اہلِ اسلام میں فلسفہ وحدت الوجود کا تصور کب آیا، آئیے اس بارے میں کچھ تفصیل جانتے ہیں۔
http://ibcurdu.com/news/91323/
اس تاریخی پسِ منظر کے مطابق ابنِ عربی ہی تصورِ وحدت الوجود کے اصل موجد ہیں۔
امام تیمیہ نے وحدت الوجود پر بہت تحقیق کی ہے اور اس عقیدہ کا سختی سے رد کیا ہے۔ آئیے امام تیمیہ کی اس بارے میں رائے جانتے ہیں۔
ابن تیمیہ مجموع فتاویٰ میں لکھتے ہیں:
"وَأَمَّا " الِاتِّحَادُ الْمُطْلَقُ " الَّذِي هُوَ قَوْلُ أَهْلِ وَحْدَةِ الْوُجُودِ الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّ وُجُودَ الْمَخْلُوقِ : هُوَ عَيْنُ وُجُودِ الْخَالِقِ ".
اور اتحاد مطلق اسے کہتے ہیں جو وحدت الوجود والوں کا قول ہے:جو سمجھتے ہیں کہ مخلوق کاوجود عین خالق کا وجود ہے۔(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ج10 ص59)
ابن تیمیہ دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
"قال وصاحب هذا الكتاب الذي هو فصوص الحكم وامثاله مثل صاحبه الغرنوي والتلمساني وابن سبعين والسنكري واتباعهم مذهبهم الذي هم عليه ان الوجود واحد ويسمون اهل وحدة الوجود، ويدّعون التحقيق والعرفان فهم يجعلون وجود الخالق عين وجود المخلوقات "
کتاب مذکور جو فصوص الحکم ہے،کا مصنف اور اس جیسے دوسرے مثلاً قونوی،تلمسانی ،ابن سبعین،ششتری،ابن فارض اور ان کے پیروکار ،ان کا مذہب یہ ہے کہ وجود ایک ہے۔انھیں وحدت الوجود والے کہاجاتا ہے اور وہ تحقیق وعرفان کادعویٰ رکھتے ہیں اور یہ لوگ خالق کے وجود کو مخلوقات کے وجود کاعین قرار دیتے ہیں۔(مجموع فتاویٰ ج2 ص123،124)
امام ابن تیمیہ وحدت الوجود کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور ان کا استدلال یہ تھا کہ یہ نت نئی چیزیں ہیں جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کے دور میں نہ تھیں۔ لہٰذا پیروان ابن عربی کے متعلق ایک جگہ پر فرمایا۔ ان لوگوں کے عقائد اس بنیاد پر قائم ہیں کہ تمام مخلوقات عالم جن میں شیطان، کافر، فاسق، کتا، سور وغیرہ خدا کا عین ہیں۔ یہ سب چیزیں مخلوق ہونے کے باوجود ذات خدا وندی سے متحد ہیں اور یہ کثرت جو نظر آرہی ہے فریب نظر ہے۔ (رسالہ حقیقۃ مذہب الاتحادین ، ص 160)
اسی رسالے میں انہوں نے ابن عربی کا ایک شعر نقل کیا ہے
الرب حق" و العبد حق"
یا لیتَ شعری مَن المکلف"
جس کا ترجمہ ہے کہ رب بھی خدا ہے اور انسان بھی خدا ہے۔ کاش! مجھے یہ معلوم ہوتا کہ ان میں سے مکلف (یعنی دوسرے کو احکام کی پابندی کا حکم دینے والا) کون ہے۔
امام تیمیہ اپنی کتاب الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان میں لکھتے ہیں:
محدث و قدیم
جنید رحمہ اللہ ائمہ ھدی میں سے تھے۔ آپ سے پوچھا گیا کہ توحید کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ
حدوث کو قدیم سے علیحدہ ماننا۔
اس طرح آپ نے واضح فرمایا کہ توحید یہ ہے کہ قدیم اور محدث اور خالق و مخلوق میں امتیاز کیا جائے۔
جبکہ صاحب ِ ''فصوص'' نے اس کا انکار کیا اور اپنے خیالی و شیطانی مخاطبہ میں کہا ''اے جنید! محدث و قدیم میں امتیاز تو وہی کر سکتا ہے جو نہ محدث ہو نہ قدیم۔'' جنید کے ''محدث اور قدیم میں تمیز کو توحید قرار دینے کے قول کو ابن عربی نے غلط قرار دیا۔ کیونکہ اس کے نزدیک محدث کا وجود بعینہ قدیم کا وجود ہے۔
