون اهل وحدة الوجود، ويدّعون التحقيق والعرفان فهم يجعلون وجود الخالق عين وجود المخلوقات "
کتاب مذکور جو فصوص الحکم ہے،کا مصنف اور اس جیسے دوسرے مثلاً قونوی،تلمسانی ،ابن سبعین،ششتری،ابن فارض اور ان کے پیروکار ،ان کا مذہب یہ ہے کہ وجود ایک ہے۔انھیں وحدت الوجود والے کہاجاتا ہے اور وہ تحقیق وعرفان کادعویٰ رکھتے ہیں اور یہ لوگ خالق کے وجود کو مخلوقات کے وجود کاعین قرار دیتے ہیں۔(مجموع فتاویٰ ج2 ص123،124)

امام ابن تیمیہ وحدت الوجود کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور ان کا استدلال یہ تھا کہ یہ نت نئی چیزیں ہیں جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کے دور میں نہ تھیں۔ لہٰذا پیروان ابن عربی کے متعلق ایک جگہ پر فرمایا۔ ان لوگوں کے عقائد اس بنیاد پر قائم ہیں کہ تمام مخلوقات عالم جن میں شیطان، کافر، فاسق، کتا، سور وغیرہ خدا کا عین ہیں۔ یہ سب چیزیں مخلوق ہونے کے باوجود ذات خدا وندی سے متحد ہیں اور یہ کثرت جو نظر آرہی ہے فریب نظر ہے۔ (رسالہ حقیقۃ مذہب الاتحادین ، ص 160)

اسی رسالے میں انہوں نے ابن عربی کا ایک شعر نقل کیا ہے
الرب حق" و العبد حق"
یا لیتَ شعری مَن المکلف"
جس کا ترجمہ ہے کہ رب بھی خدا ہے اور انسان بھی خدا ہے۔ کاش! مجھے یہ معلوم ہوتا کہ ان میں سے مکلف (یعنی دوسرے کو احکام کی پابندی کا حکم دینے والا) کون ہے۔


امام تیمیہ اپنی کتاب الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان میں لکھتے ہیں:


محدث و قدیم
جنید رحمہ اللہ ائمہ ھدی میں سے تھے۔ آپ سے پوچھا گیا کہ توحید کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ
حدوث کو قدیم سے علیحدہ ماننا۔
اس طرح آپ نے واضح فرمایا کہ توحید یہ ہے کہ قدیم اور محدث اور خالق و مخلوق میں امتیاز کیا جائے۔
جبکہ صاحب ِ ''فصوص'' نے اس کا انکار کیا اور اپنے خیالی و شیطانی مخاطبہ میں کہا ''اے جنید! محدث و قدیم میں امتیاز تو وہی کر سکتا ہے جو نہ محدث ہو نہ قدیم۔'' جنید کے ''محدث اور قدیم میں تمیز کو توحید قرار دینے کے قول کو ابن عربی نے غلط قرار دیا۔ کیونکہ اس کے نزدیک محدث کا وجود بعینہ قدیم کا وجود ہے۔
جیسا کہ اس کتاب فصوص میں لکھا ہے کہ ''اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں علی (بلند) ہے۔ کس پر بلند؟ وہاں اس کے سوا کوئی ہے ہی نہیں اور کس چیز سے بلند حالانکہ جو کچھ ہے وہ خود ہی تو ہے۔ پس اس کی بلندی خود اس کے لیے ہے اور وہ عین موجودات ہے اور جن چیزوں کو محدثات کہا جاتا ہے، وہ بھی اپنی ذات میں بلند ہیں اور وہ اس کے سوا کچھ نہیں۔''
آگے چل کر لکھتا ہے: ''وہی عین باطن اور وہی عین ظاہر ہے اس کے سوا وہاں تو کوئی دوسرا موجود ہی نہیں جو اسے دیکھے۔ اس کے سوا کوئی بھی نہیں جو اس کے متعلق کوئی بات کرے اور وہی ابوسعید خراز اور دیگر اسماء محدثات کا مسمیٰ ہے۔''
اس ملحد سے کہنا چاہیے کہ دو چیزوں کے درمیان علم اور قول کے ساتھ امتیاز کرنے والے کے لیے یہ کوئی شرط نہیں ہے کہ وہ ان دو چیزوں میں سے نہ ہو اور کوئی تیسرا وجود ہو۔ ہر آدمی اپنے آپ اور دوسرے شخص کے درمیان امتیاز کرتا ہے حالانکہ وہ ثالث نہیں ہوتا۔ بندے کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بندہ ہے اور وہ اپنے نفس اور اپنے خالق کے درمیان امتیاز کرتا ہے، خالق جل جلالہ اپنے آپ اور اپنی مخلوقات کے مابین امتیاز کرتا ہے اور جانتا ہے کہ وہ ان کا پروردگار ہے اور وہ اس کے بندے ہیں جیسا کہ قرآن میں کئی جگہ اس نے فرمایا ہے لیکن قرآن سے استشہاد تو اہل ایمان کے لیے کیا جاتا ہے جو ظاہراً و باطناً اس کو مانتے ہیں۔

