گناہ جاریہ یا شرعی فریضہ ؟

یوسف-2

محفلین
11مئی کو ووٹ ڈالنے والوں کو گناہ جاریہ ملے گا، طاہرالقادری
headlinebullet.gif

shim.gif

dot.jpg

shim.gif

77072_l.jpg

ماموں کانجن (نمائندہ جنگ) پاکستان عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا ہے کہ موجودہ کرپٹ اور غیر آئینی نظام انتخاب کے تحت ہونے والے عام انتخابات میں ووٹ ڈالنا ظلم کا ساتھ دینا ہے اس الیکشن میں ووٹ ڈالنے والے گناہ جاریہ کے مستحق ہوں گے، موجودہ نظام انتخاب کے ذریعے تبدیلی انقلاب لانا ممکن نہیں، تبدیلی کا نعرہ لگاکے موجودہ الیکشن میں حصہ لینے والوں کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا، کارکن ووٹ نہیں ڈالیں گے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار عالمی ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ عوامی تحریک کی رکنیت سازی پر بھرپور توجہ دیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو موجودہ کرپٹ نظام انتخاب کے ذریعے قائم ہونے والی حکومت کے مضر اثرات سے آگاہ کریں تاہم دھرنوں میں تحریکی کارکن سول سوسائٹی کے لوگوں کی بھرپور شرکت کو یقینی بنائیں۔ انہوں نے ہدایت کی ہے کہ کوئی تحریکی کارکن متوقع عام انتخابات میں اپنا اور اپنی فیملی کا ووٹ کاسٹ نہیں کرے گا۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=77072

ووٹ شرعی فریضہ ہے، علما کونسل کا فتویٰ
news.php

لنک:
http://ummatpublication.com/2013/04/13/news.php?p=news-14.gif
 

یوسف-2

محفلین
مُلکِ پاکستان میں ان دنوں الیکشن ہونے والے ہیں، اسی مناسبت سے شیخ المشائخ فقیہ العصر مفتیٔ اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کا ایک بہت اہم مضمون پیشِ خدمت کرنا چاہتا ہوں جو شعان المعظم ۱۳۸۰اھ (مطابق ۱۹۶۰ ء) میں لکھا گیا تھا۔
اسمبلی، کونسل یا کسی دوسرے ادارے کے انتخابات میں کسی شخص کو کس صورت میں اُمیدوار ہونا چاہیے۔ نیز کسی اُمیدوار کے حق میں ووٹر کو اپنا ووٹ کس طرح استعمال کرنا چاہیے۔ عام طور پر لوگ اس کو ذاتی اور نجی معاملہ سمجھتے ہیں حالانکہ یہ خالص دینی معاملہ ہے۔ پیشِ نظر مضمون میں ان دونوں طبقوں کے شرعی فرائض کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔اس مضمون کی اہمیت پڑھنے کے بعد معلوم ہو گی کہ کس طرح حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ نے اختصار مگر جامعیت کے ساتھ نہایت سادہ انداز اور دردِ دل سے لکھا ہے۔
انتخابات میں ووٹ، ووٹر اور اُمیدوار کی شرعی حیثیت

