مُلکِ پاکستان میں ان دنوں الیکشن ہونے والے ہیں، اسی مناسبت سے شیخ المشائخ فقیہ العصر مفتیٔ اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کا ایک بہت اہم مضمون پیشِ خدمت کرنا چاہتا ہوں جو شعان المعظم ۱۳۸۰اھ (مطابق ۱۹۶۰ ء) میں لکھا گیا تھا۔
اسمبلی، کونسل یا کسی دوسرے ادارے کے انتخابات میں کسی شخص کو کس صورت میں اُمیدوار ہونا چاہیے۔ نیز کسی اُمیدوار کے حق میں ووٹر کو اپنا ووٹ کس طرح استعمال کرنا چاہیے۔ عام طور پر لوگ اس کو ذاتی اور نجی معاملہ سمجھتے ہیں حالانکہ یہ خالص دینی معاملہ ہے۔ پیشِ نظر مضمون میں ان دونوں طبقوں کے شرعی فرائض کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔اس مضمون کی اہمیت پڑھنے کے بعد معلوم ہو گی کہ کس طرح حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ نے اختصار مگر جامعیت کے ساتھ نہایت سادہ انداز اور دردِ دل سے لکھا ہے۔
انتخابات میں ووٹ، ووٹر اور اُمیدوار کی شرعی حیثیت
آج کی دنیا میں اسمبلیوں، کونسلوں، میونسپل وارڈوں اور دوسری مجالس اور جماعتوں کے انتخابات میں جمہوریت کے نام پر جو کھیل کھیلا جا رہا ہے کہ زور و زر اور غنڈہ گردی کے سارے طاغوتی وسائل کا استعمال کر کے یہ چند روزہ موہوم اعزاز حاصل کیا جاتا ہے اور اس کے عالم سوز نتائج ہر وقت آنکھوں کے سامنے ہیں اور ملک و ملت کے ہمدرد و سمجھدار انسان اپنے مقدور بھر اس کی اصلاح کی فکر میں بھی ہیں، لیکن عام طور پر اس کو ایک ہار جیت کا کھیل اور خالص دنیاوی دھندہ سمجھ کر ووٹ لیے اور دیئے جاتے ہیں، لکھے پڑھے دیندار مسلمانوں کو بھی اس طرف توجہ نہیں ہوتی کہ یہ کھیل صرف ہماری دنیا کے نفع نقصان اور آبادی یا بربادی تک نہیں رہتا، بلکہ اس کے پیچھے کچھ طاعت و معصیت اور گناہ و ثواب بھی ہے، جس کے اثرات اس دنیا کے بعد بھی یا ہمارے گلے کا ہار عذاب جہنم بنیں گے یا پھر درجاتِ جنت اور نجاتِ آخرت کا سبب بنیں گے، اور اگرچہ آج کل اس اکھاڑہ کے پہلوان اور اس میدان کے مرد، عام طور پر وہی لوگ ہیں جو فکرِ آخرت اور خدا و رسول کی طاعت و معصیت سے مطلقاً آزاد ہیں اور اس حالت میں اُن کے سامنے قرآن و حدیث کے احکام پیش کرنا ایک بے معنی و عبث فعل معلوم ہوتا ہے، لیکن اسلام کا ایک یہ بھی معجزہ ہے کہ مسلمانوں کی پوری جماعت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوتی، ہر زمانہ اور ہر جگہ کچھ لوگ حق پرست بھی قائم رہتے ہیں جن کو اپنے ہر کام میں حلال و حرام کی فکر اور خدا اور رسول کی رضا جوئی پیش نظر رہتی ہے، نیز قرآن کریم کا یہ بھی ارشاد ہے:
وَ ذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ (۱)۔