صوفیوں کی افسوس ناک بے باکی
رہے یہ ملاحدہ! سو ان کا وہی دعویٰ ہے جو تلمسانی کا ہے، وہ ان کے ''اتحاد'' میں سب سے زیادہ ماہر ہے۔ جب اس کے سامنے ''فصوص'' پڑھی گئی اور اس سے کہا گیا کہ قرآن تمہارے ''فصوص'' کا مخالف ہے تو اس نے کہا قرآن سارے کا سارا شرک ہے اور توحید ہمارے کلام میں ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔
[۔۔۔۔۔]ان کے ایک شیخ نے اپنے مرید سے کہا: ''جس نے تم سے یہ کہا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اور وجود ہے تو اس نے جھوٹ کہا ہے''مرید نے کہا ''جھوٹ کہنے والا کون ہوا''؟ اسی طرح انہوں نے کسی دوسرے کو کہا ''یہ مظاہر ہیں'' تو اس نے کہا ''مظاہر ظاہر کے غیر ہیں یا وہی ہیں۔ اگر غیر ہیں تو تم بھی دوئی کے قائل ہوگئے اور اگر وہی ہیں تو کوئی فرق نہ ہوا۔''
(جب نسبت لازم آئی تو دو وجود ثابت ہوگئے اور اگر نسبت اٹھا دی جائے تو جھوٹ کہنے والا (معاذاللہ) اللہ کا جزو ہوا۔ (مترجم))
کسی دوسرے مقام پر ہم تفصیل کے ساتھ ان لوگوں کے ''اسرار و رموز'' کا پول کھول چکے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے قول کی حقیقت بیان کرچکے ہیں۔ صاحب ِ فصوص کہتا ہے کہ معدوم بھی ایک چیز ہے اور اس پر وجودِ حق کا فیضان ہوا۔ سو وہ وجود و ثبوت کے درمیان فرق کرتا ہے۔ معتزلہ بھی کہتے ہیں کہ معدوم ایک چیز ثابت تھی لیکن یہ لوگ بایں ہمہ ضلالت صاحب ِ ''فصوص'' سے بہتر ہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ پروردگار نے عدم میں ثابت اشیاء کے لیے جو وجود تخلیق کیا وو پروردگار کا اپنا وجود نہیں ہے۔ بخلاف اس کے صاحب ''فصوص'' کا دعویٰ ہے کہ ان چیزوں پر بعینہ پروردگار کے وجود کا فیضان ہوا، اس کے نزدیک مخلوق کا وجود ہی نہیں جو خالق کے وجود سے علیحدہ ہو۔