آج کی دنیا میں اسمبلیوں، کونسلوں، میونسپل وارڈوں اور دوسری مجالس اور جماعتوں کے انتخابات میں جمہوریت کے نام پر جو کھیل کھیلا جا رہا ہے کہ زور و زر اور غنڈہ گردی کے سارے طاغوتی وسائل کا استعمال کر کے یہ چند روزہ موہوم اعزاز حاصل کیا جاتا ہے اور اس کے عالم سوز نتائج ہر وقت آنکھوں کے سامنے ہیں اور ملک و ملت کے ہمدرد و سمجھدار انسان اپنے مقدور بھر اس کی اصلاح کی فکر میں بھی ہیں، لیکن عام طور پر اس کو ایک ہار جیت کا کھیل اور خالص دنیاوی دھندہ سمجھ کر ووٹ لیے اور دیئے جاتے ہیں، لکھے پڑھے دیندار مسلمانوں کو بھی اس طرف توجہ نہیں ہوتی کہ یہ کھیل صرف ہماری دنیا کے نفع نقصان اور آبادی یا بربادی تک نہیں رہتا، بلکہ اس کے پیچھے کچھ طاعت و معصیت اور گناہ و ثواب بھی ہے، جس کے اثرات اس دنیا کے بعد بھی یا ہمارے گلے کا ہار عذاب جہنم بنیں گے یا پھر درجاتِ جنت اور نجاتِ آخرت کا سبب بنیں گے، اور اگرچہ آج کل اس اکھاڑہ کے پہلوان اور اس میدان کے مرد، عام طور پر وہی لوگ ہیں جو فکرِ آخرت اور خدا و رسول کی طاعت و معصیت سے مطلقاً آزاد ہیں اور اس حالت میں اُن کے سامنے قرآن و حدیث کے احکام پیش کرنا ایک بے معنی و عبث فعل معلوم ہوتا ہے، لیکن اسلام کا ایک یہ بھی معجزہ ہے کہ مسلمانوں کی پوری جماعت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوتی، ہر زمانہ اور ہر جگہ کچھ لوگ حق پرست بھی قائم رہتے ہیں جن کو اپنے ہر کام میں حلال و حرام کی فکر اور خدا اور رسول کی رضا جوئی پیش نظر رہتی ہے، نیز قرآن کریم کا یہ بھی ارشاد ہے:
وَ ذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ (۱)۔
یعنی ”آپ نصیحت کی بات کہتے رہیں کیونکہ نصیحت مسلمانوں کو نفع دیتی ہے“، اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ انتخابات میں اُمیدواری اور ووٹ کی شرعی حیثیت اور اُن کی اہمیت کو قرآن اور سنت کی رو سے واضح کر دیا جائے شاید کچھ بندگانِ خدا کو تنبیہ ہو اور کسی وقت یہ غلط کھیل صحیح بن جائے۔
حاشیہ(۱): سورة الذاریات:۵۵۔
اُمیدواری:۔
کسی مجلس کی ممبری کے انتخابات کے لیے جو اُمیدوار کی حیثیت سے کھڑا ہو وہ گویا ملت کے سامنے دو چیزوں کا مدعی ہے:۔
ایک یہ کہ وہ اس کام کی قابلیت رکھتا ہے جس کا اُمیدوار ہے۔
دوسرے یہ کہ وہ دیانت و امانت داری سے اس کام کو انجام دے گا۔
اب اگر واقع میں وہ اپنے اس دعویٰ میں سچا ہے یعنی قابلیت بھی رکھتا ہے، اور امانت و دیانت کے ساتھ قوم کی خدمت کے جذبہ سے اس میدان میں آیا، تو اس کا یہ عمل کسی حد تک درست ہے، اور بہتر طریق اس کا یہ ہے کہ کوئی شخص خود مدعی بن کر کھڑا نہ ہو بلکہ مسلمانوں کی کوئی جماعت اس کو اس کام کا اہل سمجھ کر نامزد کر دے، اور جس شخص میں اس کام کی صلاحیت ہی نہیں وہ اگر اُمیدوار ہو کر کھڑا ہو تو ”قوم کا غدار اور خائن“ ہے اس کا ممبری میں کامیاب ہونا ملک و ملت کے لیے خرابی کا سبب تو بعد میں بنے گا، پہلے تو وہ خود غدر و خیانت کا مجرم ہو کر عذاب جہنم کا مستحق بن جائے گا، اب ہر وہ شخص جو کسی مجلس کی ممبری کے لیے کھڑا ہوتا ہے، اگر اس کو کچھ آخرت کی بھی فکر ہے تو اس میدان میں آنے سے پہلے خود اپنا جائزہ لے لے، اور یہ سمجھ لے کہ اس ممبری سے پہلے تو اس کی ذمہ داری صرف اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال ہی تک محدود تھی، کیونکہ بنص حدیث ہر شخص اپنے اہل و عیال کا بھی ذمہ دار ہے، اور اب کسی مجلس کی ممبری کے بعد جتنی خلق خدا کا تعلق اس مجلس سے وابستہ ہے، اُن سب کی ذمہ داری کا بوجھ اُس کی گردن پر آتا ہے، اور وہ دنیا و آخرت میں اس ذمہ داری کا مسئول اور جواب دہ ہے۔
ووٹ اور ووٹر:۔
کسی اُمید وار ممبری کو ووٹ دینے کی ازروئے قرآن و حدیث چند حیثیتیں ہیں:۔
ایک حیثیت ”شہادت“ کی ہے کہ ووٹر جس شخص کو اپنا ووٹ دے رہا ہے، اس کے متعلق اس کی شہادت دے رہا ہے، کہ یہ شخص اس کام کی قابلیت بھی رکھتا ہے، اور دیانت اور امانت بھی اور اگرو اقع میں اس شخص کے اندر یہ صفات نہیں ہیں، اور ووٹر یہ جانتے ہوئے، اس کو ووٹ دیتا ہے، تو وہ ایک جھوٹی شہادت ہے، جو سخت کبیرہ گناہ اور وبال دنیا و آخرت ہے، صحیح بخاری کی حدیث میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”شہادتِ کاذبہ“ کو شرک کے ساتھ کبائر میں شمار فرمایا ہے، (مشکوٰة) اور ایک دوسری حدیث میں جھوٹی شہادت کو اکبر کبائر میں فرمایا ہے، (بخاری و مسلم) جس حلقہ میں چند امیدوار کھڑے ہوں، اور ووٹر کو یہ معلوم ہے کہ قابلیت اور دیانت کے اعتبار سے فلاں آدمی قابل ترجیح ہے، تو اس کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو ووٹ دینا اس اکبر کبائر میں اپنے آپ کو مبتلا کرنا ہے۔ اب ووٹ دینے والا اپنی آخرت اور انجام کو دیکھ کر ووٹ دے، محض رسمی مروت یا کسی طمع و خوف کی وجہ سے اپنے آپ کو اس وبال میں مبتلا نہ کرے۔