یعنی ”آپ نصیحت کی بات کہتے رہیں کیونکہ نصیحت مسلمانوں کو نفع دیتی ہے“، اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ انتخابات میں اُمیدواری اور ووٹ کی شرعی حیثیت اور اُن کی اہمیت کو قرآن اور سنت کی رو سے واضح کر دیا جائے شاید کچھ بندگانِ خدا کو تنبیہ ہو اور کسی وقت یہ غلط کھیل صحیح بن جائے۔
حاشیہ(۱): سورة الذاریات:۵۵۔
اُمیدواری:۔
کسی مجلس کی ممبری کے انتخابات کے لیے جو اُمیدوار کی حیثیت سے کھڑا ہو وہ گویا ملت کے سامنے دو چیزوں کا مدعی ہے:۔
ایک یہ کہ وہ اس کام کی قابلیت رکھتا ہے جس کا اُمیدوار ہے۔
دوسرے یہ کہ وہ دیانت و امانت داری سے اس کام کو انجام دے گا۔
اب اگر واقع میں وہ اپنے اس دعویٰ میں سچا ہے یعنی قابلیت بھی رکھتا ہے، اور امانت و دیانت کے ساتھ قوم کی خدمت کے جذبہ سے اس میدان میں آیا، تو اس کا یہ عمل کسی حد تک درست ہے، اور بہتر طریق اس کا یہ ہے کہ کوئی شخص خود مدعی بن کر کھڑا نہ ہو بلکہ مسلمانوں کی کوئی جماعت اس کو اس کام کا اہل سمجھ کر نامزد کر دے، اور جس شخص میں اس کام کی صلاحیت ہی نہیں وہ اگر اُمیدوار ہو کر کھڑا ہو تو ”قوم کا غدار اور خائن“ ہے اس کا ممبری میں کامیاب ہونا ملک و ملت کے لیے خرابی کا سبب تو بعد میں بنے گا، پہلے تو وہ خود غدر و خیانت کا مجرم ہو کر عذاب جہنم کا مستحق بن جائے گا، اب ہر وہ شخص جو کسی مجلس کی ممبری کے لیے کھڑا ہوتا ہے، اگر اس کو کچھ آخرت کی بھی فکر ہے تو اس میدان میں آنے سے پہلے خود اپنا جائزہ لے لے، اور یہ سمجھ لے کہ اس ممبری سے پہلے تو اس کی ذمہ داری صرف اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال ہی تک محدود تھی، کیونکہ بنص حدیث ہر شخص اپنے اہل و عیال کا بھی ذمہ دار ہے، اور اب کسی مجلس کی ممبری کے بعد جتنی خلق خدا کا تعلق اس مجلس سے وابستہ ہے، اُن سب کی ذمہ داری کا بوجھ اُس کی گردن پر آتا ہے، اور وہ دنیا و آخرت میں اس ذمہ داری کا مسئول اور جواب دہ ہے۔
ووٹ اور ووٹر:۔
کسی اُمید وار ممبری کو ووٹ دینے کی ازروئے قرآن و حدیث چند حیثیتیں ہیں:۔
ایک حیثیت ”شہادت“ کی ہے کہ ووٹر جس شخص کو اپنا ووٹ دے رہا ہے، اس کے متعلق اس کی شہادت دے رہا ہے، کہ یہ شخص اس کام کی قابلیت بھی رکھتا ہے، اور دیانت اور امانت بھی اور اگرو اقع میں اس شخص کے اندر یہ صفات نہیں ہیں، اور ووٹر یہ جانتے ہوئے، اس کو ووٹ دیتا ہے، تو وہ ایک جھوٹی شہادت ہے، جو سخت کبیرہ گناہ اور وبال دنیا و آخرت ہے، صحیح بخاری کی حدیث میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”شہادتِ کاذبہ“ کو شرک کے ساتھ کبائر میں شمار فرمایا ہے، (مشکوٰة) اور ایک دوسری حدیث میں جھوٹی شہادت کو اکبر کبائر میں فرمایا ہے، (بخاری و مسلم) جس حلقہ میں چند امیدوار کھڑے ہوں، اور ووٹر کو یہ معلوم ہے کہ قابلیت اور دیانت کے اعتبار سے فلاں آدمی قابل ترجیح ہے، تو اس کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو ووٹ دینا اس اکبر کبائر میں اپنے آپ کو مبتلا کرنا ہے۔ اب ووٹ دینے والا اپنی آخرت اور انجام کو دیکھ کر ووٹ دے، محض رسمی مروت یا کسی طمع و خوف کی وجہ سے اپنے آپ کو اس وبال میں مبتلا نہ کرے۔
دوسری حیثیت ووٹ کی ”شفاعت“ یعنی ”سفارش“ ہے کہ ووٹر اس کی نمائندگی کی سفارش کرتا ہے، اس سفارش کے بارہ میں قرآن کریم کا یہ ارشاد ہر ووٹر کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے:۔
مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً یَّکُنْ لَّہ نَصِیْبٌ مِّنْھَا وَ مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً یَّکُنْ لَّہ کِفْلٌ مِّنْھَا (۱)۔
یعنی ”جو شخص اچھی سفارش کرتا ہے، اس میں اس کو بھی حصہ ملتا ہے، اور بری سفارش کرتا ہے، تو اس کی برائی میں اس کا بھی حصہ لگتا ہے“۔ اچھی سفارش یہی ہے کہ قابل اور دیانت دار آدمی کی سفارش کرے، جو خلقِ خدا کے حقوق صحیح طور پر ادا کرے، اور بری سفارش یہ ہے کہ نااہل، نالائق، فاسق ظالم کی سفارش کر کے اس کو خلقِ خدا پر مسلط کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے ووٹوں سے کامیاب ہونے والا امیدوار اپنے پنج سالہ دور میں جو نیک یا بد عمل کرے گا، ہم بھی اس کے شریک سمجھے جائیں گے۔
حاشیہ(۱):سورة النساء:۸۵۔
ووٹ کی ایک تیسری شرعی حیثیت ”وکالت“ کی ہے کہ ووٹ دینے والا اس امیدوار کو اپنا نمائندہ اور وکیل بناتا ہے، لیکن اگر یہ وکالت اس کے کسی شخصی حق کے متعلق ہوتی، اور اس کا نفع نقصان صرف اس کی ذات کو پہنچتا تو اس کا یہ خود ذمہ دار ہوتا، مگر یہاں ایسا نہیں کیونکہ یہ وکالت ایسے حقوق کے متعلق ہے، جن میں اس کے ساتھ پوری قوم شریک ہے، اس لیے اگر کسی نا اہل کو اپنی نمائندگی کےلئے ووٹ دے کر کامیاب بنایا تو پوری قوم کے حقوق پامال کرنے کا گناہ بھی اس کی گردن پر رہا۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہمارا ووٹ تین حیثیتیں رکھتا ہے: ایک شہادت، دوسرے سفارش، تیسرے حقوق مشترکہ میں وکالت، تینوں حیثیتوں میں جس طرح نیک، صالح، قابل آدمی کو ووٹ دےنا موجب ثواب عظیم ہے، اور اس کے ثمرات اس کو ملنے والے ہیں، اس طرح نااہل یا غیر متدین شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت بھی ہے اور بری سفارش بھی اور ناجائز وکالت بھی اورا س کے تباہ کن ثمرات بھی اس کے نامۂ اعمال میں لکھے جائیں گے۔
ضروری تنبیہ:۔