حلول اور اتحاد
یہ لوگ حلول کے لفظ سے اس لیے بھاگتے ہیں کہ وہ حال اور محل کا مقتضی ہے، اتحاد کے لفظ سے اس لیے گریزاں ہیں کہ وہ دو چیزوں کو مستلزم ہے۔ جن میں سے ایک دوسرے سے متحد ہوگئی ہو حالانکہ ان کے نزدیک وجود صرف ایک ہے۔ کہتے ہیں کہ نصاریٰ اس لیے کافر ہوگئے ہیں کہ انہوں نے خصوصیت کے ساتھ مسیح کو اللہ قرار دیا۔اگر وہ ہر چیز کو اللہ کہہ دیتے تو کافر نہ ہوتے۔
وعلی ھٰذا القیاس وہ بت پرستوں کی بھی یہ غلطی بتاتے ہیں کہ وہ بعض مظاہر کی پرستش کرتے ہیں اور بعض کی نہیں کرتے۔ اگر تمام مظاہر کی پوجا کرتے تو ان کے نزدیک خطا کار نہ ٹھہرتے۔ ان کے نزدیک عارف محقق کے لیے بتوں کی پوجا مضر نہیں ہے۔ قطع نظر اس سے کہ یہ عقیدہ کفرِ عظیم ہے۔ اس میں وہ علّت تناقض بھی موجود ہے۔ جو ہمیشہ ان گمراہوں کے گلے کا ہار رہتی ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ خطا کار نصاریٰ اور خطا کار بت پرست آخر کون ہیں؟ اللہ ہیں یا اس سے کوئی جدا چیز ہیں ؟
لیکن وہ تو کہتے ہیں کہ پروردگار میں وہ تمام نقائص موجود ہیں جو مخلوق میں ہوتے ہیں اور مخلوقات میں بھی وہ تمام کمالات موجود ہیں جن سے ذاتِ خالق متصف ہے اور صاحب ِ ''فصوص'' کے اس قول کے حامی ہیں کہ {عَلِیٌّ لِنَفْسِہ} وہ ہوتا ہے جس کا کمال تمام نعوتِ وجودیہ اور نسب عدمیہ کا جامع ہو خواہ وہ اوصاف رواج ، عقل اور شرع کے نزدیک ممدوح ہوں یا مذموم اور یہ صرف اللہ کے مسمی کا خاصہ ہے۔''
باوجود اس کفر کے ان لوگوں پر سے تناقض کا اعتراض رفع نہیں ہوتا کیونکہ حس و عقل دونوں کے نزدیک یہ چیز بعینہ وہ چیز نہیں۔ یہ لوگ تلمسانی کے اس قول کے بھی حامی ہیں کہ ''ہمارے نزدیک کشف کے ذریعہ ایسی چیزیں ثابت ہوتی ہیں جو صریح عقل سے متناقض ہوتی ہیں۔'' اور کہتے ہیں کہ جو شخص تحقیق کا طالب ہو (یعنی ان کی تحقیق کا) اسے چاہیے کہ عقل و شرع کو خیر باد کہہ دے۔
میں نے ایک ایسے اعتقاد رکھنے والے شخص سے دورانِ گفتگو ایک مرتبہ کہا بھی تھا کہ یہ یقینی امر ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا کشف دوسروں کے کشف سے زیادہ بڑا اور کامل ہوتا ہے اور ان کی دی ہوئی خبر دوسروں کی خبر سے صادق تر ہوتی ہے۔ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام ایسی چیزوں کی خبر دیتے ہیں۔ جن کی معرفت سے لوگوں کی عقلیں عاجز ہوتی ہیں۔ ایسی خبر نہیں دیتے جسے لوگ اپنی عقل کے ذریعے معلوم کر لیں کہ وہ ممتنع ہے۔ چنانچہ وہ ایسی خبریں دیتے ہیں جو عقلاً جائز ہوتی ہیں نہ کہ عقلاً محال ہوں بلکہ یہ ممتنع ہے کہ رسول کی دی ہوئی خبریں عقل صریح کے مناقض ہوں۔ یہ بھی ممتنع ہے کہ دو قطعی دلیلوں میں تعارض ہو۔ خواہ وہ دونوں عقلی ہوں یا سمعی یا ان میں سے ایک عقلی ہو اور دوسری سمعی۔ پس اس شخص کا کیا حال ہوگا، جو دعویٰ کرے کہ اس کا کشف عقل و شرعِ صریح کا مناقض ہے۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ لوگ جان بوجھ کر جھوٹ نہیں کہتے لیکن بعض چیزیں جو ان کے نفس میں ہوتی ہیں، خیالی صورت بن کر ان کے سامنے آتی ہیں اور وہ خیال کر لیتے ہیں کہ وہ خارج میں موجود ہیں۔ کبھی وہ ایسی چیزیں دیکھتے ہیں جو خارج میں موجود ہوتی ہیں لیکن وہ انہیں کراماتِ صالحین میں سے شمار کرتے ہیں حالانکہ وہ تلبیساتِ شیاطین میں سے ہوتی ہیں۔
وحدت الوجود کے قائل کبھی اولیاء کو انبیاء پر ترجیح دے دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نبوت منقطع نہیں ہوتی جیسا کہ ابنِ سبعین وغیرہ سے مذکور ہے۔

ابنِ تیمیہ کی بہت وسیع تحقیق ہے لیکن یہاں ہم نے ان کی صرف اتنی رائے نقل کی ہے جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ آخر ابنِ عربی اور ان کے زمانے کے دوسرے صوفیاء کے کیا عقائد تھے۔
یہاں آپ نےلفظ "اتحاد" کے بارے میں بھی پڑھ لیا ہے کہ کچھ صوفیاء لفظ اتحاد سے بھاگتے رہے ہیں۔
 

فہد مقصود

محفلین
شریعت و طریقت میں اشرف علی تھانوی کے مضمون میں لکھا ہے:

’’ظاہر ہے کو حق تعالیٰ اور زمانہ دونوں متحد نہیں ہیں مگر باوجود عدم اتحاد کے ایک تاویل سےجس کی تقریر بضمنِ ترجمہ کی گئی ہے، لفظ اتحاد کا حکم کیا ہے۔محققین کے نزدیک اسی تاویل سےاوست کا حکم ہمہ پر کیا گیا ہے