دوسری حیثیت ووٹ کی ”شفاعت“ یعنی ”سفارش“ ہے کہ ووٹر اس کی نمائندگی کی سفارش کرتا ہے، اس سفارش کے بارہ میں قرآن کریم کا یہ ارشاد ہر ووٹر کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے:۔
مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً یَّکُنْ لَّہ نَصِیْبٌ مِّنْھَا وَ مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً یَّکُنْ لَّہ کِفْلٌ مِّنْھَا (۱)۔
یعنی ”جو شخص اچھی سفارش کرتا ہے، اس میں اس کو بھی حصہ ملتا ہے، اور بری سفارش کرتا ہے، تو اس کی برائی میں اس کا بھی حصہ لگتا ہے“۔ اچھی سفارش یہی ہے کہ قابل اور دیانت دار آدمی کی سفارش کرے، جو خلقِ خدا کے حقوق صحیح طور پر ادا کرے، اور بری سفارش یہ ہے کہ نااہل، نالائق، فاسق ظالم کی سفارش کر کے اس کو خلقِ خدا پر مسلط کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے ووٹوں سے کامیاب ہونے والا امیدوار اپنے پنج سالہ دور میں جو نیک یا بد عمل کرے گا، ہم بھی اس کے شریک سمجھے جائیں گے۔
حاشیہ(۱):سورة النساء:۸۵۔
ووٹ کی ایک تیسری شرعی حیثیت ”وکالت“ کی ہے کہ ووٹ دینے والا اس امیدوار کو اپنا نمائندہ اور وکیل بناتا ہے، لیکن اگر یہ وکالت اس کے کسی شخصی حق کے متعلق ہوتی، اور اس کا نفع نقصان صرف اس کی ذات کو پہنچتا تو اس کا یہ خود ذمہ دار ہوتا، مگر یہاں ایسا نہیں کیونکہ یہ وکالت ایسے حقوق کے متعلق ہے، جن میں اس کے ساتھ پوری قوم شریک ہے، اس لیے اگر کسی نا اہل کو اپنی نمائندگی کےلئے ووٹ دے کر کامیاب بنایا تو پوری قوم کے حقوق پامال کرنے کا گناہ بھی اس کی گردن پر رہا۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہمارا ووٹ تین حیثیتیں رکھتا ہے: ایک شہادت، دوسرے سفارش، تیسرے حقوق مشترکہ میں وکالت، تینوں حیثیتوں میں جس طرح نیک، صالح، قابل آدمی کو ووٹ دےنا موجب ثواب عظیم ہے، اور اس کے ثمرات اس کو ملنے والے ہیں، اس طرح نااہل یا غیر متدین شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت بھی ہے اور بری سفارش بھی اور ناجائز وکالت بھی اورا س کے تباہ کن ثمرات بھی اس کے نامۂ اعمال میں لکھے جائیں گے۔
ضروری تنبیہ:۔
مذکورہ الصدر بیان میں جس طرح قرآن و سنت کی رُو سے یہ واضح ہوا کہ نا اہل، ظالم، فاسق اور غلط آدمی کو ووٹ دینا گناہ عظیم ہے اسی طرح ایک اچھے نیک اور قابل آدمی کو ووٹ دینا ثواب عظیم ہے بلکہ ایک فریضہ شرعی ہے، قرآن کریم نے جیسے جھوٹی شہادت کو حرام قرار دیا ہے، اسی طرح سچی شہادت کو واجب و لازم بھی فرمایا ہے۔ ارشاد باری ہے:۔
کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآءَ بِالْقِسْطِ (۱)۔
اور دوسری جگہ ارشاد ہے:۔
کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآءَ لِلّٰہِ (۲)۔
ان دونوں آیتوں میں مسلمانوں پر فرض کیا ہے کہ سچی شہادت سے جان نہ چرائیں، اللہ کے لیے ادائیگی شہادت کے واسطے کھڑے ہو جائیں۔ تیسری جگہ سورة طلاق میں ارشاد ہے:۔
وَاَقِیْمُوا الشَّہَادَۃَ لِلّٰہِ (۳)۔
یعنی اللہ کےلئے سچی شہادت کو قائم کرو، ایک آیت میں یہ ارشاد فرمایا کہ سچی شہادت کو چھپانا حرام اور گناہ ہے، ارشاد ہے:۔
وَ لَا تَکْتُمُوا الشَّھَادَۃَ وَ مَنْ یَّکْتُمْھَا فَاِنَّہ اٰثِمٌ قَلْبُہٗ (۴)۔
یعنی شہادت کو نہ چھپاؤ اور جو چھپائے گا، اس کا دل گناہ گار ہے۔
حاشیہ(۱):ترجمہ:”کھڑے ہو جایا کرواللہ کے واسطے گواہی دینے کو انصاف کی“۔(سورة المائدہ:۸)۔
۔(۲):ترجمہ:”قائم رہو انصاف پر گواہی دو اللہ کی طرف“۔(سورة النساء:۱۳۵)۔
۔(۳):سورة الطّلاق:۲۔
۔(۴):سورة البقرہ:۲۸۳۔
ان تمام آیات نے مسلمانوں پر یہ فریضہ عائد کر دیا ہے کہ سچی گواہی سے جان نہ چرائیں، ضرور ادا کریں، آج جو خرابیاں انتخابات میں پیش آ رہی ہیں، ان کی بڑی وجہ یہ بھی ہے، کہ نیک صالح حضرات عموماً ووٹ دینے ہی سے گریز کرنے لگے جس کا لازمی نتیجہ وہ ہوا جو مشاہدہ میں آ رہا ہے، کہ ووٹ عموماً ان لوگوں کے آتے ہیں جو چند ٹکٹوں میں خرید لیے جاتے ہیں، اور ان لوگوں کے ووٹوں سے جو نمائندے پوری قوم پر مسلط ہوتے ہیں، وہ ظاہر ہے، کہ کس قماش اور کس کردار کے لوگ ہوں گے، اس لیے جس حلقہ میں کوئی بھی امیدوار قابل اور نیک معلوم ہو، اسے ووٹ دینے سے گریز کرنا بھی شرعی جرم اور پوری قوم و ملت پر ظلم کا مرادف ہے، اور اگر کسی حلقہ میں کوئی بھی امیدوار صحیح معنی میں قابل اور دیانت دار نہ معلوم ہو، مگر ان میں سے کوئی ایک صلاحیت کار اور خدا ترسی کے اصول پر دوسروں کی نسبت سے غنیمت ہو، تو تقلیل شر اور تقلیل ظلم کی نیت سے اس کو بھی ووٹ دے دینا جائز بلکہ مستحسن ہے، جیسا کہ نجاست کے پورے ازالہ پر قدرت نہ ہونے کی صورت میں تقلیل نجاست کو اور پورے ظلم کو دفع کرنے کا اختیار نہ ہونے کی صورت میں تقلیل ظلم کو فقہاءرحمہم اللہ نے تجویز فرمایا ہے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم
۔(از:جواہر الفقہ:۵؍۵۳۱۔۵۳۶)۔
لنک
 

