صاحبو !
اب ذرا تھوڑا ان واقعات کے تناظر میں غور کیجئے اور کڑیوں کو ملائیے ۔
ہمارے کالج اور یونیورسٹیز سیاسی جماعتوں کے زیر اثر ہیں طلبہ تنظیموں کے نام پر
ہمارے نیوز چینلز بھی سیاسی جماعتوں کے ایجنڈے پر بالواسطہ یا بلا واسطہ کام کرتے ہیں
ہمارے ناظم تک انہی جماعتوں کے اراکین ہیں ۔ ظاہری و باطنی طور پر
یہاں ایک بات واضح ہوگئی اور آگے دیکھتے ہیں۔
قیاس یہ ہے کہ ایک بھاری امداد جو امریکہ بہادر کے جھنڈے تلے اسلام کا سب سے بڑا داعی ہے کے ذریعے ایک خاص جماعت تک بھیجی گئی ہے۔ الیکشن میں یہ جماعت اپنے ماضی کے کرتوتوں پر رسوا ہوکر ہار چکی ہے۔ جہاد کے ذریعے جتنا کمانا تھا کما لیا اب امریکہ اور اس کے حواریوں کو اپنے منتخب شدہ پلان کے مطابق پاکستان میں عیسائیوں کے تحفظ کا نقطہ چاہیئے۔ اب یہ نقطہ کیسے پیدا ہو کہ اس کے ذریعے ایک لکیر اور لکیر کے ذریعے تصویر بنائی جائے۔ تو اس کا سب سے بہترین حل یہ نکلا ہے کہ عرب ممالک جو تمام کے تمام اپنی ناخواندگی اور عیاشی و جہالت کی وجہ سے امریکہ کے غلام بنے ہوئے اور وہاں کی عوام کو ان کے ہاتھوں امریکہ نے مغلوب رکھا ہے۔ ان کے ذریعے ایسی تمام نام نہاد مذہبی جماعتوں امداد فراہم کی جائے جو امریکہ کہ ایجنڈے پر کام کر سکیں۔
ایسی تمام نام نہاد سیاسی جماعتوں کے اپنے اپنے اخبارات بھی ہیں جو ایسی خبریں لگاتے ہیں جو شدت پسندی کو ہوا دیتی ہیں اور مذہبی منافرت پھیلاتی ہیں۔ اور اب یہی سب کچھ ہو رہا ہے۔
غور کیجئے!
جہاد افغانستان کے حوالے سے اگر ماضی میں جایا جائے تو کس مذہبی جماعت نے ہمارے معصوم نوجوانوں کو افغان جنگ میں جھونکا تھا ؟ وہ کونسی مذہبی جماعت تھی جس کو محترم ضیاءالحق نے پورے حقوق دیئے تھے روس کے خلاف امریکی جہاد میں پاکستانی نوجوانوں کو جھونکنے کے ؟ وہ کونسی مذہبی جماعت تھی جس نے سب سے پہلے ہماری درسگاہوں میں کلاشنکوف کلچر متعارف کروایا ؟
ایک بار پھر غور کیجئے ؟ کیوں کہ ہم ماضی کو ایک دم بھول جاتے ہیں
اب وہی جماعت ایک بار پھر ایک نئے امریکی ایجنڈے کے ساتھ حاضر خدمت ہے اور آپ دیکھ لیجئے گا اب یہ لوگ دھرنے دینگے ، لانگ مارچ کرینگے ، امریکہ کہ جھنڈے جلائیں گے، لمبی لمبی ریلیز نکالیں گے اور مگر مچھ کے آنسو بہائیں گے۔ اور یہ وقت اب زیادہ دور نہیں ہے بہت قریب ہے۔ میرے اس پوسٹ کی تاریخ کو یاد رکھئے گا ہوگا وہی جو آج میں لکھ رہی ہوں۔
بھائیو !