جیسا کہ اس کتاب فصوص میں لکھا ہے کہ ''اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں علی (بلند) ہے۔ کس پر بلند؟ وہاں اس کے سوا کوئی ہے ہی نہیں اور کس چیز سے بلند حالانکہ جو کچھ ہے وہ خود ہی تو ہے۔ پس اس کی بلندی خود اس کے لیے ہے اور وہ عین موجودات ہے اور جن چیزوں کو محدثات کہا جاتا ہے، وہ بھی اپنی ذات میں بلند ہیں اور وہ اس کے سوا کچھ نہیں۔''
آگے چل کر لکھتا ہے: ''وہی عین باطن اور وہی عین ظاہر ہے اس کے سوا وہاں تو کوئی دوسرا موجود ہی نہیں جو اسے دیکھے۔ اس کے سوا کوئی بھی نہیں جو اس کے متعلق کوئی بات کرے اور وہی ابوسعید خراز اور دیگر اسماء محدثات کا مسمیٰ ہے۔''
اس ملحد سے کہنا چاہیے کہ دو چیزوں کے درمیان علم اور قول کے ساتھ امتیاز کرنے والے کے لیے یہ کوئی شرط نہیں ہے کہ وہ ان دو چیزوں میں سے نہ ہو اور کوئی تیسرا وجود ہو۔ ہر آدمی اپنے آپ اور دوسرے شخص کے درمیان امتیاز کرتا ہے حالانکہ وہ ثالث نہیں ہوتا۔ بندے کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بندہ ہے اور وہ اپنے نفس اور اپنے خالق کے درمیان امتیاز کرتا ہے، خالق جل جلالہ اپنے آپ اور اپنی مخلوقات کے مابین امتیاز کرتا ہے اور جانتا ہے کہ وہ ان کا پروردگار ہے اور وہ اس کے بندے ہیں جیسا کہ قرآن میں کئی جگہ اس نے فرمایا ہے لیکن قرآن سے استشہاد تو اہل ایمان کے لیے کیا جاتا ہے جو ظاہراً و باطناً اس کو مانتے ہیں۔
صوفیوں کی افسوس ناک بے باکی
رہے یہ ملاحدہ! سو ان کا وہی دعویٰ ہے جو تلمسانی کا ہے، وہ ان کے ''اتحاد'' میں سب سے زیادہ ماہر ہے۔ جب اس کے سامنے ''فصوص'' پڑھی گئی اور اس سے کہا گیا کہ قرآن تمہارے ''فصوص'' کا مخالف ہے تو اس نے کہا قرآن سارے کا سارا شرک ہے اور توحید ہمارے کلام میں ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔
[۔۔۔۔۔]ان کے ایک شیخ نے اپنے مرید سے کہا: ''جس نے تم سے یہ کہا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اور وجود ہے تو اس نے جھوٹ کہا ہے''مرید نے کہا ''جھوٹ کہنے والا کون ہوا''؟ اسی طرح انہوں نے کسی دوسرے کو کہا ''یہ مظاہر ہیں'' تو اس نے کہا ''مظاہر ظاہر کے غیر ہیں یا وہی ہیں۔ اگر غیر ہیں تو تم بھی دوئی کے قائل ہوگئے اور اگر وہی ہیں تو کوئی فرق نہ ہوا۔''
(جب نسبت لازم آئی تو دو وجود ثابت ہوگئے اور اگر نسبت اٹھا دی جائے تو جھوٹ کہنے والا (معاذاللہ) اللہ کا جزو ہوا۔ (مترجم))
کسی دوسرے مقام پر ہم تفصیل کے ساتھ ان لوگوں کے ''اسرار و رموز'' کا پول کھول چکے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے قول کی حقیقت بیان کرچکے ہیں۔ صاحب ِ فصوص کہتا ہے کہ معدوم بھی ایک چیز ہے اور اس پر وجودِ حق کا فیضان ہوا۔ سو وہ وجود و ثبوت کے درمیان فرق کرتا ہے۔ معتزلہ بھی کہتے ہیں کہ معدوم ایک چیز ثابت تھی لیکن یہ لوگ بایں ہمہ ضلالت صاحب ِ ''فصوص'' سے بہتر ہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ پروردگار نے عدم میں ثابت اشیاء کے لیے جو وجود تخلیق کیا وو پروردگار کا اپنا وجود نہیں ہے۔ بخلاف اس کے صاحب ''فصوص'' کا دعویٰ ہے کہ ان چیزوں پر بعینہ پروردگار کے وجود کا فیضان ہوا، اس کے نزدیک مخلوق کا وجود ہی نہیں جو خالق کے وجود سے علیحدہ ہو۔
حلول اور اتحاد
یہ لوگ حلول کے لفظ سے اس لیے بھاگتے ہیں کہ وہ حال اور محل کا مقتضی ہے، اتحاد کے لفظ سے اس لیے گریزاں ہیں کہ وہ دو چیزوں کو مستلزم ہے۔ جن میں سے ایک دوسرے سے متحد ہوگئی ہو حالانکہ ان کے نزدیک وجود صرف ایک ہے۔ کہتے ہیں کہ نصاریٰ اس لیے کافر ہوگئے ہیں کہ انہوں نے خصوصیت کے ساتھ مسیح کو اللہ قرار دیا۔اگر وہ ہر چیز کو اللہ کہہ دیتے تو کافر نہ ہوتے۔