یوسف-2

محفلین
کس کی مانیں کس کی نہ مانیں ؟؟؟
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟؟؟؟
قرآن اور حدیث سے پوچھ لیجئے کہ کس کی مانیں :)

﴿وَمَن يُشاقِقِ الرَّ‌سولَ مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُ الهُدىٰ وَيَتَّبِع غَيرَ‌ سَبيلِ المُؤمِنينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلّىٰ وَنُصلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَساءَت مَصيرً‌ا ١١٥﴾... سورة النساء

''جو شخص رسول کی مخالفت کرے او رمسلمانوں کا راستہ چھوڑ کر کسی او رراستے پر چلے جبکہ اس پر صحیح راستہ واضح ہوچکا تھا تو اُسے ہم اُسی طرف پھیر دیں گے جدھر وہ خود پھر گیا او راسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے۔''

اس آیت میں مسلمانوں کے راستے یا طریقے کو صحیح قرار دیا گیا ہے او راس کے خلاف چلنے پر دوزخ کی وعید ہے۔ اب جس چیز پر مسلمان متفق ہوجائیں گے وہی اُن کا راستہ اور طریقہ ہے او ریہی اجماعِ اُمّت ہے جس کی خلاف ورزی گمراہی بھی ہے اور دوزخ میں جانے کا سبب بھی۔ابن ماجہ کی ایک حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«إن اُمّتي لا تجتمع على ضلالة»

''بےشک میری اُمّت گمراہی پر کبھی متفق نہ ہوگی۔''

اس حوالے سے حضرت عبداللہ بن مسعود کا یہ قول ہے:

«ما رأه المسلمون حسنًا فهو عند الله حسن»

''جس بات کوسب مسلمان اچھا سمجھیں، وہ اللہ کے ہاں بھی اچھی ہے۔''

اس تفصیل سے واضح ہوجاتا ہے کہ اجماعِ اُمّت کا راستہ ہدایت کا راستہ ہے اوراس کی خلاف ورزی کرنا گمراہی ہے۔

انتخابات میں ووٹ ڈالنا گناہ جاریہ ہے = یہ ایک عالم کا انفرادی فتویٰ ہے
ووٹ شرعی فریضہ ہے= یہ علما کونسل کا اجتماعی فتویٰ ہے
اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم قرآن و حدیث پر عمل کرتے ہوئے ”اجماع امت“ کی بات مانیں یا اجماع امت کے برخلاف ایک انفرادی فتویٰ کو اہمیت دیں۔:)

شمشاد نیرنگ خیال عاطف بٹ @
 

یوسف-2

محفلین
یہ کینیڈا والا بابا مفت مین شور پا رہا ہے اس کی بات نا سنو اپنا اپنا کام کرو بس
یہ آپ کی خوش فہمی (یا غلط فہمی :mrgreen: ) ہے کہ باباجی ”مفت“ میں شور پارہے ہیں۔ مفت میں تو بس کا کلینر بھی شور نہیں مچاتا۔ کنڈکٹر سے اپنا حصہ لے کر ہی صدر- ٹیشن، صدر- ٹیشن کا شور پاتا ہے۔ کیا سمجھے۔:p
 

مہ جبین

محفلین
قرآن اور حدیث سے پوچھ لیجئے کہ کس کی مانیں :)

﴿وَمَن يُشاقِقِ الرَّ‌سولَ مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُ الهُدىٰ وَيَتَّبِع غَيرَ‌ سَبيلِ المُؤمِنينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلّىٰ وَنُصلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَساءَت مَصيرً‌ا ١١٥﴾... سورة النساء

''جو شخص رسول کی مخالفت کرے او رمسلمانوں کا راستہ چھوڑ کر کسی او رراستے پر چلے جبکہ اس پر صحیح راستہ واضح ہوچکا تھا تو اُسے ہم اُسی طرف پھیر دیں گے جدھر وہ خود پھر گیا او راسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے۔''

اس آیت میں مسلمانوں کے راستے یا طریقے کو صحیح قرار دیا گیا ہے او راس کے خلاف چلنے پر دوزخ کی وعید ہے۔ اب جس چیز پر مسلمان متفق ہوجائیں گے وہی اُن کا راستہ اور طریقہ ہے او ریہی اجماعِ اُمّت ہے جس کی خلاف ورزی گمراہی بھی ہے اور دوزخ میں جانے کا سبب بھی۔ابن ماجہ کی ایک حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«إن اُمّتي لا تجتمع على ضلالة»

''بےشک میری اُمّت گمراہی پر کبھی متفق نہ ہوگی۔''

اس حوالے سے حضرت عبداللہ بن مسعود کا یہ قول ہے:

«ما رأه المسلمون حسنًا فهو عند الله حسن»

''جس بات کوسب مسلمان اچھا سمجھیں، وہ اللہ کے ہاں بھی اچھی ہے۔''