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تھانوی صاحب کس اتحاد کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں حدیث میں موجود تاویل سے اتحاد کا یہ وہی حکم ہے جس سے محقیقین نے اوست کا حکم ہمہ پر کیا ہے۔ آگے لکھتے ہیں اس حدیث کے ذریعے سے ہمیں صوفیہ کے موقف کی تائید ملتی ہے۔

امام تیمیہ کی تھوڑی سی تحقیق کو ہم نے نقل کیا ہے اور امام تیمیہ کی تحقیق سے صوفیہ کے عقیدہ وحدت الوجود کے تصور کے بارے میں واضح طور پر معلوم ہو جاتا ہے۔ تھانوی صاحب اتحاد کا ذکر بھی کر رہے ہیں لیکن ساتھ عدم اتحاد پر یقین بھی ظاہر فرما رہے ہیں۔ کیا آُپ کو یہ بات سمجھ آرہی ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا ہے؟ وہ صوفیہ کے اس عقیدہ کا دفاع کر رہے ہیں۔ آگے تھانوی صاحب خود رقم طراز ہیں کہ وحدت الوجود کے معنی چونکہ عوام میں غلط مشہور ہو گئے تھے اس لئے محقیقین نے وحدت الوجود کے عنوان کو وحدت الشھود سے بدل دیا۔

عوام میں غلط معنی مشہور صوفیہ کے عقائد کی بدولت ہی ہوئے تھے۔ ابھی تو صرف ابنِ عربی کے چند نظریات کا ذکر کیا گیا ہے آگے اور بھی کیا جائے گا بلکہ متعدد صوفیہ اور ان کے نظریات نقل کئے جائیں گے۔

تھانوی صاحب اور ان کے جیسے اور علماء نے نہ صرف صوفیہ کی تائید کرنا نہ چھوڑی بلکہ ان کے وحدت الوجود کے نظریات کے لئے تاویلات بھی دیتے رہے۔ ان حضرات نے اپنے طور پر کہیں وحدت الوجود کی کچھ تشریح کی ہے اور کہیں کچھ اور! یہی متضاد باتیں جن کی بدولت عوام ان باتوں کی گہرائی میں پہنچ نہیں پاتی ہے۔

عدنان عمر صاحب کے بقول تھانوی صاحب کے نزدیک وحدت الوجود کے وہی معنی ہیں جو کہ شریعت طریقت میں موجود مضمون میں ہیں کہ خدا کی ذات یکتا اور بے مثل ہے۔ لیکن ساتھ ہی ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ تھانوی صاحب نے ایسے صوفیہ جنھوں نے واضح طور پر حلول، اتحاد اور خدا اور مخلوق کو نعوذباللہ ایک ہی ذات قرار دیا، کا دفاع کیوں کرتے رہے ہیں؟؟؟ ابنِ عربی کے لئے تو انھوں نے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ کیا یہ ایک متضاد عمل نہیں؟؟؟؟

بدیع الدین شاہ الراشدی نے ایک کتاب اہلِ بدعت کے شبہات کا رد لکھی ہے۔ اس میں وہ تھانوی صاحب کی ابنِ عربی کی کتاب فصوص الحکم کے دفاع میں لکھی گئی ایک کتاب کا ذکر کرتے ہیں:

اشرف علی تھانوی نے ایک کتاب "التنبیہ الطربی فی تنزیہ العربی" لکھ کر یہی خدمت انجام دی یعنی ابن عربی کا دفاع و تنزیہ۔ اشرف علی تھانوی اس کتاب کو فصوص الحکم کی شرح کے طور پر لکھنا چاہتے تھے۔ لکھتے ہیں:
"اس شرح لکھنے کے زمانہ میں مجھ کو جو توحش و اتقباض ان مضامین سے ہوتا تھا عمر بھر یاد رہے گا بعض مقامات پر قلب کو بے حد تکلیف ہوتی تھی۔ چنانچہ کہیں کہیں اسکا ذکر کیا ہے اور یہ وجہ تھی اس شرح کو چھوڑ دینے کی۔"
مگرپھر بھی اشرف علی تھانوی نے ابن عربی کی تنزیبہ و دفاع میں مستقل کتاب لکھ دی
(تجدید تصوف ص 408)

فصوص الحکم کے بارے میں امام تیمیہ کی تحقیق کی بدولت ہمیں کچھ معلومات حاصل ہو گئی ہیں۔ اب ذرا دیگر علماء کی تحقیق کا بھی مطالعہ کرتے ہیں۔
 

فہد مقصود

محفلین
ملاعلی قاری وحدت الوجود کے ردمیں اپنی کتاب کے آخر میں لکھتے ہیں:

"فَإِن كنت مُؤمنا حَقًا مُسلما صدقا فَلَا تشك فِي كفر جمَاعَة ابْن عَرَبِيّ وَلَا تتَوَقَّف فِي ضَلَالَة هَذَا الْقَوْم الغوي وَالْجمع الغبي فَإِن قلت هَل يجوز السَّلَام عَلَيْهِم ابْتِدَاء قلت لَا وَلَا رد السَّلَام عَلَيْهِم بل لَا يُقَال لَهُم عَلَيْكُم أَيْضا فَإِنَّهُم شَرّ من الْيَهُود وَالنَّصَارَى وان حكمهم حكم المرتدين............ويجب إحراق كتبهم المؤلفة ويتعين على كل أحد أن يبين فساد شقاقهم فإن سكوت العلماء واختلاف الآراء صار سبباً لهذه الفتنة وسائر الفتنة وسائر أنواع البلاء"

"پھر اگر تم سچے مسلمان اور پکے مومن ہوتو ابن عربی کی جماعت کے کفر میں شک نہ کرو اور اس گمراہ قوم اور بے وقوف اکٹھ کی گمراہی میں توقف نہ کرو،پھر اگر تم پوچھو:کیا انھیں سلام کہنے میں ابتدا کی جاسکتی ہے؟میں کہتا ہوں:نہیں اور نہ ان کے سلام کا جواب دیا جائے بلکہ انھیں وعلیکم کا لفظ بھی نہیں کہنا چاہیے کیونکہ یہ یہودیوں اور نصرانیوں سےزیادہ بُرے ہیں اور ان کا حکم مرتدین کا حکم ہے۔۔۔ان لوگوں کی لکھی ہوئی کتابوں کو جلانا واجب ہے اور ہر آدمی کو چاہیے کہ ان کی فرقہ پرستی اور نفاق کو لوگوں کے سامنے بیان کردے کیونکہ علماء کا سکوت اور بعض راویوں کااختلاف اس فتنے اور تمام مصیبتوں کا سبب بنا ہے۔۔۔(الرد علی القائلین بوحدۃ الوجود ص155،156)

بدیع الدین شاہ الراشدی اہلِ بدعت کے شبہات کا رد میں لکھتے ہیں:

اب ذرا تصوف کے شیخ اکبر کی چند باتیں اور پھر تصوف و صوفیاء کے چند کارناموں پر علامہ ابن جوزی رحمہ کی تنقید آگے آئے گی، ان شاء اللہ۔
تصوف میں ہسپانیہ کے مشھور صوفی محی الدین ابن عربی کو شیخ اکبر کہا جاتا ہے۔ انکی فتوحات مکیہ اس فصوص الحکم تصوف کا عروۃ الوثقی کہلاتی ہیں۔
جبکہ
" قرآن مجید میں اللہ تعالی نے قرآن کو حبل اللہ اور عروۃ الوثقی کہا ہے"۔
فصوص الحکم کے متعلق علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
جہاں تک مجھے علم ہے فصوص الحکم میں سوائے الحاد و کفر کے کچھ نہیں ہے۔
(اقبال نامہ ص44 )

فصوص الحکم کیا ہے
اس فصوص الحکم کے بارہ میں مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ نے تفصیل سے لکھا ہے۔ اب فصوص الحکم کی داستان بھی سن لیجئے۔
فصوص، فص بمعنی نگینہ کی جمع ہے اور فصوص الحکم بمعنی دانائی کے نگینے۔ یہ کل 27 فص یا نگینے ہیں۔ ہر ایک فص کو قرآن کریم میں مذکور 27 انبیاء سے منسوب کیا گیا ہے۔
ابن عربی کا دعوی ہے کہ

"ان فصوص کا علم مجھے مشاہدہ سے حاصل ہوا ہے میں نے اسے لوح محفوظ سے لیا۔ بعد میں 627ہ کے محرم میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دمشق کے شہر محروسہ میں دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی۔ آپ نے مجھ سے فرمایا یہ کتاب فصوص الحکم ہے اس کو محفوظ کرو اور لوگوں کے سامنے پیش کرو تاکہ انہیں فائدہ ہو چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اسے لوگوں میں پھیلانے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ اور اس میں کمی بیشی کرنا میرے لئے ممکن نہ رہا۔"
"فصوص 47-58"