وعلی ھٰذا القیاس وہ بت پرستوں کی بھی یہ غلطی بتاتے ہیں کہ وہ بعض مظاہر کی پرستش کرتے ہیں اور بعض کی نہیں کرتے۔ اگر تمام مظاہر کی پوجا کرتے تو ان کے نزدیک خطا کار نہ ٹھہرتے۔ ان کے نزدیک عارف محقق کے لیے بتوں کی پوجا مضر نہیں ہے۔ قطع نظر اس سے کہ یہ عقیدہ کفرِ عظیم ہے۔ اس میں وہ علّت تناقض بھی موجود ہے۔ جو ہمیشہ ان گمراہوں کے گلے کا ہار رہتی ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ خطا کار نصاریٰ اور خطا کار بت پرست آخر کون ہیں؟ اللہ ہیں یا اس سے کوئی جدا چیز ہیں ؟
لیکن وہ تو کہتے ہیں کہ پروردگار میں وہ تمام نقائص موجود ہیں جو مخلوق میں ہوتے ہیں اور مخلوقات میں بھی وہ تمام کمالات موجود ہیں جن سے ذاتِ خالق متصف ہے اور صاحب ِ ''فصوص'' کے اس قول کے حامی ہیں کہ {عَلِیٌّ لِنَفْسِہ} وہ ہوتا ہے جس کا کمال تمام نعوتِ وجودیہ اور نسب عدمیہ کا جامع ہو خواہ وہ اوصاف رواج ، عقل اور شرع کے نزدیک ممدوح ہوں یا مذموم اور یہ صرف اللہ کے مسمی کا خاصہ ہے۔''
باوجود اس کفر کے ان لوگوں پر سے تناقض کا اعتراض رفع نہیں ہوتا کیونکہ حس و عقل دونوں کے نزدیک یہ چیز بعینہ وہ چیز نہیں۔ یہ لوگ تلمسانی کے اس قول کے بھی حامی ہیں کہ ''ہمارے نزدیک کشف کے ذریعہ ایسی چیزیں ثابت ہوتی ہیں جو صریح عقل سے متناقض ہوتی ہیں۔'' اور کہتے ہیں کہ جو شخص تحقیق کا طالب ہو (یعنی ان کی تحقیق کا) اسے چاہیے کہ عقل و شرع کو خیر باد کہہ دے۔
میں نے ایک ایسے اعتقاد رکھنے والے شخص سے دورانِ گفتگو ایک مرتبہ کہا بھی تھا کہ یہ یقینی امر ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا کشف دوسروں کے کشف سے زیادہ بڑا اور کامل ہوتا ہے اور ان کی دی ہوئی خبر دوسروں کی خبر سے صادق تر ہوتی ہے۔ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام ایسی چیزوں کی خبر دیتے ہیں۔ جن کی معرفت سے لوگوں کی عقلیں عاجز ہوتی ہیں۔ ایسی خبر نہیں دیتے جسے لوگ اپنی عقل کے ذریعے معلوم کر لیں کہ وہ ممتنع ہے۔ چنانچہ وہ ایسی خبریں دیتے ہیں جو عقلاً جائز ہوتی ہیں نہ کہ عقلاً محال ہوں بلکہ یہ ممتنع ہے کہ رسول کی دی ہوئی خبریں عقل صریح کے مناقض ہوں۔ یہ بھی ممتنع ہے کہ دو قطعی دلیلوں میں تعارض ہو۔ خواہ وہ دونوں عقلی ہوں یا سمعی یا ان میں سے ایک عقلی ہو اور دوسری سمعی۔ پس اس شخص کا کیا حال ہوگا، جو دعویٰ کرے کہ اس کا کشف عقل و شرعِ صریح کا مناقض ہے۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ لوگ جان بوجھ کر جھوٹ نہیں کہتے لیکن بعض چیزیں جو ان کے نفس میں ہوتی ہیں، خیالی صورت بن کر ان کے سامنے آتی ہیں اور وہ خیال کر لیتے ہیں کہ وہ خارج میں موجود ہیں۔ کبھی وہ ایسی چیزیں دیکھتے ہیں جو خارج میں موجود ہوتی ہیں لیکن وہ انہیں کراماتِ صالحین میں سے شمار کرتے ہیں حالانکہ وہ تلبیساتِ شیاطین میں سے ہوتی ہیں۔
وحدت الوجود کے قائل کبھی اولیاء کو انبیاء پر ترجیح دے دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نبوت منقطع نہیں ہوتی جیسا کہ ابنِ سبعین وغیرہ سے مذکور ہے۔
ابنِ تیمیہ کی بہت وسیع تحقیق ہے لیکن یہاں ہم نے ان کی صرف اتنی رائے نقل کی ہے جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ آخر ابنِ عربی اور ان کے زمانے کے دوسرے صوفیاء کے کیا عقائد تھے۔
یہاں آپ نےلفظ "اتحاد" کے بارے میں بھی پڑھ لیا ہے کہ کچھ صوفیاء لفظ اتحاد سے بھاگتے رہے ہیں۔