نہ تو اسامہ بن لادن کوئی بہت بڑا آدمی تھا اور نہ ہی ملا عمر کی کوئی حیثیت تھی۔ اور نہ ہی القاعدہ کو مٹانا امریکہ کے لئے کوئی مسئلہ ہے۔ یہ سب امریکہ اور اسرائیل بہادر کی پیداوار ہیں۔ اس میں ان کی سی آئے اے نے جو کردار ادا کرنا تھا وہ کرچکیں اب یہ اپنے بنائے ہوئے جراثیم سے دنیا کو ڈرا کر جنگ کے انجکشن لگا رہے ہیں اور بطور سائیڈ افیکٹ ان نام نہاد سیاسی جماعتوں کو استعمال کیا جارہا ہے۔
غور کیجئے کہ !
افغانستان جہاں اپنے کھانے کے لئے کبھی بھی کسی بھی دور میں اناج پورا پیدا نہیں ہوا، جس کی اپنی معیشت کبھی بھی مضبوط نہیں تھی، جس کی دنیا میں کبھی کوئی سیاسی حیثیت نہیں تھی، جس کی درآمد و برآمد کا کوئی ریکارڈ صدیوں سے کوئی نہیں ہے۔ وہ ملک روس جیسے ملک کو کیسے شکست دے سکتا ہے ؟ ظاہر ہے کوئی ہے جو اس کو مالی اور افرادی قوت اور ٹیکنالوجی فراہم کر رہا ہے۔ ظاہر ہے اس تصویر کا دوسرا رخ ! یعنی امریکہ
افغانستان صرف اور صرف اپنی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے پوری دنیا کے جنگجوں اور اب طاقتور ممالک کی نطروں میں اہم ہے۔
ہم سب ایک بہت غلط زاویئے پر سوچ رہے ہیں کہ امریکہ صرف مسلمانوں کی نسل کشی کرنا چاہتا ہے یا وہ مسلم ممالک کو نہتا کرنا چاہتا ہے۔
ہرگز نہیں ! پھر غور کیجئے صاحبو
امریکہ کو مسلمانوں کی کمزوری کا پتہ ہے کہ یہ وہ قوم ہے جو طاقت ملنے پر بھی فتنہ سے آزاد نہیں ہے۔ یہ آپس میں ہی لڑ لڑ کر مرجائیں گے دراصل یہ جنگ امریکہ اور چین کی ہے۔
جی ہاں دوستو ! یہ جنگ دراصل امریکہ نے چین کے بڑھتے ہوئے طاقتور عفریت سے بچنے کے لئے شروع کی تھی۔ چونکہ چین نے 1983 سے مسلم ممالک سے اپنے روابط بڑھانے شروع کر دیئے اور آہستہ آہستہ مختلف مسلم ممالک کو ڈھکے چھپے انداز میں امداد دینا شروع کر دی تھی۔ جس کا اس وقت امریکہ کو احساس نہیں تھی۔ جب روس کا انخلا ہوا اور بعد می روس بکھرا تو دنیا نے دیکھا کہ امریکہ اب اکیلا سپر پاور رہ گیا ہے مگر یہ خوش فہمی زیادہ عرصہ قائم نہیں رہی بلکہ بہت کم عرصے میں چین نے ایک نئی معاشی جنگ کی ابتدا کر دی۔ اور جنگ کے معانی تبدیل کر دیئے۔ اور اس نے جنگ کو ہتھیار سے پہلے مضبوط معاشی دفاعی انداز میں قلعہ بند ہو کر لڑنے اور بعد میں ایک ہی حملہ کرنے کا عندیہ دیا۔ یہ ایک ایسا فلسفہ تھا جس کو امریکہ اور اسرائیل کے دانشوروں نے اس وقت ہی بھانپ لیا تھا کہ کوئی ہے جو ہماری طرح لمبی منصوبہ کر سکتا ہے اور اپنے مقصد پر قائم رہ کر اس کو حاصل بھی کر سکتا ہے۔ اور پھر یہ ثابت ہوا کہ چین نے چند سالوں میں بے مثال ترقی کی اور اس قدر کی کہ آج دنیا کی کل آبادی چینی مصنوعات کی اس قدر عادی ہوچکی ہے کہ اگر اسکا تناسب نکالا جائے تو یہ تمام مصنوعات جو انسان ضرورتوں کا مکمل احاطہ کرتی ہیں اس وقت انکا تناسب روز بروز بڑھتے ہوئے تقریبا 57 فیصد تک چلا گیا ہے۔ صرف امریکہ میں چینی مصنوعات استعمال کرنے والوں کا تناسب 71 فیصد ہے۔ چین نے مصنوعات کو سستا کیا اور کسی بھی چیز کی کاپی کو انتہائی چالاکی ہو بہو تیار کر کے 84 فیصد تک کم قیمت میں صارف تک پہنچایا