آپ بھی اس کتاب کے مندرجات سے مستفید ہونا پسند کریں گے؟
اس کتاب میں ابن عربی نے قرآن کی تعلیمات کی تحریف کرکے اس کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا ہے اور وحدۃ الوجود کی عینک جڑھا کر ہر واقعہ پر تبصرہ فرماتے ہیں۔
مثلا، کہتے ہیں کہ
قوم ھود بھی صراط مستقیم پر تھی۔
فرعون کامل ایمان تھا اور قوم نوح بھی۔
اللہ پاک نے قوم نوح اور فرعون کو ان کے نیک اعمال کا بدلہ دیتے ہوئے وحدۃ الوجود کے سمندر میں غرق کیا اور قوم ھود کو عشق الہی کی آگ میں داخل کیا تاکہ اسے عیش و آرام حاصل ہو۔
ہارون علیہ السلام سے غلطی یہ ہوئی تھی کہ انہوں نے بنی اسرائیل کو بچھڑے کی عبادت سے منع کیا حالانکہ بچھڑا بھی خدا تھا یا خدا کا عکس۔
نوح علیہ السلام نے بھی اچھا کردار ادا کیا کہ جو بت پرستی سے باز نہ آئے کیونکہ یہ تمام بت خدا ہی کے مظاہر تھے جہنم عذاب کی جگہ نہیں بلکہ اس میں حلاوت و شیرینی موجو ہے
"امام ابن تیمیہ از کوکن عمری"

ابن العربی اور علمائے حق
کیلانی صاحب لکھتے ہیں کہ
ہم یہ تو بتلاچکے ہیں کہ یہ عقائد وحدت و حلول دین طریقت یا تصوف کی جان ہیں تو جب سے تصوف اسلام میں داخل ہوا یہ عقائد بھی شامل ہوتے گئے پھر جسطرح حسین بن منصور نے کھل کر عقیدہ حلول کو پیش کرنے اور اپنے خدا ہونے کا دعوی کیا اور مقتول ہوا بعینہ یہی صورت شیخ اکبر کی تھی چونکہ عقیدہ وحدت الوجود، قرآن کی تعلیم سے براہ راست متصادم تھا اس لئے علمائے دین مخالف ہوگئے چنانچہ یہ مصر پہنچے تو علمائے کرام نے انکے کفر کا فتوی دیا اور سلطان مصر نے ان کے قتل کا حکم دے دیا۔ یہ بات ابن عربی کو بھی معلوم ہو گئی تو چپکے سے راہ فرار اختیار کرکے دمشق پہنچ گئے۔
(شریعت و طریقت ص87)
اس ابن عربی جسے وقت کے علماء نے کافر قرار دیا اور اسکی کتاب کو قرآن سے متصادم قرار دیا ہے
اسکے بارے میں اشرف علی تھانوی کیا کہتے ہیں ملاحظہ فرمائیں۔ چنانچہ دور متاخرین میں سے اشرف علی تھانوی نے ایک کتاب "التنبیہ الطربی فی تنزیہ العربی" لکھ کر یہی خدمت انجام دی یعنی ابن عربی کا دفاع و تنزیہ۔ اشرف علی تھانوی اس کتاب کو فصوص الحکم کی شرح کے طور پر لکھنا چاہتے تھے۔ لکھتے ہیں

"اس شرح لکھنے کے زمانہ میں مجھ کو جو توحش و اتقباض ان مضامین سے ہوتا تھا عمر بھر یاد رہے گا بعض مقامات پر قلب کو بے حد تکلیف ہوتی تھی۔ چنانچہ کہیں کہیں اسکا ذکر کیا ہے اور یہ وجہ تھی اس شرح کو چھوڑ دینے کی۔"

مگرپھر بھی اشرف علی تھانوی نے ابن عربی کی تنزیبہ و دفاع میں مستقل کتاب لکھ دی
(تجدید تصوف ص 408)

فصوص الحکم کو بعض لوگ قرآن کی طرح سبقا سبقا پڑھتے تھے۔ جیسے عفیف الدین تلسمانی، یہی تلسمانی کہتا ہے
قرآن میں توحید کہاں، وہ تو پورے کا پورا شرک سے بھرا ہوا ہے جو شخص اسکی اتباع کرے گا وہ کبھی توحید کے بلند مرتبے پر نہیں پہنچ سکتا-
(امام ابن تیمیہ از کوکن عمری ص321)
اعاذنا اللہ من ھذہ الھفوات-
ذرا غور کیجئے کہ تھانوی صاحب کن کو شیخ اکبر مانتے ہیں؟
 