اس تفصیل سے واضح ہوجاتا ہے کہ اجماعِ اُمّت کا راستہ ہدایت کا راستہ ہے اوراس کی خلاف ورزی کرنا گمراہی ہے۔

انتخابات میں ووٹ ڈالنا گناہ جاریہ ہے = یہ ایک عالم کا انفرادی فتویٰ ہے
ووٹ شرعی فریضہ ہے= یہ علما کونسل کا اجتماعی فتویٰ ہے
اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم قرآن و حدیث پر عمل کرتے ہوئے ”اجماع امت“ کی بات مانیں یا اجماع امت کے برخلاف ایک انفرادی فتویٰ کو اہمیت دیں۔:)

شمشاد نیرنگ خیال عاطف بٹ @
یوسف-2 بھائی آپ کے پہلے والے مراسلے کو پڑھ کر میں نے لکھا تھا کہ "کس کی مانیں کس کی نہ مانیں "
مفتی صاحب کے فتوے والا مراسلہ بعد میں دیکھا
لیکن وہ تو انہوں نے 1960 میں اس زمانے کے امیدواروں کو دیکھتے ہوئے فرمایا تھا
اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ مفتی صاحب نے جو جو شرائط ووٹ ڈالنے والوں کے لئے بیان کیں اور جو جو ووٹ لینے والوں کی اہلیت کے لئے معیارات بیان فرمائے ہیں وہ یقیناً شریعت کی روشنی میں ہی بیان کئے لیکن اب نہ ووٹ ڈالنے والے ایسے رہے اور نہ ہی ووٹ لینے والے ایسی اہلیت کے حامل ہیں
کوئی ایک امیدوار بھی ہمیں شریعت کی مقرر کردہ شرائط پر پورا اترتا دکھائی نہیں دیتا
ایسی صورتحال میں سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کو ووٹ دیں اور کس کو نہ دیں ؟؟؟؟؟؟
ابھی تو ہر کوئی معصوم مسکین اور بھیگا بلا بنا نظر آئے گا لیکن جن کو ہم آزما چکے انکو آزمانا جہالت اور جو باقی ہیں وہ بھی انہی کے چمچے ہیں چاہے حقیقت میں وہ ایک دوسرے کی مخالفت ہی کیوں نہ کر رہے ہوں لیکن سب ایک ہی تھیلے کے چٹے بٹے ہیں
جب ایسی گمبھیر صورتحال ہو تو پھر عوام کو کیا کرنا چاہئے؟ اپنے ووٹوں کا استعمال کریں تو بھی نااہل لوگ آئیں اور نہ کریں تب بھی بوگس ووٹنگ کے ذریعے کرپٹ لوگ آجائیں تو ایسے میں عوام کیا کریں ؟ کہاں جائیں؟

میرے کہنے کا مطلب اصل میں یہی تھا کہ اس صورتحال سے کیسے نمٹا جائے؟؟؟؟
 

یوسف-2

محفلین
یوسف-2 بھائی آپ کے پہلے والے مراسلے کو پڑھ کر میں نے لکھا تھا کہ "کس کی مانیں کس کی نہ مانیں "
مفتی صاحب کے فتوے والا مراسلہ بعد میں دیکھا
لیکن وہ تو انہوں نے 1960 میں اس زمانے کے امیدواروں کو دیکھتے ہوئے فرمایا تھا
اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ مفتی صاحب نے جو جو شرائط ووٹ ڈالنے والوں کے لئے بیان کیں اور جو جو ووٹ لینے والوں کی اہلیت کے لئے معیارات بیان فرمائے ہیں وہ یقیناً شریعت کی روشنی میں ہی بیان کئے لیکن اب نہ ووٹ ڈالنے والے ایسے رہے اور نہ ہی ووٹ لینے والے ایسی اہلیت کے حامل ہیں
کوئی ایک امیدوار بھی ہمیں شریعت کی مقرر کردہ شرائط پر پورا اترتا دکھائی نہیں دیتا
ایسی صورتحال میں سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کو ووٹ دیں اور کس کو نہ دیں ؟؟؟؟؟؟
ابھی تو ہر کوئی معصوم مسکین اور بھیگا بلا بنا نظر آئے گا لیکن جن کو ہم آزما چکے انکو آزمانا جہالت اور جو باقی ہیں وہ بھی انہی کے چمچے ہیں چاہے حقیقت میں وہ ایک دوسرے کی مخالفت ہی کیوں نہ کر رہے ہوں لیکن سب ایک ہی تھیلے کے چٹے بٹے ہیں
جب ایسی گمبھیر صورتحال ہو تو پھر عوام کو کیا کرنا چاہئے؟ اپنے ووٹوں کا استعمال کریں تو بھی نااہل لوگ آئیں اور نہ کریں تب بھی بوگس ووٹنگ کے ذریعے کرپٹ لوگ آجائیں تو ایسے میں عوام کیا کریں ؟ کہاں جائیں؟
میرے کہنے کا مطلب اصل میں یہی تھا کہ اس صورتحال سے کیسے نمٹا جائے؟؟؟؟
یہاں اس ”اصول“ کواستعمال کیا جاسکتا ہے کہ اگر دو برائیوں (یا دو گناہوں) میں سے لازماًکسی ایک کو اختیار کرنا پڑے تو نسبتاً چھوٹی برائی کو اختیار کر لیں۔ آج کے امیدواروں کی برائیوں کی فہرست بنالیں (جو میڈیا کی بدولت اب عام ہیں) اور جن جن امیدواروں میں کم سے کم برائیاں ہیں، انہیں ووٹ ڈالیں (کہ ووٹ ڈالنا شرعی فریضہ ہے اورووٹ نہ ڈالنا شہادت چھپانا) تاکہ زیادہ برے لوگ برسر اقتدار نہ آسکیں۔
واللہ اعلم بالصواب
 