چینی دانشور انسانی نفسیات سے اچھی طرح واقف ہیں انہوں نے چیزوں کو سستا کیا اور ڈسپوزایبل انداز میں پہنچایا چونکہ صارف فی زمانہ سہولت بھی چاہتا ہے اور سستی بھی چاہتا ہے تو اس کو اس سے غرض نہیں کہ چیز پائیدار ہے یا نہیں۔ وہ صرف سامان تعیش چاہتا ہے۔ چینیوں نے انسانی کی اس نفسیاتی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر ڈالرز جمع کرنے شروع کئے اور امریکہ ہی کی گزشتہ پالیسی کو فالو کیا یعنی "پینی ٹو ڈالر فلاسفی"۔
صاحبو ! امریکہ کو صرف چین سے خطرہ ہے اور یہ وہ خطرہ ہے جس کے لئے وہ چین کے گرد اپنے حواری جمع کرنا چاہتا ہے۔ موجودہ ہندوستان کی ترقی دراصل ہندوستان کی ترقی نہیں اس کے پیچھے جہاں ہندو ذہنیت کام کر رہی ہے وہیں اس کے پیچھے اسرائیل اور امریکی دانشوروں کا ہاتھ بھی کار فرما ہے۔ وہ ہندوستان کو چین کے مقابل کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ تاکہ کم از کم ایک طرف چین کو الجھا کر رکھ سکے۔ اگر ہم کارگل جنگ سے اس بات کو لنک کر کے دیکھیں تو صاف پتہ چل جائے گا کہ وہ جنگ جس کو ہم آج تک اپنی جنگ سمجھتے رہے دراصل وہ ہماری جنگ نہین تھی بلکہ وہ چین اور ہندوستان کی لڑائی تھی۔ جس کو چینیوں نے پاکستان کے ذریعے بغیر لڑے جیت لیا اور منظر پر ہماری شکست دکھائی گئی۔ یہی بات امریکہ کو پسند نہیں آئی تھی۔ چونکہ مشرف صاحب اس جنگ کے کمانڈر تھے اس لئے اس جنگ کے تمام پلانز کو وہی امریکہ تک پہنچا سکتے تھے۔مشرف کا صدر بننا اور پھر ایک عجوبہ مخلوط حکومت کو قائم کرنا اور اتنے عرصے تک "جمہوری مارشل لاء" کے انداز میں کامیابی سے چلانا اس بات کی دلیل ہے لیکن جب مشرف صاحب امریکہ کے اس فریم میں فٹ نہیں بیٹھے تو انہوں نے نہی حکومت کو ایک دم تشکیل دے دیا۔ ہماری موجودہ حکومت ، ہمارا صدر، وزیر اعظم اور دیگر وزراء کو اگر غور سے دیکھا جائے تو ان میں اب کوئی بھی ایسا قابل بندہ نہیں ہے جو پالیسی ساز ہو یا جس کو سیاسی سوجھ بوجھ ہو۔ یہ وہ تمام لوگ ہیں جو صرف پیسہ کی خاطر اور طاقت کی خاطر حکومت میں آتے ہیں۔
خیر جی ! میں کافی لمبا تجزیہ کر ڈالا آپ لوگ بور ہو رہے ہونگے کہ کیسے بے تکے اور بے ڈھنگے اور طویل تبصرے کر رہی ہیں محترمہ جن کا نہ تو کوئی سر ہے اور نہ پیر ہے۔
میں تحریر کو ختم کرتی ہوں
مگر ایک درخواست ہے۔ تبصرہ ضرور کیجئے لیکن کڑیوں کو ملا کر کیجئے تو سارے حالات جو مجھ جیسی کم عقل عورت کو دکھائی دے جاتے ہیں آپ جیسے قابل اور ذہین لوگوں کو بھی نظر آجائیں گے