فہد مقصود

محفلین
ابن عربی نے اپنی کتاب فصوص الحکم میں خاتم الاولیاء کو خاتم الانبیاء سے افضل قرار دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ تمام انبیاء اور رسول خاتم الاولیاء سے استفادہ کرتے ہیں۔ شیخ کی عبارت ہے:
وليس هذا العلم [أي علم التوحيد الوجودي] إلا لخاتم الرسل وخاتم الأولياء، وما يراه أحد من الأنبياء والرسل إلا من مشكاة الرسول الخاتم، ولا يراه أحد من الأولياء إلا من مشكاة الولي الخاتم، حتى أن الرسل لا يرونه – متى رأوه – إلا من مشكاة خاتم الأولياء [فصوص الحكم، ص 62]
توحید وجودی کا علم صرف خاتم الرسل اور خاتم الاولیاء کے پاس ہے۔ اور تمام انبیاء اور رسول یہ علم خاتم الرسل کے سینے سےحاصل کرتے ہیں اور تمام ولی یہ علم خاتم الاولیاء کے سینے سے حاصل کرتے ہیں۔ بلکہ رسول بھی جب اس توحید کا مشاہدہ کرتے ہیں تو خاتم الاولیاء کے سینے سے کرتے ہیں۔
خاتم الاولیاء سے ابن عربی کی کیا مراد ہے۔ تو اس بارے ابن عربی کا ذہن تو واضح ہے کہ ان کی اس سے مراد وہ خود ہیں۔ وہ فتوحات میں لکھتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ میں ہی خاتم الاولیاء ہوں:
أنا خت۔۔۔۔۔۔۔۔م الولاية دون ش۔ك لورثي الهاشمي مع المس۔۔۔يح
ك۔۔۔۔۔۔۔۔۔ما أني أبو ب۔كر عتيق أج۔۔۔۔۔۔۔اهد كلّ ذي جس۔م وروح
ب۔۔۔۔۔۔أرواح مث۔۔۔۔قفة ط۔۔۔۔۔۔۔۔وال وت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رجمة بقرآن فصيح
أش۔۔۔۔۔۔دّ على كت۔۔۔۔يبة كل ع۔۔قل ت۔نازعني على الوحي الصريح
لي الورع الذي يس۔۔مو اعتلاء على الأح۔۔۔۔وال بالنبأ الصحيح
وس۔۔۔۔اعدني عليه رجال صدق من الورعين من أهل الفتوح
يوالون الوج۔۔۔۔۔۔۔وب وكلّ ندب ويستثنون سل۔۔۔۔۔۔۔۔طنة المبيح [فتوحات: 4/71]
 

فہد مقصود

محفلین
ڈاکٹر شفیق الرحمن حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آڑ میں مشرکانہ عقائد میں ابنِ عربی کی ایک عبارت نقل کی ہے

(أنت تحسبہ محمد العظیم الشان کما تحسب السراب ماء وھو ماء فی رایء العین فاذا جئت محمداً لم تجد محمداوجدت انہ فی صورۃ محمدیتہ ورایتہ برؤیتہ محمدیہ۔)) (فتوحات مکیہ جلد ثانی ص:۱۲۷)
یعنی محمد عظیم الشان صلی اللہ علیہ وسلم کو محمد گمان کرتے ہو جیسے کہ تم سراب کو دور سے دیکھ کر پانی سمجھتے ہو اور وہ ظاہری نظر میں پانی ہی ہے مگر حقیقتا آب نہیں ہے بلکہ سراب ہے اسی طرح جب تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آؤ گے تو تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پاؤ گے بلکہ صورت محمدیہ میں اللہ تعالیٰ کو پاؤ گے اور رویت محمدیہ میں اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے۔
 

فہد مقصود

محفلین
ابن عربی --- فرعون رحمت الٰہی کا مستحق / فرعون کی موت ایمان پر

ibn-arbi-jpg.4233


ترجمہ :

فرعون ڈوبتے ڈوبتے ایمان سے مرا ہے ، پاک صاف مرا ہے - اس میں مرتے وقت کچھ خباثت باری رہی نہ تھی - کیونکہ وہ ایمان سے مرا ہے - ایمان لا کر اس نے کوئی گناہ نہیں کیا - کیونکہ اسلام ما قبل کے تمام گناہوں کو محو کر دیتا ہے - الله نے فرعون کو اپنی رحمت کی ایک نشانی دلیل بنا دی ہے - (فصوص ال...حکم / مترجم عبد القدیر صدیقی ، صفحہ ٤١٣ ، پروگریسو بکس ، اردو بازار ، لاہور)
محی الدین کے معنی "دین کو زندہ کرنے والا" ہیں - نہ جانے انہوں نے کون سے دین کو زندہ کیا؟ قرآن وحدیث کے دین میں جہنم واصل ہو کرصبح شام آگ پر پیش کیا جانے والا فرعون ان کے دین میں ایمان کے ساتھ ، بغیرکسی گناہ کے بخشا بخشایا اوراﷲ کی رحمت کی نشانی بن کر اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے جیسا کہ انہوں نے اپنی "فصوص الحکم" کی فص موسوی میں لکھا ہے اور اخبار الاخیار میں اسی فصوص الحکم کے حوالے سے عبدالحق "محدث دہلوی" نے بھی فرعون کے مومن مرنے کی تصدیق کی ہے -
(صفحہ ٣٥٤)
 