نایاب

لائبریرین
اسلام میں یہ " جمہوریت " ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ بندوں کو گنو اور تولو نہیں ۔ جو اپنے ساتھ زیادہ لوگ لے آئے وہی سچا ۔۔۔۔۔؟
اب چاہے اس نے لالچ و ظلم کو اپنا ہتھیار بنایا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے اس جمہوریت کو اسلام کے دامن سجائیں پھر اس کو رواں رکھنے کے لیئے شہادت حق کو بنیاد بنائیں ۔
قادری صاحب نے درست کہا جو ان کرپٹ اور مشہور مفاد پرستوں کو ووٹ دے گا ۔ وہ " گناہ جاریہ " کا سبب ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔
 

یوسف-2

محفلین
قادری صاحب نے یہ کہا ہے کہ : اس الیکشن میں ووٹ ڈالنے والے گناہ جاریہ کے مستحق ہوں گے:)
جبکہ علما کونسل کہتی ہے کہ:
ووٹ دینا شرعی فریضہ ہے،

اب ایک طرف ایک متنازعہ عالم کا انفرادی فتویٰ ہےاور دوسری طرف ایک علما کونسل کا اجتماعی فتویٰ ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی عوام مجوعی طور پر کس فتویٰ کو قبول کرتی ہے۔ :)
 
11مئی کو ووٹ ڈالنے والوں کو گناہ جاریہ ملے گا، طاہرالقادری
headlinebullet.gif
shim.gif
dot.jpg
shim.gif
77072_l.jpg
ماموں کانجن (نمائندہ جنگ) پاکستان عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا ہے کہ موجودہ کرپٹ اور غیر آئینی نظام انتخاب کے تحت ہونے والے عام انتخابات میں ووٹ ڈالنا ظلم کا ساتھ دینا ہے اس الیکشن میں ووٹ ڈالنے والے گناہ جاریہ کے مستحق ہوں گے، موجودہ نظام انتخاب کے ذریعے تبدیلی انقلاب لانا ممکن نہیں، تبدیلی کا نعرہ لگاکے موجودہ الیکشن میں حصہ لینے والوں کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا، کارکن ووٹ نہیں ڈالیں گے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار عالمی ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ عوامی تحریک کی رکنیت سازی پر بھرپور توجہ دیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو موجودہ کرپٹ نظام انتخاب کے ذریعے قائم ہونے والی حکومت کے مضر اثرات سے آگاہ کریں تاہم دھرنوں میں تحریکی کارکن سول سوسائٹی کے لوگوں کی بھرپور شرکت کو یقینی بنائیں۔ انہوں نے ہدایت کی ہے کہ کوئی تحریکی کارکن متوقع عام انتخابات میں اپنا اور اپنی فیملی کا ووٹ کاسٹ نہیں کرے گا۔



ووٹ شرعی فریضہ ہے، علما کونسل کا فتویٰ

news.php

لنک:
http://ummatpublication.com/2013/04/13/news.php?p=news-14.gif
جب ڈاکٹر قادری خود اس سسٹم کا حصہ تھے اس وقت تو یہ شرعی فریضہ ہی تھا۔ مگر اب خدا جانے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

حسینی

محفلین
یہاں اس ”اصول“ کواستعمال کیا جاسکتا ہے کہ اگر دو برائیوں (یا دو گناہوں) میں سے لازماًکسی ایک کو اختیار کرنا پڑے تو نسبتاً چھوٹی برائی کو اختیار کر لیں۔ آج کے امیدواروں کی برائیوں کی فہرست بنالیں (جو میڈیا کی بدولت اب عام ہیں) اور جن جن امیدواروں میں کم سے کم برائیاں ہیں، انہیں ووٹ ڈالیں (کہ ووٹ ڈالنا شرعی فریضہ ہے اورووٹ نہ ڈالنا شہادت چھپانا) تاکہ زیادہ برے لوگ برسر اقتدار نہ آسکیں۔
واللہ اعلم بالصواب

آپ کی اس بات سے سو فی صد متفق ہوں۔۔۔۔
اگر ہم نسبتا اچھے لوگوں کو ووٹ نہیں دیں گے تو برے لوگ اسمبلی میں پہنچ جائیں گے۔۔۔
لہذا ایسے افراد کو ووٹ دیں جو معتدل فکر رکھتے ہوں۔۔۔ پاکستان سے مخلص ہو۔۔۔ اور دہشت گرد گروپس سے اس کا تعلق نہ ہو۔
شکریہ
 
یہاں اس ”اصول“ کواستعمال کیا جاسکتا ہے کہ اگر دو برائیوں (یا دو گناہوں) میں سے لازماًکسی ایک کو اختیار کرنا پڑے تو نسبتاً چھوٹی برائی کو اختیار کر لیں۔ آج کے امیدواروں کی برائیوں کی فہرست بنالیں (جو میڈیا کی بدولت اب عام ہیں) اور جن جن امیدواروں میں کم سے کم برائیاں ہیں، انہیں ووٹ ڈالیں (کہ ووٹ ڈالنا شرعی فریضہ ہے اورووٹ نہ ڈالنا شہادت چھپانا) تاکہ زیادہ برے لوگ برسر اقتدار نہ آسکیں۔
واللہ اعلم بالصواب