مذکورہ الصدر بیان میں جس طرح قرآن و سنت کی رُو سے یہ واضح ہوا کہ نا اہل، ظالم، فاسق اور غلط آدمی کو ووٹ دینا گناہ عظیم ہے اسی طرح ایک اچھے نیک اور قابل آدمی کو ووٹ دینا ثواب عظیم ہے بلکہ ایک فریضہ شرعی ہے، قرآن کریم نے جیسے جھوٹی شہادت کو حرام قرار دیا ہے، اسی طرح سچی شہادت کو واجب و لازم بھی فرمایا ہے۔ ارشاد باری ہے:۔
کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآءَ بِالْقِسْطِ (۱)۔
اور دوسری جگہ ارشاد ہے:۔
کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآءَ لِلّٰہِ (۲)۔
ان دونوں آیتوں میں مسلمانوں پر فرض کیا ہے کہ سچی شہادت سے جان نہ چرائیں، اللہ کے لیے ادائیگی شہادت کے واسطے کھڑے ہو جائیں۔ تیسری جگہ سورة طلاق میں ارشاد ہے:۔
وَاَقِیْمُوا الشَّہَادَۃَ لِلّٰہِ (۳)۔
یعنی اللہ کےلئے سچی شہادت کو قائم کرو، ایک آیت میں یہ ارشاد فرمایا کہ سچی شہادت کو چھپانا حرام اور گناہ ہے، ارشاد ہے:۔
وَ لَا تَکْتُمُوا الشَّھَادَۃَ وَ مَنْ یَّکْتُمْھَا فَاِنَّہ اٰثِمٌ قَلْبُہٗ (۴)۔
یعنی شہادت کو نہ چھپاؤ اور جو چھپائے گا، اس کا دل گناہ گار ہے۔
حاشیہ(۱):ترجمہ:”کھڑے ہو جایا کرواللہ کے واسطے گواہی دینے کو انصاف کی“۔(سورة المائدہ:۸)۔
۔(۲):ترجمہ:”قائم رہو انصاف پر گواہی دو اللہ کی طرف“۔(سورة النساء:۱۳۵)۔
۔(۳):سورة الطّلاق:۲۔
۔(۴):سورة البقرہ:۲۸۳۔
ان تمام آیات نے مسلمانوں پر یہ فریضہ عائد کر دیا ہے کہ سچی گواہی سے جان نہ چرائیں، ضرور ادا کریں، آج جو خرابیاں انتخابات میں پیش آ رہی ہیں، ان کی بڑی وجہ یہ بھی ہے، کہ نیک صالح حضرات عموماً ووٹ دینے ہی سے گریز کرنے لگے جس کا لازمی نتیجہ وہ ہوا جو مشاہدہ میں آ رہا ہے، کہ ووٹ عموماً ان لوگوں کے آتے ہیں جو چند ٹکٹوں میں خرید لیے جاتے ہیں، اور ان لوگوں کے ووٹوں سے جو نمائندے پوری قوم پر مسلط ہوتے ہیں، وہ ظاہر ہے، کہ کس قماش اور کس کردار کے لوگ ہوں گے، اس لیے جس حلقہ میں کوئی بھی امیدوار قابل اور نیک معلوم ہو، اسے ووٹ دینے سے گریز کرنا بھی شرعی جرم اور پوری قوم و ملت پر ظلم کا مرادف ہے، اور اگر کسی حلقہ میں کوئی بھی امیدوار صحیح معنی میں قابل اور دیانت دار نہ معلوم ہو، مگر ان میں سے کوئی ایک صلاحیت کار اور خدا ترسی کے اصول پر دوسروں کی نسبت سے غنیمت ہو، تو تقلیل شر اور تقلیل ظلم کی نیت سے اس کو بھی ووٹ دے دینا جائز بلکہ مستحسن ہے، جیسا کہ نجاست کے پورے ازالہ پر قدرت نہ ہونے کی صورت میں تقلیل نجاست کو اور پورے ظلم کو دفع کرنے کا اختیار نہ ہونے کی صورت میں تقلیل ظلم کو فقہاءرحمہم اللہ نے تجویز فرمایا ہے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم
۔(از:جواہر الفقہ:۵؍۵۳۱۔۵۳۶)۔
لنک