فہد مقصود

محفلین
محمد بن جمیل زینو لکھتے ہیں:

ابن عربی اپنی کتاب ''الفصوص '' میں لکھتے ہیں: ''ہم میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں جو رسول اللہﷺ کے بعد ان کے جانشین بنے اور آپﷺ کے واسطے سے کسی شرعی حکم کو لیتے ہیں یا پھر اجتہاد کرتے ہیں اور اس کی بنیاد بھی اصل یعنی نص پر ہوتی ہے جب کہ ہم میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو بلا واسطہ اللہ کے جانشین ہیں اور اسی سے علم حاصل کرتے ہیں۔ (تصوف، کتاب وسنت کی روشنی میں، صفحہ 56)

محمد بن جمیل زینو نے لکھا: مشہور صوفی محی الدین ابن عربی اپنی کتاب ''الفتوحات المکیۃ'' میں لکھتا ہے بہت سی ایسی احادیث ہیں جو سنداً یعنی راویوں کے اعتبار سے صحیح ہوتی ہیں مگر جب ایسی احادیث کو کسی صاحب کشف کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو وہ ان کا جائزہ لیتا ہے پھر اس حدیث کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ''میں نے تو یہ کہا ہی نہیں اور نہ ہی میں نے ایسا کوئی حکم دیاہے'' تب اس حدیث کا ضعف صاحب کشف یعنی صوفی پر واضح ہوجاتا ہے سو صاحب کشف کو رب کی طرف سے ملنے والی اس دلیل کی بناء پر ایسی احادیث پر عمل چھوڑ دیا جائے گا اگر چہ اہل نقل اس کے راویوں کے صحیح ہونے کی وجہ سے اس پر عمل ہی کیوں نہ کر رہے ہوں کیونکہ بہرحال ایسی احادیث صحیح نہیں ہوتیں۔ (تصوف کتاب و سنت کی روشنی میں، صفحہ 63)

شیخ عبدالرحمن عبدالخالق ''فصوص الحکم ''کے حوالے سے اپنی کتاب اہل تصوف کی کارستانیاں میں لکھتے ہیں:
صوفیوں کے شیخ اکبر بددین ابن عربی کا دعویٰ ہے کہ فرعون موسیٰ علیہ السلام سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کو جانتا تھا۔ اور جن لوگوں نے بچھڑے کی پوجا کی تھی انہوں نے اللہ ہی کو پوجا تھا۔ کیوں کہ بچھڑا بھی ۔ اس کے خبیث عقیدے کی رو سے اللہ تعالیٰ ہی کا ایک روپ تھا۔ (تعالیٰ اللہ عن ذٰلک علوًا کبیرا) بلکہ اس شخص کے نزدیک بتوں کے پجاری بھی اللہ تعالیٰ ہی کی پوجا کرتے ہیں۔ کیوں کہ اس شخص کے نزدیک یہ سارے جدا جدا روپ بھی اللہ ہی کے روپ ہیں۔ وہ ہی سورج اور چاند ہے۔ وہی جن و انس ہے۔ وہی فرشتہ اور شیطان ہے۔ بلکہ وہی جنت اور جہنم ہے۔ وہی حیوان اور پیڑ پودا ہے اور وہی مٹی اور اینٹ پتھر ہے۔ لہٰذا زمین پر جو کچھ بھی پوجاجائے وہ اللہ کے سوا کچھ نہیں۔ ابلیس بھی ابن عربی کے نزدیک اللہ تعالیٰ ہی کا ایک جزو ہے۔ (تعالیٰ اللہ عن ذلک علوًا کبیرا)
 

زاہد لطیف

محفلین
کیا صرف علماء کی اندھی تقلید میں سچ بولنے کی سعی کرنے والوں کو رگیدنا ہی بعض لوگوں کا محبوب مشغلہ ہے؟ وہ ببانگ دہل برائی کو برائی کہنے کی جرات کہیں نظر نہیں آ رہی۔
مغرب کی اندھی تقلید میں مشرق کو رگیدنا بعض لوگوں کا محبوب مشغلہ ہے۔۔۔
ببانگ دہل برائی کو برائی، برے کو برا اور سازشی کو سازشی کہیں گے!!!
یہ برائی کو برائی کہنے کی یاد دہانی کا سلسلہ تو اب چلتا رہے گا۔
 
Top