یہ اصول نہ تو قابل عمل ہے ، نہ ہی دانش مندانہ ہے۔ برائی ہمیشہ برائی ہی ہوتی ہے خواہ چھوٹی ہو یا بڑی ۔
شراب حرام ہے خواہ ایک قطرہ ہو یا پورا گلاس۔
ہم اس برائی کا بائیکاٹ کر کے اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی جدو جہد کیوں نہیں کرتے۔
اور ووٹ ڈال کر اس کرپٹ نظام کا حصہ بننے پر ہمیں کون مجبور کر رہا ہے۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
اسلام میں یہ " جمہوریت " ہے کہ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ بندوں کو گنو اور تولو نہیں ۔ جو اپنے ساتھ زیادہ لوگ لے آئے وہی سچا ۔۔۔ ۔۔؟
اب چاہے اس نے لالچ و ظلم کو اپنا ہتھیار بنایا ہو ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
پہلے اس جمہوریت کو اسلام کے دامن سجائیں پھر اس کو رواں رکھنے کے لیئے شہادت حق کو بنیاد بنائیں ۔
قادری صاحب نے درست کہا جو ان کرپٹ اور مشہور مفاد پرستوں کو ووٹ دے گا ۔ وہ " گناہ جاریہ " کا سبب ہوگا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
قادری صاحب نے بلا شبہ سچ کہا ہے مگر یہ سچ محض اس بار ہی کیوں کہا؟؟؟؟
آج سے پہلے تک بھی یہی نظام اور یہی کرپٹ لوگ سیاستدان تھے اور خود قادری صاحب اور انکی جماعت بھی اس سارے نظام کا حصہ تھی تو پھر وہ ایسی کیا خاص بات ہوگئی کہ محض اسی مرتبہ ووٹ ڈالنے پر گناہ جاریہ کا اعلان و اطلاق اور آج سے پہلے 65 سالہ دور کو پاک و پوتر قرار دے دیا جائے ایں چہ بوالعجبی است؟؟؟؟
 

نایاب

لائبریرین
قادری صاحب نے بلا شبہ سچ کہا ہے مگر یہ سچ محض اس بار ہی کیوں کہا؟؟؟؟
آج سے پہلے تک بھی یہی نظام اور یہی کرپٹ لوگ سیاستدان تھے اور خود قادری صاحب اور انکی جماعت بھی اس سارے نظام کا حصہ تھی تو پھر وہ ایسی کیا خاص بات ہوگئی کہ محض اسی مرتبہ ووٹ ڈالنے پر گناہ جاریہ کا اعلان و اطلاق اور آج سے پہلے 65 سالہ دور کو پاک و پوتر قرار دے دیا جائے ایں چہ بوالعجبی است؟؟؟؟

ملک کی ان بزعم خود وفاداروں کے سوراخوں سے بار بار ڈسے جانے کے بعد یہ آگہی ملی ہے کہ یہ سب چور لٹیرے مفاد پرست ہیں ۔
جو کھاتے پاکستان کا ہیں اور اسے لوٹتے بھی دونوں ہاتھوں سے ہیں ۔۔۔
اور میرے بھائی " جہاں جاگو وہیں سویرا " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
ملک کی ان بزعم خود وفاداروں کے سوراخوں سے بار بار ڈسے جانے کے بعد یہ آگہی ملی ہے کہ یہ سب چور لٹیرے مفاد پرست ہیں ۔
جو کھاتے پاکستان کا ہیں اور اسے لوٹتے بھی دونوں ہاتھوں سے ہیں ۔۔۔
اور میرے بھائی " جہاں جاگو وہیں سویرا " ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
جہاں جاگو وہیں سویرا تو بالکل درست اور سو فیصدی متفق ہوں اس بات سے ، مگر قادری صاحب کے معاملے میں یہ مثال درست معلوم نہیں ہوتی بڑا حسن ظن بھی رکھوں تو انگور کٹھے ہیں والی مثال ہی قرین قیاس معلوم ہوتی ہے معذرت کہ ساتھ قادری صاحب کا وطیرہ بن گیا ہے خود کو متنازعہ ترین ثابت کرنے اور خود کا مذاق اڑوانے کا ۔۔باقی آپ خود سمجھدار ہیں ۔۔والسلام
 

یوسف-2

محفلین
یہ اصول نہ تو قابل عمل ہے ، نہ ہی دانش مندانہ ہے۔ برائی ہمیشہ برائی ہی ہوتی ہے خواہ چھوٹی ہو یا بڑی ۔
شراب حرام ہے خواہ ایک قطرہ ہو یا پورا گلاس۔
ہم اس برائی کا بائیکاٹ کر کے اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی جدو جہد کیوں نہیں کرتے۔
اور ووٹ ڈال کر اس کرپٹ نظام کا حصہ بننے پر ہمیں کون مجبور کر رہا ہے۔
آپ نے غالباً میرا جواب غور سے نہیں پڑھا۔ :p میں نے لکھا تھا کہ
اگر دو برائیوں (یا دو گناہوں) میں سے لازماًکسی ایک کو اختیار کرنا پڑے تو :)
یہ ایک فقہی مسئلہ ہے (خواہ آپ اسے مانیں یا نہ مانیں) اور فقہا نے ہی یہ بتلایا ہے کہ اگردو گناہوں میں سے لازماً آپ کو ایک گناہ ”اختیار“ کرنا پڑے تو چھوٹے گناہ کو ناپسند کرتے ہوئے اسے محض اس لئے قبول کرلیں تاکہ بڑے گناہ سے بچ سکیں۔ مثلاً آپ اپنی والدہ کے ساتھکار میں کہیں جارہے ہوں اور سامنے کوئی بدمعاش کسی لڑکی کو اغوا کررہاہو اور آپ اُس لڑکی کو اغوا ہونے سے بچانے کی طاقت رکھتے ہوں اور اسی نیت سے بدمعاش کو روکنے کے لئے آگے بڑھتے ہوں اور آپ کی والدہ بدمعاش سے الجھنے کو آپ کے لئے خطرہ جان کر آپ کو حکم دے کہ تم اس معاملہ میں نہ پڑو۔ اب اگر آپ والدہ کی بات مانتے ہیں تو اپنے سامنے ایک لڑکی کو اغوا ہونے سے روکنے کی اہلیت رکھنے کے باوجود ایسا نہ کر کے، ایک ”بڑے گناہ“ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ لیکن اگر اگر آپ والدہ کا حکم نہ مان کر لڑکی کو بچا لیتے ہیں اور اسے محفوط طریقہ سے گھر چھوڑ آتے ہیں تو آپ اس ”بڑے گناہ“ سے تو بچ جائیں گے لیکن والدہ کی نافرمانی کے نسبتاً ”چھوٹے گناہ“ سے نہیں بچ سکیں گے۔ اب یہ آپ کی ”عقل اور دانش“ پر منحصر ہے کہ آپ والدہ کا حکم ماننے کو ترجیح دیتے ہیں یا ایک بے گناہ لڑکی عزت و آبرو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔:)


موجودہ الیکشن بقول آپ کے (اور علامہ طاہر القادری کے) ایک برائی ہے، جس کا بائیکاٹ کرنا چاہئے۔ دوسری طرف علماء کی ایک کونسل کہتی ہے کہ ووٹ دینا ایک شرعی فریضہ ہے۔ تیسسری طرف یہ ایک زمینی حقیقت ہے کہ اگر آپ جیسے دیانتدار اور مخلص ووٹرز کی ایک بڑی تعداد ووٹ نہیں ڈالتی (جو کبھی بھی قاتلوں، غیر ملکی ایجنٹوں، اور اربوں میں ملکی دولت لوٹنے والوں کو ووٹ نہیں ڈال سکتی) تو انہی ”بڑے لٹیروں“ کے منتخب ہونے کے چانسز بہت زیادہ ہیں۔ اب آپشن آپ کے ہاتھ میں ہے۔ شوق سے بائیکاٹ کرکے بالواسطہ ایسے ہی لوگوں کو منتخب ہونے میں ”مدد“ کیجئے۔ :)

یہاں اس ”اصول“ کواستعمال کیا جاسکتا ہے کہ اگر دو برائیوں (یا دو گناہوں) میں سے لازماًکسی ایک کو اختیار کرنا پڑے تو نسبتاً چھوٹی برائی کو اختیار کر لیں۔ آج کے امیدواروں کی برائیوں کی فہرست بنالیں (جو میڈیا کی بدولت اب عام ہیں) اور جن جن امیدواروں میں کم سے کم برائیاں ہیں، انہیں ووٹ ڈالیں (کہ ووٹ ڈالنا شرعی فریضہ ہے اورووٹ نہ ڈالنا شہادت چھپانا) تاکہ زیادہ برے لوگ برسر اقتدار نہ آسکیں۔
واللہ اعلم بالصواب
 
مُلکِ پاکستان میں ان دنوں الیکشن ہونے والے ہیں، اسی مناسبت سے شیخ المشائخ فقیہ العصر مفتیٔ اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کا ایک بہت اہم مضمون پیشِ خدمت کرنا چاہتا ہوں جو شعان المعظم ۱۳۸۰اھ (مطابق ۱۹۶۰ ء) میں لکھا گیا تھا۔
اور جس شخص میں اس کام کی صلاحیت ہی نہیں وہ اگر اُمیدوار ہو کر کھڑا ہو تو ”قوم کا غدار اور خائن“ ہے اس کا ممبری میں کامیاب ہونا ملک و ملت کے لیے خرابی کا سبب تو بعد میں بنے گا، پہلے تو وہ خود غدر و خیانت کا مجرم ہو کر عذاب جہنم کا مستحق بن جائے گا، اب ہر وہ شخص جو کسی مجلس کی ممبری کے لیے کھڑا ہوتا ہے، اگر اس کو کچھ آخرت کی بھی فکر ہے تو اس میدان میں آنے سے پہلے خود اپنا جائزہ لے لے، اور یہ سمجھ لے کہ اس ممبری سے پہلے تو اس کی ذمہ داری صرف اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال ہی تک محدود تھی، کیونکہ بنص حدیث ہر شخص اپنے اہل و عیال کا بھی ذمہ دار ہے، اور اب کسی مجلس کی ممبری کے بعد جتنی خلق خدا کا تعلق اس مجلس سے وابستہ ہے، اُن سب کی ذمہ داری کا بوجھ اُس کی گردن پر آتا ہے، اور وہ دنیا و آخرت میں اس ذمہ داری کا مسئول اور جواب دہ ہے۔
ضروری تنبیہ:۔
مذکورہ الصدر بیان میں جس طرح قرآن و سنت کی رُو سے یہ واضح ہوا کہ نا اہل، ظالم، فاسق اور غلط آدمی کو ووٹ دینا گناہ عظیم ہے اسی طرح ایک اچھے نیک اور قابل آدمی کو ووٹ دینا ثواب عظیم ہے
 
Top